آداب، میرا پہلا عریضہ اُمید ہے کہ شرفِ باریابی حاصل کر چکا ہو گا۔ اگر جواب دینے کا ارادہ ہو تو براہِ کرم 21 جنوری کی بجائے 23 جنوری بروز پیر گیارہ بجے دن کے قریب تشریف لایئے گا۔

اطلاعاً عرض ہے۔

ہاں، اگر ہو سکے تو آج یا کل ویسے ہی آ جائیے، نوازش ہو گی، نوازش اِس لئے کہ میں آپ کی تشریف آوری کو رسیدِ خط کی خاموش اطلاع سمجھ کر مطمئن ہو جاؤں گی۔

والسّلام

(نظر ثانی کے وقت قلم زد کیا گیا) (کوکب)

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے، پر نہیں آتی

کوکب۔ میرے۔ کوکب۔ میری زندگیِ حزیں کے سہارے۔ میرے دلفروز خواب میرے دل کے۔ میری روح کے مالک۔ تنہا مالک۔ حوصلہ کرو۔ گھبراؤ مت۔ تسلّی رکھو۔ کہ سلمیٰ۔ تمہاری اپنی سلمیٰ۔ تم سے ملے گی۔ ضرور ملے گی اور بہت جلد ملے گی۔

کیے جائیں گے ہم تدبیر اُس ظالم سے ملنے کی
کرے گی دشمنی کب تک یو نہی تقدیر دیکھیں تو

مگر اَب۔ میں پوچھتی ہوں۔ کہ اب ملاقات سے کیا حاصل؟ ہائے۔ اِس عارضی ملاقات سے کیا فائدہ؟ کچھ بھی نہیں۔ سوائے اِس کے کہ

اور بھی بڑھ جائے گا دردِ فراق

بہرکیف۔ میں کوشش کروں گی۔ میری تمناّؤں کے (اب بھی ) روشن ترین ستارے، میری آرزوؤں کے درخشاں آفتاب۔ میں تم سے ملنے کی۔ پہلی اور آخری مرتبہ ملنے کی کوشش کروں گی۔ اِس لئے۔ ہاں، صرف اِس خیال سے کہ ہم با دِلِ بریاں و چشمِ گریاں ہمیشہ کے لئے۔ آہ!قیامت تک کے لئے۔ ایک دوسرے سے رخصت ہولیں۔ جُدا ہولیں۔

فنا ہے کیسی، بقا کہاں کی؟ مجھے تو رہتا ہے ہجر کا غم
جو وصل ممکن ہے جان دے کر، تو جان تم پر فدا کرونگی

پرسوں 27 جنوری جُمعہ کے دن ٹھیک ایک بجے شب کو۔ میں آپ کی قدم بوسی کے اِشتیاق میں مضطرب و بیتاب ہوں گی سردی میں تکلیف تو ہو گی۔ خصوصاً اِس لئے بھی کہ آپ کو ایک طویل سبزہ زار طے کرنا پڑے گا۔ مگر مہربانی کر کے مقررّہ وقت سے ذرا پہلے ہی تشریف لے آئیے گا۔ احاطہ میں شمال رویہ دروازے کی طرف سے داخل ہو جئے گا تاکہ ہمارا چوکیدار آپ کا خیر مقدم نہ کرے۔ جہاں۔ آپ کو وہ دروازہ نظر آئے گا جس کے سُرخ شیشہ کے کواڑوں سے آپ نے اکثر رات کو شہابی رنگ کی روشنی چھنتی ہوئی دیکھی ہو گی۔ ہاں۔ ذرا کتّوں سے احتیاط رکھئے گا جب میں دروازہ کھولوں۔ تو آپ آہستہ آواز میں یہ الفاظ ضرور دُہرائیں کہ "میں موجود ہوں۔" مگر دیکھئے کہیں یہ نہ ہو کہ میں تو یہاں انتظار کی کرب آفرینیوں میں مبتلا صبح تک چشم براہ کھڑی رہوں اور حضور وہاں خوابِ نوشیں پر طبع آزمائی فرماتے رہیں۔

