کیا جانے جا چُھپی وہ مرِی یاسمن کہاں؟
شامِ چمن، بتا کہ ہے ماہِ چمن کہاں؟
دیدارِ برقِ جلوہ نہ تھا اِس قدر محال
حاصل [2] ہُوا ہے رنگِ گُل و یاسمن کہاں!
کہتا ہے یہ سُکوتِ لبِ لالہ ہائے طُور
سوزِ جگر کہاں، سر و برگِ سُخن کہاں!
خلوت نشینیوں سے نہیں فیض، خلق کو
چشمہ کہاں روانیِ گنگ و جمن کہاں
اے دردِ دل یہ تُو نے دِکھایا ہے کیا اثر
وہ گُل بدن کہاں، مرا دار المحن کہاں؟
رنگِ بہارِ یاسمن و گُل، حسیں سہی
لیکن وہ یاسمن رُخ و گُل پَیرہن کہاں؟ [3]
ہم تلخ کامیوں کا گِلہ کِس طرح کریں
مانا کہ آپ سا کوئی شیریں دہن کہاں
یہ سچ کہ ہے بہارِ چمن، جانفزا مگر
جِس کی تلاش ہے وہ بہارِ چمن کہاں؟
نُورِ کمال چھپ نہیں سکتا، حجاب میں
خوشبُو بتاتی ہے کہ کُھلی ہے سُمن کہاں!
ہو جاتی ہے خیال سے گُم انجمن تمام [4]
وہ آ گئے خیال میں تو انجمن کہاں!
کیسا ہی دیں فریب گُل و لالہ و سمن
ہم جس کو ڈھونڈتے ہیں وہ جانِ چمن کہاں؟ [5]
مجبُور ہو کے اُن کو بھی کہنا پڑا ندیم
اختر سا اور ہِند میں شیریں سُخن کہاں؟
مطبوعہ "ادیب" دہلی نمبر2 جلد7
"عالم گیر" لاہور مئی1945ع