عزیزِ خاطرِ آشُفتہ حالاں۔ اپنے بیمارِ محبت کا۔ ہاں اپنے کوکب کا پیار قبول کرو۔ تمہاری دوسری ملاقات میرے لئے پہلی کی بہ نسبت زیادہ تباہ کُن تھی۔ کہ وہ آغاز تھی۔ خلافِ توقع کامیابیِ نصیب کی حیرت سامانیوں کا، اور یقین تھی جذباتِ محبّت کی عروج پردازیوں کی تکمیل کا۔ آہ! اگر میری ساری زندگی بھی اُس رات کی نشاط آرائیوں کی یاد میں۔ ہاں خوشگوار اور لذیذ یاد میں۔ اور دل گداز منظر تمہارے معصوم آنسوؤں کی بے اختیاریوں کا تھا۔ آہ! محبت کے اُن آنسوؤں کا جو میری جان۔ تمہارے جذباتِ معصوم اور حسیّاتِ نازک کے ہزار ہا افسانے تاثر سے لبریز تھے۔ میں کامل ندامت آگینی کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے جو تمہارے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے آنچل اور اُن شاداب موتیوں سے بھری ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کہا تھا۔ کہ یہ پانی کیا ہے؟تو کس قدر بے دردانہ، بے رحمانہ مذاق کیا تھا؟محض اِس لئے کہ تم مجھ سے شکایت کرو۔ تم مجھ سے گلہ مندانہ لہجہ میں بات کرو۔ مگر آہ!تمہاری غیرتِ حُسن اور حمیتِ عشق نے اُسے برداشت نہیں کیا۔ اور تم نے میرے اِس اِرادی مغالطہ کی تردید نہ کی۔ ہائے! میں کس درجہ سنگدل ہوں گا۔ کس قدر حِسیّ القلب ہوں گا۔ اگر اب بھی تمہیں یہ نہ بتلاؤں گا۔ کہ تمہارے میخانہ ہائے حُسن و شباب سے چھلک پڑنے والی شرابِ جذبات کی بے اختیارانہ غمّازی مجھ سے چھُپی نہیں رہی۔ میرے دل کے بھی ٹکڑے ہو رہے تھے۔ میری روح بھی ماتم کر رہی تھی۔ مگر مدّتوں سے آنسو بہنے کی طاقت ہے۔ ضبط کی تاب ہے۔ رنج و غم سہنے اور اُف نہ کہنے کا خو گرہو گیا ہوں۔ یوں بھی پروازِ فطرت کی گرفتگی کا اقتضاء ہوتا ہے۔

دل میں ہزار درد اُٹھے آنکھ تر نہ ہو

لاچار۔ تمہارا دل بہلانے کی۔ تمہیں ہنسانے کی کوشش کرتا رہا کہ رونے کے لئے تو ابھی بہت عمر باقی ہے۔ آہ!حال و مستقبل کی فراخ دامانی اِس مشغلہ کے لئے بہت کافی ہے۔

رات دن رویا کئے شام و سحر رویا کئے
کچھ نہ روئے آہ، گر ہم عمر بھر رویا کئے

میرے پچھلے طرزِ عمل پر تم نے جو تنقید کی ہے۔ اُس کے طرزِ اِستدلال کی داد دیتا ہوں مگر بات صرف یہ ہے۔ (جیسا کہ میں زبانی عرض کر چکا ہوں )کہ جب تمہارا پہلا خط مجھے ملا ہے تو دل ہمہ تن اُس کی صداقتِ حیثیت پر یقین کرتا تھا۔ مگر دماغ اِس سے انکاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو نوٹ مختلف انداز سے لکھے گئے تھے اور اُن سے مقصود صرف یہ تھا کہ اگر اِس پردہ میں فی الحقیقت کوئی نسوانی ہستی جلوہ گر ہوں گی۔ تو وہ پہلے نوٹ کو اپنے لئے سمجھیں گی۔ اور اگر صنفِ کرخت کا کوئی نمائندہ ہو گا۔ تو دوسرے کو۔ اور اس طرح یہ جان کر کہ میں اُس کی حرکت سے اُس کے سرپرست کا پتہ لگا چکا ہوں۔ وہ خاموش ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی۔ اور چونکہ کوئی مرد پسِ پردہ نہ تھا۔ اِس لئے خاموش بھی نہ ہوئی۔ تم نے صرف اتنی غلطی کی کہ تم دونوں نوٹوں کو اپنے لئے سمجھیں۔

