پانچواں باب: پھر وہی عالم عناصر

دیر کی آزاد رساں غفلت اور بے ہوشی کے بعد حسین ذرا ہوشیار رہنے لگا تھا کہ کان میں آواز آئی: " اے جسم خاکی! اُٹھ اور اس برزخ کبریٰ کا ہاتھ چوم جو تیرا امام ہے اور جس نے صرف تیرے لیے باوجود مجردِ محض ہونے کے صورتِ مادی اختیار کر لی ہے۔"

حسین نے بے ساختہ آنکھ کھول دی اور باغ جنت یا زمرد کے پہلو کے بدلے اپنے کو اُ س تاجدار شخص کے سامنے پایا جس کے ہاتھ پر اسن ے بیعت کی تھی اور جو اس سفر جنت کی آخری منزل پر ملا تھا۔ حسین آنکھیں ملتا ہوا ادب سے اُٹھ بیٹھا اور اس کے قدموں پر گر کے سر رگڑ کے کہنے لگا" ممکن بیدار ازیں خوابم خدارا۔"
شخص: نہیں، تجھے پھر عالم ارضی میں جانا ہے۔ ہوشیار ہو جا کہ مشائخ باطن سے ہرگز گریز نہ کرنا۔ میرا یہ ہاتھ جس میں نور کے سوا مادے کا بہت ہی کم جز ہے، تیرے ہاتھ سے مل چکا ہے اور ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھ پر رہتا ہے جن کے وسیلے سے تیری اس ملاء اعلیٰ تک رسائی ہوئی۔
حسین: مگر میں ابھی اور چند روز جنت میں رہنے کا آرزو مند ہوں۔
شخص: اس مادی عالم کی زندگی میں یہ بھی تیرے حوصلے اور تیری ہوس سے زیادہ تھا، اب اس زندگی میں ممکن نہیں کہ تو پھر اس روحانی عشرت کدے میں آ سکے۔جا اور اس وقت کا منتظر رہ جب کہ کسی دینی کوشش میں یا امام و مرشد کے حکم سے تو جام فنا پیے گا۔
حسین: تو آپ میرے امام ہیں اور آپ ہی جام فنا پلا کے مجھے فردوس بریں میں پہنچا دیجیے۔
شخص: ابھی ملاء اعلیٰ کی سرحد ہے اوریہاں فنا نہیں۔

اتنے میں وہی پہلی پری وش نازنین لبریز جام ہاتھ میں لیے ہوئی آئی جس کے دیکھتے ہی اس شخص نے کہا: "بس اب زیادہ حجت نہ کر اور لے، یہ شراب طہور کا آخری جام پی۔"

یہ کہہ کے اس نے جام اپنے ہاتھ سے حسین کی طرف بڑھایا۔

حسین اب جانتا تھا کہ یہ شراب طہور داروئے بے ہوشی کا اثر رکھتی ہے اور جس طرح اس کا نشہ پہلے عالم بالا میں لے آیٰا، اب حضیضِ ظلمتٌ میں لے جائے گا، مگر مایوسی کی تکلیف نے پیاس اس قدر تیز کر دی تھی کہ ان کار کی جرات نہ ہوئی؛ بے تکلف لے کے پی گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ مدہوشی تھی اور وہی خود فراموشی۔ پھر اسی طرح تھوڑی تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول کے وہ مختلف سین دیکھنے لگا۔حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے کبھی دشت و در تھے اور کبھی پہاڑوں کی بلندی و پستی۔ آخر ایک شب کو اس کی آنکھ شیخ الجب کے سامنے کھلی۔راہ جنت کے اس پہلے نگہبان نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کے کہا: "حسین! تو پھر اس تیرہ خاک دان عنصری کی حدود میں آ گیا، اور ان آنکھوں سے جو انوار محصنہ و مجردہ کو دیکھ چکی ہیں، پھر نور سینا کو اسی طرح ستر ہزار حجابوں میں دیکھ رہا ہے۔"
حسین: (آب دیدہ ہو کر) مگر میں تو اس ظلمت کدہ خاکی میں نہیں آنا چاہتا تھا۔
طور معنی: بے شک نہ چاہتا ہو گا۔ جذبات نور وحدت ایسی ہی کشش رکھتے ہیں مگر کیوں کر ممکن تھا کہ اس جسم خاکی کا دھبا اس نورستان مین ہمیشہ قائم رہتا۔
حسین: تو لِلّہ کوشش کیجیے کہ اسی وقت اس جسم خاکی کو چھوڑ کے اس سروشستان اعلیٰ کا راستہ لوں۔
طور معنی: ان امور میں شیخ علی وجودی ہی تمھارا اطمینان کر سکتے ہیں‘ اُن کے پاس جاؤ اور وہ جو کہیں اُس پر عمل کرو۔
حسین: ( جوش دل سے نوحہ وہ بکا کر کے) افسوس! میری اتنی ریاضت اور یہ مدتوں کی آرزومندی صرف اتنے مختصر زمانے کے لیے تھی؟ آہ کیاکروں کہ پھر زمرد کا وصال نصیب ہو؟

