دل خود بخود اُداس ہوا جا رہا ہے کیوں؟
کوئی جَلا ہے شامِ غریباں کے آس پاس

میرے مرجعِ ارمان۔ میں اُداس ہوں۔ آہ!تمہارے لئے اُداس ہوں۔ میرا دل بے قرار ہے۔ طبیعت مضمحل ہے اور دماغ پراگندہ۔

اُٹھتے۔ بیٹھتے۔ سوتے۔ جاگتے۔ کسی پہلو چین نہیں آتا۔ ہائے کسی طرح۔ کسی عنوان جی نہیں بہلتا۔ کاش! کہ آپ مجھ سے نہ ملے ہوتے۔ کاش! کہ میں آپ سے نہ ملی ہوتی۔ اُف!ملاقات سے تو میری بیتابیوں میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ بے قراریوں میں اور بھی ترقّی ہو گئی ہے۔ بجائے اِس کے، کچھ سکون حاصل ہوتا۔ کچھ درد کا درماں ہوتا۔ ہائے

محبت تھی مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے
الٰہی آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی

آپ کے یہ الفاظ کس درجہ شیریں۔ کتنے نشاط انگیز اور کس قدر دل فروز ہیں کہ " مجھے تم سے محبّت ہے۔ میں تمہیں سچ مچ پیار کرتا ہوں۔ " مگر میری بدنصیبی کہ مجھے اِن پر اعتبار نہیں۔ آہ!اِن حسین۔ اِن شیریں۔ اِن روح پرور الفاظ پر قطعاً اعتماد نہیں۔ اور اس کی وجہ؟یقیناً آپ کو معلوم ہو گی۔ رات میں نے ایک عجیب پریشان خواب دیکھا ہے۔ ایسا پریشان کہ میرا اضطراب و اضطرار اور بھی بڑھ گیا ہے۔ دیکھتی کیا ہوں کہ ایک پُر فضا باغ ہے جس کی صاف سُتھری رَوِشوں پر آپ۔ ایک نازک اندام، نازک کمر۔ حسین لڑکی کے ساتھ ٹہل رہے ہیں۔ اِس شان سے کہ اُس عشوہ فروش حسینہ کا نازک ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اور آپ کی آنکھیں۔ آپ کی سرشار آنکھیں۔ محبت پاش نگاہوں سے اُس پیکرِ لَطیف کے بوسے لے رہی ہیں۔ یہی نہیں۔ بلکہ آپ جوشِ وارفتگیِ محبت سے اُسے مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے میں تمہیں کس قدر پیار کرتا ہوں؟(میرا یہ خواب بالکل سچّا تھا)۔ (نظر ثانی کا اضافہ) (کوکب)

آہ! اِس قیامت انگیز منظر کو دیکھ کر دُنیا میری آنکھوں میں تاریک ہو گئی۔ وفورِ غم سے میرا دل پاش پاش ہو گیا۔ قریب تھا کہ میں لڑکھڑا کر وہیں گر پڑوں کہ اتنے میں ماما نے مجھے جگا دیا۔ کیا آپ اِس خواب کی تعبیر بتلا سکتے ہیں؟

"بعد از وقت" تو خیر مجھے معلوم ہو گیا۔ آپ نے (بقول افسر میرٹھی )ہندوستان کی ایک عریاں نویس خاتون کے جواب میں لکھا تھا۔ مگر یہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ "اُن کا خط" اور "اے عشق کہیں لے چل" میں کس کو مخاطب فرمایا گیا ہے؟ کیا آپ بتائیں گے نہیں؟؟

یہ تو کہئے۔ کہ وہ کون تھے؟جن کے متعلّق آپ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھا کہ یہ صاحب ہمیں کئی مرتبہ فریبِ تحریر میں مبتلا کر چکے ہیں۔؟

ہاں۔ اِس خط کا جواب اور میرا مرسلہ کلام ٧- مارچ کو ٹھیک گیارہ بجے مجھے پہنچ جانا چاہئے۔ اور کیا لکھوں سوائے اِس کے کہ

