کیونکر کہوں کہ خواب نہیں جاگتا ہوں میں
یہ آنکھیں! اور یہ!!میرے پروردگار!!خط!!!
نہیں جانتا کہ کن الفاظ سے آپ کو مخاطب کروں؟ اِس لیے کہ آپ کے محبت نامہ نے جن تاثّرات و احساسات کا ہیجانِ عظیم دل میں پیدا کر دیا ہے اُس نے آپ کے خط کے جواب میں میرے پاس مدہوشی و سرشاری کے سوا کچھ باقی نہیں چھوڑا۔
میں اور خطِ دوست خدا ساز بات ہے
جاں، نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
پچھلی رات کی یہ مستانہ کیفیت!اور اضطرابِ روحی کا یہ عالم! اللہ جانتا ہے یہ مبہوت لمحے کیونکر گزار رہا ہوں؟دل و دماغ میں ایک محشرِ بے خودی!ایک قیامت زا دیوانگی برپا ہے اور میں اپنے آپ میں اِس کی ہمّت و اہلیت نہیں پاتا کہ صحیح معنیٰ میں آپ کو مخاطب کر سکوں!سب سے زیادہ جو چیز میری پریشانی کا باعث ہے!وہ "نادلانہ" کیفیت ہے جس نے مجھے اِس طور پر آپ کی شوخ و شنگ مگر پُر اسرار شخصیت سے دوچار کر دیا ہے۔ آہ وہ شخص!جو غریب اچھی طرح جانتا ہو!کہ فطرت کی "فیّاضی" نے اُسے نہ تو کسی قسم کے حسنِ معنوی سے سرفراز کیا ہے اور نہ حسنِ ظاہری سے اور پھر اس کو بتلایا جائے کہ ایک فرشتۂ ارضی۔ ایک حورِ دنیا۔ ایک برقِ جمال۔ ایک پیکرِ شعاع۔ ایک مجسّمۂ نور ایک صنمِ نگہت و رنگ۔ ایک پرستیدۂ حُسن۔ ایک موضوعِ ادب و شعر۔ اُس کی "بے رنگیوں " کو محبت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور بالخصوص اُس حالت میں جب کہ بتلانے والی ہستی بھی خود، وہی ہو تو آپ ہی سوچئے۔ وہ بے چارہ اِس پر کہاں تک؟ کیونکر؟ اعتبار کر سکتا ہے؟ کیونکر یقین کر سکتا ہے؟
آپ نے مجھے "دیوتا" کہہ کر میرے اعمال و جذبات کے ساتھ ایک نہایت بے دردانہ مذاق کیا ہے ایک حد درجہ "اندوہ گیں " فریب کھیلا ہے! آپ کی اِس "ستم ظریفی" اِس مہلک شوخی! کا کیا جواب دوں؟ سوائے اِس کے کہ اپنی جگہ پر کڑھوں، جلوں اور اُف تک نہ کروں!آپ کو مجھ سے میری "نا آشنائیِ رحم" کا شکوہ ہے!" بیداد گری" کی شکایت ہے!کاش کہ یہ جائز ہوتی! کاش کہ میں صحیح مخاطب ہو سکتا! کیونکہ "شکایت" بھی "دنیائے محبت" میں "عین محبت" تسلیم کی جاتی ہے! مگر جب! مجھے سرے سے اِس "تھئیٹر" کی سی فریب آرایانہ! اور محض ستم ظریفانہ مناظر سامانیوں پراعتماد نہ ہو تو آپ ہی انصاف کیجئے! میں اِن گِلے شکووں کا کیا جواب دوں۔
اُلٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذرِ جفا کے ساتھ
حقیقت یہ ہے کہ تصویر کا ایک ہی رُخ آپ کے سامنے ہے ورنہ آپ ایسا لکھنا کبھی گوارا نہ کرتیں۔
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کام کیا؟
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے
میرا خیال ہے کہ اگر سارے "حالات و واقعات" آپ کے سامنے ہوں تو شاید حقیقت کے چہرے سے نقاب اُٹھ جائے اور تب آپ کو معلوم ہو کہ جو گلہ آپ کو مجھ سے ہے وہ دراصل مجھے آپ سے ہونا چاہئے تھا! میرے "ظلم و بیداد" کا شاید اُس نظم سے اندازہ ہو سکے گا جس کا عنوان "اُن سے" ہے مگر اَب "تم سے" ہونا چاہیے اور جو اِس عریضہ کے ساتھ ملفوف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اُس زمانہ سے لے کر جب کہ آپکے "خیالات" کو مجھ سے غائبانہ شناسائی حاصل ہوئی اب تک کے تمام واقعات مفصلاً مجھے لکھ بھیجیں اور پھر میں بھی اپنی تمام "داستانِ غم" آپ کے حضور میں دہرا دوں! اگر آپ نے "عنایت" فرمائی تو یقیناً بہت سی چیزیں تاریکی سے روشنی میں آ جائیں گی اور جن کو اب آ جانا چاہیے۔ یہ عریضہ آپ کے خط کا جواب نہیں ہے بلکہ اِس سے محض آپ کی تشفّی مقصود ہے۔ آپ کو یقین کرنا چاہئے کہ آپ کا "راز" صرف "آپ ہی کا راز" نہیں ہے بلکہ اِس میں میرے دل کے ٹکڑے بھی شامل ہیں۔
دنیا میں ترے عشق کا چرچا نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رُسوا نہ کریں گے
کیا محترمہ "ثریّا جبیں" کی خدمت میں اب بھی میں یہ عرض نہیں کر سکتا کہ
ہم نظر بازوں سے تُو چھُپ نہ سکا جانِ جہاں
تُو جہاں جا کے چھُپا ہم نے وہیں دیکھ لیا
ممکن ہے میرے آئندہ خط سے آپ "پہلی مرتبہ" معلوم کریں کہ میرا اب تک جو طرزِ عمل رہا وہ کس حد تک مجبورانہ تھا؟ ہاں آپ مطمئن رہئیے کہ کوٹھی پر آنے سے میری "کسرِ شان" نہ ہو گی۔ آپ چاہیں گے تو میں اُن ذاتِ شریف کا نام بتلا دوں گا کیا "اب پہلی اور آخری درخواست" کرنے والوں سے میں اتنا پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہوں؟ اور کیا لکھوں؟ سوائے اِس کے کہ کاش کچھ لکھنے کی ہمت ہوتی! آہ!
نہ دے نامہ کو غالب طول اتنا مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جُدائی کا
راقم۔ "کوئی"