وہ کہتے ہیں کہ ہم سے پیار کی باتیں نہیں اچھّی
کوئی سمجھائے یہ تکرار کی باتیں نہیں اچھّی
تمہاری ہی طرح اغیار بھی اچھّے سہی لیکن
ہمارے سامنے اغیار کی باتیں نہیں اچھّی
شبِ وصل آپ کا عُذرِ نزاکت کون مانے گا
کہے دیتے ہیں ہم تکرار کی باتیں نہیں اچھّی
عدُو کے ساتھ بہرِ فاتحہ اور میرے مدفن پر
بُہت اچھّا مگر سرکار کی باتیں نہیں اچھّی
ہماری زندگی کی کامیابی کی دُعا اور تُم
نہ چھیڑو، طالعِ بیمار کی باتیں نہیں اچھّی
لکھیں تو اپنا حالِ دل اُنہیں کیوں کر لکھیں اختر
وہ لکھتی ہیں کہ خط میں پیار کی باتیں نہیں اچھّی