نہ بُھولیں گی کبھی اے ہمنشیں، راتیں جوانی کی
وہ راتیں، وہ ملاقاتیں، وہ برساتیں جوانی کی

لبوں پر آہ، دل میں دھڑکنیں، آنکھوں میں اشکِ خُوں
جوانی لے کر آئی ہے یہ سوغاتیں جوانی کی

یہ مُرجھائی ہوئی کلیاں نہیں، بے نُور آنکھیں ہیں
بسی تھیں جن کے خوابوں میں کبھی راتیں جوانی کی

غمِ دُنیا ستم، افسردگیِ دل قیامت ہے
سُنا اے آرزوئے رفتہ پھر باتیں جوانی کی

ہوئی مُدّت پر اب بھی یاد آتی ہیں ہمیں اختر
وہ راتیں عاشقی کی، وہ مناجاتیں جوانی کی

مطبوعہ "شاہکار" لاہور اپریل 1941ء