میں اُس دن ایک ضرورت سے ایک سہیلی کے ہاں چلی گئی تھی۔ جس کا افسوس ہے۔ کیا آپ تشریف لائے تھے؟ اگر جواب اثبات میں ہے۔ تو میں شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اور اگر نفی میں ہے۔ تو پھر میں کہتی ہوں۔ کہ آپ کو اِس کی کوئی معقول وجہ بتلانا ہو گی۔ آخر کسی کے خط کا جواب نہ دینا کہاں کی دیکھئے میں آپ سے ایک اور صرف ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں اور وہ سوال یہ ہے کہ آپ نے حسبِ وعدہ وہ خط چاک کر دئے ہیں یا نہیں؟اگر نہیں تو کیوں؟ کس وجہ سے؟ میں آپ کے تمام مکتوبات واپس کر چکی ہوں۔ کر چکی ہوں نا؟تو اب آپ کو بھی ایسا کرنا چاہئے۔ کیوں۔ نا۔؟تاکہ میں بھی آپ کی طرح اِس طرف سے مطمئن ہو جاؤں۔ مطمئن ہو سکوں۔ مگر آپ سے ایسی اُمید کہاں؟آپ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ میں کمبخت ہمیشہ پریشان خاطر اور محرومِ تسکین ہی رہوں۔ معلوم نہیں۔ آپ کو مجھ سے اتنی عداوت کیوں ہے؟یا اب ہو گئی ہے؟

یقیناً میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ کی ہر ایک بات جھوٹ۔ فریب اور دغا تھی۔ آپ نے اپنے خطوط بھی اِس لئے واپس مانگے تھے کہ اِس طرح آپ کی غلط بحثیوں یا فریب آرائیوں کے ثبوت میرے پاس نہ رہیں۔ آہ!آپ کو مجھ سے ذرا بھی اُنس نہ تھا۔ آہ!ذرا سا انس بھی نہ تھا۔ آپ کے وہ تمام داعیاتِ محبّت۔ تصنع اور بناوٹ پر مبنی تھے۔ اور مجھے۔ مجھ عقل کی اندھی۔ نادان لڑکی کو دھوکے میں ڈالنے کے لئے۔ فریب میں مبتلا کرنے کے لئے ایک پُر مذاق سین اور بس۔

سوچئے اور شرما جائیے۔ خیال کیجئے اور نادم ہو جائیے۔ کہ آپ نے کس بے دردی کے ساتھ مجھ سے میری زندگی اور زندگی کی تمام مسرّتوں کو چھین لیا ہے۔ غارت کر دیا ہے۔ آہ!تباہ کر دیا ہے۔ کس سنگدلی سے میری اُمیدوں اور آرزوؤں کو پامال کر دیا ہے۔ مسل دیا ہے۔ کیا وہ منتقمِ حقیقی اِس ظلم و ستم کا بدلہ آپ سے نہ لے گا؟لے گا اور ضرور لیگا۔ مجھے رنج ہے۔ کہہ نہیں سکتی۔ کس درجہ رنج ہے کہ میں اب تک آپ کے سے ظاہردار۔ ریاکار۔ محبت فراموش۔ بے رحم۔ مغرور۔ وفا دشمن۔ جفا طراز۔ دلآزار اور ظالم آدمی کو دیوتا کیوں کہتی رہی؟اور کیوں اتنی مدّت تک اِس طرح، اِس نیاز مندی کے ساتھ آپ کی پرستش اپنے لئے جائز اور روا خیال کرتی رہی؟مگر اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔

اِس عریضے سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ میرے اِس سوال کا حسبِ منشا لمبا چوڑا، جواب عنایت فرمائیں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ پہلے آپ اِس لئے میرے خط کا جواب دیتے تھے کہ یہ آپ کی آرزو تھی اور آرزو اِس لئے تھی۔ کہ آپ کو مجھ سے محبت تھی۔ مگر اب اِس لئے جواب دیجئے کہ یہ آپ کا اخلاق ہے۔ اور اخلاق اِس لئے کہ آپ انسان ہیں۔ اگر آپ مجھے ہمیشہ کے لئے خاموش اور سکوت بلب کرنا چاہتے ہیں تو وہ خطوط واپس کر دیجئے۔ یا اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہہ دیجئے کہ وہ سب چاک کر دئیے گئے ہیں۔ بس میرے لئے یہی کافی ہو گا۔ یاد رکھئے اِس خاموش کشیدگی سے کچھ نہ بنے گا۔ آپ کے دل میں جو کچھ ہے۔ للہ بے کم و کاست زبانِ قلم سے ظاہر کر دیجئے۔ مجھے اب اور کیا رنج ہو سکتا ہے۔ آپ مجھے اپنی عنایتوں اور مہربانیوں سے پہلے ہی بہت رنجیدہ کر چکے ہیں۔ اور

رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ قلم کاغذ کو سیاہ کرنے میں مصروف ہے۔ مگر مجھے مطلقاً ہوش نہیں کہ کیا لکھ رہی ہوں۔ اور کیوں لکھ رہی ہوں؟دل میں ایک اضطراب ہے۔ الم انگیز۔ ایک جوش ہے۔ درد آمیز۔ چاہتی ہوں کہ کچھ اور لکھوں۔ مگر طاقتِ تحریر جواب دے چکی ہے۔ لہذا ختم۔

راقمہ

وہی کہ جسے آپ نے تباہ و برباد کر ڈالا