ہم دُعائیں کرتے ہیں جن کے لئے
کاش وہ مِل جائیں اِک دن کے لئے

میرے ارمانوں سے کہتی ہے اجل
اِس قدر سامان، دو دِن کے لئے

وہ غیُور اور پاسِ رُسوائی ہمیں
کیا بتائیں مر مٹے کِن کے لئے

موت لینے آ گئی، جانا پڑا
زندگی لائی تھی اِس دن کے لئے

اُن کی صحبت کا تصوّر اور ہم
زندگی دھوکا تھی کُچھ دن کے لئے

اُن کو ارماں ہے ہماری موت کا
مر مٹے اے زندگی جن کے لئے

اُن کو رحم آ ہی گیا آ ہی گئے
حسرتیں مضطر تھیں اس دن کے لئے

اِس زمیں میں لکھّی اختر نے غزل
سندھ کی اِک شوخ کم سِن کے لئے