کوکب صاحب۔ عرضِ تبسّم نیاز ہاں!یہ کیا فرمایا آپ نے کہ تمہارا یہ مقصد ہے کہ اب میری ذلّتیں اِس درجہ تک پہنچ گئی ہیں؟ میں کہتی ہوں یہ آپ کی ستم آرائی ہے۔ اور بس۔ ورنہ مالی امداد کے تذکرہ سے میرا مقصد اِس کے سوا کچھ اور نہ تھا کہ

تُو اور نہیں، میں اور نہیں

یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ اِسے اپنی ناقابلِ برداشت اہانت سمجھیں۔ بہرکیف میں بصد ندامت و پشیمانی اپنے وہ الفاظ واپس لیتی ہوں۔ مگر خیال رہے کہ مجھے اِس بات کا مرتے دم تک قلق رہے گا کہ آپ میرے نیازِ خلوص کو اپنی ذلّت اور میری محبت کو اپنی اہانت تصوّر کرتے ہیں۔

کاپی کا شکریہ۔ مگر وہ خطوط تو اِس میں درج ہی نہیں کئے گئے جو گمنامی کی حالت میں لکھے گئے تھے اور جنہیں میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ وہ آپ کے پاس سے گم ہو گئے ہیں۔

جی نہیں۔ میری سہیلی کی شخصیت کی رنگینیوں میں آپ کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ اِس لئے کہ وہ بھی ایک کوکب کے دل کی سلطانہ ہیں۔ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اُن بے چاری کے کوکب نہ تو شاعر ہیں۔ نہ ا دیب۔ مگر یہ تو اپنی اپنی قسمت۔ اِس میں کسی کا کیا اجارہ؟اور کیوں صاحب؟یہ حضور ہر جگہ پاؤں کیوں پھیلانے لگتے ہیں؟

میں "ایک شاعر کا خواب" کے لئے اپنے بعض حالات ایک کہانی کی شکل میں قلمبند کر رہی تھی۔ کیونکہ آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ فسانہ لکھنے میں میری رہنمائی کرو۔ مگر اب آپ کی کاپی میں یہ دیکھ کر کہ فسانہ شاید خطوں ہی خطوں کے ذریعہ مکمّل کیا جاوے گا۔ میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ اور وہ کہانی ناتمام ہی رہنے دی ہے۔ اُمید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔

والسّلام

منّت پذیر۔ خاکسار۔ "1"

(حاشیہ پر) برائے کرم، سب خطوط کاپی میں نقل کر دیجئے

1 (اصل نام تھا۔ اور غالباً پہلی مرتبہ لکھا گیا تھا) کوکب