(میری غمناک زندگی کے درد انگیز حالات)

ایک افسانہ کی تمہید

از سلمیٰ

اگر محبت واقعی نام ہے ایک قوتِ جاذبہ کا۔ تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اُس نے میرے سوزِ نہاں کا اثر نہ قبول کیا ہو۔ میں نے "نویدِ بہار" کو میز پر رکھتے ہوئے خودبخود کہا "مگر نہیں۔ یہ ناممکن ہے۔ آہ!یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ "اور میری آنکھیں۔ آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔ " کیا ناممکن معلوم ہوتا ہے؟" ایک آواز آئی اور میری مدہوشیِ خیال کو غارت کر گئی۔ زہرہ مسکراتی ہوئی میرے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ اوہ تم ہو زہرہ؟ میں نے ضبطِ گریہ کی کوشش کرتے ہوئے بناؤٹی ہنسی ہنس کر کہا۔ یقین مانو کہ میں اِس وقت تمہی کو یاد کر رہی تھی۔ کہو مزاج تو اچھا ہے؟

مزاج وِزاج تو پھر پوچھنا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ محبت کے بارے میں ابھی ابھی تم کیا گلفشانی کر رہی تھیں۔؟

زہرا نے شرارت آمیز انداز میں مسکراتے ہوئے پوچھا اور میرے برابر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔

"کیا گُلفشانی کر رہی تھی؟" میں نے تجاہلِ عارفانہ کے انداز میں کہا۔ "مجھے تو مطلق یاد نہیں۔ کچھ تم ہی بتاؤ۔ ہاں بہن "نویدِ بہار" کا خاص نمبر دیکھا تم نے؟ لو دیکھو واللہ!اِس میں کوکب کا ایک ایسا دلفریب اور دل نشین افسانہ شائع ہوا ہے کہ بس کیا کہوں؟یوں تو آجکل، اور دنیا میں ہر ایک افسانہ نگاری کا مدّعی نظر آتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ حقیقتاً افسانہ نگاری ایک خاص مذاق چاہتی ہے۔ "

"سوال دیگر۔ جواب دیگر۔ یہ کیا بے تکا پن ہے؟" زہرہ نے محبت سے بھری ہوئی متانت کے ساتھ مجھے روکتے ہوئے کہا۔

"میں کہتی ہوں۔ اِس غیر متعلّق بحث کے کیا معنی؟ میں نے تو پوچھا تھا کہ اگر محبت قوتِ جاذبہ کا نام ہے تو اُس کا کیا اثر ہوتا ہے؟آخر کس نے اِس کا اثر قبول کیا ہو گا؟"

اب مجھ میں ضبط کی تاب نہ تھی۔ آہ!اب میں اپنا دلی اضطراب آنکھوں میں نہیں چھپا سکتی تھی۔ میرے جذباتِ غم میں ایک ہیجان۔ ایک بے اختیارانہ ہیجان برپا ہو گیا۔ اور میں رو پڑی۔

"ہائیں سلمیٰ۔ تم تو یہ کیا تم تو رونے لگیں الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟بتاؤ بہن۔ کیا بات ہے؟"آہ! کچھ نہیں بس یونہی بیٹھے بیٹھے خدا جانے کیا خیال آ گیا تھا؟" "نہیں سچ بتاؤ۔ کوئی بات ضرور ہے۔ اِس میں تمہیں ہماری جان کی قسم سچ کہو۔ " "کیا کہوں؟ کیونکر کہوں میرے اللہ مجھے یہ کیا ہو گیا ہے؟ زہرہ بہن اُف"

"خدا خیر کرے بہن کچھ کہو گی بھی؟ تم نے تو مجھے گھبرا دیا ہے۔۔ لے اب سچ مچ صاف صاف بتلا دو۔ بہن۔" اُس کے لہجہ میں ایک مجبور کن ہمدردی تھی۔

"آہ!زہرہ۔ نسیمِ بہار کے لئے مشہور ہے۔ کہ اُس کے روح پرور جھونکوں سے کلیاں کھِل کر پھول ہو جاتی ہیں۔ مگر میرے دل کی کلی مرجھائی ہوئی کلی۔" شدّتِ گریہ سے میرا حلق خشک ہو گیا اور میں کوشش کے باوجود آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ زہرہ بے چین ہو کر۔ نہایت بے چین ہو کر کرسی سے اُٹھی اور میرے قریب آ کرب اپنے سُرخ ریشمی رومال سے میری آنسو بھری آنکھیں پونچھنے لگی۔ مگر اشکِ بے اختیار کی اضطراب سامانیاں ایسی نہ تھیں کہ تھم جاتیں۔ تھم سکتیں۔

(2)

خدا جانے کتنی دیر تک میری آنکھیں سیلابِ غم بہاتی رہیں۔ میں نیم ہوش و نیم مدہوشی کے عالم میں کھوئی ہوئی تھی۔ جب اِس طرح جی کھول کر رونے سے میرے دل کا بخار نکل گیا۔ تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میں ایک خواب دیکھ کر ابھی بیدار ہوئی ہوں۔