جانِ من بھول نہ جانا یہ کہے دیتا ہوں
غیر سے دل نہ لگانا یہ کہے دیتا ہوں

آپ کی سلمیٰ

(حاشیہ پر )آپ کی اُس نظم کا شدید انتظار ہے۔ (پشت پر لکھ کر کاٹا گیا ہے۔ )

تم اِدھر پہلو سے اُٹھے ہم تڑپ کر رہ گئے
یوں بھی دیکھا ہے، کسی کا دم نکل جاتے ہوئے
ساقی بریز جُرعۂ و صلت بجامِ ما
کز شربتِ فراقِ تُو تلخ است کا مِ ما (پھُول )

معاذاللہ۔ اِتنی بے رحمی۔ اِس قدر سنگدلی۔ اِس درجہ ستم آرائی کہ دنوں سے ہفتے گزر گئے۔ اور آپ نے بھُولے سے بھی اِدھر کا رُخ نہ کیا۔ گویا قسم کھا لی صورت دِکھانے کی۔؟وائے حسرت

آپ آئے نہ کبھی خیر خبر ہی بھیجی
سینکڑوں راہیں دِکھائیں ہمیں ترسانے کی

کیوں جی۔ کہیں اِس بے اعتنائی اور سرد مہری۔ اِس بے رُخی اور بے مرّوتی کی یہ وجہ تو نہیں۔ کہ آپ ہم غریبوں سے خفا ہیں؟اگر شومیِ قسمت سے یہی وجہ ہے تو پھر خدارا جلد بتلائیے کہ اِس دل ریش۔ دل سوز خفگی کا باعث کیا ہے؟اس جاں خراش اور روح فرسا کشیدگی کا سبب کیا ہے؟ کچھ پتہ تو چلے؟آخر کچھ معلوم تو ہو۔ اِس فوری عتاب کا سبب؟اِس ناگہانی برہمی کا راز۔ بس جی بس اب مان جائیے کہ غصہ ہو چکا۔ اور ہم کافی ستائے گئے۔ آہ!ترسائے گئے۔

ابرحم کر کہ صبر کی طاقت نہیں رہی

اللہ جانتا ہے۔ کہ میں آپ کے مسلسل "سکوت و جمود" سے بے حد پریشان، سر گرداں، مضطرب، متوحش، متردّد اور متفکّر ہوں۔ آہ!

ہر شام، مثلِ شام ہوں میں تِیرہ روزگار ہر صبح مثلِ صبح گریباں دریدہ ہوں

مگر آپ کو ذرا بھی احساس نہیں۔ کیسا ستم ہے۔ خدا کے لئے یہ سکوتِ برہمی کی مہر اَب تو ڑ دیجئے اور میری تسکینِ روح کے لئے میرے خطوط کا جواب عنایت کیجئے۔ اُمید تو نہیں۔ مگر تاہم۔ (اپنی نادانی کی بدولت)١٦- فروری کو ٹھیک دن کے گیارہ بجے بڑی بے صبری اور بے قراری سے آپ کے نامۂ جانفزا کا انتظار کروں گی۔ کیا آپ میری تمنّائی نظروں کو مایوس کر دیں گے۔؟نہیں۔ ہرگز نہیں۔ آپ جہاں میری خاطر اور مجھ تک پہنچنے میں قطبِ جنوبی اور قطبِ شمالی کو طے کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے بحر ہائے بیکراں کو عبور فرما سکتے ہیں۔ اور طلسمِ ہوشربا کو اُس کی تمام ساحرانہ عظمتوں کے باوجود تو ڑ پھوڑ سکتے ہیں۔ وہاں ناممکن ہے۔ کہ آپ یہ ذرا سی بے حقیقت تکلیف برداشت نہ فرما سکیں۔ کیوں؟مگر ہو سکتا ہے۔ کہ اب لکھنؤ کے اُس نئے حُسنِ نازنین کی خلش نے آپ کے فرسُودہ جوش و خروش کو سرد کر دیا ہو؟؟؟ بہرکیف میں منتظر رہوں گی۔ آپ کی مرضی۔

