میں یہ اُلٹی سیدھی سطریں لکھ رہی ہوں۔ اِس حال میں کہ میرا دل مجسّمۂ درد و غم ہے۔ اور میری آنکھیں سیل بکنار آہ! میں آپ سے جدا ہو رہی ہوں۔ ایک نامعلوم عرصہ تک کے لئے جُدا ہو رہی ہوں۔ ہائے!اب میری آنکھیں محروم ہو جائیں گی کسی کے دیدار سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائیں گی۔ میرے کان ترس جائیں گے۔ اُف کسی کی رس بھری۔ جادو بھری آواز سُننے کو ترس جائیں گے۔ اور بس ترستے رہیں گے۔ آہ!

جدا کسی کا کسی سے غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو

میں کیسے برداشت کروں؟ ہائے مجھے بتلائیے۔ میں اِس صدمۂ عظیم کوکس طرح کیونکر برداشت کروں گی؟میرے اللہ کیونکر برداشت کر سکوں گی؟مگر آپ کیا بتلائیں گے؟بھلا آپ کو مجھ سے اور میرے رنج و غم سے کیا واسطہ؟کیا غرض۔ آہ!

اُنہیں اِس کی نہیں پروا کوئی مرتا ہے مر جائے

اچھّا۔ خدا آپ کو ہمیشہ خوش و خرّم رکھے اور شاد و آباد رکھے۔

زندگی کی بہار دیکھو تم
عیشِ لیل و نہار دیکھو تم

خدا حافظ

غم نصیب۔ دعاگو

سلمیٰ

(حاشیہ پر)خدا کے لئے رومال کا یہ حقیر و ناچیز ہدیہ(جو میرے ہاتھ کا تیار کردہ ہے )اور پان قبول فرمائیے۔

یاد اپنی تمہیں دِلاتے جائیں
پان کل کے لئے لگاتے جائیں (آہ!)