اُٹھ اور شکوے نہ کر جورِ آسمانی کے
ستارہ وار کِھلا پُھول شادمانی کے

خزاں کی طرح نہ کر رنجِ خانہ ویرانی
بہار بن کے سکھا رنگ گُلفشانی کے

فُغانِ قیس غلط، شورِ کوہکن بے کار
ہیں آج اور ہی انداز خونفشانی کے

چمن میں دیکھتا ہوں جب بھی لالہ و گُل کو
نظر میں پھرتے ہیں نقشے تری جوانی کے

جنابِ خضر جنھیں آج تک سمجھ نہ سکے
وہ راز ہیں ہمیں معلوم زندگانی کے

وہ رات، آہ ترے گیسوؤں کی چھاؤں کی رات
ستارے آج بھی شاہد ہیں اُس کہانی کے

گُلِ فسردہ و شمعِ مزار و نجمِ سحر
یہ نقش ہیں مری اُجڑی ہوئی جوانی کے

کبھی عروج ہوا ہے کبھی زوال نصیب
عجیب رنگ ہیں اختر جہانِ فانی کے