ضبط کروں میں کب تک؟ آہ
چل رے خامے بسم اللہ

ہوا کی تحریک سے، دامنِ گلبرگ پر لرزنے والے قطرۂ شبنم کی طرح۔ سینہ میں دل، آنکھ میں آنسو۔ دماغ میں تخیّل اور ہاتھ میں قلم کانپ رہا ہے۔ تھرتھرا رہا ہے۔ تم سے خطاب کرنا۔ تمہاری حسین و نازنین اور نازک و رعنا ہستی سے خطاب کرنا، اِس ویران و بے کیف دنیا میں! اِس دنیا کی تلخ و ناگوار بے رنگیوں میں اِس سے زیادہ لذیذ اور رنگین و روشن خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔؟؟آہ! اِس کے تو تصوّر میں مر جانا ہی حسین ترین خوش نصیبی ہے مگر آہ!زمانہ کی ستم پیشگی کوکس زبان سے بددعا دوں؟جس نے میرے دل کو زخمی!میرے دماغ کو ماؤف!میرے جذبات کو مجروح اور میرے حسّیات کو ذبح کر کے، ہلاک کر کے رکھ دیا ہے۔ میں تم سے اِس طرح مہجور، یوں رنجوُر اور تم مجھ سے اِتنی دور، اِس قدر دُور۔ آہ!قسمت کی کوتاہیاں، ہائے۔ فطرت کی ستم آرائیاں:

شبِ تاریک بیم موج و گردابِ چنیں حائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا

تمہارا۔ آہ!میری جان۔ تمہارا تقاضا ہے کہ میں تمہارے حضور میں اپنی "داستانِ غم" دہراؤں۔ اپنا افسانۂ درد کہہ سناؤں۔ مگر کیسے کہوں؟ کس کی زبان لاؤں؟ دلِ صد پارہ کا مشہد، جذباتِ اُمّید کا مقتل، جسارتِ آرزو کا مدفن تمہیں کیونکر دکھاؤں؟ شمع کا سوز اگر عریاں ہو سکتا ہے۔ بجلی کی بے قراری اگر ہاتھ آ سکتی ہے قطرۂ شبنم کی زندگی۔ ہاں۔ ایک لمحہ زندگی اگر منتقل ہو سکتی ہے، موسیقیِ حزیں کا گداز اگر ارسال کیا جا سکتا ہے اور سرشکِ شوق کی ماتم طرازیاں اگر صفحۂ کاغذ پر نمایاں ہو سکتی ہیں تو ممکن ہے میں بھی تمہارے حکم کی تعمیل سے عہدہ بر آ ہو جاؤں۔ ورنہ نگہتِ رمیدہ، بُوئے پریشاں اور نغمۂ آوارہ کی زندگی ہی کیا؟اِدھر شوقِ پرواز کی رخصت ملی اور اُدھر فنا انجام۔ معدوم۔

لیکن کیا۔ آج مجھے حقیقت میں تمہارے سامنے اپنی غم پروردہ ہستی کو بے حجاب کر دینا پڑے گا؟ کیا آج مجھے اپنے دل کی انتہائی گہرائیوں میں بسنے والے اُس راز کو جس کی میں ایک مدّت سے ایک داغ کی شکل میں پرورش کر رہا ہوں۔ تمہاری نگاہِ کرم کے حضور میں عریاں کر دینا ہو گا؟ کیا محبت کی اُس حسین و رنگین اور لذیذ و خوشگوار خلش کو جو تمہارے سب سے پہلے خط کے سب سے پہلے فقرے کے ساتھ۔ میری روح کی آخری خلوتوں میں اُتر آئی تھی اور جس کی میں نے آج تک اپنے خونِ افکار سے پرورش کی، نشوونما کی۔ آج مجھے تم تک پہنچانے پر مجبور ہونا پڑے گا؟ آہ!

سُن لے اگر کوئی تو نہیں زندگی کی خیر
ہے جان سے عزیز مرا مدّعا مجھے

نہ پوچھو. میں درخواست کرتا ہوں۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔ یہ نہ پوچھو۔ جو جی چاہے پوچھو، مگر آہ! پرِ پروانہ کے شورِ خاموش کا راز اور زبانِ بلبل کے نالۂ مجبور کا معماّ۔ مجھ سے نہ پوچھو۔ سب کچھ پوچھو۔ مگر میں تم سے التجا کرتا ہوں۔ میں تمہاری منّتیں کرتا ہوں کہ میرے اشعار کی غمناک روش کا سبب اور میرے افکار کی دردناک بے کسی کا عقدہ مجھ سے نہ پوچھو۔ تمہاری محبت، آہ! تمہاری محبت کا اعتراف، دلگداز اعتراف، درد آلود اعتراف۔ قلم کی جگہ دل ہاتھ میں ہے۔ تو بھی مجھے اِس کی جرات نہیں ہو سکتی۔ دیکھنا۔ مجھے مجبور نہ کرو۔ میں کہتا ہوں۔ میں ضبط نہ کر سکوں گا۔ آہ! دماغ پھٹ جائے گا۔ میرا دل سینہ سے باہر نکل آئے گا۔ آہ! میں مر جاؤں گا رحم کرو۔ میرے بیمار شباب کی کمہلائی ہوئی مرجھائی ہوئی۔ کھوئی ہوئی رنگینیوں پر رحم کرو۔ میرے افسُردہ دل کی لُٹی ہوئی۔ مِٹی ہوئی، بہار کی سوگواریوں پر رحم کرو۔ میرے پژ مُردہ دماغ کی ہاری ہوئی، تھکی ہوئی آوارہ خیالیوں پر۔ اُن کی درد ناکیوں پر رحم کرو کہ اِن میں تمہارے محبت کے اعتراف کی جرأت نہیں، ہمّت نہیں۔ تمہیں چھیٹرنے کو، ستانے کو نہیں۔ محض اظہارِ واقعی کے طور پر اور تمہیں اپنی ہستی سے جُدا نہ سمجھ کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی ناتواں ہستی کے اِن 12 سالہ دور ہائے بہار و خزاں میں ایک مرتبہ نہیں۔ اکثر اپنے سینہ میں محبت کی روح فرسا خلش محسوس کی ہے۔ خاص خاص موقعوں پر اِس کی پرورش کی ہے اور مجھے اِس کی بے حجابی کے موقعے بھی نصیب ہوئے ہیں۔ مگر یقین ماننا کہ آج تک کبھی کسی وقت مجھے اظہارِ محبّت کے لئے اِس قدر تکلیف۔ اِتنی دِقّت نہیں ہوئی جتنی آج اِس وقت۔ اِن پریشان نگاریوں میں مصروف، محسوس کر رہا ہوں۔ آہ! کیا محبت کا اعتراف۔ میرے لئے محبت کرنے سے زیادہ دشوار ہو گیا ہے؟ کس سے پوچھوں؟

بہر کیف اُس وقت تک کہ میرا دلِ صد پارہ۔ اعترافِ محبّت کے طور پر اپنی جراحت سامانیوں کو۔ کسی بہتر رنگ میں پیش کرے، ذیل کے شعر کو اپنی داستانِ افسردگی کا خلاصہ اور عنوان بنا کر پیش کرتا ہوں:

