تُو اور چارہ سازیِ اہلِ وفا غلط
نا فہم تھا جو دل کو ترا آسرا ہوا

انتظار حدسے بڑھ گیا۔ بے قراری نے شدّت اختیار کی۔ لیکن تمہاری آمد کے انتظار نے مجھے برابر مضطرب۔ پریشان اور چشم براہ رکھا! تمہاری یہ کم نگاہیاں تمہارا تغافل!تمہاری بے اعتنائیاں آہ!برباد کئے دیتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں غم و الم کے۔ حسرت و یاس کے۔ اندوہ و حرمان کے ایک تاریک و مہیب غار میں ابدالآباد تک کے لئے محبوس کر دی گئی ہوں مگر پھر بھی اُس جگر خراش اور سینہ سوز رنج کے باوجود بھی کہتی ہوں کہ۔

خدا کا شکر ہے پہلے محبت آپ نے کم کی

کیوں جی اب تو مجھے کہنا چاہئے نا۔ کہ محبت سے تھک جانے۔ اُ کتا جانے کا جو اندیشہ آپ کو مجھ سے تھا۔ اُس کا عمل در آمد آپ کی طرف سے ہو رہا ہے۔ آپ کی تصویر۔ نظم اور خطوط آپ کی خدمتِ بے مروّت میں واپس بھیجے۔ مگر ناکامی ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ حضور عمداً چھوکرے سے نہیں ملے۔ خیر۔ اِس میں نقصان کس کا ہوا۔؟ہاں ایک اہم معاملہ کے بارے میں مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ کیا آپ مجھ سے کسی وقت مل سکتے ہیں؟؟؟

اگر نازک ہاتھ دُکھ نہ جائیں تو بذریعہ تحریر آج شام کو ضرور مطّلع کیجئے۔ میں مجسّم انتظار ہوں۔

یہ شعر کیسا ہے؟

ہے وہ ہرجائی کبھی قابو میں آ سکتا نہیں
ہجر کا غم دے کے جینا جس نے مشکل کر دیا

والسّلام شکوہ سنجِ بے وفائی

وہی وفادار

(حاشیہ پر) ہمارا ہی خون پئے جو اِس خط کا جواب نہ دے۔

(پشت کی طرف)

بیروں روم کجاز حدِآستانِ تُو
زنجیرِ اُلفتِ تو چو در پا کشیدہ اَم

کیا بتاؤں مجھے بے درد وہ کیوں کہتے ہیں
کیا کہوں مجھ سے حسینوں کی شکایت کیا ہے؟ (ریاض)

پوچھ لیتے ہیں یہ، دستو رہے جلاّدوں کا
مجھ سے قاتل نے نہ پوچھا تری حسرت کیا ہے؟ (غالب)

کہیں یہ تفرقہ اندازِ چرخ دیکھ نہ لے
نہ اِس طریق سے باہیں گلے میں ڈال کے چل