کبھی کاش رحم کا بھی اثر ملے چشمِ فتنہ نگاہ میں
کہ کوئی گدا ہے پڑا ہوا ترے دردِ عشق کی راہ میں
نہیں عُذر، زاہدو لاکھ مرتبہ جائیں طوفِ حرم کو ہم
مگر ایک شرط ہے میکدہ نہ ملا کرے ہمیں راہ میں
نہیں یاد عیش و ملال [1] عُمرِ گُزشتہ کی کوئی داستاں
مگر آہ چند وہ ساعتیں جو بسر ہوئی ہیں گُناہ میں
جو مزاجِ دل [2] نہ بدل سکا تو مذاقِ دہر کا کیا گِلہ
وہی تلخیاں ہیں ثواب میں، وہی لذّتیں ہیں گُناہ میں
گِلۂ ستم کی مجال تو ہے پر آہ اِس کو میں کیا کروں
یہ جو ایک بجلی سی بے قرار ہے اُن کی نیچی نگاہ میں
مجھے انقلابِ زمانہ کا، جو یقین آئے تو کس طرح
وہی درد ہے مری آہ میں، وہی ناز تیری نگاہ میں
بخُدا کہ دونوں جہان میں کوئی اس سے بڑھ کے خوشی نہ تھی
اگر ایک تلخیِ انفعال کی حِس نہ ہوتی گناہ میں [3]
مطبوعہ "خیالستان" لاہور مئی 1932ع