اس کے بعد حسین پھوٹ پھوٹ کے اور زار و قطار رونے لگا اور یہاں تک رویا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔

طور معنی: اے بلند حوصلہ مشت غبار! میرے عزلت کدے کو خالی کر اور صفحہ ارضی پرجا کے اُس میعاد کو پورا کر، جتنے دنوں کے لیے تو ظلمت کدۂ ارض میں گرفتار ہے۔
حسین: کاش یہی معلوم ہوتا کہ اس مشت غار کوکب تک اس عالم میں سرگرداں پھرنا اور خاک اڑانا ہے۔
طور معنی: تیرے لیے ان رموز کا حل کرنا شیخ علی وجودی کا کام ہے، اس لیے وہی تیرے مرشد ہیں۔ مگر ہاں، میں تجھے ایک راز بتا سکتا ہوں؛ وہ یہ کہ پھر اس عالم نور کی زیارت فقط امام کے اختیار میں ہے جس کے ہاتھ پر تو بیعت کر چکا ہے جو لاہوت و ناسوت کا برزخ ہے جو مختلف جسد ہائے امامت و نبوت میں ظاہر ہوتی رہی۔
حسین: مگر ان تک رسائی کیوں کر ہو سکتی ہے ؛ وہ ملاء اعلیٰ پر ہیں اور میں اس قعر ظلمت میں پھینک دیا گیا؟
طور معنی: گو ان کا مرکز و مقروبی نورستان اعلیٰ ہے مگر ایک گو نا تعلقات مادہ، جن کی وجہ سے انھوں نے بہت سے جسم ہائے امامت بدلے، انھیں اکثر اوقات اس آخشیجستان میں کھینچ لاتے ہیں۔لیکن بغیر مرشد کے اس غرض میں کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی۔اگر تو اصرار کرے گا تو تیرے مرشد شیخ علی وجودی اس امر میں تیری مدد کریں گے۔بس اب تو اس خلوت کدۂ نور کو خالی کر اور مرشد کی قدم بوسی کے لیے روانہ ہو۔

اس تقریر نے امید کا ایک دھندلا سا چراغ پھر اس کے سینے میں روشن کیا، جس کی روشنی میں وہ غار کے باہر نکلا۔لیکن اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی، جب دیکھا کہ کاظم جنونی غار کے دھانے پر اُسی وضع و حالت میں کھڑا ہے جس وضع و حالت میں کہ وہ اسے چھوڑ کے گیا تھا۔کاظم جنونی اُس کی صورت دیکھتے ہی بولا: " اب تو تم کو اطمینان ہو گیا کہ شجرِ معرفت کی ایک شاخ تم بھی ہو۔"
حسین: اور آپ یہاں کب آئے؟
کاظم جنونی: ابھی تمھارے ساتھ ہی آیا تھا۔
حسین: ابھی؟
کاظم جنونی: ہاں ابھی! حسین: مجھے تم سے رخصت ہوئے کئی ہفتے گزر گئے۔
کاظم جنونی: ( ہنس کر) اُس عالم اور اس عالم میں بڑا فرق ہے یہاں کا ایک دن وہاں کے ستر برس کے برابر ہے۔
حسین: وہ ایک گھڑی سہی مگر تم یہاں ٹھہرے کیوں رہے؟
کاظم جنونی: امام قائمِ قیامت کا حکم یوں ہی تھا۔
حسین: امام قائم قیامت کون؟
کاظم جنونی: وہی جن کے ہاتھ پر اس عالم نور کے سفر میں تم نے بیعت کی ہو گی ۔
حسین: مگر ان کے احکام تم تک کیوں کر پہنچ گئی؟
کاظم جنونی: ان ہی مرشد کے ذریعے سے جو راہ حقیقت طے کرنے کے لیے میرے ان کے درمیان میں واسطہ ہیں۔
حسین: تو شاید تمھارے مرشد یہاں آئے ہوں گے؟
کاظم جنونی: اس کی کچھ ضرورت نہیں؛ وہ ایک توجہ سے اپنے خیالات میرے دل میں پیدا کر دیتے ہیں۔
حسین: افسوس میں جنت سے زبردستی کھینچ نکالا گیا!
کاظم جنونی: ان رموز ربانی کی شکایت نہ کرو! اور ان کے مصالح دریافت کرنا ہیں تو اپنے مرشد شیخ علی وجودی کے پاس چلے جاؤ۔ مگر یاد رکھنا کہ اب تم عالم نور کی سیر کر آئے ہو لہٰذا ان کو اسی روحانی لقب سے یاد کرنا جو اس سروشستان میں مشہور ہے۔
حسین: کیا ان کا کوئی اور لقب بھی ہے؟ میں نے تو نہیں سنا۔
کاظم جنونی: ہاں، اس عالم عناصر میں تو ان کا یہی نام ہے جو تم جانتے ہو مگر اس عالم نور میں وہ وادیِ ایمن کہے جاتے ہیں۔
حسین: (تعجب سے) وادیِ ایمن! (اور پھر ذرا سوچ کے) بے شک انھیں وادیِ ایمن ہی کہنا چاہیے ان ہی کے پہلو میں مجھے نور اور حقیقت کی پہلی شعاع نظر آئی۔ کاظم جنونی: بس اب چلو اور حلب کا ارادہ کرو۔
حسین: مگر مجھے اتنا ضرور بتا دیجیے کہ اس عالم نور میں کبھی پھر بھی میرا گزر ہو سکے گا؟
کاظم جنونی: اس امر میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر ہاں یہ یقینی ہے کہ اگر تمھارے مرشد کی توجہ ہو تو سب باتیں ممکن ہیں۔