زیادہ حدِّ ادب۔ اُمّیدِ نوازش

راقمہ

نہ دل بدلا،نہ دل کی آرزو بدلی نہ وہ بدلے
میں کیونکر اعتبارِ انقلابِ آسمان کر لوں

کیوں صاحب۔ کیا آپ کو اپنا یہ شعر یاد ہے۔

دنیا میں تیرے عشق کا چرچا نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رُسوا نہ کریں گے

اگر یاد ہے۔ تو پھر خدارا اِنصاف سے کہئے۔ کہ آپ کو کون ساحق حاصل ہے کہ آپ میری بے اختیارانہ اُفتادگیوں اور اپنے بے رحمانہ طرزِ عمل کو ایک شاعر کا خواب بنا کر منظرِ عام پر لائیں۔؟اور فضائے عالم میں مجھے جی کھول کر رُسوا کریں؟مانا۔ کہ میں گنہگار ہوں۔ مگر اِس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ آپ مجھے عام نگاہوں کی ٹھوکروں میں اِس حقارت سے پھینک دیں۔ آخر(١٠٠)سو گناہ۔ خدا بخشتا ہے۔ ایک اگر آپ بھی بخش دیں تو کیا غضب ہو جائے گا؟

میں آپ سے درخواست کرتی ہوں۔ میں التجا کرتی ہوں کہ مہربانی کر کے شاعر کے خواب میں میرے خطوط نہ نقل کیجئے۔ خواہ وہ سلمیٰ ہی کے نام سے کیوں نہ ہوں؟ میں آپ کی منّتیں کرتی ہوں کہ ہرگز نہ نقل کیجئے۔ علاوہ بریں۔ افسانہ اِس انداز میں لکھئے کہ ناظرین پر حقیقت منکشف نہ ہونے پائے۔

کیا آپ اشاعت سے پہلے مسوّدہ مجھے دِکھا سکتے ہیں۔

میں نے آج تک اپنا راز۔ اپنا وہ راز جس میں بقول آپ کے۔ اور یوں بھی آپ کے دل کے ٹکڑے بھی ہیں۔ کسی ذی روح سے بیان نہیں کیا۔ میری بیسیوں عزیز اور مخلص ترین سہیلیاں موجود ہیں۔ مگر قسم لے لیجئے جو اُن میں سے۔ میں نے کسی کو بھی اپنی راز دار بنانے کی کوشش کی ہو۔ محض اِس خیال سے کہ مبادا بعد کو پشیمان ہونا پڑے۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ آپ کو اِس بات کا مطلق احساس نہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں مجھے یہ کہنا چاہئے کہ آپ کو(آپ کے الفاظ میں )ایک سچّا عاشق ہونے کے باوجود میرے ناموس کا ذرا بھی پاس و لحاظ نہیں ہے۔ ورنہ آپ اپنے دوستوں کے سامنے میری تباہیوں کا حال اِس طرح مزے لے لے کر بیان نہ کرتے۔ ہائے!

یا رب کبھی کسی پہ کسی کا نہ آئے دل

بہرحال اب اتنی نوازش اور کیجئے کہ مجھے اُن لوگوں کے نام لکھ بھیجئے۔ جن کو آپ نے از راہِ کرم میرے تمام خطوط دِکھلائے ہیں۔ اور میرے صحیح پتہ سے مطلع فرمایا ہے۔ تاکہ میں آنے والی مصیبت کے لئے بھی تیّار ہو جاؤں۔

ہاں آپ کے مکتوباتِ گرامی آپ کو واپس کئے جاتے ہیں۔ مگر اِس شرط پر کہ میرے عریضے بھی مجھے واپس بھیج دیے جاویں۔ دیکھئے آپ کو ہماری جان کی قسم اِس پر ضرور عمل کیجئے۔ دو فروری کورات کے ایک بجے میں آپ کا انتظار کروں گی؟آپ کو عریضہ ہٰذا کا جواب اور شاعر۔ یعنی۔ آپ کا خواب۔ اور میرے مرسلہ خطوط (غالباً 12 ہوں گے )لے کر عین وقت پر یہاں پہنچ جانا چاہئے۔ میں بھی آپ کے خطوط حاضر کر دوں گی اب کی مرتبہ بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ کیونکہ سے چچا جان اور چچّی جان آئے ہوئے ہیں۔

