یاد آؤ، مُجھے للہ نہ تُم یاد کرو!
اپنی اور میری جوانی کو نہ برباد کرو!

بستیاں اپنی، اٹک پار بسانے والو!
کبھی راوی کے کناروں کو بھی دلشاد کرو!

خیبر اور اُس کے نواحی میں ٹہلنے والو!
کبھی لاہور کے لا رنس کو بھی یاد کرو!

سرحد اور اُس کے مناظر ہیں طرب ناک مگر
کبھی پنجاب کے سینے کو بھی آباد کرو!

میرے پردیسیو، سیکھی ہے یہ کس دیس کی ریت؟
جو تمہیں یاد کرے تم نہ اُسے یاد کرو!

شرم رونے بھی نہ دے؟ بے کلی سونے بھی نہ دے
اِس طرح تو مری راتوں کو نہ برباد کرو!

حد ہے پینے کی کہ خود پیرِ مُغاں کہتا ہے
اِس بُری طرح جوانی کو نہ برباد کرو!

یاد آتے ہو بہت، دل سے بُھلانے والو!
تم ہمیں یاد کرو، تم ہمیں کیوں یاد کرو!

آسماں رُتبہ محل اپنے بنانے والو!
دل کا اُجڑا ہوا گھر بھی کوئی آباد کرو!

"ہم کبھی آئیں، ترے گھر مگر آئیں گے ضرور"
تم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ نہیں، یاد کرو!

چاندنی رات میں گُلگشت کو جب جاتے تھے
آہ عذرا کبھی اُس وقت کو بھی یاد کرو!

میں بھی شائستۂ الطافِ ستم ہوں شاید
میرے ہوتے ہوئے کیوں غیر پہ بیداد کرو

صدقے اُس شوخ کے اختر، کہ لکھا ہے جس نے
عِشق میں اپنی جوانی کو نہ برباد کرو!

مطبوعہ "رومان" لاہور دسمبر 1936ء