[1]
عید آئی ہے عیش و نوش کا ساماں کر
اِک ساقیِ گُلعذار کو مہماں کر
قربانی ہے واجب آج اختر تُو بھی
توبہ کو خُدا کے نام پر قرباں کر
[2]
مے خانہ بدوش ہیں گھٹائیں ساقی!
پیمانہ فروش ہیں فضائیں ساقی
اِک جام پلا کے مست کر دے مجھ کو
غارت گرِ ہوش ہیں ہوائیں ساقی
[3]
رِندوں کو بہشت کی خبر دے ساقی
اِک جام پلا کے مست کر دے ساقی
پیمانۂ عُمر ہے چھلکنے کے قریب
بھر دے ساقی، شراب بھر دے ساقی
[4]
موسم بھی ہے، عُمر بھی، شباب بھی ہے
پہلو میں وہ رشکِ ماہتاب بھی ہے
دُنیا میں اب اور چاہیے کیا مجھ کو
ساقی بھی ہے، ساز بھی، شراب بھی ہے
[5]
جنّت کا سماں دکھا دیا ہے مجھ کو
کونین کا غم بُھلا دیا ہے مُجھ کو
کُچھ ہوش نہیں کہ ہُوں میں کس عالم میں
ساقی نے یہ کیا پلا دیا ہے مجھ کو
مطبوعہ "نیرنگ خیال" لاہور ۔ عید نمبر اپریل 1932 ع
بعنوان "دو آتشہ عید"