بھلا کیوں کر نہ ہو راتوں کو نیندیں بے قرار اُس کی

بھلا کیوں کر نہ ہو راتوں کو نیندیں بے قرار اُس کی
کبھی لہرا چکی ہو جس پہ زُلفِ مشکبار اُس کی

اُمیدِ وصل پر، دل کو فریبِ صبر کیا دیجے
ادا وحشی صفت اُس کی، نظر بے گانہ وار اُس کی

محبت تھی، مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے
الٰہی آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی؟

تجھے تو عشق پیچاں جیسے بل کھانے نہ آتے تھے؟
بتا کیا تجھ پہ لہرائی ہے زُلفِ عطر بار اُس کی؟

مئے اُلفت کے سرشاروں کو میخانے سے کیا مطلب؟
ادا، رُوحِ نشاط اُس کی، نظر جانِ بہار اُس کی

بُرا ہو اِس تغافل کا کہ تنگ آ کر یہ کہتا ہُوں
مجھے کیوں ہو گئی اُلفت مرے پروردگار اُس کی؟

یہاں کیا دیکھتے ہو ناصحو، گھر میں دھرا کیا ہے؟
مرے دل کے کسی پردے میں ڈھونڈو یادگار اُس کی!

جفائے ناز کی میں نے شکایت، ہائے کیوں کی تھی
مجھے جینے نہیں دیتی نگاہِ شرمسار اُس کی

ہمیں عرضِ تمنّا کی جسارت ہو تو کیوں کر ہو
نگاہیں فتنہ ریز اُس کی، ادائیں حشر بار اُس کی

کوئی کیوں کر بُھلا دے، ہائے ایسے کی محبت کو
وفائیں دل نواز اُس کی جفائیں خوشگوار اُس کی

اِنہی کُو چوں میں کل اختر کو رُسوا ہوتے دیکھا تھا
آنکھیں اشک بار اُس کی، وہ باتیں دِل فگار اُس کی

مطبوعہ "نگار "لکھنؤ۔ دسمبر1928ع