اختر آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، اُس کی زندگی کے بعض افسوسناک واقعات کا اظہار کرنا مستحسن نہیں ہے لیکن یہاں صرف اختر مرحوم کی ذات زیرِ نظر نہیں ہے بلکہ اِن واقعات سے ایک ایسی ہستی کا بھی تعلق ہے جو اختر مرحوم سے زیادہ مظلوم، زیادہ بے کس و لاچار ہے۔

اختر نے جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں اپنے جذبات کو شعروں کا لباس پہنا کر اپنے قلبِتپاں کو تسکین دے لی لیکن مجبور اور بے زبان سلمیٰ نے دعوتِ عشق پر "لبیک" کہہ کر اپنی ہر چیز کھودی، تباہ و برباد کر دی۔ اِس روشنی میں جب ہم خطوط کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اختر مرحوم نے اِس رابطۂ عشق میں کسی بلند کرداری کا ثبوت نہیں دیا ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے سلمیٰ کو ہمیشہ کے لیے حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اُن کی شا دی عین اُس وقت ہوئی جب وہ سلمیٰ سے بے پناہ عشق کا اظہار کر رہے تھے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

"اگر تم مجھے مل جاتیں تو کیا دنیا بھر کے ادب و شعر کی محفلوں میں آج میرا کوئی حریف نظر آ سکتا تھا، آہ!تمہاری حسین معیّت میں، تمہاری رنگین صحبت میں مرے خیالات، مرے ارا دے کس قدر بلند اور با وقار ہو سکتے تھے۔" -- (کوکب کا خط نمبر 2)

مگر شادی کے معاملہ میں اپنی بے چارگی کا اِن الفاظ میں اظہار کر کے وہ سمجھتے ہیں کہ سُرخرو ہو گئے۔

"جذباتِ لطیفہ کی یہ غارت گری، محبت پرست روحوں کی یہ بربادی، جس چیز کی گلہ مند ہے وہ ہمارے والدین کی حماقتیں ہیں جو بالآخر اولاد کی دائم العمر عقوبتوں کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ والدین کی یہ ستم آمیز حماقتیں ہمارے جاہلانہ رسم و رواج کی بے راہ روی کا نتیجہ ہیں۔ تہذیب و تمدّن کے اِس روشن و منوّر دور میں جب کہ اقوامِ عالم ہر ایک معاملہ میں معراجِ ترقّی کی شہ نشین پر نظر آتی ہیں۔ ایک خفتہ بخت اور جاہل قوم ہندوستان کی ہے جو ابھی تک ذلّت اور بدبختی کے تحت الثّریٰ میں کروٹ بدل رہی ہے۔ ہماری معاشرت کے دامن پر سب سے نمایاں داغ جو ہماری بدنصیبیوں کی تکمیل کی مُہر بنا ہوا ہے والدین کا وہ نا جائز اختیار ہے جو اُن کو اپنی ہوشمند اولاد کے ازدواجی معاملات میں حاصل ہے " -- (کوکب کا خط نمبر 2)

اِس رویّہ کی خود سلمیٰ شاکی ہیں، ایک جگہ کہتی ہیں:

"مجھے پھر کہنے کی اجازت دیجئے کہ اِن تمام تر ناگواریوں کے بانی، اِن تمام تلخ کامیوں کے موجب آپ خود ہیں۔ ہاں آپ! کیوں؟ اِس لیے کہ آپ اگر چاہتے۔ آہ!اگر آپ کی خواہش ہوتی۔ آپ اگر ذرا سی بھی کوشش کرتے تو میں آپ کومل جاتی یا دوسرے الفاظ میں آپ مجھے پا لیتے۔ آہ!نہایت آسانی کے ساتھ پا سکتے تھے مگر آپ نے تو لیکن میں بے وقوف ہوں۔ اب بھلا اِن باتوں، آہ اِن گئی گزری باتوں کی یاد میں دل کو نشتر کدۂ غم اور سینہ کو غمکدۂ یاس بنانے سے کیا حاصل" -- (سلمیٰ کا خط 4)

اور اب میں آپ کے اور اِن خطوط کے درمیان زیادہ دیر تک حائل نہیں رہنا چاہتا۔