زندہ ہوں تیرے لئے اے رشکِ مہرو ماہ میں
آج کرتا ہوں تجھے اِس راز سے آگاہ میں

میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں۔ اِس حال میں کہ میرا دل رو رہا ہے۔ میری روح ماتم کر رہی ہے۔ میرے جذبات فریاد کر رہے ہیں۔ کاش کہ تم اِس وقت سامنے ہوتیں اور میں ہرزہ نگاریوں کی بجائے اپنی آنکھوں سے۔ اپنی اِن آنکھوں سے جنہیں تم نے کبھی "لبریزِ بے خودی" اور "رنگینیِ نگاہ کا ساغر" کہا تھا۔ حالانکہ وہ اُس وقت بھی "لبریزِ مایوسی" اور "غمگینیِ نگاہ کا ساغر" تھیں۔ آہ! اِن آنکھوں سے دو آنسو۔ دو خون آلود آنسو بہا کر۔ میں تم سے اپنی داستانِ سوز و درد بیان کر دیتا کیونکہ اِس مکر و فریب کی دنیا میں آنسوؤں سے زیادہ سچاّ، اعترافِ محبّت کوئی نہیں، کوئی نہیں ہو سکتا۔ مگر آہ! تم کہاں؟ ہو تو مگر میرے پاس کہاں؟ میرے نصیب میں کہاں؟ میرے مقدّر میں کہاں؟

اب تو جینے کی تمنّا دلِ مضطر میں نہیں
وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تیرے مقدّر میں نہیں

آہ! دُنیا! ظالم دُنیا۔ تُو بظاہر کتنی دلچسپ۔ کس قدر دلفریب، کس قدر خوش نما ہے۔ مگر حقیقت میں کتنی تلخ۔ کس قدر ناگوار۔ کس درجہ نفرت انگیز ہے۔ صحرائے عدم کی ہزا رہا دشوار گُزار اور تاریک منزلیں طے کر کے ارواحِ معصوم کے لاکھوں کارواں آتے ہیں اور تیری سراب آسا، فریب آرا، طلسم کاریوں اور بہشت زاریوں سے دھوکا کھا کر۔ تیری نظر فریب تفرّج گاہوں کے دامن میں خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔ حسرت و ارمان کی لاتعداد بستیاں بساتے ہیں۔ اُمید و آرزو کے بے شمار قصر تیار کرتے ہیں اور جذباتِ اُمّید و کامیابی کے ہزار ہا خُلد زار آباد کرتے ہیں۔ مگر آہ! تیری بے وفائیاں، تیری ستم آرائیاں، بے دردیاں، کج ادائیاں، بیک جنبشِ نظر اُن کے شیرازۂ جمعیت کو پریشان، اُن کے ارمانوں کی بستی کو برباد، ایوان ہائے آرزو کو منہدم اور اُن کی اُمیدوں کے خُلد زاروں کو تباہ کر کے۔ غارت کر کے رکھ دیتی ہے۔ اور بالآخر وہ ویرانہ زارِ عدم کی خوفناک تاریکیوں اور مہیب ظلمتوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ آہ! ہمیشہ کے لیے زندہ دفن ہو جاتے ہیں ہائے تُو کتنی ظالم ہے، کس قدر بے وجدان ہے، کس درجہ سفّاک ہے۔ وہ شاعر بڑا ہی جھوٹا تھا جس نے تجھے بہشت کا خطاب دیا تھا۔ تُو تو ایک دوزخ ہے جس میں بے حسی و بے کیفی، بے رحمی و بے دردی کے ہزاروں خوفناک اور موذی و مہلک منظر پرورش پاتے ہیں۔ تُو تو ایک مقتل ہے۔ جس میں روزانہ ہزا رہا جذبات کے گلے پر کُند چھُری پھیری جاتی ہے۔ تُو تو ایک مدفن ہے جس میں ہر لمحہ ہزاروں دل کی جوانمرگ تمنّاؤں کے جنازے آتے ہیں اور بغیر تجہیز و تکفین کے سپردِ خاک کر دیئے جاتے ہیں۔ نہ تیرے ظلم و ستم کا ہاتھ فاتحہ کو اُٹھتا ہے اور نہ تیری جہنّم فشاں آنکھوں کو سرِ مزار شمع روشن کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ میں نفرت کرتا ہوں! او!قتل گاہِ افکار!او شہادت زارِ جذبات۔ او مزارستانِ آرزو!دنیا! میں تجھ سے نفرت کرتا ہوں، ہزار بار۔ آہ لاکھ بار نفرت کرتا ہوں۔ لعنت بھیجتا ہوں۔

اور تُو بھی سُن لے۔ او فطرت، او بے رحم، بیدرد فطرت تُو بھی سُن لے کہ میں اپنی تمام ترین تلخ نوائیوں، درد مندیوں اور نالہ سرائیوں کے ساتھ تیرا گلہ مند ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تُو میرے دل و دماغ کے ساتھ مذاق کر رہی ہے۔ آہ! ایک نہایت ہی بیدردانہ مذاق۔ ایک نہایت ہی بے رحمانہ کھیل کھیل رہی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ حسن و عشق تیرے ازلی و ابدی مشغلے ہیں۔ جب تو اپنے آسمانی ہنگاموں سے اُ کتا کر۔ تھک کر۔ کوئی کھیل کھیلنا چاہتی ہے تو کسی بدنصیب کے دل میں عشق پیدا کر دیتی ہے۔ اور پھر جب تیرا یہ کھیل۔ تیرا یہ مذاق شروع ہوتا ہے۔ تو تُو مسکراتی ہوئی نگاہوں سے۔ اُن مظاہروں کو، آہ اُن ظالمانہ مظاہروں کو دیکھتی ہے۔ اور دیکھتی رہتی ہے۔ کوئی روتا ہے تو مسکراتی ہے۔ کوئی فریاد کرتا ہے تو مزے لیتی ہے۔ کوئی آہیں بھرتا ہے۔ تو سُنتی ہے۔ سُنتی ہے اور خوش ہوتی ہے۔ مگر ظالم۔ اِتنا تو کہہ دے۔ کہ کیا تیری اِس قدر وسیع خدائی میں تجھے میرے سوا کسی اور کا دل نہیں ملا؟جو تیری ستم ظریفیوں کا۔ اُن کی تشنگی کا علآج مہّیا کرتا؟ اور جس کا رقصِ بسمل تیری ستم خند نگاہوں کے لئے لطفِ تماشا ثابت ہوتا؟

آہ! مجھے اتنا تو بتلا دے کہ آخر تیرا یہ بے رحمانہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟ تیرا یہ بے دردانہ مذاق۔ میرے دل و دماغ سے۔ میرے نادان جذبات سے کب تک کھیلتا رہے گا؟میرے حسّیات کوکب تک مجروح کرتا رہے گا؟کب تک میری راتوں کو تباہ اور میری نیندوں کو غارت کرتا رہے گا؟ ہلاک کرتا رہے گا؟مگر آہ!۔۔ کیا تُو سُنتی ہے؟ہجومِ جذبات کا سیلِ بے اختیار مجھے کہاں سے کہاں کھینچ لے گیا؟اور تم۔ میری پ۔ یا۔ ر۔ ی۔ میری۔ جا ن۔ میری جانِ آرزو۔ میری آرزوئے جان۔ تم اِن وحشت نگاریوں سے گھبرا رہی ہو گی مگر اِس میں میرا قصور نہیں۔ طوفانِ جذبات کی یہ بے اختیاری اور امواجِ خیالات کا یہ ہجوم۔ تمہاری ہی چھیڑ چھاڑ کا۔ تمہاری ہی عرضِ مدّعا کا نتیجہ ہے:

پُر ہوں میں شکووں سے یوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے؟

میں غالب کے اِس شعر میں صرف اِس قدر ترمیم چاہتا ہوں کہ میرا دل خود اِک ساز ہے۔ مگر کیسا ساز کہ اِس میں نغمے نہیں۔ بلکہ نغموں کی جگہ شکوے بھرے ہیں۔ ایسے شکوے کہ جس کی طوالت۔ تمہاری مُشکبار زلفوں سے بھی زیادہ ہی ہو گی اور اس قدر دردناک کہ خُدا جانتا ہے۔ آہ! میں اُن کا خیال کر کے بھی رو پڑتا ہوں:

جورِ اعدا کے گِلے، تیری جُدائی کے گِلے
اس دلِ تنگ میں ہیں ساری خُدائی کے گِلے

ہائے! میں اِن گِلوں کو۔ اِن شکووں کو۔ اِن شکایتوں کو کیونکر بیان کر سکوں گا؟

دنیا میں کس سے کیجے؟اُس شوخ کی شکایت
کیونکر سُنائیں گے ہم، یہ دکھ بھری حکایت

اِن بے پایاں شکایتوں کا عنوان، خود یہ شکایت ہے کہ تم نے کبھی بھی میری "شکایت ہائے رنگین" سُننے کی کوشش نہیں کی۔ اُف میری کس قدر عزیز آرزو تھی۔ کس درجہ صمیمی حسرت تھی؟ کہ مجھے کبھی نہ کبھی تمہارا التفاتِ محبّت۔ تمہارے قدموں تک ضرور پہنچا دے گا۔ کبھی نہ کبھی میں تمہارے پائے نازنیں پر سر رکھنے کی۔ بوسے نچھاور کرنے کی۔ سجدے لُٹانے کی۔ فردوسی۔ آہ!ملکوتی مسّرت ضرور حاصل کر لوں گا۔ آہ! تم سے دُور۔ تم سے مہجور۔ تمہارے خیال۔ ہاں تمہارے بہشت ساماں خیال پر۔ میں نے اپنے عہدِ شباب کی بیسیوں سرشار راتیں قربان کر دیں۔ تمہاری جُدائی میں۔ تمہاری یاد۔ آہ! تمہاری حسین یاد پر۔ میں نے اپنی راتوں کی ہزاروں پُر لطف اور مزیدار نیندیں نثار کر دیں۔ اِس اُمید میں کہ ایک نہ ایک دن میری راتوں کا کوئی جزو۔ میری نیندوں کا کوئی حصّہ۔ تمہارے آستانِ جمال پر "خوابِ زلیخا" کا ہمدوش تم سے ہم آغوش نظر آئے گا۔ مگر تقدیر۔ آہ! ظالم تقدیر نے تمام دلی حسرتوں کو۔ آہ!میری اُن حسرتوں کو جنہیں میں نے۔ اپنے شعرستانِ شباب میں، اپنے بہارستانِ افکار میں۔ اپنے نغمہ زاروں میں۔ اپنے نکہت آبادِ روح میں۔ خونِ جگر کے آنسوؤں اور سازِ دل کے نالوں سے پرورش کیا تھا۔ تباہ کر دیا۔ غارت کر دیا۔ آہ!

دل کی دل ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
ایک بھی اُن سے ملاقات نہ ہونے پائی

ہائے! میری کس درجہ محبوب و مطلوب اُمید تھی۔ کہ کبھی میری شب ہائے آرزو کی صبحِ کامرانی طلوع ہو گی۔ ظلمتِ انتظار اور تاریکیِ فراق کے مہیب اور تِیرہ و تار بادلوں میں سے۔ میری قسمت کا۔ میری مُسرّت کا۔ میری آرزو کا۔ آفتابِ جہانتاب جلوہ ریز ہو گا۔ موانع کے پُر شور طوفان چَھٹ جائیں گے۔ رکاوٹوں کی ہولناک موجیں مٹ جائیں گی اور اُن کے تاریک دامنوں سے۔ میری راحتِ زندگی کا۔ گوہرِ شب چراغ ضیا بار ہو گا۔ یاس کی فصلِ خزاں ختم اور نا امیدی کی بادِ سموم خاموش ہو جائے گی اور میں اپنے گُل کدۂ حیات میں۔ عروسِ بہار کو با ہزاراں ہزار رعنائی و برقائی۔ تبسّم ریز پاؤں گا۔ خندہ بار دیکھوں گا۔

خیال تھا۔ کہ غمہائے ہجر کا یہ عارضی۔ یہ قہر آلود ابر۔ پارہ پارہ ہو جائے گا اور اس کے آغوشِ شگفتگی سے میری شب ہائے شباب کا ستارۂ حسین بے حجاب ہو گا اور اپنی شعاعِ حُسن کی شاداب گلباریوں سے میری خزاں آباد ہستی کی ویرانیوں میں۔ بہشتی برودت۔ آسمانی برکات اور ملکوتی ندرت کی نغمہ صفت لہریں دوڑا دے گا۔

مجھے کس درجہ یقین تھا کہ بربطِ دل کے وہ تار جو زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ جو بے آواز ہو چکے ہیں۔ جن میں اب خوشی کے راگوں کی جگہ۔ دکھ بھری آہیں۔ اور مسّرت کے ترانوں کی بجائے سوز بھری کراہیں گونجتی ہوئی۔ آہ! ایک دُکھیا بھکارن کے حُزن آلود گیت کی طرح۔ روتی ہوئی۔ پیٹتی ہوئی۔ سُنائی دیتی ہیں۔ اب از سرِ نو شادابیِ موسیقی سے گویا اور شگفتگیِ نغمہ سے لبریز ہو جائیں گے اور ایک بار پھر اُن کے سنسان دامنوں میں۔ اُن کے ویران پردوں میں۔ روحِ طرب کے حسین و شیریں نغمے لہرانے۔ لگیں گے لیکن واحسرتا کہ یہ سب کچھ ایک خواب تھا۔ آہ!ایک دردناک خواب۔ ایک سراب تھا۔ آہ!ایک غمناک سراب۔

دُور سے آنے والی صدا بہت خوش آہنگ تھی۔ مگر پاس جا کر سُنا تو سراسر بے رنگ۔ ایک پھول تھا کہ دامنِ شاخسار میں۔ نہایت حسین و خوشگوار نظر آتا تھا۔ لیکن تو ڑ کر دیکھا تو نوکِ خار!

آہ!ایک گوہرِ آبدارتھا۔ مگر کس قدر فریب دہ کہ نگاہِ یقین کے قریب پہنچ کر سنگ ریزہ بن گیا۔

