26 جنوری

ایک خط۔ ہاں۔ ایک حسین و دلآویز خط۔ میرے لرزتے ہوئے ہاتھوں میں لرز رہا ہے۔ اور میں محسوس کر رہا ہوں کہ آج دنیا میں مجھ سے زیادہ مسرور و دلشاد ہستی کوئی نہیں۔ میں آپ ہی مسکرا رہا ہوں، اور بے اختیار مسکرا رہا ہوں۔ دل و دماغ پر ایک سیلِ نشہ محیط ہے۔ ایک ایسا نشہ جسے دل و دماغ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔

یہ میری سلمیٰ کا خط ہے۔ اور میرے پہلے طویل خط کا جواب۔ آہ! سلمیٰ۔ سلمیٰ بالآخر تیرے تاثرات مجھ پر مہربان ہو گئے۔ بالآخر تُو نے اپنے جذبات میں ایک ہمدردی کا، رحمدلی کا ہیجان محسوس کیا اور تُو آمادہ ہو گئی کہ اپنے ناکامِ محبت کو،۔ ناکامیِ مطلق کی تکلیف سے بچا لے، آ۔ میری جان۔ میں تیرے نازک دل کو۔ تیرے نازک دل کے نازک جذبات کو پیار کر لوں۔ تیری معصوم و پاک روح کے معصوم و پاک حسّیات کو سجدے کر لوں۔

27 جنوری

(صبح )ابھی۔ ابھی "ن" اور "ک" نے سلمیٰ کا خط پڑھا ہے دونوں اُس کی طرزِ تحریر کی رِقّت اور اندازِ بیان کی تاثیر سے متاثر ہیں۔ تاہم اِس غیر متوقع مسرّت پر مجھے چھیڑ رہے ہیں۔ اُن کا، اُن کی ظاہر بین اور سطح پرست ذہنیتوں کا خیال ہے کہ میں سلمیٰ کی جسمانی رعنائیوں سے بھی لُطف اُٹھا سکوں گا۔ اُٹھاؤں گا؟مگر وہ نہیں جانتے کہ اب اُن پر میرا کوئی حق نہیں۔ میں نے تہیّہ کر لیا ہے کہ میں اُس کی بیرونی رنگینیوں کو نہیں گُدگُداؤں گا۔ اُس کے پیکرِ حُسن کی ظاہری سحر کاریوں کو نہیں چھیڑوں گا، بلکہ اُس کی معنوی لطافتوں، اُس کی روحی نزاکتوں کو پیار کروں گا، اور جی بھرکے کروں گا۔

محبت، حقیقتاً جذباتِ شباب کی دراز دستیوں سے بلند، ایک غیر مرئی احساس ہے۔ ایک ملکوتی جذبہ ہے۔ ایک فردوسی شگفتگی ہے۔ ایک آسمانی نغمہ ہے جو کبھی نفسانی اغراض کے پیکر میں نہیں سماتا۔ نہیں سما سکتا۔ الحمد لہھ۔ کہ میرا دل مطمئن ہے۔ میری روح۔ ایک معصوم بچے کی طرح شاد۔ ایک نو شگفتہ کلی کی طرح شاداب ہے اور میرے جذبات پُر سکون۔ ایک ملکوتی خواب کی طرح پُر سکون۔ سلمیٰ کی معصومیت۔ آہ! اُس کی معصوم رعنائی یوسف کا دامن نہیں بن سکتی۔ میرے شباب کے طوفانی ولولے زلیخا کا ہاتھ نہیں بنیں گے۔ فرشتوں کے تقدّس کی۔ حُوروں کی پارسائی کی۔ کلیوں کی معصومیت کی۔ نغموں کی دوشیزگی کی۔ بچوں کی مسکراہٹ کی قسم۔ مجھے اُس کا بھُول کر بھی خیال نہیں آیا؟