میری عمر کے اِن 16 سال میں یقین جانئے کہ یہ سب سے پہلی مرتبہ، سب سے پہلا اتفاق ہے۔ کہ میں آپ سے۔ اور صرف آپ سے۔ ملنے کا وعدہ کر رہی ہوں۔ اِس حال میں کہ "ناجائز ملاقات" کے لئے میرا ضمیر مجھ پر لعنت کر رہا ہے اور میں ندامت و انفعال کے ایک بحرِ بے پایاں میں غوطہ زن۔ مگر با ایں ہمہ۔ آپ کو یقین کرنا چاہئے کہ میں اِس کش مکش انگیز حالت میں بھی اپنی اور آپ کی ایک طویل عرصہ کی بے تاب آرزوؤں۔ بے صبر ارمانوں اور بے قرار حسرتوں کی خاطر۔ اپنے ایفائے عہد میں ثابت قدم رہوں گی۔ انشاءاللہ۔

آپ کے اِس مفصّل خط کو۔ خط کی بجائے اگر ایک افسانۂ درد و غم۔ ایک داستانِ حسرت و الم۔ سوز و گُداز کا رقیق ترین نغمہ، سازِ عشق کا ایک نالۂ حزیں۔ خارستانِ اضطراب کا ایک خارِ خلش افزا سوز و گُداز کی روحِ بے تاب کہوں تو میری رائے میں زیادہ موزوں ہو گا۔

کوکب صاحب۔ ہائے۔ میں کس دل سے کہوں؟ کہ ایک آپ ہی کی زندگی تلخ نہیں ہو رہی بلکہ اُس سے کہیں زیادہ۔ اُس سے کہیں بڑھ کر، میری جان۔ ہائے میری ناتواں جان۔ عذاب میں۔ عذابِ الیم میں گرفتار ہے۔ مصائب و آلام کے بلا خیز طوفان میں گھری ہوئی ہے۔ جہنمِ ارضی میں پڑی سلگ رہی ہے۔ جل رہی ہے۔ آہ!ہمیشہ کے لئے۔ ہائے تمام عمر کے لئے۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے۔ کہ اِن تمام تر ناگواریوں کے بانی۔ اِن تمام تر تلخ کامیوں کے موجب آپ خود ہیں۔ ہاں۔ آپ۔ کیوں؟ اِس لئے کہ آپ اگر چاہتے۔ آہ! اگر آپ کی خواہش ہوتی۔ آپ اگر اِک ذرا سی بھی کوشش کرتے تو میں آپ کو مل جاتی۔ یا دوسرے الفاظ میں آپ مجھے پا لیتے۔ آہ!نہایت آسانی کے ساتھ پا سکتے تھے۔ مگر آپ نے تو لیکن میں بے وقوف ہوں۔ اب بھلا اِن باتوں۔ آہ!اِن گئی گزری باتوں کی یاد میں۔ دل کو نشتر کدۂ غم اور سینہ کو غمکدۂ یاس بنانے سے کیا فائدہ؟کیا حاصل؟دل کی دنیا برباد ہونی تھی۔ سو ہو گئی۔ آرزوؤں کا۔ جوانمرگ آرزوؤں کا جنازہ نکلنا تھا۔ سو نکل گیا۔ شربتِ وصل کی بجائے۔ زہرِ ہلاہل کا جام پینا تھا سو پی لیا۔ اور سب سے آخر میں یہ کہ روزِ ازل کی کافر ساعتوں میں جو کچھ قسمت میں لکھا گیا تھا۔ وہ پُورا ہوا۔ وہ مل گیا۔ آہ! مل چکا۔ اب شکوے، شکایتیں عبث ہیں۔ بے سود ہیں۔ لاحاصل ہیں۔ آہ!

جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گِلہ کرے کوئی

والسّلام

راقمہ

ایک بیزارِ زیست

خط کا جواب کبھی پھر

(دوسری طرف) "کیا اب کے بھی آپ اِس "ضروری خط" کی رسید سے مطلع فرما سکتے ہیں"۔