بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں
ہم تو سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
میری غنچہ لب
پیار
بوصلِ یار رسا ندیم راو حیرانم
کہ ایں بکا ر تو ای آسماں نمی ماند

27 جنوری کی رات کا خوابِ شیریں ابھی تک میری نگاہوں پر محیط ہے۔ آہ!میری جان تم نے مجھے کیا کر دیا ہے؟ کہ اب تمہارے سوا کسی شے کا ہوش نہیں۔ تم نے مجھے کون سی شراب پلا دی جس کا نشہ دل و دماغ پر چھائے جاتا ہے۔ ہائے مجھے تم نے کس منزل میں پہنچا دیا؟ کس وادیِ حیرت سے دوچار کر دیا؟ جہاں نہ دنیا کی خبر ہے نہ مافیہا کا نشان۔ تمہاری ہم آغوشی کی خالص بہشتی لذّتوں میں چُور ہونے کے بعد اب میں محسوس کرتا ہوں کہ تم سچ کہتی تھیں۔

اور بھی بڑھ جائے گا درد فراق

ہائے یہ حالت کہ

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں ( میں کیسے باور کروں؟)
ہم تو سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

میں اِن بے تابیوں کا ذکر کس زبان سے کروں؟ کیا بتاؤں۔ درجہ بے کسی کے ساتھ سوچتا ہوں؟ کہ اُس رات جو موجِ رنگ و بُو میرے سر سے گزری کہیں وہ کوئی پُر فریب خواب نہ ہو۔ مگر میرے گستاخ ہونٹوں کی حلاوت۔ وہ حلاوت جو اُنہوں نے تمہارے گلاب کی سی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں سے چھینی تھی۔ مجھے کہتی ہے کہ یہ خواب نہ تھا۔ اُس غیر متوقع مسرّت کے نشوں میں سرشار ہو جانے والی نگاہیں۔ مجھے ڈراتی ہیں۔ کہ کہیں اِنہوں نے اُس رات دھوکا نہ کھایا ہو۔ مگر تمہارے مُشک آگیں دامن اور عنبر افشاں گیسوؤں کی مستانہ مہک۔ آہ! وہ مہک جو میرا دماغ تمہارے کمرے سے چُرا لایا تھا۔ مجھے یقین دلاتی ہے کہ یہ دھوکا نہ تھا۔ اُف!اگر یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ میرے اللہ یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ تو میں کیا کرتا؟ میں دیوانہ ہو جاتا۔ میں مر جاتا۔ اب اتنا تو ہے کہ وہ اِک خوابِ پریشاں کا۔ ایک فریبِ رنگ وبُو کا گمان ہی سہی۔ مگر میرے بیتاب دل۔ میری بے قرار روح کے لئے۔ ایک سہارا۔ اِک تسکین۔ ایک اُمید تو موجود ہے۔ کیا کہوں میں کتنی مرتبہ آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ اور اپنے تصوّر سے کہتا ہوں۔ کہ مجھے اِک ذرا پھر وہی نقشہ۔ وہی فردوسی نقشہ دکھا دو۔ آہ!یہ خواب اگر خواب ہے تو بھی خدا کرے کہ میں ہر وقت ایسے خوابوں میں کھویا رہوں۔ ہر لمحہ ایسے ہی خواب دیکھتا رہوں۔ جب تک میری پیاری جان۔ میری شیریں روح۔ ( کتنا حسین خطاب ہے )تمہارا خط نہیں آ جاتا، میں اضطرابِ شوق سے خیالات کی لا انتہا، لامحدود فضاؤں میں تمہارے تصوّر کی ہزاروں دھُندلی دھُندلی بہشتیں تیار کر لیتا ہوں گویا تم مجھے خط لکھ رہی ہو۔ میں تمہیں چپ چاپ اِک طرف کھڑا ہو کر دیکھتا ہوں۔ اور دیکھتا رہتا ہوں۔ ہائے میں کیونکر کہوں؟ کہ میں تمہیں کس کس رنگ میں۔ کس کس عالم میں۔ کس کس طرح دیکھتا ہوں؟ کس درجہ حسرت کے ساتھ۔ کس درجہ بے تابانہ اُمیدوں سے۔ کتنی دلگداز مگر پھر بھی۔ خوشگوار تمنّاؤں کے عالم میں دیکھتا ہوں۔ اِس حال میں کہ اِک ہلکی سی مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر ہوتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کبھی تمہاری نگاہیں۔ تمہاری نشہ باز نگاہیں، شرما جاتی ہیں۔ جھُک جاتی ہیں اور کبھی تمہارے پری وش ہونٹوں پر۔ اِک معصوم کلی کا سا تبسّم۔ اِک شگفتہ تبسّم لہرانے لگتا ہے۔ الغرض اُس وقت کے وہ جذبات جو تم اپنے خط میں منتقل کر دینا چاہتی ہو۔ تمہارے قلم سے۔ الفاظ کے رنگ میں بے حجاب ہونے سے پہلے تمہارے ملکُوتی بُشرے سے جھلک پڑتے ہیں۔ اور میں۔ مری معبودِ افکار۔ میری فدائے اشعار۔ میں تمہیں۔ تمہارے اِس حشر طراز عالم کو مزے لے لے کر دیکھتا ہوں۔ ہائے کیا کبھی تم نے بھی اِس حالت میں مجھے اپنے پاس محسوس کیا ہے؟ اگر نہیں تو میں التجا کروں گا، کہ ایسا نہ کرنا، ورنہ پھر تمہاری حیا سامانی۔ تمہارے جذبات کو بے تکلّفی سے ادا نہ کر سکے گی۔

