نہ دے نامہ کو اِتنا طُول غالب مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جُدائی کا

غالباً 1934ء کا زمانہ تھا۔ ماہنامہ"رومان"اختر شیرانی مرحوم اور برادرِ محترم ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کی مشترکہ اِدارت میں نکل رہا تھا۔ میں اُن دنوں منٹگمری میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھا اور ڈاکٹر صاحب اسلامیہ کالج کے قریب ملکھی رام سٹریٹ میں سکونت رکھتے تھے۔

میری ملازمت کا ابتدائی دور تھا۔ لاہور میں عمر گزارنے کے بعد منٹگمری کی زندگی بے کیف اور خشک تھی چنانچہ جب کبھی موقع ملتا میں بھاگ کر لاہور آتا اور چند دن بلکہ بعض اوقات چند گھنٹے اِس "عروس البلاد" میں گزار کر واپس چلا جاتا۔ اِسی دوران میں ایک دن ڈاکٹر عاشق حسین صاحب کے ہاں گیا تو وہ موجود نہ تھے۔ مجھے بھی اور کوئی کام نہ تھا اِس لیے وہیں جم گیا اور استحقاقِ برادرانہ کو کام میں لاتے ہوئے اُن کی چیزوں کو اُلٹنے پلٹنے لگ گیا۔ میز کی دراز کھول کر دیکھی تو ایک کاپی نظر پڑی جس کے سر ورق پر لکھا تھا "شاعر کا خواب" اُسے کھولا تو تحریر اختر مرحوم کی تھی اور یہ مسوّدہ مجموعہ تھا "اختر و سلمیٰ کے خطوط" کا، جس کو کتابی صورت دے دی گئی تھی۔ میں نے بیٹھ کر اُسے دیکھنا شروع کر دیا۔ لیکن وقت کم تھا، مکمل طور پر نہ پڑھ سکا چنانچہ شام کو عاشق صاحب کی اطلاع یا اجازت کے بغیر وہ مسوّدہ لے کر منٹگمری چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر ایک شریکِ کار سیّد خورشید حسین کودے دیا کہ یہ مسوّدہ کم از کم وقت میں نقل کر دیا جائے۔ غالباً دو دن اور ایک رات کی مسلسل محنت کے بعد یہ مسوّدہ نقل ہو گیا۔ اُس کے بعد میں لاہور آیا اور کاپی چپکے سے اُسی دراز میں رکھ دی۔

وقت گزرتا گیا اور مسوّدہ میرے پاس محفوظ پڑا رہا۔ میرا خیال تھا کہ اختر مرحوم اِس مجموعے کو خود ہی شائع کر دیں گے کیونکہ خطوط میں متعدد مقامات پر اُنہوں نے اِس کی اشاعت کے ارادے کا نہ صرف ذکر کیا تھا، بلکہ سلمیٰ سے اِس کی اجازت بھی حاصل کر لی تھی۔ بدقسمتی سے اختر شیرانی مرحوم کو موت کا بلاوا آ گیا اور اشاعت کی نوبت نہ پہنچ سکی۔

1947ء کے پُر آشوب زمانے میں جب ہر چیز درہم برہم ہو گئی تو یہ قیمتی متاع بھی کہیں گم ہو گئی۔ ایک سال بعد اختر مرحوم بھی اِس دنیا سے رخصت ہو گئے اُس وقت معاً مجھے اِس مجموعے کا خیال آیا اور تلاش شروع کی۔ اِدھر اُدھر دیکھا بھالا، کہیں سُراغ نہ ملا۔ لیکن میں مایوس نہ ہوا اور آخر کار تقریباً دو سال کی مسلسل جستجو کے بعد وہ کاپی صحیح سالم حالت میں مل گئی۔ اُس کے بعد میں نے متعدّد بار اِس کی اشاعت کا ارادہ کیا لیکن زندگی کی کشمکش اور فکرِ معاش نے مہلت نہ دی۔ آخر کار جب کسی قدر سکون ہوا تو اشاعت کی طرف تو جّہ کی چنانچہ آج یہ"مسروقہ مجموعہ" آپ کے پیشِ نظر ہے۔ زندگی میں سرقے کا مرتکب تو میں کئی بار ہوا ہوں مگر اِس حسین سرقہ پر جو خوشی مجھے ہوتی ہے اُس کی کوئی مثال نہیں ہے۔