"زہرہ۔ میری پیاری بہن۔ کیا تم وعدہ کرتی ہو۔ کہ میرے راز کو۔ میرے اِس راز کو جو آج بے تابیِ دل کے ہاتھوں تم پر افشا ہو گیا ہے۔ اپنا راز سمجھو گی؟"

"یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے۔ سلمیٰ بہن۔۔ میں اِس کی جان کے برابر حفاظت کروں گی۔ کیا تم نے مجھے اِس درجہ کم ظرف سمجھا ہے کہ وعدہ لے رہی ہو۔ تم اطمینان رکھو کہ تمہارا راز ہمیشہ میرے دل میں رہے گا۔ "وہ ایک لمحہ کے لئے رُکی اور پھر بولی"۔ مگر تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا راز مجھ پر آج کھُلا ہے نہیں میں اِسے بہت دنوں سے جانتی ہوں "۔

"بہت دنوں سے جانتی ہو۔ وہ کیسے؟" میں نے حد درجہ اضطراب آمیز تعجب سے سوال کیا۔

"تعجب کی اِس میں کیا بات ہے؟پھولوں کی مہک اور محبّت کا رنگ کہیں چھُپائے چھُپ سکتا ہے؟یہ تمہارا ہر وقت، ہر لمحہ؟غمگین رہنا۔ یہ چہرہ کی افسردگی۔ یہ نگاہوں کی اُداسی بات بات پر آہیں۔ یہ سب تمہاری محبت کی غمّاز ہیں۔ " زہرہ نے مجھے گہری نظر سے گھورتے ہوئے جواب دیا۔

"اچھا تو کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ میں کس سے؟" میں نے دل پر جو اُس وقت یک بیک مضطرب ہو گیا تھا۔ ہاتھ رکھتے ہوئے پُوچھا۔ "ہاں مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم کس سے محبت کرتی ہو۔ "

"کس سے؟زہرہ بتاؤ مجھے کس سے محبت ہے؟" "نوید بہار کے ایک غائبانہ ا دیب کوکب سے۔ ٹھیک کہتی ہوں نا؟"

میری رگوں میں ایک برقی لہر دوڑ گئی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے جذبات میں نشتر سا چبھو دیا ہے۔ دل۔ میرا مضطرب دل۔ زور۔ زور سے دھڑکنے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ جیسے دنیا بھرکی دھڑکنیں مجھ میں سما گئی ہیں۔ یہ آہ!یہ سب کچھ اُس نام۔ ہائے۔ اُس شیریں اور لطیف نام کا کافر اثر تھا۔

"مگر مگر تمہیں یہ کیسے کیونکر معلوم ہوا؟" میں نے مرتعش آواز میں پوچھا۔

"اگر خفا نہ ہو تو کہوں۔ تمہاری بیاض میں۔ ایک خط نظر آیا تھا۔ اُسی نے مجھے یہ سب باتیں بتلائی تھیں۔ کچھ یاد ہے؟جب میں پچھلی مرتبہ تم سے ملنے آئی تھی۔ تو تم نے اپنی بیاض پڑھنے کے لئے مجھے دی تھی؟"

زہرہ کی یہ باتیں سُن کر میں نے انتہائی ندامت و پشیمانی سے سر جھکا لیا۔ میں اُس کی باتوں کا کچھ جواب نہ دے سکی۔ "نہیں۔ میری پیاری سلمیٰ میں کہتی ہوں۔ میں تمہارے ہی فائدہ کے لئے کہتی ہوں کہ تم اِس سودائے خام سے باز آ جاؤ۔ ذرا عاقبت اندیشی سے کام لو۔ جہاں تک جلد ہو سکے۔ اِس بیہودہ خیال کو اپنے دماغ سے نکال ڈالو۔ خدا کے لئے نکال ڈالو۔ کنواری لڑکیوں کے یہ لچھن اچھے نہیں ہوتے مجھے تسلیم ہے کہ محبّت کوئی بُری چیز نہیں۔ مگر اِس صورت میں جبکہ اُس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ورنہ اُس سے پھر زیادہ کوئی حقیر چیزبھی نہیں۔ " زہرہ کا لہجہ برابر زوردار ہوتا جا رہا تھا۔ "اچھی۔ میں تو سمجھی تھی کہ تم بڑی عقلمند اور ذہین ہو۔ مگر اب مجھے معلوم ہوا کہ میرا خیال محض حُسنِ ظن تھا اور بس"