مجھے اُمید ہے کہ آپ آئندہ مجھ سے ملنے کی آرزو نہ کریں گے۔ لیکن میں ڈرتی ہوں کہ کہیں صورت دیکھ کر میں اپنی ادائیگیِ فرض سے قاصر نہ رہ جاؤں۔

یہ دل آپ کا ہے اور تا دمِ آخر آپ ہی کا رہے گا زندگی ایک خوابِ پریشاں ہے۔ اور بس۔ دُنیا ایک سرائے فانی ہے اور کچھ نہیں۔ یہاں شکستِ آرزو۔ اور ذبحِ حیات کے سوا۔ کوئی مؤثر تماشا نہیں۔ کوئی دلچسپ منظر نہیں اگر ہم چرخِ ستم گار اور اپنے بختِ جفا کار کی بدولت اِس دنیا میں نہیں مل سکے۔ تو انشاءاللہ دوسری دنیا میں ضرور ملیں گے۔

میں کل پرسوں تک بھائی جان کے ہمراہ لکھنؤ جا رہی ہوں۔ وہاں سے ایک مضمون آپ کی خدمت میں بھیجوں گی۔ ذرا اصلاح فرما دیجئے گا۔ یہ سب باتیں زبانی عرض کرتی۔ مگر افسوس۔ اُس وقت مہلت کم تھی۔ اور دوسرے یہ کہ مجھے اِس کے سوا کسی بات کا ہوش نہ تھا۔

کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

خدا کی قسم میں سچ کہتی ہوں۔ کہ آپ کا وہ خط۔ ہاں وہ فریب دہ خط میرے دلی رنج و قلق کا باعث ہوا تھا۔ ہائے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ کہ اُس وقت یہ جان کر میں نے کس درجہ روحی کرب محسوس کیا تھا۔ کہ اﷲ جس تقریبِ غم پر میری آنکھیں۔ میری محزوں آنکھیں خون برسانے کو آمادہ ہو رہی ہیں۔ اُسی حادثۂ اَلم پروہ ظالم شخص دلی فرحت و انبساط کے ساتھ مبارکباد دے رہا ہے۔ گویا وہ ایک بلائے بے درماں سے پیچھا چھُڑانے کے مدّت سے آرزومند تھے اور جبکہ اُن کی وہ آرزوئے دیرینہ پوری ہونے کو ہے تو وہ اظہارِ مسرّت کر رہے ہیں۔ مگر۔ مجھے علم نہ تھا کہ دراصل معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ خیر اَب چونکہ "رنجیدہ" ہونے میں آپ اور میں برابر ہیں۔ اِس لئے اِس المناک موضوع پر کچھ اور لکھنا غیر ضروری ہو گا۔

اگر آپ خفا نہ ہوں تو کہوں کہ اِن دنوں جو صدمۂ عظیم اور عذاب الیم آپ کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ وہ حقیقت میں میری ہی بددعا کا تلخ ثمرہ ہے۔ کسی نے خُوب کہا ہے۔

تُو بھی ٹھنڈا نہ رہا جی کو جلانے والے
درد مندوں کی دعا دیکھ لے خالی نہ گئی

آپ کو معلوم نہیں۔ کہ آج سے ایک سال قبل آپ کی نئی زندگی کی خبرِ وحشت اثر میرے خرمنِ دل و دماغ پر بجلی ہو کر گری تھی۔ تو بے اختیار میری زبان سے یہ الفاظ نکل گئے تھے۔ کہ الٰہی میرے ستانے اور جلانے والے بھی اُسی طرح ستائے اور جلائے جائیں۔ لیکن آج میں بصد ندامت اپنے یہ الفاظ واپس لیتی ہوں۔ کیا آپ میرا قصوّر نظرانداز نہ فرما دیں گے۔؟