کاظم جنونی نے اس جملے سے حسین کے سینے میں امید کے چراغ کو ذرا اور اُکسا دیا۔آخر دونوں نے اس وحشت ناک مسکن دام ودد کو چھوڑا اور شہر اصفہان میں آئے۔ کاظم جنونی نے اپنی مسجد کے دروازے پر پہنچتے ہی آواز لگائی" دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ" جس کے بعد حسین نے اسے رخصت کیا اور شہر حلب کی راہ لی۔

اس سفر میں حسین ہر وقت جنت اور اُس کی حوروں کی ادھیڑ بن میں رہتا۔ اگرچہ اس کا جسم اس دنیا میں تھا لیکن اُس کے خیالات اور اس کے اعتقاد میں اس کی روح علی الدوام اس دوسرے عالم نور کے مزے لیتی رہتی۔وہ دل میں کہتا: " اتنے انقلابات کے بعد اب مجھے یہ تو معلوم ہو گیا کہ ‘موتو قبل ان تموتو‘ کے کیا معنی ہیں؛ یا اس دنیا میں رہنے سہنے کے ساتھ انسان اس عنصرستان سے قطع تعلق کر کے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ عالم ملکوت میں کیوں کر صرف کرتا ہے۔ اب اس مرتبہ جب کہ اصفہان سے حلب کو جا رہا تھا، اُسے ایک بہت ہی نئی اور حیرت میں ڈالنے والی چیز نظر آئی۔وہ جس گاؤں سے گزرتا یا جس دشت و در میں گزرتا، اکثر لوگ خودبخود اسے پچان لیتے کہ جنت کی سیر کر آیا ہے اور پاس آ آ کے مبارکباد دیتے۔وہ دل ہی دل میں پریشان تھا کہ یہ کیا بات ہے اور کون سی علامت ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو میری حالت معلوم ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں سے اس راز کو دریافت بھی کیا مگر کسی نے کچھ نہ بتایا۔ زمرد اب اس کے دل و دماغ پر پہلے سے زیادہ حاوی تھی۔اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ہر حالت میں اس کی دل فریب تصویر پیش نظر رہتی۔ وہ کبھی اپنی طرف بلاتی تھی اور کبھی صبر و تحمل کی تاکید کرتی تھی۔یہی مزیدار اور پریشان کن خواب دیکھتا ہوا وہ شہر حلب میں پہنچا اور شیخ علی وجودی کے سامنے جاتے ہی اُ ن کے قدموں پر گر پڑا۔ شیخ نے اُٹھا کے اُس کی پیشانی چومی اور پیٹھ ٹھونک کے اپنے برابر بٹھایا اور کہا: "اے حسین! تو لاہوت اکبر کی سیر کر آیا؟"

