لیجئے صاحب۔ آپ کے تمام خطوط حاضر ہیں۔ کہئے۔ اب تو مطمئن ہیں نا آپ؟حضور کیوں پردہ داری کی بے فائدہ زحمت گوارا فرماتے ہیں؟ میں سمجھ گئی ہوں۔ کہ یہ محض ایک بہانہ تھا۔ اپنی غلط بخشیوں کے ثبوت واپس لینے کا۔ ورنہ فسانہ تو آپ اِن خطوط کے بغیر بھی لکھ سکتے تھے۔ بہرحال مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ( کیونکہ شکوہ شکایتیں ہمیشہ اپنوں سے ہوتی ہیں )البتہ اپنے بختِ برگشتہ سے ضرور گلہ ہے۔ جو شاید تمام عمر رہے گا۔ مگر آپ کی بلا سے۔ خواہ مخواہ فکرمند ہونے کی ضرورت؟وہ تو صرف مذاق تھا۔ ورنہ میں اِس حقیقت۔ آہ!اِس تلخ حقیقت سے لاعلم نہیں ہوں کہ مجھے آپ سے بدگمان ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

جی ہاں۔ میں نے انقلاب میں زمیندار کی ہجوَ اور زمیندار میں "عکاس" کے نام سے اُس کا دنداں شکن جواب دیکھا تھا۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ عکّاس کے پردہ میں شرارت مآب کوکب جلوہ گرہیں پیشوا(دہلی) میں علی بابا چالیس چور کے عنوان سے جو مسلسل مضمون مولانا عکّاس صاحب کے نام سے شائع ہو رہا ہے۔ (اور جس کی بدولت عزیز حسن بقائی پر "الامان" کے ایڈیٹر صاحب نے فوجداری دعویٰ دائر کیا تھا) کیا اُس کے نگارندہ بھی آپ ہی ہیں؟اگر ایسا ہے۔ تو میں اِس روِش کو ہرگز وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتی۔ بھلا اس انداز میں دوسروں کی عیب جوئی سے حاصل ہی کیا ہو سکتا ہے؟ آپ اگر اپنے اُس دلآزارانہ مضمون کے تلخ سلسلہ کو اُنیسویں چور پرہی ختم کر دیں تو میری رائے ناقص میں نہایت مناسب ہو گا۔ کیا آپ اِس پر عمل نہیں کریں گے؟

آمدم بر سرِ مطلب۔ لاہور کی ایک مسلم خاتون سے، افسوس ہے کہ میں بالکل ناواقف ہوں۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو۔ اِس کوٹھی میں آنے سے پہلے ہم بھاٹی دروازہ میں چند ماہ رہ چکے ہیں۔ وہاں اکثر خاندانوں سے ہمارے مراسم بھی ہیں اور اب بھی اکثر آمدورفت رہتی ہے۔ مگر میرے علم میں وہاں کوئی خاتون ایسی نہیں ہیں جو شعر کہتی ہوں اور وہ بھی آپ کے سے زبردست شاعر کے مقابلہ میں۔ "١"بہرحال میں اب خاص طور پر اُس گمنام خاتون کا پتہ چلانے کی کوشش کروں گی۔

غنیمت ہے جو آپ کو ہماری شاگردی کی مٹھائی وقت پر یاد آ گئی۔ اور آپ نے نہایت فراخ حوصلگی سے اُس کی وصولی کا اعتراف بھی کر لیا۔ ورنہ میں تو عنقریب یہ کہنے والی تھی کہ آپ تو کھا کے مُکر جانے کے عادی معلوم ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے واقعی مجھ سی جاہل اور نالائق کو اپنی شاگردی میں قبول کر لیا ہے۔ تو پھر میں اپنی یاوریِ بخت پر جس قدر بھی ناز کروں کم ہے۔ کیونکہ آپ سے اُستاد قسمت والوں ہی کو ملتے ہیں۔ فرمائیے آپ زیادہ ترکس قسم کی مٹھائی پسند کرتے ہیں؟تاکہ میں ایک شاگردِ رشید کی حیثیت سے آپ کی پسند کے مطابق اپنے ہاتھ سے مٹھائی تیار کروں

ہم تو عمر بھر ترسے

کے ابتدائی الفاظ کیوں حذف کر دیئے؟آخر اُن غریبوں نے ایسا کون سا سنگین جُرم کیا تھا جس کی یہ سزا ملی؟

