جی وہ خطوط پہنچے پان ملے عطوفت نامہ بھی نظر نواز ہوا۔ اُن مستی افشاں پانوں کا شکریہ کوئی کیونکر ادا کرے؟ کاش کہ ایسے پان روز ملا کرتے۔ خدا جانے اِن میں تمہاری نشہ طراز آنکھوں کی کوئی مہکی ہوئی نظر ملی ہوئی ہے۔ یا تم اپنے شکرّیں اور مستی ریز ہونٹوں سے چھُوا کر اِن کو بناتی ہو۔

پھر تم نے اُنہی سفّاکانہ شوخیوں کا آغاز کر دیا نا۔ کیوں جی؟اب تو ہماری ہر ایک بات۔ دھوکا اور جھوٹ ہونے لگی۔ خطوط اِس لئے واپس طلب کئے ہوں گے کہ اِس طرح اپنی غلط بخشیوں کے ثبوت تمہارے پاس نہ رہیں۔؟ میں کہتا ہوں۔ اب تمہارے ہونٹوں نے پھر غلط بیانیاں شروع کر دی ہیں۔ کہیں مجھے سزا کی ضرورت نہ محسوس ہو۔ اور کیا کہوں؟

"پیشوا کے عکاّس" اور اس کی فحش نگاریوں پر حضور بہت چیں بہ جبیں ہیں۔ کاش کہ یہ چیں بہ جبیں میرے حصّہ میں آتی۔ مجھے پیشوا کے عکاّس کی سرفرازیِ تقدیر پر رشک آتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ پیشوا کا عکاّس بھی میں کیوں نہ ہوا؟ کیوں نہ ہو سکا؟بہرکیف پیشوا کا عکاّس کوئی اور شخص ہے۔ ممکن ہے ہو۔ میں ایسے ذلیل پرچوں میں (گو کہ بھی اِسی فہرست میں داخل ہے )اوّل تو لکھنا ہی پسند نہیں کرتا۔ پھر اس درجہ حرام نگاریاں۔ ارے لاحول ولا قوّتَ۔ مجھے معلوم نہ تھا۔ کہ پیشوا میں اُس مضمون کا آغاز کرنے والا بھی کوئی عکاّس ہے۔ ورنہ شاید میں عکاّس کا فرضی نام نہ اختیار کرتا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہاری طرح بعض لوگ بھی "علی بابا چالیس چور" کا گنہگار مجھی کو سمجھتے ہوں گے۔ اور اس سے بڑھ کر میرے تفننِ طبع کی کوئی ہتک نہیں ہو سکتی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اخبار کے ذریعہ اِس مغالطہ کو رفع کر دوں۔ میں متاسّف ہوں کہ الف لیلہ کے اِس سلسلہ کو اُنیسویں چور پر ختم کر کے تمہارے حکم کے سامنے سرخرو نہیں ہو سکتا۔

بھاٹی گیٹ میں یقیناً کوئی خاتون ایسی نہیں ہوں گی۔ اور میرا خیال صحیح معلوم ہوتا ہے کہ وہ نظم ادارۂ انقلاب ہی کی تراشیدہ فکر ہے۔ خیر اِس بحث کو دفع کرو۔

شاید آپ نے مجھے " کور نمک" خیال کیا۔ آخر وہ مٹھائی یاد کیوں نہ آتی؟ میں نمک حرام نہیں ہوں اور پھر ایسا نمک، اِتنا شیریں اِس درجہ حلاوت سرِشت نمک کسی کے ہونٹوں کو کبھی بھول سکتا ہے ایسے نا سپاس ہونٹوں کو کالے ڈس جائیں تو اچھا تم دوبارہ دستی مٹھائی کی تکلیف نہ کرو۔ مجھے اُسی بہشتی حلاوت۔ اُسی آسمانی شیرینی سے لبریز مٹھائی کی مست و مخمور لذّتوں میں چُور رہنے دو۔ ہاں۔ وہی مٹھائی پھر ملے تو "نقدِ جان" دے کر بھی قبول ہے۔

تم نے لکھا ہے۔ کہ شکوہ شکایت اپنوں سے ہوتے ہیں۔ گویا ہم حضور کے نزدیک بیگانے ٹھہرے۔ شاگردِ رشید۔ ایسے ہی ہوتے ہوں گے کہ غریب اُستاد کو اپنا بھی نہ سمجھیں؟؟یہ اچھی ستم ظریفی ہے۔ خیر میں اِس کی شکایت نہیں کرتا۔ البتہ اتنی دعا ضرور ہے۔