حسین: یا شیخ! اس عالم نور کی میں نے پوری کیفیت دیکھ لی۔ اور اے وادیِ ایمن! تیرے پہلو میں مجھے وہ جلوہ نظر آ گیا جس کے اشیاق کے سوال پر موسیٰ کو بھی لن ترانی کا جواب ملا تھا۔ مگر کیا کہوں کہ میں نے کن حسرتوں سے اس حیّز نور کو چھوڑا ہے!۔
شیخ: اے تیرہ و تار مشت غبار! بتا تو، تو نے وہاں کیا دیکھا؟
حسین: ایسا کچھ دیکھا کہ آنکھوں کو تمنا رہ گئی۔
شیخ: جذبات نور ایسے ہی ہوتے ہیں۔ زمرد سے ملا تھا؟
حسین: ( شیخ کے قدم چوم کے) ملا تھا، مگر ابھی سیری نہیں ہوئی۔ آہ! جی بھر کے دیکھنے بھی نہ پایا تھا کہ وہ نظر کے سامنے سے غائب ہو گئی۔
شیخ: مگر تیرا یہ جسم خاکی اس نورستان میں زیادہ نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ اگرچہ تو کہتا ہے اور تجھے یقین ہے کہ اس عالم نور کو تو نے آنکھوں سے دیکھ لیا مگر اے حسین میں کہتا ہوں کہ تو نے نہیں دیکھا۔
حسین: نہیں اے شیخ اور اے وادیِ ایمن! میں نے دیکھا ور اپنے خیال کی آنکھوں سے اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں۔

حسین کا یہ جواب سنتے ہی شیخ کو جلال آ گیا۔ منہ میں کف بھر آیا، آنکھیں سرخ ہو گئیں اور ایک دفعہ جوش میں آکے اُٹھ کھڑے ہوئے۔حسین مارے خوف کے سر سے پاؤں تک کانپ گیا اور انھوں نے کہنا شروع کیا: " اے متکبر و مغرور مشتِ خاک! تیری کیا مجال کہ اس نور لم یزل کو ان ذلیل آنکھوں سے دیکھ سکے۔ تو ان مادی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا جن میں انوار ازلیہ کی اشعاع لامعہ آدھی ضو کے ساتھ بھی نہیں چمک سکیں۔تیرے جسم کے سامنے وہ نور غیر متحیز متحیز بن کے نمایاں ہواتھا۔ اس کی اصلی کیفیات کو تیری یہ آنکھیں کسی طرح معلوم نہیں کر سکتی تھیں۔مگر ہاں توان انوار کو دیکھے گا اور ان کی اصلی حالت و کیفیت میں دیکھے گا، مگر کب؟ جب اس جسم خاکی کو چھوڑ کے اور مجرد محض بن کے اس حیز نور میں جائے گا۔ اس وقت تجھے یہ بھی نظر آ جائے گا کہ اسی نور ازل کا ایک چراغ تو بھی ہے۔"

