ساون کی گھٹائیں

ساون کی گھٹائیں چھا گئی ہیں
برسات کی پریاں آ گئی ہیں

دِل دینے کی رُت آئی ہے
سینوں میں اُمنگ سمائی ہے

ارمانوں نے عید منائی ہے
اُمّیدیں جوانی پا گئی ہیں

کہیں سُنبل و گُل کی بہاریں ہیں
کہیں سرو و سمن کی قطاریں ہیں

کہیں سبزے نے رنگ نکالا ہے
کہیں کلیاں چھاؤنی چھا گئی ہیں

کہیں کوئل شور مچاتی ہے
کہیں بُلبُل نغمے گاتی ہے

کہیں مور ملہار سُناتے ہیں
گھنی بدلیاں دُھوم مچا گئی ہیں