آپ کا دلفریب و دلنشیں مضمون "محبت" ایک مجھی کو پسند نہیں۔ بلکہ ہر ایک کو پسند ہے اور اس کا ثبوت "تفریح" (بجنور )کے فروری نمبر سے ملتا ہے جس میں آپ کا وہ مضمون بلا حوالہ نہایت قابلیت سے درج فرما لیا گیا ہے۔ مجھے ایسے سارق ایڈیٹروں پر بے حد غصّہ آتا ہے۔ جو رسالہ کا حوالہ چھوڑ۔ مضمون نگار کا نام بھی "غتر بود" کر جاتے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ اُن بلند شہری آغاؤں کی ضرور خبر لیں گے۔

آپ نے گلفشانی فرمائی ہے کہ تملق یا چاپلوسی کے بغیر تمہاری ہم جنس ہستیاں سیدھی بھی تو نہیں ہوتیں۔ بجا فرمایا میری اور صرف میری محبت کا دعویٰ اور غیروں کی خوشنودی حاصل کرنے کا اِس درجہ خیال؟آخر میں بدقسمت آپ کی اِن ستم ظریفیوں پر چِڑھوں نہیں تو کیا کروں؟آپ نے مجھ سے میرا کلام طلب فرمایا ہے۔ لیکن میں زبانی عرض کر چکی ہوں کہ وہ ہرگز اِس قابل نہیں کہ آپ کے بعد خط گرامی سے گزرے۔ کوئی شعر بھی ایسا نہیں جس میں شعریت ہو۔ وہ شعریت جو ہمیشہ آپ کا مطلوبِ فکری ہوتی ہے۔ مجھے شرم آتی ہے۔ آپ خواہ مخواہ مجھ پر ہنسیں گے۔ علاوہ بریں میں شاعری سے تو بہ بھی کر چکی ہوں۔ اب میں کبھی شعر نہیں کہوں گی۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ ممکن تھا۔ کہ دنیا مجھے ایک شاعرہ کی حیثیت سے جانتی۔ ممکن تھا۔ کہ مجھے بھی اُردو کی شاعرہ خواتین کے زمرہ میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہو جاتا۔

مگر۔ نہیں۔ اب میں کبھی شعر نہیں کہوں گی۔ ہاں۔ اب میں ہمیشہ اِس فخر سے محروم رہوں گی۔ لیکن مجھے اِس محرومی پر مطلق افسوس نہ ہو گا۔ کیونکہ میں محسوس کرتی ہوں کہ شاعر ہونے کی بہ نسبت کسی کا فدائے اشعار ہونا۔ کسی کا مسجودِ افکار ہونا زیادہ دل خوش کن امر ہے۔ آہ! اِس سے بڑھ کر اور کیا خوش نصیبی ہو سکتی ہے؟اِس سے بڑھ کر اور خوش نصیبی ہوہی کیا سکتی ہے؟اب مجھے آپ کی شاعری پر فخر ہے۔ بخدا جب میں آپ کی کوئی نظم دیکھتی ہوں۔ (خواہ میں اُس کی مخاطب نہ بھی ہوں )تو میرا دل ایک عجیب قسم کی بے نام اور ناقابلِ فہم خوشی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ اور میں شوقیہ لہجہ کی انتہائی وارفتگی کے ساتھ بے اختیا ر کہہ اُٹھتی ہوں۔ "یہ تو میرے ہی شعر ہیں۔ "اُمید ہے کہ آپ مجھے اپنے اِنہی جذباتِ مسرّت میں سرشار رہنے دیں گے اور معذور سمجھ کر معاف کر دیں گے۔ میرے سرمایۂ افتخار!مجھے الفاظ نہیں ملتے کہ میں آپ کی محبت اور ذرّہ نوازی کا شکریہ ادا کروں۔ اب تو خط و کتابت کی نصف الملاقات ہے۔ مگر افسوس کہ پھر یہ بھی نصیب نہ ہو گی کیونکہ ٣- مارچ کو میں اپنے عزیزوں کے ہمراہ دہلی جا رہی ہوں۔

ہائے مایوسیاں محبت کی
مر نہ جائے تو کیا کرے کوئی

افسوس ہے کہ اِس خط میں آپ کی کئی باتوں کا جواب نہیں لکھ سکی۔ کالج کا وقت قریب ہے اچھا پھر کبھی سہی اُمید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔

تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

والسّلام

آپ کی سلمیٰ

پیشگی عید مبارک قبول ہو

(حاشیہ پر)خدا کے لئے اِس درجہ سنگدلی اختیار نہ کیجئے۔ آخر آپ اب پہلے کی طرح راستہ میں کیوں نہیں نظر آتے؟

(پشت پر شعر)

کبھی فراق کے صدموں سے جی نہ ہاروں گی
تمام عُمر تری یاد میں گزاروں گی

(مابدولت)

سلمیٰ کو مغالطہ ہوا ہے۔ اِن خاتون نے کوکب یا عکاس کے جواب میں نظم نہیں کہی تھی بلکہ عکّاس نے اُس کے جواب میں (مصنف)