تم!میری مسجودِ افکار۔ میری پرستیدہ اشعار۔ تم اندازہ تو کرو۔ ہائے میری مایوسیوں کی دلگدازیوں کا۔ میری ناکامیوں کی روح فرسائیوں کا اندازہ تو کرو۔ تم دیکھتی ہو، بے رحم تقدیر۔ بے درد قدر ت۔ میرے ساتھ۔ میرے جذباتِ تمنّا کے ساتھ۔ کس درجہ سّفاکانہ تمسخر کیا جا رہا ہے۔ تُم سے۔ ہائے!تم سے محروم ہونا۔ تمہاری ملکوتی ہستی کی رعنائیوں سے۔ تمہاری قابلِ پرستش دیویت کی۔ آہ! صنمیّت کی دلربائیوں سے محروم ہونا۔ ہائے یہ کتنا دلگداز، کس قدر جاں خراش۔ کس درجہ مہیب و مہلک حادثہ ہے؟آسماں اپنے ستاروں سے کیوں محروم نہیں ہو جاتا؟بہشت اپنی حوروں سے کیوں خالی نہیں ہو جاتی؟ دُنیا اپنے گُلہائے زندگی سے کیوں تہی دامن نہیں ہو جاتی؟کہہ دو کہ آسمان کے ستارے غارت ہو جائیں۔ اُن کی نورانی شعاعیں تباہ ہو جائیں۔ کیونکہ میں بھی اپنا ستارۂ قسمت کھو بیٹھا۔ اُس کی شعاعِ حُسن سے محروم ہو بیٹھا۔ کہہ دوکہ بہشت کی حوریں کھو جائیں۔ گم ہو جائیں۔ کیونکہ میں بھی اپنی جوانی کی حور کو گنوا چکا۔ اُس سے ہاتھ دھو چکا۔ کہہ دوکہ دنیا کے گُلہائے زندگی کمہلا جائیں۔ اُن کے رنگ و بو کا سہاگ لُٹ جائے کیونکہ میری مسّرتِ حیات کا پھول بھی کمہلا گیا۔ اُس کے رنگ و بو کا سہاگ لُٹ گیا۔ کہہ دو کہ یہ سب۔ ہاں یہ سب کے سب اپنی تباہ حالیوں کا ماتم کریں، سوگ منائیں۔ کیونکہ اُن کا شاعر اُن کے سازِ رنگیں کے تاروں پر۔ نغموں کی جگہ اپنی روح چھڑ کنے والا شاعر بھی آج اپنی تباہ حالی کا ماتم کر رہا ہے۔ سوگ منا رہا ہے۔ ایسا ماتم کہ جو زندگی بھر ختم نہ ہو گا۔ اور ایسا سوگ جو قیامت تک جاری رہے گا:

روز و شب رویا کئے شام و سحر رویا کئے
کچھ نہ روئے آہ گر!ہم عمر بھر رویا کئے

شاعر۔ آہ! او بد نصیب شاعر۔ تُو کس قدر بدنصیب ہے۔ کہ فطرت کی ستم ظریفی تجھے شراب کی جگہ زہر پلا رہی ہے۔ شباب کی جگہ موت دے رہی ہے۔ تُو کتنا بدقسمت ہے کہ تجھے پھول کی جگہ خار اور ہیرے کی جگہ کنکر دیا جا رہا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ او بدنصیب۔ قابلِ رحم بدنصیب۔ تُو نے وہ ایسا کون سا گناہِ عظیم کیا ہے؟جس کی پاداش میں۔ تجھ پر تمام دُنیوی مسّرتوں کا دروازہ بند کیا جا رہا ہے۔ تجھ پر خدائی بھرکی مسرّتیں حرام کی جا رہی ہیں اور تیرے لئے جیتے جی جہنم کا آتش ناک عذاب مہیّا ہو رہا ہے۔ اُف!بدنصیب۔ آسمان نے اپنا حسین ترین۔ روشن ترین۔ ستارہ تجھے بخشا تھا۔ مگر۔ تیری شومیِ قسمت۔ کہ وہ تجھ تک پہنچنے سے پہلے اُفق کی دھندلی رنگینیوں میں کھو گیا۔ بہشتِ بریں نے اپنا نازک ترین۔ خوش رنگ ترین پھول۔ تجھے عنایت کیا تھا۔ مگر تیری بدقسمتی۔ کہ وہ تجھے ملنے سے پہلے فضا کی نامعلوم وسعتوں کے دامن میں غائب ہو گیا۔ آہ!فطرت نے اپنے الٰہاتی طلسم کا۔ ایک نفیس ترین۔ ایک نادر ترین تحفہ بھیجا تھا۔ مگر۔ افسوس۔ تیری کوتاہیِ تقدیر۔ کہ وہ محرومی و مایوسی کے ا تھاہ ساگر میں ڈوب گیا۔ غرق ہو گیا۔ وہ شرابِ رنگین جو تیرے ساغرِ حیات کا حصّہ تھی۔ اغیار کے پیمانوں میں چھلکنے والی ہے۔ وہ نغمۂ حسین، جو تیرے سازِ ہستی کے لیے مختص تھا۔ دشمنوں کے سازِ مسّرت میں لہرانے والا ہے۔ گونجنے والا ہے:

تڑپ رہا ہوں، میں نیم بسمل، عدو کی حسرت نکل رہی ہے
ہے نام جس کا شبِ تمنّا، وہ آج آنکھیں بدل رہی ہے

اُف! اُف! عمر بھر کی اُمیدوں کا خاتمہ۔ زندگی بھرکی مسّرتوں کی بربا دی۔ دل کی عمیق ترین آرزوؤں کی تباہی۔ غارتگری۔ ہائے یہ صدمۂ عظیم۔ یہ عذابِ الیم۔ کیونکر برداشت کیا جا سکتا ہے؟

"مسیحا" بن گیا ہے رشک دشمن
نہیں تو مر گئے ہوتے کبھی کے

آہ!مدّتِ دراز سے میں۔ ایک خواب دیکھ رہا تھا۔ ایک نہایت ہی دلفریب، نہایت ہی دلچسپ خواب۔ دُنیا۔ اِس وجدان فراموش دنیا کے حیوانی۔ نفسیانی۔ شور و غل سے دُور۔ ایک پُر سکون۔ نشۂ روحی سے لبریز۔ ایک چمن زار کھِلا ہوا تھا۔ مسّرتوں کے رنگارنگ پھولوں سے معمور۔ حلاوتِ زندگی کی کیف ریز نگہتوں سے مخمور۔ عشق و محبت کی روشن فضاؤں میں۔ لطف و عیش کی مستانہ ہواؤں میں۔ میری حیاتِ عشق ساماں۔ کا ایک ستارہ تھا۔ کہ محوِ گل گشت نظر آتا تھا۔ اُس کے ساتھ تمہاری رعنائی۔ تمہاری زیبائی کا ایک ناہید فریب ستارہ جس کی مسکراتی ہوئی شعاعیں۔ میرے ستارۂ حیات کی ہلکی ہلکی روشنی سے ہم آغوش تھیں۔ آہ! کس قدر شیریں خواب تھا کہ میرا دل چاہتا تھا۔ میری آنکھیں ہمیشہ یہی خواب دیکھتی رہیں۔ اور بس دیکھتی رہیں۔ اب بھی۔ آہ! اب بھی کہ میرا یہ خوابِ اُمید۔ پریشان ہو چکا ہے۔ اب بھی۔ اکثر اوقات آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ اور چاہتا ہوں کہ اپنی خیال آرائیوں کے آئینہ میں ایک بار پھر اس پیاری تصویر کو دیکھ لوں۔ مگر اب کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں ستاروں کے بیچ میں ایک تاریکی۔ ایک ظلمت کی لامتناہی خلیج حائل ہے۔ جس کی سیاہ موجیں ہمیں ایک دوسرے سے دُور۔ ایک دوسرے کے دیدار سے مہجور۔ محروم کر رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر میں ایک زہر ناک۔ ایک سوز ناک لہجہ میں چیخ اُٹھتا ہوں:

آسماں اور ز میں کا ہے تفاوت ہرچند
او پَری دور ہی سے چاند سا مکھڑا دِکھلا

مگر آہ! کہ تم میری نگاہوں سے دُور۔ نہ معلوم تاریکیوں کے دامن میں چھپ جاتی ہو۔ جذباتِ لطیفہ کی یہ غارتگری۔ محبّت پرست روحوں کی یہ بربادی۔ سب سے زیادہ جس چیز کی گلہ مند ہے۔ وہ ہمارے والدین کی حماقتیں ہیں۔ جو بالآخر اولاد کی دائم العمر عقوبتوں کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ والدین کی یہ ستم آمیز حماقتیں ہمارے جاہلانہ رسم و رواج کی بے راہ روی کا نتیجہ ہیں۔ تہذیب و تمدّن کے اِس روشن و منّور دور میں جب کہ تمام اقوامِ عالم۔ ہر ایک معاملہ میں۔ معراجِ ترقی کی شہ نشین پر نظر آتی ہیں۔ ایک خفتہ بخت۔ اور جاہل قوم ہندوستان کی ہے۔ جو اَبھی تک ذلّت و بدبختی کے تحت الثرّیٰ میں۔ کروٹ بدل رہی ہے۔ ہماری معاشرت کے دامن پر سب سے زیادہ نمایاں داغ جو ہماری بدنصیبیوں کی تکمیل کی مُہر بنا ہوا ہے۔ والدین کا وہ ناجائز اختیار ہے جو اُن کو اپنی ہوشمند اولاد کے ازدواجی معاملات میں حاصل ہے

اُن کا یہ غیر آئینی۔ غیر اُصولی۔ غیر شرعی اختیار ہے جو پچاس فیصدی ہندوستانی نوجوانوں کی زندگی کو ناقابلِ برداشت۔ موت سے زیادہ ناقابلِ برداشت بنا دیتا ہے۔ اُن کے قوائے عمل کو تباہ۔ اُن کے جذباتِ لطیفہ کو زنگ آلود۔ اُن کی تندرستی کو داغدار اور اُن کے روحِ شباب کو بیمار کر دیتا ہے۔ اِس نیلگوں آسمان کے لامتناہی سایہ کے نیچے۔ اِس سر سبز زمین کے غیر مختتم فرش پر روزانہ کتنے دل ایسے ہیں جو والدین کی اِس قسم کی جابرانہ حماقتوں کا شکار ہو کر۔ خاک و خون میں لوٹتے نظر آتے ہیں۔ کتنے رقیق و صمیم جذبات ہیں جو والدین کے ظالمانہ اختیار کی اُلٹی چھُری سے چپ چاپ ذبح ہو جاتے ہیں۔ اور دم نہیں مارتے۔ کس درجہ لطیف و نازک افکار ہیں۔ جو والدین کے اِس ملعون۔ اِس وحشیانہ۔ اِس شیطانی اختیار کے مذبح میں۔ مقتل میں۔ ہر وقت۔ ہر لمحہ ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ اور اُن کا رقصِ بسمل۔ دُنیا کی فریب خوردہ نگاہوں میں عیش و مسرّت کا معمار بنا رہتا ہے۔

اگر تم مجھے مل جاتیں۔ اگر میں تمہیں پا لیتا۔ آہ!کتنا حسین۔ کس درجہ شاندار تخیّل ہے کہ میں اَس کے ایک ہلکے سے تصوّر میں مر جانا ہی معراجِ زندگی سمجھتا ہوں۔ تمہارے پاس۔ آہ! تمہارے ساتھ رہنا۔ ہائے یہ کیسی عظیم الشّان۔ کس قدر خوبصورت زندگی تھی۔ جس کا تصوّر۔ جس کا دلگداز تصوّر۔ آج میرے دل سے فریادوں کا۔ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا طلب گا رہے۔ تم دیکھتی ہو۔ میں رو رہا ہوں۔ میری آنکھیں سیلابِ درد بہا رہی ہیں۔ مگر ہائے۔ اب تمہارا دامن میرے آنسو کیوں نہیں پونچھتا۔؟۔ آہ! کیا اب تمہارے دامن کی رنگینیوں پر۔ میری آنکھوں کا۔ میری رونے والی آنکھوں کا کوئی حق نہیں رہا۔؟؟ اُف! میں یہ محسوس کرتا ہوں۔ اور کیا کہوں؟ کس درجہ قلبی اذیّت۔ اور روحی کرب کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔؟ کا ش کہ تم سمجھتیں۔ سمجھ سکتیں۔ تمہاری ہستی کی معصوم رنگینیوں میں کھو کر۔ تمہاری شباب کی دوشیزہ رعنائیوں سے مخمور ہو کر میں کیا کر سکتا تھا؟؟یہ آہ!یہ وہ نشتر ہے جو میرے جذبات کی نزاکتوں کو مجروح اور میرے قلب و روح کی لطافتوں کو ذبح کیے ڈالتا ہے۔ اگر تم میرے نصیب میں ہوتیں۔ تو کیا اس نفسانیت زارِ ارض میں کوئی مجھ سے زیادہ خوش نصیب ہو سکتا تھا۔؟

اگر تم مجھے مل جاتیں۔ تو کیا دنیا بھر کے ادب و شعر کی محفلوں میں آج میرا کوئی حریف نظر آ سکتا تھا۔؟ آہ!تمہاری حسین معیّت میں، تمہاری رنگین محبّت میں۔ میرے خیالات۔ میرے ارا دے۔ کس درجہ بلند۔ کس قدر با وقار ہو سکتے تھے؟

زندگی کا یہ چھوٹا سا گھروندہ۔ جسے دنیا کہتے ہیں۔ ایک حقیر شے ہے۔ میں چاند اور سورج کو آپس میں ٹکرا دیتا۔ جنوب کو شمال سے اور مشرق سے مغرب کو ملا دیتا۔ زمین کو آسمان سے اور آسمان کو زمین سے بدل دیتا۔ آہ! میں کیا کچھ نہ کرتا۔؟تمہیں پا لینے کے بعد میں کیا کچھ نہ کر سکتا تھا؟ہماری "مشترک زندگی" دنیا کے افسانہ ہائے حُسن و عشق میں ایک زندۂ جاوید افسانہ کا اضافہ کرتی۔ یونانی علم الاصنام کا نیا حاشیہ لکھا جاتا۔ قیس و فرہاد کی داستان ہائے معاشقہ از سر نو مرتّب ہوتیں۔ اور خدا کی خدائی میں پہلی بار۔ ایک پُر سُرور مسّرت و خوش نصیبی کی صبح طلوع ہوتی۔ ہم دنیا بھر کے ا دیبوں اور شاعروں کا موضوعِ افکار بنتے اور سراب آبادِ ہستی کے اختتامی لمحات تک بنے رہتے۔ ہم اپنے ادبی رنگوں کو بھی پروان چڑھاتے۔ اللہ! کیسا دلفریب منظر ہے۔ تم میرے سامنے بیٹھ جاتیں۔ اور میں مصوّر کی طرح اپنا خوبصورت قلم اُٹھا لیتا۔ تم میرے جذباتِ محبت کا۔ پیار بھری نظروں سے مطالعہ کرتیں۔۔ اور اُن کو!اِس طرح ہم دونوں مِل جُل کر اُردو ادب کو ستاروں کی طرح حسین پھولوں کی طرح رنگین۔ خیال کی طرح الہامی۔ اور خوابِ فردوس کی طرح خوشگوار بنا دیتے۔