حسین: (کانپتی ہوئی آواز سے) مگر میں تو ابھی وہاں سے آنا نہیں چاہتا تھا۔
شیخ: بے شک نہ چاہتا ہو گا، مگر یہ ممکن نہ تھا۔ نور محض کثافت مادہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
حسین: لیکن اے شیخ! آپ وادیِ ایمن ہیں؛ اگر آپ چاہیں تو میں پھر اس عالم نور میں جا سکتا ہوں۔آہ! زمرد کے لیے بہت پریشان ہوں۔
شیخ: (پھر طیش میں آ کے) اگر ہوس است ہمیں قدر بس است۔اُس سروشستان کو مادے کے قبول کرنے کی اس سے زیادہ زحمت نہیں دی جا سکتی۔آگ میں کسی مادی چیز کو ڈال دو تو اپنا تصرف کرنے کے بعد باقی ماندہ کثافت کو الگ پھینک دیتی ہے۔ اسی طرح اس نورستان نے تیرے جسم کو اپنے حیز سے نکال کے پھینک دیا۔ حسین: تو پھر آپ اپنے ہی ہاتھ سے مجھے اس جسم خاکی کی قید سے آزاد کیجیے تاکہ تجرد اختیار کر کے جاؤں اور پیاری زمرد کو اپنے آغوش میں لے لوں۔ کیا عجب کہ اس وقت تک وہ میرے شوق میں اپنا آغوش پھیلائے ہوئے ہو۔
شیخ: اب وہاں تک تیری رسائی صرف امام قائم قیامت کی دستگیری سے ہو سکتی ہے۔
حسین: گو میں اس برزخ کبریٰ کے ہاتھ پر بیعت کر چکا ہوں مگر اس درگاہ میں میری رسائی اسی وقت ہو گی جب آپ میری مدد کریں گے۔ آپ کی دستگیری سب پر مقدم ہے۔ شیخ: اچھا مایوس نہ ہو۔ مجھے تیرا ایک دفعہ اور امتحان لینا ہے ؛ اگر تو اس امتحان میں پورا اترا تو میں تجھے اس دربار امامت میں سفارش کے ساتھ پہنچا دوں گا۔
حسین: جلدی فرمائیے، جو حکم ہو اُ س کے بجا لانے کو تیار ہوں۔ میں موت کا سب سے زیادہ آرزو مند ہوں۔ اگر اس امتحان ہی میں مجھے موت نصیب ہو گئی تو اس سے زیادہ میری کیا خوش قسمتی ہو گی۔
شیخ: اسی وقت شہر دمشق کی راہ لے اور جس طرح بنے امام نصر بن احمد کو جو ہم باطنین کے خلاف وعظ کہا کرتے ہیں، قتل کر کے واپس آ۔
حسین: ابھی چلا، مگر مجھے اتنا اور بتا دیجیے کہ کیا ہم ہی وہ باطنین ہیں جنھیں کبھی لوگ قرامطہ اور کبھی ملاحدہ کے نام سے یاد کرتے ہیں؟
شیخ: بے شک! ہم اسماعیل بن جعفر صادق علیہ السلام کی امامت کے مدعی ہیں، اور چونکہ امامت ظاہر ہو گئی، لہٰذا ہم پر فرض ہے کہ اس کی تبلیغ و تقابت، خفیہ اور باطنی طریقوں سے کریں۔انوار ازل نے یہ قدیم ہی سے فیصلہ کر دیا ہے کہ جب تک امامت ظاہر رہتی ہے تقابت و تبلیغ خفیہ ہوتی ہے اور جب امامت مخفی و باطن ہو جاتی ہے تو نقابت وتبلیغ اعلانیہ ہونے لگتی ہے.
حسین: مگر اس کا سبب میری ناقص فہم سے بالا ہے۔
شیخ: بے شک بالا ہے ( زور سے گھور کے) اور تیرے جاہلانہ شکوک اور زیادہ بالا کرتے جاتے ہیں۔خود خدا کی طرف اپنا خیال لے جا وہ مخفی ہے اور اسی لے اس کی توحید کی تبلیغ اعلانیہ ہوتی ہے۔
حسین: مگر یا وادیِ ایمن! نبوت تو ظاہر رہی اور اس کے ظہور کے زمانے میں برابر اعلانیہ تبلیغ ہوتی تھی۔

شیخ علی وجودی کے منہ میں پھر کف بھر آیا اور سخت برہمی کے لہجے میں وہ چلائے: "ابھی تک شیطان تیرے دل میں بیٹھا ہے، وہ تجھے بہکا رہا ہے اور تو پھر عالم نور میں جانے کی آرزو کرتا ہے؟اس نظام کا تعلق صرف امامت سے ہے۔ نبوت ہمیشہ ظاہر رہی اور ظہور کے زمانے میں اعلانیہ تبلیغ بھی ہوتی رہی؛ تاہم نبوت اور رسالت کس چیز کی طرف لوگوں کو بلاتی ہے؟ خدا کی طرف اور فردوس بریں کی طرف اور یہ دونوں دنیا کی نظر سے مخفی ہیں۔"
حسین: (ڈرتے ڈرتے) مگر امامت بھی تو انھی دو چیزوں کی طرف بلاتی ہے؟

اب تو شیخ کو غصے نے آپے سے باہر کر دیا تھا، ایک دفعہ چمک کے اُٹھے کھڑے ہوئے اور کہا: تو عالم نور کی سیر کر آنے پر بھی شکی اور جاہل ہے۔عہد نبوت میں جنت اور وہ نور لا نور اس قدر نمایاں نہ تھے جتنے کہ اب عہد امامت میں ہیں۔ رسالت نے کبھی کسی مادی پیکر کو اس سروشستان میں نہیں بھیجا اور امامت برابر بھیج رہی ہے، جس کا قطعی نتیجہ ہے کہ فردوس بریں اور وہ نور ازلی پہلے مخفی تھے اور اب نمایاں ہیں۔ اور چوں کہ اب نمایاں ہیں ، لہٰذا تبلیغ و نقابت کو خفیہ طریقے سے ہی اپنا عمل کرنا چاہیے۔"
حسین: یا وادیِ ایمن! اب مجھے اطمینان ہو گیا، اور ضرور تھا کہ اپنے ا ن شکوک کو دفع کرتا، اس لیے کہ میں نے اس مذہب کی نسبت بہت سی بے سر و پا باتیں ستی تھیں، اور سنا تھا کہ التمونت کے قلعے میں لوگ طرح طرح کے فریبوں سے اس مذہب کے پابند بنائے جاتے ہیں۔
شیخ: یہ دشمنوں اور جہلا کی افترا پردازیاں ہیں۔ایسے لوگ جن کو چشم بصیرت نہیں اور جو ان انوار ازلیہ کے سامنے خفاش سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے، ان کے کہنے کا کیا اعتبار؟اتنے مدارج یقین طے کر کے تجھے یقین آ گیا ہو گا کہ ہم کس ملاءِ اعلیٰ پر ہیں اور آسانی سے سروشستان کی سیر کراتے ہیں۔ اور وہ کس قعر جہالت میں پڑے ہیں اور کس طرح تحت الثریٰ کی طرف روز بروز زیادہ دھنستے چلے جاتے ہیں۔
حسین: مجھے معلوم ہے۔

