بہشتوں پہ ہنستی ہے دنیائے فانی
جوانی کی راتیں ہیں کتنی سہانی
ستم ہے کہ اے دل نہیں جاودانی
حسینوں کا حُسن اور ہماری جوانی
یہ سبزہ، یہ بادل، یہ رُت یہ جوانی!
کِدھر ہے مرا ساغرِ خُسروانی
بھلا پھر کہاں ہم، کہاں نوجوانی
پِلا ساقیا بادۂ ارغوانی
تِرا حُسن پروردۂ رنگ و بُو ہے
بہاروں میں کھیلی ہے تیری جوانی
صنم خانۂ سندھ خاموش کیوں ہے؟
نہ وہ دلستاں ہیں نہ وہ دلستانی
مری بے خُودی کو بُرا کہنے والے!
چھلکتی ہے ساغر میں کِس کی جوانی
یہ حسرت رہی وہ کبھی آ کے سُنتے
ہماری کہانی، ہماری زُبانی
سرِ بام، او محوِ خوابِ بہاریں
ستاروں پہ چھائی ہے تیری جوانی؟
مرا عِشق بدنام کیوں ہے جہاں میں؟
ہے مشہور اختر جوانی دِوانی
مطبوعہ "رومان" لاہور اپریل 1936ع