دِل میں اب تک ہوَسِ گُل بدناں باقی ہے
مٹ گئی عُمرِ جواں، عشقِ جواں باقی ہے

جب تلک عشق کے ہونٹوں پہ فُغاں باقی ہے
میرے نغموں کا زمانے میں نشاں باقی ہے

خیر زندہ ہے، نہیں خیر کے بانی زندہ
چل بسا پیرِ مُغاں، دیرِ مغاں باقی ہے

ہے نِہاں مرگِ شہادت میں حیاتِ ابدی
مِٹنے والے تو مِٹے، نام و نشاں باقی ہے

یاد کرتے نہیں خود اور ہمیں یاد آتے ہیں
مِٹ گیا لطفِ عیاں، جورِ نہاں باقی ہے

کِتنے ہی سال گُزر جائیں میں یاد آؤں گا
تیرے در پر میرے سجدوں کا نشاں باقی ہے

سر سے اُلفت کا جُنوں جا نہیں سکتا اخترا
جب تلک سینے میں دل، جسم میں جاں باقی ہے

مطبوعہ "آج کل" دہلی یکم ستمبر 1942ع