یہ کہہ کے حسین شیخ سے رخصت ہوا اور امام نصر بن احمد کی جان لینے کے لیے دمشق کی راہ لی۔

حسین اب ایسے کاموں کے لیے زیادہ جری تھا۔پہلے موقع پر جو شبہات اس کے دل میں پیدا ہوئے تھے، اب نام کو بھی نہ تھے۔اس کو یقین تھا کہ جنت یقیناً انھیں لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کا وہ معتقد ہے اور ان کے اشارے پر ہر برے یا بھلے کام کا کرنا ہی ذریعۂ نجات ہے۔باوجود اس کے کے ایک جلیل القدر عالم کے قتل میں اس کے دل نے کسی قدر پس وپیش ضرور کیا، مگر شیخ اور زمرد کے خیال نے پھر اس کا دل آگے بڑھایا۔وہ نہایت ہی سنگدلی کے ساتھ مرشد کے وحشیانہ حکم کی تعمیل کے لیے دمشق پہنچا اور امام نصر کے عقیدت کیشوں میں شامل ہو گیا۔

اس سفر میں بھی وہ حیرت سے دیکھتا تھا کہ بعض لوگ راہ چلتے پہچان لیتے اور اس سے بغل گیر ہوتے اور یک جہتی و اخوت کا ثبوت دیتے، جس سے اُسے یہ بھی نظر آ جاتا تھا کہ اُس کے ہم عقیدہ و ہم خیال کس کثرت سے دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔خوش نصیبی یا دل کی بے صبری سے مہینے بھر میں اسے اپنی غرض حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ ایک پچھلی رات کو جب کہ امام نصر پڑوس کی مسجد میں اور سب سے چھپانے کے لیے اندھیرے میں تن تنہا کھڑے نماز تہجد ادا کر رہے تھے، حسین کا خنجر ان کے دل میں اُتر گیا۔حسین نے ایک ہاتھ سے ان کا منہ بند کر لیا تھا اور قتل کر کے گراتے ہی سینے پر چڑھ بیٹھا اور انھیں نیچے دبا کے بیٹھ گیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ان کی آواز نکلنے پائی اور نہ تڑپنے پائے۔ جب لاش بالکل ٹھنڈی ہو گئی تو وہ پچھلی رات کے سناٹے ہی میں مسجد سے نکلا چلا گیا۔ راستے میں ایک نہر کے کنارے کپڑے دھوئے اور حلب کو روانہ ہوا۔

شیخ علی وجودی نے اس کی کارگزاری کی داد دی اور اس کی پیٹھ ٹھونک کے کہا: "حسین! تو مراحل یقین کو بہت جلد طے کر رہا ہے، امید ہے کہ اپنے اغراض میں کامیاب ہو۔"
حسین: یا وادیِ ایمن! مجھے ایک امر پر بڑی حیرت ہے ؛ میں جہاں جاتا ہوں اور جس جگہ ہوتا ہوں میرے ہم خیال و ہم عقیدہ صورت دیکھتے ہی مجھے پہچان لیتے ہیں اور میں ان کو نہیں پہچان سکتا۔

