جانم۔ رات کو ہمشیرہ کی عزیز از جان ہستی۔ جو اِس دنیا میں تمہارے بعد میرے لئے تنہا باعثِ مسرّت تھی۔ مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی تمہارا نامۂ محبت آنے تک میری آنکھیں جِس سیلابِ اشک میں لبریز رہی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا۔ آہ!اِس کی طوفانی شدّت کا حال نہیں بتلا سکتا۔

تمہاری دستی مٹھائی کا ممنون ہوں۔ میں نے تو کہا تھا کہ مذاق کی بات کو حقیقت نہ بنا دینا۔ مگر تمہاری ظالمانہ محبت کہاں ماننے والی ہے؟ اور کیا کہوں؟اِس وقت کوئی دل خوش کُن گفتگو نہیں سوجھتی سوائے اِس کے کہ تمہاری حسین تحریر کی شریر روش اور رُلا گئی۔ آہ!اب تم بھی چلی جاؤ گی۔ اِدھر یہ غم۔ اُدھر یہ الم۔

ہزار رنج ہیں اِک جانِ ناتواں کے لئے

مجھے تمہارے ستانے میں کیوں نہ مزہ آئے؟آہ!اپنے مرکزِ محبّت کو ستانا۔ دنیا اس لذّت کا اندازہ نہیں کر سکتی۔ حسن و عشق کی کتاب کا یہی تو پُر لُطف باب ہے۔ جس پر دنیا بھر کے جذباتِ لطیفہ کی لذّتیں نثار ہیں تم اِس کی لطف طرازیوں کا حال مجھ سے نہ پوچھو۔ اور بہتر یہی ہے۔ کہ کبھی نہ جان سکو اِس سے باخبر ہو کر تمہاری ستم پیشگی میرے ہزاروں ازلی لذّتوں کو غارت کر دے گی جو اِس وقت میرے تنہا مسرّتوں کا باعث ہیں۔ میری ننھّی۔ ناسمجھ۔ تم اِس پہلو کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرو۔ تو اچھا ہے۔

سُرمہ نورِ بصر بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ یہ آنکھیں تمہاری شعاعِ جمال کا مسکن ہیں۔ خدا رکھّے۔ اِن میں تمہارے لمعاتِ حُسن کی ہزاروں منوّر جنّتیں آباد ہیں۔ یہ اب ہر چیز کو اچھی طرح دیکھ سکتی ہیں۔ تمہاری ماہ پیکر ہستی کی ستارہ افشانی کو بھی۔ تمہاری نشہ طراز آنکھوں کی میخانہ چکانی کو بھی۔ ہاں اُن سب چیزوں کو جن سے تمہاری ملکوتی پیکر اور الہّیت سرشت ہستی کو ذرا بھی نسبت ہے۔ شکر ہے۔ تم نے اِس قابل تو سمجھا کہ ہمراہی کے لئے اِس "ہیچمدان" کی نیاز مندیوں کو بھی یاد کیا۔ تجاہلِ عارفانہ نہ برتو۔ انصاف سے کہہ دو کیا مجھے خود اِس قسم کی آرزو نہ تھی۔؟نہیں ہو سکتی تھی۔؟ میں کیوں نہ چلوں گا؟

اشارہ تیغ کا پاتے تو سرکے بل جاتے

آہ!تم نے کبھی میرے جذباتِ محبت کو سمجھنے کی پرواہی نہیں کی۔ بہر کیف اِس موقعہ پر اِس لطفِ خاص اور بندہ نوازی کا ممنون ہوں۔ اُف! میں اِس صمیمی مہربانی کا۔ اِس کی ناقابلِ اظہار اثر آفرینی کا اندازہ نہیں کر سکتا۔

"گل فروش" پر اتنی نوازش یا ظلم نہ کرنا۔ کیونکہ مجبوراً اس کے اجراء کے خواب کو بے تعبیر ہی چھوڑ دینا پڑا ہے۔ اگر اجراء سے عہدہ بر آہو بھی جاتا تو تم جیسے خریداروں کو جو خود مجھے اور میری ہرزہ نگاریوں کو خرید چکے ہیں۔ اِس کی خریداری کی ذلّت برداشت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ نہ مجھے گوارا!خواہ یہ کیسا ہی مصلحتاً ہوتا۔ میں کوشش کروں گا کہ کیف۔ قوس قزح اور نگار میں تمہیں مخاطب کر سکوں۔ جس حد تک کہ اِن پرچوں کے کار پردازوں نے مجھے اجازت دی۔ دہلی میں بھی غالباً یہ پرچے تمہاری نظر سے گزر سکیں گے۔

بیوی سے محبت۔؟عجیب سوال ہے۔ یقیناً بیوی سے محبت کوئی ضروری چیز نہیں کیونکہ شا دی۔ محض جماعتِ انسانی کے نظام کا پاس کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ خواہ اُن میں محبت ہویا نہ ہو۔ کم از کم ہندوستان کی موجودہ تہذیب و تمدّن کا یہی منشا معلوم ہوتا ہے۔ رہا میرا ذاتی تعلّق اِس مسئلہ میں۔ تو میں اِس بارے میں صرف اِس قدر کہوں گا کہ اِس کا جواب اپنے ہی دل سے پوچھو۔

میں تمہارے خطوط کا محض اِس لئے جواب دیتا ہوں کہ یہ میری آرزو ہے۔ اور آرزو صرف اِس لئے ہے کہ شاید مجھے تم سے محبت ہے۔ میں تو تمہیں شاید نہ بھولوں اور کیونکر بھول سکتا ہوں؟

جبکہ میرا تمام تر سرمایۂ نگارش۔ میرا ادب۔ میری شاعری۔ میرا سب کچھ تمہارے پرتوِ جمال سے لبریز اور تمہارے اثراتِ حُسن سے معمور ہے میں جو کچھ لکھتا ہوں۔ تمہارے لئے اور تمہارے خیال سے سرشار ہو کر لکھتا ہوں۔ میری تحریر۔ تمہارے خواب۔ میری نگارشیں تمہارے تصوّر ہیں۔ میرا نگار خانۂ قلم از سر تا پا تمہاری تصویرِ فکری اور پیکرِ شعری سے عبارت ہے۔ اور میرا تمام و کمالِ دماغی اور روحی افکار کا سرمایہ اب صرف تمہارا عکسِ شوق ہو کر رہ گیا ہے۔

ہر نظم گوہریں کہ بیادِ تو گفتہ ام
دل رخنہ کردہ وجگرخویش سفتہ ام(فیضی)

مگر تم اپنی کہو۔

چلو تم رہو سلامت، تمہیں ہو عدو مبارک
مرے دل کو رنج و حسرت غم و آرزو مبارک

(باقی پھر)

راقم

فیضی گماں مبرکہ غمِ دل نگفتہ ماند
اسرارِ عشق آنچہ تو اں گفت گفتہ ام