میخانۂ حیات میں کیا آرمیدہ ہوں
بزمِ ازل کا ساغرِ راحت چشیدہ ہوں
آغازِ عشق ہی مجھے انجامِ عشق ہے
میں دامنِ نسیم پہ اشکِ چکیدہ ہُوں
تصویرِ خاک میں مجھے ظاہر کیا ہے کیوں؟
میں نَو بہارِ قُدس کا رنگِ پریدہ ہوں
ہوں گلستانِ غم کا گُلِ داغدار میں
یا نونہالِ درد کی شاخِ بریدہ ہوں
اس دام گاہِ دہر میں کیوں ہو گیا اسیر
میں شاخسارِ خُلد کا مُرغِ پریدہ ہوں
میرے سکوت پر نہیں کچھ ضبطِ دل گراں
میں کاروانِ عشق کی صوتِ شنیدہ ہوں
اختر یہ فیصلہ ہے نبردِ حیات کا
ہو جاؤں گا فنا کہ فنا آفریدہ ہوں