یہ سنتے یہ شیخ نے اپنے صندوق سے ایک آئینہ نکالا اور اُسے دکھا کے کہا: "اپنی صورت دیکھ، تجھے اپنے چہرے پر کوئی چیز نظر آتی ہے؟"
حسین: ہاں پیشانی پر ایک داغ ہے، مگر معلوم نہیں کیا داغ ہے ؛ شاید بچپن میں کبھی گر پڑا ہوں گا۔
شیخ: (مسکرا کے) نہیں، یہ حور کے بوسے کا نشان ہے، یہی ایک مہر ہے جو ہمیشہ اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ انسان اپنے اس قفس عنصری کے ساتھ فردوس بریں کی سیر کر آیا ہے۔
حسین: تو جن لوگوں نے مجھے پہچانا، غالباً ان کی پیشانیوں پر بھی یہ حور کے بوسے کا نشان موجود ہو گا؟
شیخ: بے شک ہو گا؛ میری پیشانی پر بھی موجود ہے۔
حسین: ( شیخ کی پیشانی پر بھی وہ اپنا سا داغ دیکھ کے) بے شک یہ مدارج یقین طے کرنے کا تمغہ ہے۔
شیخ: حسین! یہ بہت بڑی چیز ہے۔ مرنے کے بعد سب مومنین جنت میں جائیں گے، مگر جو لوگ دنیاوی زندگی ہی میں اُس مرکز نور کی سیر کر چکے ہیں، ان کا یہ فخروہاں بھی موجود رہے گا۔یہ داغ وہاں پیشانیوں پر نور کی طرح چمکے گا اور عام ناجیوں میں ہم لوگوں کو ممتاز ثابت کرے گا۔
حسین: مگر مجھے یہ داغ اس دنیا ہی میں عزیز ہے۔کاش! میرے لب میری پیشانی تک پہنچ سکتے کہ میں اس داغ کو بوسے دے دے کے اپنے دل کی تسلی کرتا۔میری پیشانی پر سوا زمرد کے اور کسی کے بوسے کا نشان نہیں ہو سکتا۔اگر میرے بوسے لیے ہیں تو صرف اسی کے لبِ لعلیں نے۔

بوسم منِ بے برگ ونوا برگِ حنارا
تا بوسہ یہ پیغام دبم آن کف پا را

مگر افسوس! جس طرح زمرد میرے دل میں ہے لیکن ہاتھ نہیں آ سکتی اسی طرح اس کے بوسے کا نشان ہر وقت میرے پاس ہے اور مجال نہیں کہ اپنے مشتاق ہونٹوں وہاں تک پہنچا سکوں۔