مجھ سے۔ میری آوارہ شبابی سے۔ جو بدگمانیاں تمہیں ہیں۔ اُن میں اب ہندوستان کی ایک عریاں نگار خاتون بھی داخل ہو گئی ہے؟خدا خیر کرے!یہ فہرست کہاں جا کر ختم ہوتی ہے؟

اگر تم جنسِ کرخت سے علاقہ رکھتی ہو تو میں اِس صنف پر مٹنا ہی نہیں جانتا بلکہ اس پر اپنا آپ قربان کرنا بھی مجھے آتا ہے۔ اور

اِک نہ اِک روز ترے عشق میں ہونا ہے یہی

میرے خط کے جس فقرہ پر تم نے اعتراض کیا ہے۔ وہ میری دانست میں (بے ادبی معاف)اب بھی صحیح ہے۔ نکتہ اتنا سا ہے کہ تمہارے پہلے خط پر مجھے نسائیت کا یقین تھا۔ مگر میں اُس پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا کہ کہیں پردہ اُٹھنے پر کسی اور صنف سے پالا نہ پڑے۔ اور بس۔ اُمید ہے کہ اِس تصریح کے بعد تم تمام حالات سے باخبر ہو جاؤ گی۔ اِس کے بعد اب میں پھر اسی فقرہ کو دُہراتا ہوں کہ تم میرا ایک بھی قصور ثابت نہیں کر سکتیں۔ افسوس ہے کہ تم نے کبھی انصاف کی نظر سے اِن معاملات کو نہیں دیکھا۔ اور یہ تمہارے لئے کوئی نئی بات نہیں کہ تمہاری صنف کی ستم آرائیوں کا اقتضائے فطری ہے۔ یا پھر وہ اقتضائے فطری جس کا نتیجہ ستم آرائی ہی ہوتا ہے۔

جی ہاں۔ عورت کی ہستی جن لطافتوں کی حامل ہوتی ہے اُن کا مجھے علم ہے اور اب تو اچھّی طرح علم ہو گیا ہے۔ آگے کہوں گا تو ناحق شرما جاؤ گی۔ رہا اعترافِ محبت پر عدم اعتماد۔ تو اِس کے سوا کیا کہوں کہ۔

مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی اُنہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا

اپنے بنائے جانے کی مجھ سے شکایت نہ کرو۔ قدر ت کی صنعت کارانہ صنم سازیوں کو گالیاں دو۔ میں نے تمہیں اپنے لطیف ترین تخیّل کے پیکر میں، ایک انا الحق بنا کر پیش کیا ہے۔ میں غریب اس معاملہ میں بے قصور ہوں۔

مجھے یاد نہیں رہا۔ ( کیا بتاؤں کہ دماغی توازن کی کیسی زار حالت ہو رہی ہے ) کہ میں نے کون سے الفاظ واپس لئے تھے؟جنہیں تم "تملق" اور چاپلوسی سمجھ رہی ہو۔ بہرکیف "١"

لو کھڑے ہیں ہاتھ باندھے ہم تمہارے سامنے

رہا تملق اور چاپلوسی۔ تو یہ تو اَب میری فطرت ہے۔ اِس کے بغیر آپ کی ہم جنس ہستیاں سیدھی بھی تو نہیں ہوتیں لو اب اور چِڑھو۔

صحتِ مضمون کی بھی ایک ہی کہی۔ میں نے تو لکھ دیا تھا بخدا قلم لگانے کی بھی ضرورت نہ تھی۔ ڈرتے ڈرتے خواہ مخواہ ایک دو جگہ چھیڑا۔ تو وہ یقیناً کسی وقعت کا مستحق نہیں۔ تم میری نیاز مندیوں اور جہالتوں کو ناحق کانٹوں میں نہ گھسیٹو۔ مگر تم کہاں سُنتی ہو؟

میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ خو دلکھتی ہیں یا اجرت پر لکھواتی ہیں۔ کیونکہ کلام نظم و نثر کا انداز تمام تر سیمابی ہے۔ یہ البتہ یقینی ہے کہ وہ ساغر سے نہیں لکھواتیں۔ کیونکہ وہ غریب خود ایک حرف نہیں لکھ سکتا۔ جو کچھ ہوتا ہے سیماب کا ہوتا ہے۔

منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے

خیر تمہیں اِس ذکر سے کیا مطلب؟ کسی سے لکھواتی ہوں۔

7 مارچ کے بارے میں مجھے بھی صرف حیرت ہے اور بس بدنصیبی کے سوا کیا تاویل کروں؟ میری گھڑی غلط ضرور تھی مگر اتنی نہیں کہ ظفر علی خاں سے بمشکل پیچھا چھڑا کر دفتر سے نکلا تھا۔ مگر افسوس کہ پھر بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ اِسی غصّہ میں میں نے زمیندار سے قطع تعلقی کر لی ہے۔

کیا میں شکریہ ادا کروں؟ کہ حضور کو میری صحت کا اتنا خیال ہے؟ آہ! اب تم مجھے اپنی صحت کی پُرسش پر مجبور کر رہی ہو جبکہ صحّت اور بیماری۔ تندرستی۔ جراحت۔ زندگی اور موت سب میرے لئے مترادف الفاظ ہو گئے ہیں۔ اور میں صحت کا خیال کروں بھی تو کیوں؟کس کے لئے؟اب تو یہ لفظ میرے لئے یکسر بیگانۂ مفہوم ہو چکا ہے۔ قیس کی زبان میں "مجھے تو موتوں اور ہلاکتوں کی آرزو ہے۔ " یہ تین گھنٹہ کی نیند۔ یہ آنکھوں کی کمزوری۔ یہ دماغ کا اختلال یہ سب کچھ کچھ بھی نہیں۔ اُس اذیّت کے مقابلہ میں جو میری روح کو دبائے ہوئے ہے۔ اُس کرب کے سامنے جو میرے دل پر چھائے ہوئے ہے۔ اُس قلق کے مقابلہ میں جو میری رگ رگ میں رچا ہوا ہے۔ جانے دو۔ للہ! اِس سطحی تکلیف کا ذکر کر کے مجھے اپنی اندرونی جراحت یاد نہ دلاؤ کہ پھر اس مضمحل تکلّم کی بھی تاب مجھ میں باقی نہ رہے گی۔

کیا تمہاری معلومات میں انقلاب (لاہور) کا وہ پرچہ ہے۔ جس میں لاہور کی ایک مسلم خاتون کے نام سے ایک نظم شائع ہوئی تھی؟میرا خیال ہے کہ خاتون کا نام ہی نام ہے اور وہ نظم خود ادارۂ انقلاب کی زائیدہ افکار ہے چنانچہ میں نے اُس کے جواب میں اُسی خیال کا اظہار کر بھی دیا تھا۔ (شاید تم نے زمیندار میں دیکھا ہو گا)بہرحال میں مزید اطمینان کرنا چاہتا ہوں کہ واقعی کوئی مسلمان خاتون بھاٹی دروازہ میں ایسی ہیں جو ایسی نظم لکھ سکتی ہوں۔ اِس قضیہ میں مجھے تمہاری امداد کی ضرورت ہے میں نہیں چاہتا کہ خواہ مخواہ "انقلاب" کے ادارہ پر اِس قسم کا شبہ کروں گو کہ یہ کچھ اُن سے بعید نہیں۔ تفنن کے ہزاروں ہی رنگ ہوتے ہیں مگر خواتین کو آڑ بنانا بہر طور کچھ اچھی بات بھی نہیں۔

