سلمیٰ کا خط

آپ کے صرف ایک سوال کا جواب تو صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ہوا ہے۔ مگر چونکہ آپ نے میرے حکم کی تعمیل ضروری نہیں سمجھی اِس لئے مجھے بھی ضرورت نہیں کہ میں تعمیلِ حکم میں۔ آپ کے صرف ایک ہی سوال کا جواب دینے پر اکتفا کروں اور اس کے علاوہ کچھ نہ لکھوں۔ لہذا یا بنا بریں بلا جھجک آپ کے مفصّل خط کا مفصّل جواب عرض کرتی ہوں۔

سُنئے۔ میں واقعی بہت ہی عجلت پسند اور ضدّی (اور اس کے علاوہ جو آپ ارشاد فرمائیں )ہوں۔ لیکن اگر میں اِن صفات سے متصف ہوتی تو پھر آپ جیسے فردِ مغرور سے جواب لے لینا معلوم بہرکیف اب میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ آئندہ آپ میری عجلت پسندی اور ضدّی طبیعت کا کبھی کوئی کرشمہ نہ دیکھیں گے۔ بس یہ کرشمہ آخری کرشمہ تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اتنی مدّت تک ناحق آپ کو دق کرتی رہی ہوں۔ مگر میں تو مجبور تھی۔ کیا آپ معاف نہ کریں گے؟

خدا مجھے دنیا سے اُٹھا لے۔ واپس لے لے کہ میں آپ کے سے گرامی قدر انسان کو مکمل انسان کو خارج از انسانیت یا ذلیل سمجھنے کا خیال بھی کروں۔ افسوس کہ میری نسبت آپ کے ایسے خیالات ہیں۔ کاش آپ اندازہ کر سکتے کہ آپ کے اِن الفاظ سے میں نے کس قدر دکھ محسوس کیا ہے؟مگر آپ کیوں کرتے؟جبکہ آپ کا مقصد ہی مجھ بدنصیب کو رنج پہنچانا تھا۔ خیر خوش رہئے۔ بعد از وقت پشیمانی۔ میں آپ کی دلی ہمدردی شکریہ کے ساتھ قبول کرتی ہوں۔ مگر اتنا خیال ہے کہ اُس عریضے یا آپ کی اصطلاح میں عتاب نامے کا مقصد محض یہ تھا کہ آپ برہم ہو کر جھلاّ کر میرے اُس سوال کا جواب عنایت فرما دیں۔ یوں تو آپ سیدھے ہونے والے تھے نہیں۔ مجبوراً تنگ آ کر یہ آخری تدبیر میں نے سوچی۔ جو شکر ہے کہ کارگر ہو گئی۔

خطا ثابت کریں گے اور اُن کو خوب چھیڑیں گے
سُنا ہے اُن کو غصّے میں جانے کی عادت ہے

میرے الزامات کا جواب دینے کی آپ میں کیوں ہمت ہو؟جبکہ وہ الزامات ہیں ہی نہیں۔ جب کوئی جواب بن نہ پڑا تو یہ کہہ کراپنا پیچھا چھڑا لیا۔ "اے حضور!مجھ سے بچ کر آپ جائیں گے کہاں۔ مجھے سب معلوم ہے "

جلوے مری نگاہ میں کون و مکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں

میں اپنے الفاظ دُہراتی ہوں کہ منتقمِ حقیقی آپ سے ضرور بدلہ لے گا۔

نہ چین پائے گا تُو بھی ظالم کسی کا خانہ خراب کر کے

آپ کے اِس بلیغ فقرے کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ یابہ الفاظِ دیگر میرا دماغ کوشش کے باوجود اِس پیچیدہ سوال کو حل نہیں کر سکتا۔ (اور اس کا باعث غالباً یہ ہے کہ میں بدقسمتی یا خوش قسمتی سے شاعر نہیں ہوں )بنا بریں میں خفا بھی نہیں ہوئی ہوں؟ہاں آپ اگر تحریر کے چہرے کے تبسّم کو قہقہے میں منتقل کر دیں تو پھرالبتہ میں ناراضگی یا عدم ناراضگی کے متعلق کوئی رائے قائم کر سکوں گی۔ لمبا چوڑا خط لکھنے سے کس کافر نے آپ کوروکا ہے؟آپ خود ہی ایسا چاہیں۔ تو اِس میں میرا کیا قصور؟آپ کو خواہ مخواہ چکنی چپڑی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم ہے۔ اور میں بخوبی جانتی ہوں کہ کسی سے محبت کرنا یا نہ کرنا اپنے بس کی بات نہیں ہے۔ میں آپ کو ہر گز مجبور نہیں کروں گی۔ اور نہ اپنی شکستہ ریزیوں کے مطالعہ سے آپ کو تکلیف دوں گی۔ ہاں مجھ سے آپ کی عداوت کا جذبہ محققا اور کیا ہو سکتا ہے۔ میں کبھی۔ ذرا کھل کر فرمائیے۔ مگر ٹھہرئیے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے اب اِس پہیلی کو حل کر لیا ہے۔ ایسا لکھنے سے آپ کا مقصد اِس کے سوا کچھ نہ تھا۔ کہ مجھ سے۔ آپ کو عداوت نہیں۔ نفرت تھی۔ اور ہے۔ اور یہ محض میری بے وقوفی تھی کہ میں اب تک اِس حقیقت کونہ جان سکی۔ بہرحال میں پھر بھی آپ کی ممنون ہوں کہ آپ نے کبھی نہ کبھی تو مجھے اُس راز سے مطلع کر ہی دیا نا۔ حقیقت یہ ہے۔ کہ میں بہت ہی بے حمیّت اور بے غیرت ہوں۔ کہ مجھ میں خود داری نام کو نہیں رہی حالانکہ قبل ازیں مگر! گئے گزر ے حالات و واقعات کا ذکر ہی کیا؟

نے غالب نکّما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

وہ تصویر اگر واپس نہ کروں تو کیا ہو گا؟آپ کیا کریں گے؟؟ آخر میں بصد خلوص۔ آپ کی خدمت میں ہدیہ تشکّر پیش کرتی ہوں کہ آپ نے میرے سوال کا جواب میری حسبِ منشا عنایت فرمایا۔ ہرچند کہ اِس مہربانی کا مقصد یہی ہے کہ میں اپنے وعدہ کے مطابق ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاؤں۔ تاہم مکّرر شکریہ ادا کرتی ہوں۔

سمع خراشی معاف

والسّلام

وہی فریب خوردہ