جی ہاں۔ مجھے معلوم تھا کہ محبّت اِس سے کہیں زیادہ بلند اور با عظمت ثبوت چاہا کرتی ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو ماں کا دل لینے والی لڑکی نے بھی ایک حد تک اپنے طالب سے لحاظ و مروّت کا سلوک روا رکھا تھا۔ لیکن میں آپ کے اتنے سے ثبوت پرہی نازاں ہونے کے لئے مجبور تھی۔ اِس لئے کہ میرا تو معاملہ ہی علیحدہ تھا(ہے )یعنی میں طالب اور آپ؟

"نام نہاد" محبّت سے میں تو نہیں اُکتائی۔ اور نہ کبھی اُ کتا سکتی ہوں۔ ہاں آپ اپنی کہئے۔ دو دن میں ہی اُکتا کر۔ گھبرا کر جواب صاف نہ لکھ بھیجیں تو سہی۔ مگر یاد رکھئے۔ کہ اگر ایسا ہوا۔ تو پھر میں ہرگز زندہ نہ رہنے پاؤں گی۔ کیونکہ

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنّا تمہیں تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں تو ہو

مکرّر آنکہ

آپ مجھے تم ہی سے مخاطب کیا کریں۔ مجھے آپ کی زبان سے یہ لفظ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔

"وہی نیاز کیش"

مرے دل میں تصوّر ہے ضیائے رُوئے کوکب کا
خدا آباد رکھے کس قدر روشن مرا گھر ہے
بیا اے روح بخشِ ہستیِ ما
بیا اے مایۂ سر مستیِ ما
بکن سر مست بایک جامِ سرشار
کہ فارغ باشم ازبکندلازار

خطِ فرحت نمط پہنچا۔ الحمد للہ ربِّ العالمین کہ حضور نے اپنی خفگی کے اظہار کو واپس لے کر اِس "ناچیز"، "بد نصیب" اور "بے ہودہ" لڑکی کو پھر "تم" کے سے شیریں خطاب سے مخاطب فرمانے کی عزّت بخشی لیکن میرا خیال ہے کہ آپ ابھی مکمّل طور پر راضی نہیں ہوئے۔ یعنی ابھی آپ کا آئینۂ دل میری طرف سے غبار آلود ہے۔ کیوں ہے نا؟افسوس۔

اُفتادِ طبیعت سے وہ مجبور ہیں ورنہ
کچھ بھی سببِ رنجشِ بے جا نہیں ہوتا

اگرچہ۔ اب۔ ملاقات ایک وجہ سے بہت مشکل نظر آتی ہے۔ تاہم آپ کے حکم سے اِنحراف کرنے کی مجھ میں تاب و طاقت نہیں۔ ٢٢-فروری کو رات کے ڈیڑھ بجے تشریف لے آئیے۔ آپ کی "تقدیسِ محبّت" سے مجھے اُمیدِ واثق ہے کہ ہماری یہ ملاقات بھی "ملکوتی معصومیت" سے مملو رہے گی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ کہ آپ اپنی زبردست شخصیت سے دانستہ چشم پوشی اختیار کر کے اُس سے زیادہ خاکساری ظاہر کرتے ہیں۔ اور پھر مزید ستم ظریفی یہ کہ مجھے شرمندہ کرنے کی غرض سے۔ میری ناجائز تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ حالانکہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں "حسنِ صورت" اور "حسنِ معنی" دونوں کے لحاظ سے صفر کے برابر ہوں۔ اور بس۔ آپ ایک با کمال شاعر۔ ایک رنگیں طراز ا دیب۔ اور میں کیا؟ایک "جہلِ مرکّب" ہستی۔

چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک؟

آپ کے سوالات کا جواب پھر دوں گی۔ اُمید ہے کہ آپ اِس پھر سے پھر ناراض نہیں ہو جائیں گے۔

