اُنہیں جی سے میں کیسے بھُلاؤں سکھی میرے جی کو جو آ کے لُبھا ہی گئے
میرے من میں وہ پریم بسا ہی گئے، مجھے پریت کا روگ لگا ہی گئے
کیے میں نے ہزار ہزار جتن، کہ بچا رہے پریت کی آگ سے من
میرے من میں اُبھار کے اپنی لگن، وہ لگاؤ کی آگ لگا ہی گئے
بڑے سُکھ سے یہ بِیتے تھے چودہ برس، کبھی میں نے پیا تھا نہ پریم کا رس
مری آنکھوں کو شیام دِکھا کے درس، مرے ہردے میں چاہ بسا ہی گئے
کبھی سپنوں کی چھاؤں میں سوئی نہ تھی، کبھی بُھول کے دُکھ سے میں روئی نہ تھی
مجھے پریم کے سپنے دِکھا ہی گئے، مجھے پریت کے دُکھ سے رُلا ہی گئے
رہے رات کی رات سِدھار گئے، مجھے سپنا سمجھ کے بِسار گئے
میں تھی ہار، گلے سے اُتار گئے، میں دیا تھی جسے وہ بجھا ہی گئے
سکھی، کوئلیں ساؤنی گائیں گی پھر، نئی کلیاں بھی چھاؤنی چھائیں گی پھر
مرے چَین کی راتیں نہ آئیں گی پھر، جنہیں نین کے نیر مٹا ہی گئے
مر جی میں تھی بات چُھپائے رکھوں، سکھی چاہ کو من میں دبائے رکھوں
اُنہیں دیکھ کے آنسو جو آ ہی گئے، مری چاہ کا بھید وہ پا ہی گئے
مطبوعہ "رومان" لاہور اپریل 1936ع
شاعرہ کا نام "راجکماری بکاؤلی" تھا۔ ظاہر ہے کہ "طُیور آوارہ" میں خود اِس نظم کو شامل کر کے اختر نے اِس راز کو فاش کر دیا کہ راجکماری بکاؤلی وہ خود تھے۔ ایسے کئی فرضی ناموں سے وہ نظمیں لکھا کرتے تھے مگر مجموعے میں جگہ دے کر وہ ان نظموں کو قطعیت سے اپنی قرار دے گئے ہیں۔ (مرتّب)