انتظار کی قیامت آفرین مدّت سے گھبرا کر تمہیں اِتنا خط لکھ چُکا تھا کہ تمہارا خط پہنچا۔ اُن ہاتھوں کے نثار جنہوں نے یہ تکلیف گوارا کی، اُس قلم پر قربان۔ جس نے تمہاری شیریں اور معصوم روح کا پیغام۔ میری گنہگار روح تک پہنچایا۔ اُس نامہ بر کے صدقے جس نے یہ خط لا کر مجھے دیا۔ ذرا مجھے اجازت دو کہ قلم ہاتھ سے رکھ دوں اور پہلے تمہارا خط پڑھ لوں۔ (سبحان اللہ اِس لفّاظی کے قربان )

تمہارا خط میں نے پڑھ لیا۔ اور دل تھام کر پڑھ لیا۔ اور اب میرے خیالات میں مطلقاً ہمّت نہیں کہ آ گے کچھ لکھ سکوں۔ تم نے اِس خط میں تین مطالبے کئے ہیں۔

  • تمہارے خطوط واپس کر دوں کیونکہ یہ تمہارے ناموس کی رسوائی ہے۔
  • فسانہ میں خطوط شائع نہ کروں۔ (تو کیا رسوائی نہیں؟)
  • آئندہ کے لئے ملاقات کی آرزو ظاہر نہ کروں۔

