اُٹھا طُوفاں ستاروں کی زمیں سے
لڑی ہے آنکھ کس زہرہ جبیں سے

نہ دیکھو اس نگاہِ شرمگیں سے
قیامت اُٹھنے والی ہے یہاں سے

مُبارک ہو تجھے، اے غیرتِ رشک
نہ اُٹھّا بارِ غم اُس نازنیں سے

گھٹا کے ساتھ آنکھیں اُٹھ رہی ہیں
ہماری توبہ ٹوٹے گی یہیں سے

ہمیں رُسوا کیا پردے میں رہ کر
کوئی کہہ دے یہ اُس پردہ نشیں سے

نہ دولت ہے، نہ شوکت ہے، نہ حُرمت
ہم اختر ہیں گدائے رہ نشیں سے