"گلکدہ" کے اجراء میں مالی دقّتیں حائل ہیں۔ ابا جان دام دیتے نہیں اور شرکتِ سرمایہ مجھے منظور نہیں۔ تمہارے اشتیاق سے کیونکر معذرت کروں؟ہائے کیسی بدقسمتی ہے کہ میں اُس کی تواضع کے قابل نہ ہو سکا ورنہ میرے لئے یہ معلوم کر کے کہ تم کسی شے کی مشتاق ہو۔ اور میں اُسے انجام دے سکتا ہوں۔ اُس پر اپنا سارا نظامِ زندگی قربان کر دینا ایک حقیر اظہار ہے۔ اپنی بے پایاں عرضِ سعی کا تمہارا شوق معلوم کر لینے کے بعد بھی اگرچہ میں پرچہ نہ نکال سکا۔ تو یہ میری انتہائی بدنصیبی ہو گی اور اگر کامیاب ہو گیا تو میری جان "گلکدہ" صرف اِس لئے نکلے گا کہ تم ایسا چاہتی ہو۔ آہ! وہ صرف تمہارے لئے نکلے گا۔ ہاں صرف اِس لئے کہ تمہاری محبت بھری نظروں سے گزرے اور یہی میرا۔ اُس کا، ہم دونوں کی مایہ زندگی کا سب سے بڑا سرمایۂ افتخار ہو گا۔ اُف! میں اُس جذبۂ بے اختیار کی شدید کیفیت کا کیونکر اظہار کروں؟؟

دنیا میں مجھے صرف ایک ہی شاگرد کافی ہے اور وہ تم ہو۔ اگرچہ شاگردی کی مٹھائی اب تک نہیں ملی۔ مگر میں نے غلط کہا۔ غالباً شاگردی کی ہی مٹھائی تو تھی۔ جو میرے گستاخ ہونٹ تمہارے شکرستانِ لب سے وصول کر چکے ہیں۔ خیر۔ اب کوئی شکایت نہیں۔ خدارا خفا نہ ہو جانا۔ چھیڑ چھاڑ کی تو میری عادت ہی ہے ورنہ کہاں تم؟اور کہاں میری شاگردی؟تم سے شاگرد قسمت والوں ہی کو ملتے ہیں۔

ہم تو عمر بھر ترسے

کیا خوب افسانہ مکمل کرنے پر اصرار ہے مگر میرے خطوط مجھے ابھی تک واپس نہیں کئے گئے۔ آئندہ خط کے ساتھ بھیج دوتو شروع کر دوں میں خود ڈرتا ہوں کہ اگر خط و کتابت کا انتظام خراب ہو گیا تو بالکل فراق کی کاہشیں کہیں اُن لذّتوں کو غارت نہ کر دیں۔ جو ابھی خمارِ شبانہ کی شکل میں دل و دماغ پر محیط ہیں۔ ذیل کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ سرکا رہی کا زائیدہ طبع ہے۔ دیکھو کیسا پہچانا؟اور ہاں خوب یاد آیا۔ تم نے اپنا کلام بھجنے کا وعدہ بھی تو کیا تھا؟وہ اب تک وفا نہیں ہوا ہے۔ مہربانی کر کے اب اس طرح ضد نہ کرو۔ اُمید ہے مزاج بخیر ہو گا۔

زچشمِ زخمِ حوادث تُرا گزند مباد
تنت بنازکی اننیازمند مباد

تم اُس کی نہیں مگر پھر بھی

تمہارا کوکب

(پشت پر سلمیٰ کی قلم سے پنسل کی تحریر)

خطوط واپس کرتی ہوں۔ کیونکہ اب جبکہ میری تمام تر رنگین تمنّائیں۔ شاداب محبتیں اور مسرور آرزوئیں۔ مخفی آلامِ رنج و حسرت اور یاس و حرماں کی بے دردیوں سے افسردہ۔ پژمردہ ہو گئے ہیں۔ یہ خط۔ آہ!یہ محبت بھرے خطوط مجھے خون رُلاتے ہیں۔

(کوکب کو یاد نہیں رہا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لڑکیوں کو تو میں بچپن ہی سے پسند نہیں کرتا)۔ (مصنف)