"بہارستان" کی ڈاک میں ایک گمنام تحریر

عشق ہے اور ابتدائے آہ ہوتی ہے مبارک آج طفلِ دل کی بسم اللہ ہوتی ہے

تم بھول کر بھی یاد نہیں کرتے ہو کبھی
ہم تو تمہاری یاد میں سب کچھ بھُلا چکے

اگر محبت واقعی نام ہے ایک قوّتِ جاذبہ کا اگر فریفتگیِ عشق سچ مچ کہتے ہیں ایک کششِ پنہاں کو، اگر شیفتگیِ نیاز عنوان ہے، حقیقتاً اِک فوری اثر انگیزی کا!تو اے صرفِ تغافل، اے محوِبے نیازیِ مطلق، تیری نگاہِ التفات نے اب تک درسِ بیداری کیوں نہ لیا؟ تیری روح کے خوابیدہ تاثّرات نے اب تک کیوں نہ انگڑائی لی؟ تیرے افکارِ روحی کی رنگینیوں میں اب تک کیوں نہ محبت کی گُدگُدی پیدا ہوئی؟ آپ کے رسالے کے ہزار ہا خریدار ہوں گے۔ مگر اِس ہجوم میں صرف میں ہی وہ خریدار ہوں جو اپنی نادانیِ جذبات کی بدولت اپنے آپ کو آپ کا خریدار بھی سمجھتی ہوں آہ!

ایک مدّت تک دلِ غمگیں کو سمجھاتے رہے
ضبط غم کرتے رہے، کہنے سے شرماتے رہے
سیرِ کوہ و راغ و دریا روز دِکھلاتے رہے
الغرض سو سو طرح سے دل کو بہلاتے رہے
اب مگر چلتا نہیں دل پر فریبِ آرزو
یوں تو ہم کھایا کئے اکثر فریبِ آرزو

بذریعہ بہارستان جواب دیجئے راز داری کی تاکید۔

والسلام

ایک پردہ نشین مگر مجبوُر دوشیزہ