اِن تینوں مطالبوں کو ایک ساتھ ملا کر استخراجِ نتائج کا فیصلہ یہ ٹھہرتا ہے کہ محبت سے تھک جانے کا جو اندیشہ تمہیں مجھ سے ہے۔ اُس پر عمل در آمد تمہاری جانب سے ہو رہا ہے۔ یا صاف الفاظ میں یہ کہ اب میں تمہارے پیار سے قطعی مایوس ہو جاؤں۔ معاملہ یہ ہے۔ تو تمہی انصاف کرو۔ میرے قلق و اندوہ کی کیا حالت ہو گی؟ آہ!تم مجھے مایوس کر رہی ہو کہ ٢٧- جنوری کی رات اور اس کی بہشت سامانی اب پھر کبھی نصیب نہ ہو گی۔ ہائے وہ رات۔ وہ نکہتِ بے قرار۔ وہ تبسّمِ بے اختیار۔ اب کبھی میرے ہاتھ نہ آئے گی۔ وہ سیلِ نشہ و نور۔ وہ طوفانِ سُکر و سُرور اب کبھی مجھے نہیں ملے گی؟اُس موجِ عیش و نشاط۔ اُس برقِ رنگ و بو کو اَب کبھی نہ پا سکوں گا۔ اُف!تم نے تو مجھے اُمید دلائی تھی۔ کہ میں آئندہ بھی تمہاری ماہ پیکر ہستی کی رنگینیوں کو گُدگُدا سکوں گا۔ میں پھر بھی تمہاری بہار تمثال شخصیت کی رعنائیوں کو پیار کر سکوں گا۔ (تو بہ اِس قدر مبالغہ آمیزی) پھر یہ کیا بیدردی ہے کہ اب تم مجھے اس طرح نا اُمید کر رہی ہو۔ میں نے کہا تھا۔ آج "ایک شاعر کا انجام" پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا مگر اُس کا یہ مطلب کس کافر کو معلوم تھا؟ کہ وہ ملاقات۔ آخری ملاقات ہو گی۔ اور اگر تم اِس پر آمادہ ہو۔ تو مجھے کہنا چاہئے۔ کہ ابھی اِس افسانہ کا آخری باب باقی ہے۔ اور اس کا عنوان "جوانمرگ" ہو گا۔ جسے میرے بعد تمہارا قلم مکمّل کرے گا۔ (خدا نہ کرے۔ خدا نہ کرے )میری بدنصیبی۔ کہ بے خودیِ وصل کی تشنہ طرازیوں نے مجھے اُس رات گونگا کر دیا تھا۔ یقین ماننا کہ جس قدر باتیں سوچ کر گیا تھا۔ اُس کا ہزارواں حصّہ بھی تمہارے حضور میں بیان نہ کر سکا۔ اور اس لحاظ سے ملاقات ہوئی نہ ہوئی۔ برابر ہے۔

شاید تم مجھے نا شکرگزار کہو۔ حالانکہ میں احسان فراموشی کا عا دی نہیں ہوں۔ مجھ سے کُفرانِ محبت کا گناہ کبھی سرزد نہ ہو گا۔ مگر تمہارے احسانات کی بے پایانی کا شکرگزار ہوتے ہوئے بھی، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں۔ کہ میں تم سے ایک بھی بات نہ کر سکا۔ ہائے داغ مرحوم۔

یاد سب کچھ ہیں مجھے، ہجر کے صدمے ظالم(خیر کبھی پھر سہی)
بھول جاتا ہوں مگر دیکھ کے صورت تیری(لکھ کے کاٹا گیا ہے)

آہ! میں جس دن سے ڈرتا تھا۔ جس وقت کے تصوّر سے لرز جاتا تھا۔ آخر کار وہی سامنے آیا۔ میں نے تمہیں لکھ دیا تھا کہ مظلوموں کی داستانِ مجبوری سے آگاہ ہونے کے بعد تم جتنا جی چاہے۔ ظلم کرو۔ ہمارے مُنہ سے "اُف" نکل جائے تو کہنا۔ اب بھی اُسی کو دُہراتا ہوں۔

سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے (کیوں نہ ہو)

تمہیں بلکہ۔ آپ کو اُس بد دُعا پر جو میری نئی زندگی کی حالت میں مجھے دی تھی نادم ہو کر معافی چاہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اب اِس اعتراف سے میری بدنصیبیوں کے زخم اچھے نہیں ہو سکتے۔ البتہ آپ کو اِس امر کا اعتراف ضرور کرنا پڑے گا کہ میری محرومی کی بلا شرکتِ غیرے ذمہ دار آپ اور صرف آپ ہیں۔ نیز اِس کا اقرار بھی کہ آپ نے اپنے پچھلے خط میں جو میری اِس محرومی کا ذمّہ دار مجھے ٹھہرایا تھا۔ یہ بھی آپ کی زیادتی تھی۔ (بلکہ زیادتی آپ کر رہے ہیں )