آپ کے خط کے وروُد کی خوشی میں صبح سے اب تک ہارمونیم بجا رہی ہوں۔ موسیقی کی دلفریبیوں میں شک نہیں۔ مگر کیا آپ بتا سکتے ہیں؟ کہ وہ نغمے جو آج ساز کے پردوں سے مچل رہے ہیں اَور دنوں کی نسبت زیادہ مؤثر اور شیریں کیوں ہیں۔؟آپ خلیقی کی زبان میں اِس رنگ و بُو کی چیستاں کو بُوجھئے۔ تو جانیں؟آج میں کالج بھی نہیں گئی۔ والدہ صاحبہ نے ایک ملازم کو ڈرگ ہاؤس بھیجا ہے کہ میرے لئے دردِ سرکی دوا لائے۔ کیوں۔؟اِس لئے کہ یہ کالج نہ جانے کا بہانہ ہے۔ آپ مُسکرائے کیوں ہیں؟ یہ نرا بہانہ ہی نہیں بلکہ واقعی میرے سر میں درد ہے آہ!غیر معمولی جذباتِ مسرّت کا ہجوم بھی تو سر میں درد پیدا کر دیتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ والدہ کو درد کی فکر ہو۔ اور مجھے اِسی درد کی طلب۔

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

باقی بوقتِ ملاقات۔ والسّلام

نیاز آگیں

سلمیٰ

تیرے آنے میں راہ گِنت ہوں
تارے گنت ہوں رتیاں

(پشت پر پنسل سے ) 22 فروری کے بجائے اگر 12 فروری بروز منگل رات کے ایک بجے آئیں تو بہت بہتر ہو گا۔ تاکیداً عرض ہے۔

وہ جلد آئیں گے یا دیر میں خدا جانے
میں گُل بچھاؤں کہ کلیاں بچھاؤں بستر پر

بخدا۔ آپ کے تاجور کے اِس شعر کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ۔

تڑپ رہے ہیں شبِ انتظار سونے دے
نہ چھیڑ ہم کو دلِ بے قرار سونے دے

مگر آج آپ کی ستم پیشگی اور جفا جوئی نے مجھے اِس کا تلخ مفہوم سمجھا دیا۔ آپ کے جاں خراش انتظار میں ٢١ اور ٢٢-فروری کی دونوں بھیانک راتیں مع اپنی حشر انگیز طولانیوں کے۔ آنکھوں۔ اِن مستیِ خواب سے بیگانہ آنکھوں میں کٹ گئیں۔ مگر آپ نہ آئے۔ آہ!

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

کاش آپ کو معلوم ہوتا۔ آپ معلوم کر سکتے کہ میں نے شوق سے آپ کے خیرمقدم کی تیاریاں کی تھیں۔

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

آخر آپ آئے کیوں نہیں؟ بتلائیے وہ کون زبردست طاقت تھی؟جس نے آپ کا راستہ روک لیا؟مجھے بتلائیے وہ کون کمبخت تھا۔ جس نے میری محبّت پر فتح پائی؟

کیا اب آپ نہیں آئیں گے؟ مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئیں گے؟ کیا میں نا امید ہو جاؤں؟ آہ!آپ کی طرف سے قطعاً نا امید ہو جاؤں؟ کیا اب مجھے آپ کی محبّت کی طرف سے (اگر وہ سچ مچ محبّت ہے تو )بالکل مایوس ہو جانا چاہئے۔ نہیں۔ نہیں۔ آہ! یہ نہیں ہو سکتا۔ سُنتے ہیں آپ؟ میں آپ کی محبّت سے مایوس نہیں ہو سکتی۔ اور نہ آپ ہی مجھے مایوس کر سکتے ہیں۔ لیکن اب میں محسوس کرتی ہوں۔ کہ میرا یہ خیال سراسر غلط تھا۔ دیکھئے میں درخواست کرتی ہوں کہ اب میرا گناہ معاف کریں۔ اور جیسے بھی ہو۔ ایک مرتبہ ضرور مجھ سے ملیے۔ میں ایک ضروری امر کے متعلق آپ سے زبانی گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔ 25- فروری کورات کے ایک بجے کے قریب (صرف دو گھنٹہ کے لئے) جی کڑا کیجئے۔ عنایت ہو گی۔ اور ہاں۔ اگر میری یہ درخواست نا منظور ہو۔ تو پھر اتنی نوازش ضرور فرمائیے کہ 25 تاریخ کودن کے اُسی حصہ میں خط کے ذریعہ مجھے اطلاع دیجئے۔ یا دوسرے الفاظ میں جوابِ صاف لکھ بھیجئے تاکہ میری رہی سہی اُمید کا بھی خاتمہ با عزّت ہو جائے۔

