خیالستانِ ہستی میں اگر غم ہے خوشی بھی ہے
کبھی آنکھوں میں آنسو ہیں کبھی لب پر ہنسی بھی ہے

اِنہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردوں میں دِن کی روشنی بھی ہے

یونہی تکمیل ہو گی حشر تک تصویرِ ہستی کی
ہر اِک تکمیل آخر میں پیامِ نیستی بھی ہے

یہ وہ ساغر ہے صہبائے خودی سے پُر نہیں ہوتا
ہمارے جامِ ہستی میں سرشکِ بے خودی بھی ہے

بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کُچھ اور کہتی ہے
مگر اُن شوخ نظروں کی حیا کُچھ اور کہتی ہے

رہائی کی خبر کِس نے اُڑا دی صحنِ گُلشن [1] میں
اسیرانِ قفس سے تو صبا کُچھ اور کہتی ہے

بُہت خوش ہے دلِ ناداں، ہوائے کوئے جاناں میں
مگر ہم سے زمانے کی ہوا کُچھ اور کہتی ہے

تو میرے دل کی سُن، آغوش بنکر کہہ رہا ہے کُچھ
تری نیچی نظر تو جانے کیا کُچھ اور کہتی ہے

مری جانب سے کہ دینا صبا لاہور والوں سے
کہ اِس موسم میں دہلی کی ہوا کُچھ اور کہتی ہے

بہت رنگینیاں ہیں یُوں تو مہندی [2] باغ میں لیکن
فرید آباد کی "رنگیں حنا" کچھ اور کہتی ہے [3]

بجا ہے پاس توبہ کا مگر میں کیا کروں ناصح
نگاہِ ساقیِ رنگیں ادا کچھ اور کہتی ہے

چلو ساغر بکف گُلشن میں رقص بادہ نوشی ہو
کہ لہراتی ہوئی اُٹھتی گھٹا کُچھ اور کہتی ہے

کبھی اِقرار کرتے ہیں کبھی اِنکار کرتے ہیں
ادا کُچھ اور کہتی ہے، حیا کُچھ اور کہتی ہے

ہوئی مدّت کہ مے نوشی سے توبہ کر چُکے اختر
مگر دہلی کی مستانہ گھٹا کُچھ اور کہتی ہے

مطبوعہ "نیرنگ خیال" لاہور سالنامہ1943ع

1۔ نیرنگ خیال میں" غنچہ و گل میں"
2۔ ریاست ٹونک کا ایک محلہ جہاں اختر کا آبائی مکان تھا (مرتب)
3۔ مقطع سے قبل کا شعر نیرنگ خیال میں نہ تھا(مرتب)
4۔ نیرنگ خیال میں تین اشعار زیادہ تھے:

بجا ہے پاس توبہ کا مگر میں کیا کروں ناصح
نگاہِ ساقیِ رنگیں ادا کچھ اور کہتی ہے

چلو ساغر بکف گُلشن میں رقص بادہ نوشی ہو
کہ لہراتی ہوئی اُٹھتی گھٹا کُچھ اور کہتی ہے

کبھی اِقرار کرتے ہیں کبھی اِنکار کرتے ہیں
ادا کُچھ اور کہتی ہے، حیا کُچھ اور کہتی ہے