گمنام خطوط کا معاملہ جس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے، محتاجِ بیان نہیں۔ ہماری بدقسمتی کہئے یا خوش قسمتی کہ آج کل ہمیں بھی بعض ایسی ہی لطیف تحریروں سے آنکھیں "سینکنے " کا موقع ملا ہے جن کی نسوانی شعریت، خطرناک حد تک ہلاکت آفرین ثابت ہو سکتی ہے، لیکن ہمارے "گمنام پردہ نشینوں " کو معلوم نہیں کہ اُن کا ہدفِ نظر، ایک بہت ہی دیر آشنا اور کسی حد تک بد دماغ شخص ہے۔ جو ایک طرف کسی نسوانی احترام کے حضور میں، سر بسجود ہو سکتا ہے تو دوسری طرف مصنوعی نسائیت کے پردۂ فریب کی رنگینیوں کو نہایت حقارت سے ٹھکرانا بھی جانتا ہے۔

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

اِن شوخ تحریروں میں پہلی تحریر ایک ایسی خاتون کی ہے جن کے جذبات کی حسین فتادگی چاہتی ہے کہ ہم اپنی بہترین ہمدردیاں اُن پر نچھاور کر دیں اور "تکلّف بر طرف" ہمیں اپنے اندازِ جُنوں کے استعمال سے کوئی عقلی مصلحت مانع نہیں:

بیار بادہ کہ مینائے عمر لبریز است۔ مریض را دمِ آخر چہ جائے پرہیز است

ہم اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ جس "خلش" سے وہ ہمیں سرفراز فرمانا چاہتی ہیں، اُسے اُن کے حسبِ خواہش "غیر" نگاہوں کے سامنے بے حجاب نہیں کیا جائے گا:

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے؟
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے

دوسری گمنام تحریر کو بھی ایک خاتون کے نقوشِ قلم سے فیض یاب ہونے کا دعوے ٰ ہے! لیکن درحقیقت اِس کے پردہ میں ایک "ریشائیل" چہرہ جلوہ فرما ہے۔ اظہارِ غصّہ بری چیز نہیں تو ہمیں صاف کہنا چاہئے کہ اگر ہمارے سامنے ہو تو ہم سے بے اختیار "منہ نوچنے " کا جرم سرزد ہو جائے۔ غالباً ہمارے کرم فرما کو علم نہیں کہ عورت کی ہستی بہت سی ایسی لطافتوں اور نزاکتوں کی حامل ہوتی ہے جو مرد کی کرخت فطرت کو کبھی میسّر نہیں ہو سکتیں، اور اگر ہمارے دوست قانونِ فطرت کی کُہنگی اور اپنی نوعِ خلقت کی فرسودگی سے اُکتا کر عورت کا روپ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اُنہیں اپنے آپ پر نسائیّت کی ادائیں طاری کرنی چاہئیں، بشرطیکہ "ہنس" کی چال چلنے میں کوّے کا چلن نہ بگڑ جائے! رہا ہمیں اپنے فریب کا معمول بنانا تو اِس کے سوا کیا عرض کیا جائے۔

برو ایں دام بر مرغِ دگر نہ کہ عنقا را بلند است آشیانہ (بہارستان، نومبر1926ء)

"وہی نیاز کیش" کے دستخطوں سے جو تحریر ہمیں موصول ہوئی ہے اِس میں ہمارے اُنہی نیاز کیش کو بہت سی غلط فہمیاں ہوئی ہیں۔ تشریح و تو ضیح کا یہ موقع نہیں، کبھی ملیں گے تو:

میں کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں (اقتباس از بہارستان، دسمبر 1926ء)

"سب سے پہلی اور آخری درخواست "کرنے والوں کو"ایس رولو اینڈ سنز، فوٹوگرافر اینڈ آرٹسٹ، دی مال"(لاہور) سے خط کتابت کرنی چاہئے! "بہارستان" اِس درخواست (حکم؟)کی تعمیل کرنے سے معذور اور شرمسار ہے۔ (اقتباس از بہارستان، جنوری 1927)

بہت سے ایڈیٹر صاحبان پر چکمہ چل گیا ہے اور وہ فخریہ ایسے ناپسندیدہ مضامین شائع کر دیتے ہیں مگر ہمارے نوجوان با ہمّت بھائی اختر صاحب شیرانی نے اپنے رسالہ "بہارستان" میں یہ باریک پردہ اُٹھا دیا اور اُن ادبی مضامین نگار برُقعہ پوش حضرات کے نقاب اُلٹ دیے۔ اُنہوں نے کسی تازہ اشاعتِ "بہارستان" میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ "ہم پریہ جادو نہ چلے گا۔ ہم نے بخوبی جان لیا ہے کہ اِس زنانہ شاعرانہ نام کے برقعہ کے اندر کون ہے؟" بس۔

(ہندوستان کی کم علم مضامین نویس خواتین) از نذر سجاد حیدر (مرقع ماہ دسمبر١٩٢٦ء)