نکالا تیر سینے سے کہ جانِ پُر الم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے

اب میں آپ کے بعض سوالات کا جواب دیتی ہوں۔

  • سب سے پہلے میں نے آپ کا نام ("ہمایوں" لاہور) میں پڑھا تھا۔
  • سب سے پہلے آپ کا ایک افسانہ "پیکِ نغمہ" کے عنوان سے میری نظر سے گزرا تھا۔ پھر اس کے بعد ملک کے مختلف پرچوں میں آپ کے مضامین (نظم و نثر)
  • اُن کے کیا کیا اثرات مجھ پر ہوئے؟آہ!یہ نہ پوچھئے۔ کہ اپنی ہلاکتوں اور تباہیوں کے طویل افسانہ کو دُہرانے کی میری زبانِ قلم میں ہمّت نہیں۔ طاقت نہیں۔
  • پھر رفتہ رفتہ میرے احساسات کا یہ عالم ہوا کہ اگر میں زندہ ہوں تو صرف اُسی "ساحر" کے لئے جس نے پردہ ہی پردہ میں مجھے مسحور کر لیا ہے۔ اور پہلا خط لکھنے تک یہی محسوسات اور خیالات قائم تھے۔ (اور جو اَب بھی قائم ہیں)
  • سلمیٰ نام منتخب کرنے کی اور کوئی وجہ نہ تھی۔ سوائے اِس کے کہ پہلے یہ میرا تخلّص تھا۔
  • میں نہیں جانتی کہ "اے عشق کہیں لے چل" میں آپ نے کس کو مخاطب کیا ہے؟ البتہ یہ کہہ سکتی ہوں کہ آپ کی اِس غیر فانی نظم نے میرے دل و دماغ پر گہرا اور حزن انگیز اثر ڈالا تھا۔ خصوصاً اس بند کی یاسیت نے تو دل و جگر کے ٹکڑے اُڑا دیئے ہیں۔

یہ جبر کدہ، آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، اُمیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

مگر آپ کے اِس بند سے تو شبہ ہوتا ہے کہ اِس نظم کی معنوی مخاطب میری نیاز مندیِ محبت ہے۔

قدر ت ہے حمایت پر ہمدرد ہے قسمت بھی
سلمیٰ بھی ہے پہلو میں سلمیٰ کی محبت بھی
ہر شے سے فراغت ہے پھر تیری عنایت بھی
پروا ہی نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل

مگر میں کیونکر یقین کروں؟

  • میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ "اُن کا خط" اور "بعد از وقت" کے راقم آپ خود تھے۔ اور انجم صاحب نے ج۔ ب کو مخاطب فرمایا تھا۔ (کیوں)
  • میں نے سب سے پہلی بار آپ کو نومبر 52 میں دیکھا تھا جب کہ آپ سب سے پہلی مرتبہ ہمارے ہاں آئے تھے۔ آئے نہیں تھے۔ بلکہ آپ کو میرا جذبات بھرا دل کھینچ لایا تھا کیوں؟
  • میری کسی سہیلی کو یہ بد عادت نہیں ہے کہ اِس طرح گمنام خطوط بھیجا کریں بلکہ میرا خیال ہے۔ کہ اگر وہ میری مجبورانہ حماقت شعاریوں سے واقف ہو جائیں تو مجھے ہدفِ ملامت بنا لیں۔ اُس کی نسبت آپ کا ایسا خیال نہیں ہونا چاہئے۔ مگر آپ طنزیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ایک مچھلی سارے جل کو گندہ کرتی ہے۔ آہ! میری بے حمیّتی۔
  • شعر کہنے کا اکثر شوق ہوا ہے۔ مجھے شاعری کا فقط شوق ہی نہ تھا بلکہ جنون تھا۔ مگر خلیقی دہلوی کے افسانہ "تہمتِ شباب" پر آپ کا لمبا چوڑا اور بے پناہ نوٹ پڑھ کر(جس میں آپ نے شاعری کو بے چاری عورتوں کے لئے حرام چیز قرار دیا تھا۔ اور شاعرہ عورتوں پر تہذیب کے پردے میں لعنت کے تیر برسائے تھے ) میرے شاعرانہ خیالات بُجھ گئے تھے۔
  • کے ہاں شاید نہ جا سکوں اور ہاں۔ یہ تو فرمائیے کہ کے حال پر جناب کی اتنی مہربانی کیوں ہے؟ کیا اس لئے کہ اب کیا کہوں؟ ناحق کو آپ خفا ہو جائیں گے۔

