ادائے پردہ کتنی دِل نشیں معلُوم ہوتی ہے
پسِ پردہ کوئی ناز آفریں معلوم ہوتی ہے

نگاہِ ناز کتنی شرمگیں معلوم ہوتی ہے
کوئی محبوبۂ پردہ نشیں معلوم ہوتی ہے

لبِ خاموش میں پنہاں "نہیں" معلوم ہوتی ہے
نگاہِ اوّلیں ہی واپسیں معلوم ہوتی ہے

یہ کِس کو دیکھ کر دیکھا ہے میں نے بزمِ ہستی کو
کہ جو شے ہے نگاہوں کو حسیں معلوم ہوتی ہے

تُم اپنا آستاں اچھّی طرح پہچان سکتے ہو
ہمیں تو یہ ہماری ہی جبیں معلوم ہوتی ہے

محبت اس طرح معلوم ہو جاتی ہے دُنیا کو
کہ یہ معلوم ہوتا ہے نہیں معلوم ہوتی ہے

سوادِ یاس میں اِک پرتوِ اُمّید کیا کہیے
اندھیرے گھر میں کوئی مہ جبیں معلوم ہوتی ہے

کِسی کا عشق آ پُہنچا ہے رُسوائی کی منزل تک
نگاہِ شوخ، اب کُچھ شرمگیں معلوم ہوتی ہے

نکالے جاتے ہیں اہلِ وفا، اغیار کے بدلے
ترے گھر کی زمیں، خُلدِ بریں معلوم ہوتی ہے

ہزاروں میں سے اِک دل کو بھی خوش پاتے نہیں اختر
خُدائی کس قدر اندوہ گیں معلُوم ہوتی ہے

مطبوعہ "بہارستان" لاہور اگست 1926ع
"نیرنگ خیال" لاہور نومبر1950ع