"ایک شاعر کا انجام" بھی آپ کو اپنی رسوائی کا موجب نظر آتا ہے۔ کاش کہ اِس سے پہلے آپ اُس کو مکمّل ہونے دیتیں اور دیکھنے کے بعد رائے قائم کرتیں۔ بہر کیف۔ اب میں اِس پر اصرار نہیں کروں گا۔ کیونکہ میں آپ کی غزالیں نگاہوں کو برہم دیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے اِس برہمی کا احترام کرنا ہے۔ بنا بریں میں بالکل آمادہ ہوں کہ شاعر کا انجام شاعر کی آرزوؤں کے انجام کی طرح اِس دُنیا سے ناپید ہو جائے اور آپ دیکھ لیں گی کہ ایسا ہی ہو گا۔ میں آپ کی خاطر اپنے اِس واحد کارنامۂ زندگی سے بھی محروم رہنا گوارا کروں گا۔ میں یہ قربانی بھی کروں گا کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے۔ کیونکہ میں تمہیں سچ مچ پیار کرتا ہوں۔ "

(پشت پر "مجھے تم سے محبت ہے!کیونکہ میں تمہیں سچ مچ پیار کرتا ہوں۔" آہ! کس قدر جانفزا روح پرور الفاظ ہیں کاش کہ مجھے اِن پر یقین ہوتا۔ ہو سکتا۔ 21 فروری)

"میں آپ کے خطوط بھی واپس کر دوں "۔ مگر کیوں؟ میں اِس کا کوئی جواز نہیں پاتا۔ میرے خطوط بھی آپ اِسی شرط پر واپس فرمائیں گی؟ خوب! تبادلہ تو معقول ہے! مگر اِس "بنئے پن" کے سودے کا مجھ سے کیا تعلّق؟

(حاشیہ: اِس سے یہ تعلّق ہے۔ کہ پہلے آپ نے ہی اپنے خطوط طلب فرمائے تھے!)

شرمندہ ایم فیضی زیں بے خودی کہ ناگہ
دیوانگیِ مارادہدآں پری وش امشب

میرا خیال ہے۔ کہ آپ مجھ سے کچھ بدگمان یا خفا ہو گئی ہیں۔ خفگی کی تو میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا۔ سوائے اِس کے کہ اُس رات، میرے "ہونٹوں " نے دو ایک گستاخیاں کرنے کی جسارت ضرور کی تھی!اگر یہ بات ہے تو، میں آپ سے ہزار بار معافی چاہتا ہوں!اور آئندہ ملاقات میں آپ دیکھ لیں گی کہ میں اِس معاملہ میں کس قدر ضبط کر سکتا ہوں۔؟مجھے تسلیم ہے۔ کہ مجھے اُن گستاخیوں کا!آہ!اُن ہلکی سی گستاخیوں کا بھی، جو دنیائے محبت میں عام ہیں! کوئی حق نہ تھا!لیکن اگر میں یہ کہوں۔ کہ میں نے "فضا" کی "جذبات انگیز" حالت کے باوجود اِس سے آگے بڑھنے کی جرات نہ کی۔ تو کیا آپ میری محبت کی۔ میری محبت کی معصومیت کی۔ اُس کی ملکوتی اور مقدّس حیثیت کی داد نہیں دیں گی؟ (کیوں نہیں )اور کیا اب بھی مجھ سے شکایت ہو گی۔ کہ مجھے آپ کے ناموس کا پاس نہیں؟

(پشت پر: میں نے تو پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ آپ انسان نہیں۔ ایک "دیوتا ہیں۔ اور آپ کی اِسی دیویت کی شان نے مجھے خرید لیا ہے! سلمیٰ 21 فروری)

رہی میری خطوط کی واپسی کی شرط۔ تو میں عرض کروں گا۔ کہ میں نے وہ خطوط ناول کے لئے طلب کئے تھے۔ اب وہ نہیں۔