یقین فرمائیے کہ مجھے اپنے خطوط کے بارے میں آپ سے کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ میں ہمیشہ سے اور (خواہ مخواہ)آپ کو اپنا سمجھتی ہوں۔ اِس لئے میرا اور آپ کا راز بھی ایک ہی ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو میں خط و کتابت کے سلسلہ کو کیوں جاری رکھتی؟خصوصاً یہ مفصّل خط۔ جس میں میری حیات و ممات کا راز مضمر ہے۔ آپ کو کیوں بھیجتی۔؟بخدا مجھے آپ پر۔ آپ کی ذات پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ آپ کی شرافت و نجابت پراعتماد ہے۔ یقیناً آپ میری عزّت و آبرو کا اُتنا ہی پاس و لحاظ رکھیں گے جتنا ایک بھائی اپنی بہن کا رکھ سکتا ہے۔ اب آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے۔ کہ میری محبّت(جو مجھے آپ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی)عام محبّتوں سے بالکل علیحدہ ہے۔ افسوس کہ مجھ میں اتنی قابلیت نہیں کہ میں اِس کا صحیح مفہوم آپ کو سمجھا سکوں بس آپ خود ہی سمجھ لیجئے۔ خطوط واپس طلب کرنے سے میرا صرف یہ مقصد تھا کہ شاید اُنہیں آپ کے پاس دوسرے لوگ دیکھ لیں۔ نیز پہلے آپ نے اپنے خطوط واپس مانگے تھے جس سے مجھے رنج پہنچا تھا۔ بہرحال آپ چونکہ تبادلۂ خطوط کو قطع تعلقی پر محمول کرتے ہیں۔ اِس لئے میں اپنے وہ الفاظ واپس لیتی ہوں اور ساتھ ہی آپ سے معافی بھی چاہتی ہوں۔ خدارا اب آپ غصہ تھوک دیجئے۔ اب کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گی۔

آپ فسانہ شوق سے مکمّل کر سکتے ہیں۔ مگر اِس شرط پر کہ مطلقاً افشائے راز نہ ہو۔ میں اُس دن کا نہایت بے صبری سے انتظار کر رہی ہوں جبکہ ایک "شاعر کا خواب" میرے پاس بھیجیں گے۔ آخر یہ افسانہ کب تک اختتام کو پہنچے گا؟ میں عنقریب چلی جاؤنگی۔ ہائے۔ خدا جانے کیا بات ہے؟ کہ اپنے جانے کا خیال مجھے موت سے کم نہیں۔ حالانکہ یہاں رہ کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں۔ آپ میرے حق میں۔ میرے لئے دعا کریں۔

یہ خط بہت طویل ہو گیا۔ اِس لئے اب آپ اجازت دیں کہ اِسے یہیں ختم کر دوں۔ بقیہ باتیں زبانی۔ اگر آپ مہربانی فرمائیں تو معاف کیجئے گا۔ یہ خط میں نے بہت جلدی میں لکھا ہے۔ جس کا ثبوت میری خوش نویسی زبانِ حال سے دے گی۔ یہاں میں پھر عرض کر دوں کہ آپ کے نہ آنے کا مجھے نہایت شدید صدمہ پہنچا ہے جس کی اب آپ کو تلافی کرنی چاہئے۔

والسّلام

"سلمائے کوکب"

"کیف" کے عرس نمبر میں آپ کا مضمون بعنوان "محبت" بہت ہی دلچسپ۔ دلفریب اور جاذِبِ توجہ ہے۔