عِشق کہ جس کے دین میں صبر و سکوں حرام ہے
اک نظر کا کام ہے، ایک اثر کا نام ہے
گُلکدۂ مجاز میں جس کا بہشت نام ہے
اُس کی بہار حُسن کی نکہتِ ناتمام ہے
فکر و نظر کی عفّتیں رنگِ ہوس میں غرق ہیں
اب تو جہانِ عشق میں ذوقِ گُناہ عام ہے
پائے طلب کے واسطے کوئی نئی زمیں بنا
وادیِ مہر و ماہ تو لغزشِ نیم گام ہے
شان میں مئے کی زاہد اب اِس کے سوا میں کیا کہوں
میرے لئے حلال ہے، تیرے لئے حرام ہے
عشق میں سوگوار سا، بے خُود و بے قرار سا
تُم کو خبر ہو یا نہ ہو، اختر اُسی کا نام ہے