خدا تم کو توفیق دے اب جفا کی
کڑی جو پڑی ہے اُٹھائی ہے ہم نے

"تفریح" میری نظر سے نہیں گزرتا۔ کیا تم یہ پسند کرتی ہو۔ کہ میں ایسے عامیانہ رسائل کو مخاطب کروں۔؟ میں نے "کیف" کو لکھ دیا ہے اور اُسی کو زیادہ حق بھی ہے۔ جی ہاں۔ آپ کے چِڑھانے ہی کے لئے تو ایسے فقرے تراشے جاتے ہیں۔ آپ نہ پڑھیں۔ تو ضرورت ہی کیا ہے۔

دیکھ تو اِس لئے میں تجھ کو خفا کرتا ہوں
کہ مجھے تیرے ستانے میں مزا آتا ہے

آخر تم نے اپنا کلام نہیں بھیجا نا۔ بہت اچھا۔ میں بھی اِس بات کو کبھی نہیں بھولوں گا۔ جوجی چاہے بہانے بناؤ۔ مطلوب صرف انکا رہے اور انکار سے میری پریشانی اور بس۔

آہ!مجھے معلوم ہے کہ تمہیں ضرور میری ہرزہ نگاریوں پر فخر ہو گا۔ اگر تم اِس کا اظہار نہ بھی کرتیں۔ تو میری جان۔ یہ مجھے معلوم ہونا چاہئے تھا۔ اور مجھے معلوم تھا کہ تمہاری فیاض نگاہیں۔ میرے لئے ہزار ہا دلفریب اداؤں سے معمور "حسن طلبی" سے لبریز ہوتی ہیں۔ کہہ نہیں سکتا کہ اِس فقرے نے جذبات پرکیا کچھ بنا دی؟فطرتِ محبت کے اِس بے پناہ جذبات پرکیا کچھ۔ صداقت سے خدا محفوظ رکھے۔ مجھے کس درجہ تم نے مغرور کر دیا ہے؟؟اُف!یہ فقرہ نہیں۔ قیامت لکھ گئی ہو۔ میں تمہیں کس دل سے خدا حافظ کہوں؟اللہ کچھ تم ہی بتا دو۔ میرا ذخیرۂ الفاظ اِس قسم کے الفاظ سے سراسر خالی ہے۔

ہائے میری آنکھوں میں تو اب اتنے آنسو بھی نہیں رہے

حیف در چشمِ زدن صحبتِ آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخر شد

وہ دل کہاں سے لاؤں؟ کہ تمہیں الوداع ہائے خدا جانے کب تک الوداع کہنے کی تاب رکھتا ہو

قیامت ہے کہ ہووے "مدعی" کا ہم سفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے

وہاں سے خط کس طرح بھیجو گی؟فضا کا خیال رکھنا اور یقینی طور پر امکان ہو۔ تب تو کوئی حرج نہیں۔ ورنہ ایسی ویسی کوشش نہ کر بیٹھنا

کبھی فراق کے صدموں سے جی نہ ہاروں گی
تمام عمر تری یاد میں گزاروں گی

کیا۔ ایسے شعروں کو تم شاعری یا شعریت سے خالی سمجھتی ہو۔؟یہ تو مستقل ایک شعریت اور مکمّل ایک شاعری ہے مجھے تو اِس طرزِ شعریت پر رشک آتا ہے۔ کس درجہ قاتل جذبہ ہے اور کیسے سادہ الفاظ میں اظہار ہوا ہے۔؟شاعری کی معراجِ کمال یہی ہے۔ کہ غالب و بیدل کے خیالات ہوں۔ اور داغ کی زبان اُردو دنیا سراسر اِس رنگِ عروج سے خالی ہے۔ میرا ارادہ تو اِس شعر کو "چُرانے " کا ہے اِس پر غزل لکھ کر اپنے نام سے شائع کر دوں گا۔ پھر کیا کرو گی۔؟

عید مبارک کا شکریہ۔ مگر ہمارے لئے تو یہ عید بھی محرّم سے کم نہیں۔

تم پاس نہیں تو عید، یہ عید نہیں

آخری الوداع میری نگاہیں کہیں گی۔ لہٰذا سرِ دست رخصت میں تمہارے لئے دعا کروں گا۔ ہاں اپنی انتہائی عبودیت کی روح سے تمہاری مسرّتوں اور طمانیتوں کے لئے دعا کروں گا۔ ہائے!

کوکب

(حاشیہ پر) میرے دو خطوں پر تم نے جو قلم فرسائی کی ہے اُس کا جواب سوائے اِس کے کیا دوں۔ کہ وہ میری تنہائی کی بہترین لذّتوں کا باعث ہیں۔ )