سلمیٰ کی ذات جس طرح اختر مرحوم کی زندگی میں سراپا راز تھی، آج بھی ایک چیستان سے کم نہیں ہے بہت سے لوگوں نے اِس خاتون کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے، میں نہیں جانتا کہ اُن کو اِس معاملہ میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے۔ میں خود اِس ہستی سے قطعاً واقف نہیں ہوں اور پھر آج سے تیس سال پہلے کی ایک نوجوان لڑکی کی کسی لغزش کو طشت از بام کیوں کیا جائے۔ اختر مرحوم مرد تھے اور شاعر!اُنہوں نے شعر کہہ کر اور شراب پی کر اپنی تسکین کے سامان پیدا کر لئے، لیکن سلمیٰ ایک مسلمان عورت تھی اور شاید پردہ نشین بھی، اُس کا کیا حشر ہوا ہو گا۔

لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ جل بھیو راکھ
میں برِہن ایسی جلی کوئلہ بھئی نہ راکھ

پھر ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ ہم اِس خاکستر کی چنگاریاں تلاش کرتے پھریں۔ رومان کے زمانے میں میرا ایک افسانہ "حقائق" اِس ماہنامہ میں شائع ہوا، اِس میں ایک جگہ پر میں نے سلمیٰ کے ایک خط کی چند سطریں حوالے کے ساتھ نقل کر دی تھیں۔ کچھ عرصہ کے بعد لاہور آیا اور اختر مرحوم سے ملنے گیا۔ دوپہر کا وقت تھا اور اختر صاحب ٹھرّے کی بوتل سے شغل فرما رہے تھے۔ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور ابتدائی دریافتِ مزاج کے بعد اُنہوں نے ایک خط میرے ہاتھ میں دے دیا۔ تحریر نسوانی تھی اور اِس میں اُن سطور کی اشاعت پر مجھے اور اختر مرحوم دونوں کو خوب کوسا گیا تھا۔ نیچے لکھا تھا "سلمیٰ " میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک معذرت نامہ لکھ کر اختر مرحوم کے حوالے کیا کہ سلمیٰ تک پہنچا دیا جائے۔ معلوم نہیں اُس کا کیا حشر ہوا۔ اِس سے زیادہ مجھے سلمیٰ کی نسبت کچھ پتہ نہیں ہے۔ اختر کے کئی جگری دوست اب بھی موجود ہیں ممکن ہے کہ اُن کو اختر مرحوم کی زندگی کے اِس حسین راز کا کچھ پتہ ہو لیکن میرے خیال میں اِس راز کا راز رہنا ہی بہتر ہے۔

خطوط:۔ اِن خطوط کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ بعض لوگ سرے سے سلمیٰ کے وجود ہی سے منکر ہیں اور اُن کی رائے میں اِن خطوط کی اِسی قدر حقیقت ہے کہ۔

کیاکیا فریب دلکو دیئے اضطراب میں
اُن کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

دوسرا گروہ وہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ سلمیٰ واقعی ایک حقیقت تھی اور اختر مرحوم کے ساتھ اُس کا معاشقہ بھی مسلّم ہے لیکن وہ کوئی ادیبہ نہ تھی کہ اِس قسم کی بلند پایہ عبارات لکھ سکتی، لہٰذا یہ خطوط اختر مرحوم نے خود ہی لکھے تھے۔ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو اِن خطوط کو واقعی اصلی خیال کرتے ہیں۔ خطوط پڑھنے کے بعد یہ کہنا کہ یہ سب خود فریبی تھی، جس میں اختر مبتلا تھے، بہت مشکل ہے۔ اِس قدر طویل خودفریبی ممکن نہیں ہے اور پھر خطوط میں اکثر مقامات پر بعض گھریلو اور دیگر واقعات کا ذکر اِس طرح کیا گیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطوط اصل ہیں۔ بہرحال جو کچھ ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ادبی شہ پارے اختر و سلمیٰ کے اصل یا فرضی محبت کے اَن مٹ نقوش ہیں جن کو ادب میں بلند جگہ ملنی چاہئے۔