تم ہر لمحہ۔ میری محبّت پاش نگاہوں سے ہم آغوش رہتیں۔ بہشت کے پھول تو ڑ کر۔ تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے۔ ایک قصِر رنگین تیار کرتا۔ آسمان کے ستارے چھین کر۔ اُس میں فرش بچھاتا۔ چاند سے دربانی کا کام لیتا۔ آفتاب کو فانوس بناتا۔ زہرہ۔ تمہیں لوری دینے کو نغمہ طرازی کی خدمت پر مامور ہوتی۔ کوثر و سلسبیل کی لہریں تمہاری تفرّج گاہ میں تمہاری شب رنگ زلفوں کی طرح لہراتی نظر آتیں۔ اور میں۔ آہ! میں دن رات تمہارے حسن و جمال کی شان میں شعر کہتا۔ اور کہتا رہتا۔ صبح و شام تمہاری صنمیّت کے حضور میں سجدے کرتا اور کرتا رہتا۔ ہماری زندگی ایک نغمہ کی طرح گزرتی۔ ہم اپنے مشترک سازِ حیات پر صنمِ محبّت کی الوہیت کے راگ گاتے۔ خدائی بھرکی فضائیں۔ ہماری پُر سوز ملکوتی لے سے سرشار ہو جاتیں۔ ہوائیں ہماری فردوسی۔ ہماری بہشتی ترانوں سے مدہوش نظر آتیں۔ ہم ایک کیفِ سرمدی۔ ایک نشۂ معنوی میں مست اپنی اِلہامانہ نغمہ سرائیوں میں محو۔ اپنی نغمہ سرائی کی بہشتِ رنگ وبو میں کھوئے رہتے اور بالآخر ہمارا ساز تھک جاتا۔ ہمارے نغمے مدّھم پڑ جاتے۔ تب ہم دو بلبلوں کے آخری راگ کی طرح۔ ایک دوسرے کی ہستی میں گم۔ ایک نامعلوم روحانی سرزمین کی طرف پرواز کر جاتے۔ ایک آخری پرواز۔ مگر۔ مگر۔ ہائے!کیا یہ محض ایک خواب تھا۔؟؟جو میرے بہارستانِ دماغ۔ میرے شعرستانِ شباب کی نگاہوں میں چھلکا اور بالآخر۔ ایک آنسو بن کر ٹپک پڑا؟؟؟

آہ! میں روتا ہوں۔ اپنے نصیبوں کو روتا ہوں۔ اپنی مسرّتوں کو روتا ہوں۔ آج میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ میرا دماغ ویران ہو گیا ہے۔ میرے جذباتِ شباب ذبح ہو گئے ہیں۔ میں رو رہا ہوں۔ اور ہمیشہ روتا رہوں گا۔ آہ!تمہاری محبّت میں مبتلا۔ تمہاری محبت سے محروم۔ ایک نامعلوم وقت تک روتا رہوں گا۔ لو۔ دیکھو۔ میری جان۔ میری سب کچھ۔ یہ ہے میرا اعترافِ محبّت پہلا اور۔ اگر تم نے ستم پیشگی اختیار کر لی تو آخری اعتراف اور اِس کے بعد۔ اب میں تمہیں پہلی مرتبہ بتلانا چاہتا ہوں۔ کہ تم نے اپنے پچھلے خطوں میں میری "بے رحمی"۔ ظلم و تغافل" کی جو جو شکایتیں کی ہیں۔ وہ حقیقت میں خود تمہاری ہی ستمگر ی و جفا پیشگی کی شاہد ہیں۔ آہ!جب کہ میں پہلی مرتبہ اپنے زبان و قلم کو آزاد پاتا ہوں۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں۔ یہ ثابت کرنے کی کہ شروع سے لے کراب تک ایک بھی قصور۔ ایک بھی جُرم ایسا ہے؟جو مجھ سے دانستہ یا نا دانستہ سر زد ہوا ہو؟اور پھر اس کے بعد اگر تم اجازت دو گی۔ تو میں یہ ثابت کروں گا کہ شروع سے لے کر آج تک تم نے جس جس طرح مجھے ستایا ہے۔ جس جس انداز میں میری محبّت کے ساتھ بیدردانہ سلوک کیا ہے۔ جس جس ادا سے میرے جذبات کو ٹھکرایا اور میرے دل کو رنج پہنچایا ہے وہ کس حد تک تمہاری ظلم پیشہ فطرت۔ تمہاری جفا خوگر طبیعت اور تمہارے بے رحم دل کی ستم شعاریوں کے آئینہ دار ہیں۔؟آہ! ایک مظلوم کو ظالم کہنا۔ ایک فریا دیِ تغافل کو "تغافل شعار" لکھنا۔ ایک شکوہ سنجِ بے نیازی کو بے نیازِ محبّت کا خطاب دینا۔ اگر تمہاری شوخیِ ستم کے مذہب میں روا ہے تو کچھ شک نہیں کہ میرے جرائم کی فہرست بے انتہا ہے۔ ورنہ اگر تمہاری محبت۔ منصف مزاج ہے تو میں اپنی متالّم روح کی تمام تر درد مندیوں کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ تم ایک بات بھی ایسی نہیں بتلا سکتیں جو میرے سوز و گدازِ عشق کے دامنِ مریمی کی آلودگی کا باعث ہو:

لو ہم تمہارے سر کی قسم کھائے جاتے ہیں

میں دیکھتا ہوں کہ تم نے اپنے تازہ خط میں بھی (جس کے انتظار میں میرا دل ہی جانتا ہے جس قدر مجھے تکلیف اُٹھانی پڑی) اُسی قسم کا ایک اور نشتر صرف کیا ہے۔ تم نے لکھا ہے کہ میں تمہارے جھوٹ موٹ کے آنسوؤں سے نہیں سچ مچ کے آنسوؤں سے متاثر ہو کر تمہارے خط کا جواب دوں۔ قطع نظر اِس بات کے کہ خدا جانے ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟خط کے جواب میں کون غفلت برتتا ہے؟اور کون نہیں؟مجھے شبہ ہے کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو ہے بھی۔؟آہ!مجھے معاف کرو۔ میری تلخ نوائی کو بخش دو۔ محبت کی مایوسی نے مجھے دیوانہ کر دیا ہے:

رکھیو غالب مجھے اِس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے

ہائے!اگر تمہاری آنکھیں۔ تمہاری غزالیں آنکھیں۔ آنسو پیدا کر سکتیں تو آج میرے دردِ محبت کے نصیب میں سوزِ فراقِ دائمی کی کھٹک کیوں ہوتی۔؟اگر تمہارے آنسو۔ تمہارے "خونِ جگر" سے آشنا ہونا جانتے، تو آج میرے زخمِ جگر کو دوا کا رونا کیوں ہوتا؟ آج مجھے تمہاری بے التفاتیوں کا گِلہ مند کیوں ہونا پڑتا؟وہ آنکھیں جنہوں نے میری ایک نظم کو "حسین" تو سمجھ لیا۔ مگر جن سے اُس نظم کے مقصودِ شعری اور مطلوبِ فکر ی کا جواب نہ دیا گیا۔ آہ!وہ آنکھیں جن کو اپنی جھلک۔ اپنی ہلکی سی جھلک کا نقصان گوارا نہ ہوا۔ میں کیونکر یقین کروں؟ کہ وہ آنکھیں میرے لیے "سچ مچ کے آنسو" ٹپکا سکتی ہیں؟ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اِن آنسوؤں کا راز غالب کے اِس شعر میں پنہاں ہو:

کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے تو بہ
ہائے اُس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا

حکایت ہے یہ کچھ شکایت نہیں

تم نے لکھا ہے کہ تم اِس کے بعد پھر کبھی مجھے اِس قسم کی ناگوار تکلیف نہ دو گی۔ دوسرے الفاظ میں یہ۔ کہ، آئندہ مجھے خط نہ لکھو گی؟ یعنی اب ہمیں ایک دوسرے سے بالکل محروم ہونا چاہئے۔ بہت اچھا۔ یونہی سہی۔ لیکن خدارا میرے اقوال پر عمل پیرا ہونے کا بہانہ تو نہ بناؤ۔ صاف کیوں نہ کہہ دو کہ:

