نسیمِ کُوئے یار آئے نہ آئے
مرے دِل کو قرار آئے نہ آئے

خزاں ہی سے نہ کیوں ہم دِل لگا لیں
خُدا جانے بہار آئے نہ آئے

کیا ہے آنے کا وعدہ تو اُس نے
مرے پروردِگار، آئے نہ آئے

اُٹھا ساغر، پلا دے پُھول ساقی!
کہ پھر ابرِ بہار آئے نہ آئے

مجھے ہے اعتبارِ وعدہ لیکن
تُمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

جب مری قبر پہ وہ پُھول چڑھانے آئے
موت کی نیند کے ماتوں کو جگانے آئے

کوئی اُس وعدہ فراموش سے اتنا کہتا
آپ اب کس لئے رُوٹھوں کو منانے آئے

آ بسے شہرِ خموشاں میں، مِلے خاک میں ہم
آپ کیوں خاک کو پُھولوں سے بسانے آئے

شمع کی طرح جلاتے تھے ہمیں فُرقت میں
اب مری قبر پہ کیوں شمع جلانے آئے

ایک دن تھا کہ مُجھے در سے اُٹھا دیتے تھے
اب دُعا کے لئے کیوں ہاتھ اُٹھانے آئے

جب میں روتا تھا، مرے رونے پہ ہنس دیتے تھے
اب میری یاد میں کیوں اشک بہانے آئے

تُم تو اِک دِن مرے شکوے بھی نہ سُن سکتے تھے
اب مُجھے کیوں غمِ دل اپنانے سُنانے آئے