میری ڈائری کا ایک ورق

خوبصورت دروازہ آہستہ آہستہ کھُلا۔ اور میں اندر داخل ہوا۔ ایک سپید پوش سایہ کچھ ڈرا۔ جھجکا۔ سامنے تھا۔ میرا ایک قدم کمرے میں اور ایک دروازے پرتھا۔ میں رُک گیا۔ خدا جانے یہ کون ہے؟اگر کوئی اور ہوا تو؟ میرا آئندہ مخاطب بھی کسی برق وش فکر میں غرق۔ تامّل کے جذبات سے دو چار معلوم ہوتا تھا۔ جیسے کوئی شرم و حیا اور ضرورتِ وقت میں کش مکش محسوس کر رہا ہو۔ روشنی نہ تھی۔ کہ میں اُس کی آنکھوں کا مطالعہ کر سکتا۔ آہ!محبت کی وہ اشتیاق میں ڈوبی ہوئی نگاہیں، جبکہ اُن میں پہلے پہل ایک محبت بھرے اجنبی چہرے سے دوچار ہونے کا خیال موجزن ہو۔ اگر روشنی ہوتی تو یقیناً میں اپنے دوست ناصر کے لئے ایک ایسی تصویر کا موضوعِ حسین تیار کر لیتا۔ جس سے دنیا کی مصوّری کے خواب بھی محروم ہیں۔ ایک لمحہ اِسی طرح بُت بنے رہنے کے بعد۔

اُس لہجے میں۔ اِس انداز میں کہ گویا ضرورتِ وقت نے جذبۂ حیا پر قابو پا لیا ہے۔ اُس کی تھرتھراتی ہوئی۔ لرزتی ہوئی۔ زبان سے آہستہ نکلا۔ "آیئے۔" یہ نازنین۔ یہ شیریں آواز۔ ایک ہلکے ہلکے نغمے کی طرح سنائی دی۔ اور میرا دل و دماغ سراسر اُس میں جذب ہو کر رہ گیا۔

وہ دروازہ کی طرف بڑھی۔ اُس کا ایک ہاتھ۔ ایک مرمریں ہاتھ۔ ایک کمرے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ میں اُس میں داخل ہوا۔ کمرہ تاریک تھا اور شاید تاریک رہنا بھی چاہئے تھا۔