سلمیٰ کا دوسرا خط

جناب والا

نیاز قبول فرمائیے ایک خستہ اور افسردہ دل کا نیاز!آہ:

کشتیِ دل ہو گئی اُمید کے دریا میں غرق
اور اے تقدیر تکتے رہ گئے ساحل سے ہم

اگرچہ آپ کی "دلخراش طنزوں" سے متاثر ہو کر میں نے آپ کے اِس قول پر عمل پیرا ہونے کا عہد کر لیا ہے کہ "محبت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ محبت ہے۔ خواہ اِس کا علم فریقِ ثانی کو ہو یا نہ ہو۔" اور یہ کہ "سچی محبت کو جوابی محبت سے بے نیاز ہونا چاہئے۔" مگر پھر بھی معلوم نہیں کیوں؟ آخری مرتبہ یہ کہنے کی جرأت کرتی ہوں کہ جیسے بھی ہو اِس عریضہ کا جواب ضرور عنایت فرمایئے۔ ہاں اُن آنسوؤں سے جن میں ایک "نخچیرِ غم" لڑکی کا خونِ جگر بھی شامل ہے۔ تکلیف تو ہو گی مگر للہ ایک دفعہ مندرجہ ذیل سوالات کے بالتفصیل جوابات دینے کی زحمت گوارا فرمائیے ممنون ہوں گی۔

  • آپ کی دلگداز نظم جس کا عنوان "اُن سے" ہے مطبوعہ ہے یا غیر مطبوعہ؟
  • وعدہ کے باوجود آپ نے اپنی "داستانِ غم" اب تک کیوں نہیں دہرائی؟
  • اپنے اِس فقرے کی تشریح فرمائیے کہ ممکن ہے میرے آئندہ خط سے آپ پہلی مرتبہ معلوم کریں کہ میرا اب تک جو طرزِ عمل رہا وہ کس حد تک مجبورانہ تھا؟
  • یہ جانے بغیر کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں؟آپ نے اپنی غزل:

لے آئے انقلاب سپہرِ بریں کہاں (مطبوعہ بہارستان)

اور اپنے افسانہ "پشیمانِ شباب"(مطبوعہ قوس قزح) میں دو تین جگہ مجھے کیونکر مخاطب فرمایا تھا؟ * کیا یہ سچ ہے کہ آپ کو میری "غیر فانی" اور "بے غرض" محبت کا اب تک یقین نہیں آیا؟اور آپ اِسے محض ایک "فریب" سمجھتے ہیں؟ اپنا فرض نہ سمجھنے کے باوجود آپ اگر جواب سے سرفراز فرمانا چاہیں تو 21 جنوری بروز ہفتہ ڈھائی بجے دن کے قریب تشریف لے آئیں اور اس کے بعد یقین فرمائیے کہ پھر کبھی آپ کو اِس قسم کی ناگوار تکلیف نہیں دی جائے گی۔

والسلام

اظہارِ اضطراب ہماری خطا سہی
تسکینِ قلب کس کی بدولت نہیں رہی