عِشق کی مایُوسیوں میں کھو چُکے
اے جوانی جا تجھے، ہم رو چکے!
مقصدِ فصلِ جوانی تھا یہی
عشق میں ساری جوانی کھو چکے
میرا ویرانہ ترستا ہی رہا
پُھول کِھل کر، بے نشاں بھی ہو چکے
داغِ حسرت ہے، ابھی تک گرچہ ہم
آنسوؤں سے دل کا دامن دھو چُکے
جاگ اے دِل، آگیا شہرِ فنا!
منزلِ ہستی میں کافی سو چکے
آج کی شب پھر کوئی یاد آ گیا
آج کی شب بھی ہم اختر سو چکے