نہیں آپ سے کچھ کام ہمیں
آپ بھیجا نہ کریں عشق کے پیغام ہمیں

دیکھتی ہو۔ میری پیشگوئی کس طرح پُوری ہو رہی ہے؟ حالانکہ میرا وہ خط جسے تم نے "فلسفیانہ" کہا تھا اور جس کے اقوال پر آج تم یوں عمل پیرا ہونے کو آمادہ ہو۔ محض ایک قسم کی شوخی تھی اور اس شوخی میں ایک "پُر راز" مجبورانہ طرزِ عمل پنہاں تھا۔ بہرکیف کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں اُس خط کی شرارت آمیز متانت سے دھوکا کھانے کی کیا ضرورت تھی؟

با ایں ہمہ میں کہتا ہوں کہ اگر تم اِس سلسلہ سے اُکتا گئی ہو اور میری نام نہاد محبت سے تھک گئی ہو تو تمہیں میرے کسی شوخ خط کو متانت سے لبریز دیکھ کر "جدائی" کا بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ تم بغیر لحاظ و مروّت کے نہایت آزادی اور اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کر سکتی ہو کہ تم "آئندہ" مجھ سے نہ "بولو گی۔" گو کہ میرے لئے تمہیں بھول جانا۔ آہ! کوششوں کے باوجود تمہیں بھُلا دینا۔ ممکن نہیں۔ کہ یہ میرے شباب کی آخری بہار کے خوابِ سوگوار ہیں۔ تاہم میں یہ کر سکتا ہوں کہ آئندہ تحریری، تصویری غرض کسی صورت میں بھی تمہارے سامنے نہ آؤں۔ تم مطمئن رہو۔ یہ کوئی دشوار بات نہیں ہے۔ میں اپنی خیالی تاریکیوں کے دامن میں۔ تمہاری محبت کی شمع روشن کروں گا۔ تم سے مہجور۔ تمہاری شیریں یاد کو۔ اپنے نہاں خانۂ افکار میں پرورش کروں گا اور تمہارے فراق میں۔ تمہاری تصویرِ تصوّر کو۔ اپنے سینے سے لگائے رکھوں گا۔ غرض جس طرح گزرے گی، گزار لوں گا اور ہستیِ مستعار کے آخری لمحہ تک گزار لوں گا۔ یوں بھی تمہاری "محبت" کی "رحمدلی" نے مجھ پر ایسی کون سی نوازشیں کی ہیں جن کو یاد کر کے میں کُڑھوں گا۔ ہاں۔ ایک خط و کتابت کی "نصف الملاقات" ضرور تھی۔ تو کیا ہے ع

ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر

اُس ہندو لڑکی(عورت نہیں ) کے معاملہ میں تم نے جو "خفگی" ظاہر کی ہے۔ اُسکی ضرورت نہ تھی۔ میں اوپر کہیں لکھ آیا ہوں کہ طلبِ ہمدردی کی درخواست محض بربنائے شوخی تھی۔ ورنہ وہ تو۔ آج دو سال گزرے کہ الہ آباد" چلی گئیں " غالباً میں براجمان ہوں گی۔ اِس سلسلہ میں تم نے جو شعر لکھّا ہے وہ بھی بیکار ہو جاتا ہے مگر میری زبان سے ادا ہو تو شاید اب بھی بامعنی ہے:

غیروں سے تم ملا کرو، ہم دیکھتے رہیں
حاشا یہ ظُلم ہم سے اُٹھایا نہ جائے گا

آہ! میں کس قدر کوشش کرتا ہوں کہ اِس معاملہ کو بھُلا دوں۔ مگر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اللہ! میں کب تک اِس ذہنی اذیّت۔ اِس قلبی جانکنی میں مبتلا رہوں گا؟تم نے میرا شکریہ ادا کیا ہے کہ میں اُس روز تمہاری خاطر اِس قدر تند بارش اور شدید سردی میں اتنی دور سے چل کر تمہارے حریمِ ناز تک گیا۔ کاش کہ تم جانتیں کہ تمہاری محبت۔ آہ! تمہاری محبت کے جوش میں۔ میں کہاں کہاں پہنچ سکتا تھا۔

بخدائے لا یزال۔ اگر تم تک پہنچنے میں قطبِ جنوبی اور قطبِ شمالی بھی سّدِ راہ ہوتے تو میں اُن کو طے کر لیتا۔ دنیا بھر کے بحر ہائے بیکراں ایک بحرِ عظیم بن کر میرے راستے میں حائل ہوتے تو بھی میں اُن کو عبور کر لیتا۔ ہمالیہ کے برابر برفستانی کُہسار کے ہزا رہا سلسلے بھی اگر مجھے تم تک پہنچنے سے مانع ہوتے تو بھی میں اُن سے گزر جاتا۔ اور اگر طلسمِ ہوشربا بھی اپنی تمام ساحرانہ و سحر کارانہ عظمتوں کے باوجود میرا راستہ روکتا تو میں اُس کوتو ڑ دیتا۔ پھوڑ دیتا اور تم تک پہنچ جاتا۔ کیونکہ تمہاری محبت میری خضِر راہ ہوتی۔ تمہارا شوق میرے پرِ پرواز لگا دیتا۔ تمہارا خیال میرے ارادوں میں ہیجان اور میری اُمیدوں میں طوفان برپا کر دیتا۔ ایسا ہیجان کہ اُس سے جو چیز ٹکراتی پاش پاش ہو جاتی۔ اور ایسا طوفان کہ اُس کے سامنے جو بھی آتا خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا۔ مجھے شرم آتی ہے کہ تم نے اتنی بے حقیقت سی بات کا ذکر کرنا گوارا کیا اور پھر ستم یہ کہ اُسے میری محبت کا ایک بلیغ ثبوت بھی سمجھا۔ حالانکہ تمہارے پرستارِ خیال، تمہارے دیوانۂ محبت کے نزدیک۔ محبت۔ اِس سے کہیں زیادہ بلند اور با عظمت ثبوت چاہا کرتی ہے۔

اب میں علی الترتیب تمہارے سوالات کا جواب دیتا ہوں۔ * "اُن سے" (نظم) بالکل غیر مطبوعہ ہے۔ * وعدہ کے مطابق میں اپنی داستانِ درد ضرور دہراتا مگر مجھے اُس کا موقع کب دیا گیا؟اِس خط میں ضرور ایک بڑا حصّہ آ گیا ہے۔ اور وہ اِس لیے کہ

آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا

باقی حصّہ گو کہ اب "راز" نہیں رہا۔ تاہم ایک راز ہے۔ جسے میرا قلم نہیں۔ میری زبان۔ اور تمہاری نگاہوں سے نہیں تمہارے کانوں سے کہہ سکتی ہے؟مگر کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے؟ ہائے!کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے؟کیا میری محبت کو اب بھی اتنا حق حاصل نہیں؟کہ وہ عمر بھر میں پہلی اور آخری مرتبہ تمہارے چند روحی لمحے طلب کر سکے۔ ہاں۔ یہ پہلی اور آخری التجا ہے۔ کیا اسے شرفِ قبولیت بخشا جا سکتا ہے؟آہ!کیا دلِ شکستہ کی یہ تنہا آرزو بھی کامیاب ہو گی؟کیا محبّتِ ناکام کی۔ یہ ایک تمنّا بھی حرماں نصیب ہی رہے گی۔؟ اُف! کیا تم یہ گوارا کرو گی کہ کسی دیوانۂ محبت کی۔ کسی مجروحِ نظارۂ اوّلیں کی رہی سہی زندگی بھی غارت ہو جائے؟کیا تم یہ پسند کر سکو گی کہ تمہارا بیمارِ فرقت۔ تمہارے ہونٹوں سے تسکین کے دو لفظ سُنے بغیر اِس دُنیا سے گزر جائے۔ مر جائے۔ نہیں۔ نہیں۔ تم یقیناً اتنی بے رحم نہیں ہو۔ تم جو اپنے گمنام ادبی زندگی کے کارناموں میں اکثر جذباتِ رحم کی ترجمانی کرتی رہتی ہو۔ تم یقیناً اتنی بے درد۔ اِس قدر خدا نا ترس نہیں ہو کہ انکار کی ستم آرائیوں سے میرے دل کو مرجھائے ہوئے پھول کی طرح پائے حقارت سے کچل دو اور اسے موتوں اور ہلاکتوں کے رحم پر چھوڑ دو۔ میں تمہیں مجبور نہیں کرتا۔ صرف اپنی محبت کا حق طلب کرتا ہوں۔ کیا تم مجھے میرے اِس حق سے محروم رکھو گی؟ میں تمہارا احترام کرتا ہوں۔ تمہاری محبت کا۔ تمہاری حرمت و عفّت کا۔ تمہاری نازک حیثیت کا۔ تہِ دل سے احترام کرتا ہوں لیکن اُس کے باوجود میرے جذباتِ بے قرار۔ میرے حسّیاتِ بے اختیار کا تقاضا ہے کہ میں۔ میں تم سے اپنی اِس آرزو کا اظہار کروں:

مری اِس سادگی پر رحم کھانا
کہ تم سے آرزوئے دل بیاں کی

میں نے آج تک ضبط کیا۔ محبت کے راز کو۔ جدائی کے صدمہ کو۔ آرزوئے ملاقات کو اور تمہاری آئندہ زندگی کے قبل از وقت رشک کو بھی۔ غرض بیسیوں تلخ و جانگداز مصائب کو ضبط کیا۔ مگر اب ضبط کا دامن ہاتھ سے چھُوٹا چاہتا ہے۔ اب میں ضبط نہیں کر سکتا۔ آہ!اب مجھ سے ضبط نہیں ہو سکے گا۔ دیکھنا میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔ میں مر جاؤں گا۔ چند لمحے۔ اتنی مہلت۔ آہ! بس اتنی مہلت کہ میں تمہارے قدموں سے اپنی آنسو بھری آنکھیں مَل کر۔ اپنے دل کو تسکین دے سکوں۔ اور بس۔ تمام زندگی کا حاصل۔ تمام عمر کا خلاصہ۔ تمام آرزوؤں کی روح یہ اور صرف یہ ہے۔ ایک ماہیِ بے آب۔ آغوشِ بحر تک پہنچنے کی کس درجہ تمنّائی ہوتی ہے؟ایک سازِ شکستہ کی تار۔ صدائے نغمہ سے بغل گیر ہونے کی کس قدر آرزو مند ہوتی ہے؟

ایک ظلمت خانۂ یاس۔ چراغِ اُمید کی شعاعوں کا کس بے تابی سے منتظر رہتا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر تم نے غور کرنا ہے اور نہایت ہی ہمدردی اور رحمدلی کے ساتھ غور کرنا ہے۔

میں انتظار کر سکتا ہوں۔ وعدۂ ملاقات کی لذّتوں میں محو۔ مسرّتِ ملاقات کا انتظار کر سکتا ہوں۔ مدّتوں انتظار کر سکتا ہوں۔ اِس اُمید پر جی سکتا ہوں۔ کاش۔ کہ تم وعدہ تو کرو۔ مگر ہائے۔ تم تو مجھے تسلّی بھی نہیں دیتیں۔ تمہاری زبان سے تو تسکین کے دو حرف بھی نہیں نکلتے۔ آہ!تقدیر۔ آہ!نصیب۔

اس کا جواب بھی ملاقات پر اُٹھا رکھو۔

مجھے یقین تھا کہ یہ دونوں پرچے تمہاری نظر سے ضرور گزرے ہوں گے کیونکہ تمہارے گمنام خطوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ اُردو کے تمام بہترین رسالے تمہارے پاس آتے ہیں۔

تمہاری "بے غرض" اور "غیر فانی" محبت پر یقین ہو بھی تو کیا فائدہ؟اب تو میں اُس منزل میں ہوں جو اِن باتوں سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ اب زخم خوردہ میں ہوں۔ اور تم زخمی کی لذّتوں کی مرکزِ توجّہ تو صرف وہ خلش ہے جو زخم کے ساتھ ہی اُس کے سینے میں تیر جاتی ہے۔ اِس عریضہ میں تمام مقامات پر میں نے تمہیں آپ کی جگہ تم لکھا ہے۔ محض اِس لیے کہ مجھے یہ آپ سے زیادہ اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اگر ناگوار گزرے تو معاف کر دینا۔

لو۔ میرا عریضہ آخری منزل میں ہے۔ قلمِ حسرت رقم نے اپنا ماتم ادا کر دیا۔ زبانِ نالہ بیان اپنی داستانِ درد سُنا چکی۔ دلِ درد مند اپنے پارہ ہائے خونیں کی نمائش سے فارغ ہو چُکا۔ آنکھیں اپنے فریضۂ خوں باری سے عہدہ بر آہو گئیں۔ روحِ بیقرار اپنے ماتم کی شرح سوز و ساز پیش کر چکی۔ جذباتِ حزیں نے اپنی ہلاکتوں کے افسانے دہرا دیے۔ حسرت و تمنّا کو اپنے شیون کے اظہار کا موقع مل گیا۔ اُمید و آرزو اپنے قتل و ذبح کی سفاکانہ تاریخ کے مناظر دِکھلا چکیں۔ شبابِ سوختہ اپنی سوگواریوں اپنی ماتم گساریوں کے نقوشِ حسرت ثبت کر چکا۔ محبّت نے اپنی دردمندانہ محشر ستانیوں کا مظاہرہ کر لیا۔ عشق اپنی غمناک حُزنیہ سُنا چکا اور سب سے آخر میں۔ آہ! میں رو چکا۔ اپنے آپ کو۔ اپنے دل کو۔ اپنے دماغ کو۔ اپنے نصیبوں کو رو چُکا۔ اور رو چُکا۔ آہ:

عرفی اگر بہ گریہ میسّر شدے وصال
صد سال می تواں بہ تمناّ گر یستن

صبح ہونے کو ہے۔ مرغِ سحر کی آواز گونج رہی ہے۔ فضائیں۔ اُس نغمۂ صبح گاہی سے لبریز ہیں۔ میری بے خواب آنکھوں میں ایک مستی کی سی کیفیت چھا رہی ہے۔ سیاہی بہت پھیکی نظر ٍآ رہی ہے۔ الغرض عجیب سوز و گداز کا سامان ہے۔ مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ دعا کے لئے یہ وقتِ خاص ہے۔ اِس لئے۔ میری درد آشنا روح۔ ہاتھ اُٹھا۔ اور قیس عامری کی ہم زبان ہو کر خدائے حُسن و عشق سے دعا مانگ۔

"الٰہی میں جس خلش میں مبتلا ہوں وہ کبھی کم نہ ہو"۔

والسلام

تمہارا (اب بھی) کوکب