آں قدح بشکست آں ساقی نماند

اِس لئے اب مجھے اُن کی ضرورت نہیں۔ تاہم میں آپ کو یہ بتلا دوں۔ کہ اگر میں چاہوں تو اِن خطوط کو از سرِ نو لکھ سکتا ہوں اور اب نہیں پچاس سال کے بعد بھی لکھ سکتا ہوں کیونکہ یہ بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ لیکن میں آپ کو برہم کرنا نہیں چاہتا۔ یہاں مجھے صاف صاف لکھ دینا چاہئے ‘کہ آپ کے بے جا اندیشۂ رسوائی۔ مایوسیِ ملاقات اور طلبِ خطوط نے مجھے بہت دکھ پہنچایا ہے۔ اتنا کہ نہ مجھ میں خط لکھنے کی ہمّت ہے۔ اور نہ جوابی اُمور پر غور کرنے کی اہلیت۔ خدا ہی جانتا ہے۔ یہ عریضہ کس قدر کشمکشِ خیالات کے ساتھ لکھا ہے جس کا قدم قدم پر ثبوت ملے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے جذبات کا گلا گھونٹ دیا ہے اور قلم کی زبان کا ٹ لی ہے۔ لکھتا کچھ ہوں لکھا کچھ جاتا ہے۔ اِس کا الزام بھی آپ حسبِ عادت مجھی کو دیں گی۔ مگر اِس میں میرا قصُور نہیں۔

بس اب جاؤ تم سے خفا ہو گئے ہم

(ہائے ہائے ایسا غضب نہ ڈھائیے گا ور نہ ہم کہیں کے نہ رہیں گے )

آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ اب میں آپ سے ملنے کی آرزو نہیں کروں گا؟مگر کیوں؟ میں پوچھتا ہوں۔ کہ آپ کو میری آرزوؤں پریہ بندش عائد کرنے کا کیا حق ہے؟آپ صرف حکم دے سکتی ہیں۔ اور میں تعمیل کرنا جانتا ہوں۔ یہ کیا ستم ہے۔ کہ کوئی آرزو بھی نہ کرے۔ میری آرزو۔ ہاں۔ میری آرزو آزاد ہے۔ وہ کیونکر اور کس طرح تمہاری ملاقات کے خیال سے محروم ہو سکتی ہے؟ آپ نے لکھا ہے۔ کہ اگر میں نے جوابِ صاف لکھ بھیجا۔ تو خدانخواستہ آپ زندہ نہ رہنے پائیں گی۔ کیا خوب!یہ اچھی ستم ظریفی ہے۔ کہ خود مجھے جوابِ صاف دیا جا رہا ہے۔ اور مجھ سے جوابِ صاف لینے کا اندیشہ کیا جا رہا ہے۔

مُکر جانے کا قاتل نے نرالا ڈھنگ نکالا ہے
ہر اِک سے پوچھتا ہے اِس کو کس نے مار ڈالا ہے

حاشیہ:

خدا جانے محبت کر کے آپس میں گلہ کیوں ہے؟
تجھے شکوہ مرا کیوں ہے، مجھے شکوہ ترا کیوں ہے؟

بس اب آگے نہیں لکھا جاتا!(تو نہ لکھئے ) آنکھوں کے آ گے اندھیرا چھا رہا ہے۔ اور دماغ کو کوئی کُچلے ڈالتا ہے۔

لہٰذا خدا حافظ۔

آپ کے مضمون کی اصلاح (اصلاح؟) کے بارے میں اگلے خط میں کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ سرِ دست آپ کے نوشتہ شعر میں ایک "نازک" اصلاح کئے دیتا ہوں۔ اُمید ہے کہ قبول ہو گی

مرے دل میں تصوّر ہے شبستانِ ثریاّ کا
خدا آباد رکھے کس قدر روشن مرا گھر ہے

(نوٹ: اِس خط پر جو بریکٹ میں ریمارکس نظر آتے ہیں۔ وہ بعدِ مطالعہ سلمیٰ نے قائم کئے ہیں یہاں اُن کو بھی نقل کر دیا گیا ہے۔ )