ناصحا، پند و نصیحت سے تجھے کیا فائدہ
دل مچلتا جائے ہے جتنا کہ تُو سمجھائے ہے

میں نے زہرہ کی لمبی چوڑی تقریر کا جواب ذوق کے اِس شعر سے دیا اور پھر بے اختیار ننھے بچوں کی طرح پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگی۔ "بھلا اک ایسے شخص سے محبّت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ جس کے متعلق اتنا بھی علم نہ ہو کہ وہ ہے کون؟زہرہ نے (بظاہر)میری نالہ و زاری سے متاثر ہوئے بغیر اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھا" "اتنی بھی خبر نہ ہو کہ بوڑھا ہے یا جوان؟خوبصورت ہے یابد صورت؟شا دی شدہ ہے یا کیا؟اور سب سے آخر میں یہ کہ آیا وہ ایک محبت بھرے دل کی پذیرائی کر سکتا ہے یا نہیں؟سلمیٰ پیاری۔ یہ تو تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ ہر ایک شخص محبت کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ "

"ہاں مگر تمہارے یہ اعتراضات قابلِ تسلیم نہیں ہیں۔ " میں نے کہا۔ " کیونکر؟" زہرہ نے پوچھا۔

"اِس لئے کہ مجھے اُس کے متعلّق۔ اپنے اُس دلستان کے متعلّق سب کچھ معلوم ہے۔ سب کچھ معلوم ہو چکا ہے۔ زہرہ۔ وہ ایک خوش وضع۔ خوبصورت نشیلی آنکھوں والا نوجوان ہے۔ وہ ایک راست باز۔ عالی ظرف اور شریف النسّب انسان ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک ا دیب ہے۔ اور سحر نگار ا دیب۔ ایک شاعر ہے۔ اور آتش بیان شاعر۔ زہرہ۔ آج دنیائے شاعری میں اُس کا کوئی حریف نہیں۔ کوئی۔ کوئی بھی مدّمقابل نہیں۔ اُس کے کمال کا دُنیا پر سکّہ بیٹھا ہوا ہے "۔

"خیر میں مانے لیتی ہوں کہ تمہاری باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ مگر یہ تو کہو۔ اُسے بھی تم سے محبّت ہے؟اُس نے بھی تمہاری محبّت کا جواب محبّت سے دیا ہے؟اگر نہیں۔ تو میں کہتی ہوں کہ یہ تمہارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے سلمیٰ۔ یاد رکھو۔ کہ ایک لڑکی۔ ایک کنواری لڑکی کے لئے اِس سے زیادہ ذلّت۔ اِس سے زیادہ ہتک کوئی نہیں ہے۔ کوئی نہیں ہو سکتی کہ اُس کا محبوب اُس کا ہدیۂ محبت قبول کرنے سے انکا ر کر دے۔ اُسے حقارت سے ٹھکرا دے۔"

زہرہ نے خدا خدا کر کے اپنی غصّہ آمیز تقریر ختم کی۔ "مجھے معلوم ہے بہن۔ میں جانتی ہوں کہ اِس سے زیادہ ذلّت کوئی نہیں ہو سکتی۔ مگر آہ!اِس کا کیا علاج ہے؟کہ جسے میں چاہتی ہوں جس سے میں محبت کرتی ہوں۔ وہ مجھ سے تو کیا میرے نام تک سے بے خبر ہے نا آشنا ہے۔ "

"اِس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟" "یہی کہ میں نے اب تک" مگر اِس سے پہلے کہ میں اپنی بات ختم کروں۔ دروازہ کھُلا اور امّی جان کمرہ میں داخل ہوئیں۔ "سلمیٰ بیٹی" اُنہوں نے فرمایا "چار بج گئے اور تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہو؟ کیا میرے ساتھ نہیں چلو گی؟""جی۔ بس ابھی تیار ہوتی ہوں پانچ منٹ میں۔ "یہ کہہ کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور زہرہ سے لباس وغیرہ تبدیل کرنے کی اجازت لینے لگی۔

"مگر یہ آج جاؤ گی کہاں؟" زہرہ نے پوچھا۔ " کیا بتاؤں بہن۔ یہ ایک نئی مصیبت ہے۔ میری خالہ زاد بہن عذرا آج مایوں بیٹھیں گی۔ بس اُنہی کے یہاں جا رہے ہیں ہم!میرا تو کہیں آنے جانے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ مگر امی جان ہیں کہ ہاں تم بھی چلو نا"۔ "نہیں مجھے تو گھر جانے دو۔ والدہ صاحبہ خفا ہوں گی"۔

تو پھر ہمارے ساتھ چلو۔ راستہ میں اُتر جانا مکان پر۔ ابا ّجان نے نئی گاڑی خریدی ہے۔ وہ تم نے دیکھی؟" "نہیں تو؟" "تو پھر چلو اور اب ملو گی کب؟"

"شاید اگلے اتوار کو مگر نہیں۔ اب میں نہیں آؤں گی۔ خیال تو کرو۔ تم پچھلے دو مہینوں سے ایک دفعہ بھی تو ہمارے ہاں نہیں آئیں "۔ "اچھا خفا نہ ہو۔ اب میں ہی آ جاؤں گی"۔

اور والدہ صاحبہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نئی دنیا میں آ گئی ہوں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں پہلے خیالات و محسوسات بہت دھُندلے نظر آتے تھے۔ مگر نظر ضرور آتے تھے۔