شیخ: اب ان شاعرانہ خیالات کو دور کرو اور امام قائم قیامت کی قدم بوسی کے لیے تیار ہو۔
حسین: لبیک! مگر یا وادیِ ایمن!اتنا اور بتا دیجیے کہ ان کو امام قائم قیامت کیوں کہتے ہیں؟
شیخ: یہ بھی رموز ربانی میں سے ایک رمز ہے۔ تجھے شاید ابھی تک اُن ائمہ کے نام بھی نہ معلوم ہوں گے جو نور لم یزلی کی شعاعیں ہیں اور مختلف اوقات میں مختلف جسدوں میں میں نمایاں ہوتی رہیں۔یہی ائمہ ہمیشہ ناسوت اکبر ہوتے رہے ہیں۔وہی نور جو آدم ع، نوح ع، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، داوودؑ، سلیمانؑ، عیسیٰؑ اور محمد صلواۃ اللہ علیھم کے اجساد مطہرہ سے لمعہ افگن ہوتا رہا تھا، آخر علی مرتضیٰ کے جسد انور میں نمودار ہوا، اور چوں کہ اب نبوت ختم ہو چکی تھی، لہٰذا اُس ایک نور یا ایک روح نے مختلف اجساد بدلنے شروع کیے۔ پھر حسین و علی و زین العابدین و محمد باقر علیھم اسلام کے اجساد کی سیر کرتے کرے وہ نور جناب جعفر صادق کے جسد انور میں نمایاں ہوا اور وہ زندہ ہی تھے کہ ان کے پیکر جسدی کو چھوڑ کے پہلے جناب اسماعیل میں پھر محمد مکتوم ابن اسماعیل میں جو سابع نام تھے آیا۔ چند روز تک وہ نور سلسلہ وار امام منصور بن محمد مکتوم، جعفر مصدق اور حبیب بن جعفر کے اجساد مطہرہ میں خفیہ ہی خفیہ لمعہ فگن رہا۔جناب اسماعیل سے اس وقت تک امامت مخفی رہی تھی۔اب یاکت اس نور نے عبیداللہ مہدی کی ذات سے نمایاں ہوکے اپنی پوری تنویر دکھا دی اور امامت ظاہر ہو گئی۔ اس کے بعد وہ نور برابر علانیہ طور پر مختلف اجساد طاہرہ کو بدلتا رہا۔ پہلے قائم بامراللہ کے جسم سے، پھر منصور کے، پھر المعزالدین اللہ کے، پھر عزیز باللہ کے، پھر حاکم بامر اللہ کے، پھر الظاہر الاعزاز دین اللہ کے، پھر المستنصر باللہ کے جسم سے چمکا۔مستنصر باللہ کے بعد نزار، پھر حسن بن محمد یعنی علی زکرۃ السلام، پھر محمد اب علی زکرۃالسلام کے جسموں نے لاہوتیت کبریٰ کا درجہ پایا، اور فی الحال وہی انوار ازلی رکن الدین خور شاہ کے جمال جہاں آرا سے نمودار ہیں جو فرمانروائے النمونت ہیں۔ اور وہی امام قائم قیامت البرزخ بین الاہوت و الناسوت اور وہ تجلی ہیں جو مختلف جسد ہائے امامت و نبوت سے لمعہ افگن رہی تھی۔
حسین: ( حیرت سے) وہی جن کے ہاتھ پر میں نے اس عالم لاہوت میں بیعت کی تھی؟
شیخ: وہی!
حسین: مگر آپ تو فرماتے ہیں کہ وہ التمونت کے فرمانروا ہیں؟
شیخ: بے شک ہیں! مگر یہ علائق دنیوی ان کے تجرد اور ان کی اس نورانیت کو جو عالم سروش میں لے جاتی ہے، دھندلا نہیں کر سکتے۔ امامِ دینی و عام لوگوں مین یہی فرق ہے کہ جس چیز کو ہم محنت و ریاضت سے حاصل کرتے ہیں انھیں فطرتاً بدرجہ اُتم حاصل رہتی ہے۔اسی لحاظ سے وہ عالمین کے برزخ کہے جاتے ہیں۔
حسین: اور وہ امام قائم قیامت کیوں کہلاتے ہیں؟
شیخ: (کسی قدر برہم ہوتے ہوئے رک کر) ہاں میں نے اس کا راز ابھی تک نہیں بتایا۔ امامین مستنصر و نزار کے عہد میں انھیں انواز ازلی کی ایک نئی اور غیر معمولی شمع روشن ہوئی تھی۔ گو یہ شمع دراصل اسی قدم نور امامت کا انعکاس تھی مگر اتنا بڑا انعکاس کامل کہ اس کی ضو سے تمام ممالک ارض چمک اُٹھے۔اس سے وہ چراغ نور مراد ہے جو احسن بن صباح کے جسم صافی میں چمکا تھا۔ یہ لقب قائم قیامت اسی آئینہ پرتو ایزدی کا ہے جس نے یکایک صعود مدار اعلیٰ اور نورستان میں پہنچ جانے کے اتنے صحیح ذریعے مخلوق میں پیدا کر دیے کہ ادنیٰ ادنیٰ لوگوں کو وہ کمال حاصل ہو گیا جو گذشتہ کئی عہدوں میں میں سوائے انبیا اور ائمہ کے کسی کو حاصل نہ تھا۔پہلے کوئی فردوس بریں میں جانے کا خیال بھی نہ کر سکتا تھا مگر اب اس اعلیٰ پرتو ایزدی کے ظہور کے بعد یہ حالت ہے کہ میں آنکھیں بند کر کے ایک دم میں اس عالم نور کی سیر کر آتا ہوں اور تم اور تم سے صدہا مومنین اس سروشستان میں جا کے حوروں کی ہمکناری کا مزا اُٹھا آئے ہیں۔قیامت کے معنی ظاہر پرستوں میں اس وقت کے ہیں جب دنیا کی زندگی ختم ہو جائے گی مگر حقیقت شناس جانتے ہیں کہ قیامت صرف اس حالت یا وقت کا نام ہے جب کہ مخلوق کو خالق سے یا پرتو کے نور سے قربت ہو جائے۔حسن بن صباح نے چونکہ اپنے عہد سے مخلوق کو تقرب کے ایسے درجے پر پہنچا دیا، لہٰذا وہ امام قائم قیامت کہلاتے ہں، یعنی وہ امام جس کی بہ دولت مخلوق و خالق میں قربت ہو گئی۔اور اسی قربت کا نتیجہ ہے کہ ان کے چند ہی روز بعد امام علی زکرۃ السلام میں وہ امامت قدیمہ جو جناب علی المرتضیٰ سے نسلاً بعد نسل چلی آتی تھی اور نیز وہ امامت قائم قیامت جس کا چراغ پہلے پہل حسن بن صباح کے حیز میں روشن ہوا تھا، دونوں امامتیں(دونوں امامتیں اس طرح جمع ہوئیں کہ قائم قیامت کی امامت تو حسن بن صباح کی جانشینی سے ملی اور دوسری امامت قدیمہ اس طریقے سے کہ علی زکرۃالسلام نے بڑی تاویلوں اور رکیک توجیہات سے دعویٰ کیا تھا کہ میں اس کا بیٹا نہیں جس کی طرف منسوب ہوں بلکہ دراصل میں نزار بن مستنصر فاطمی کے ایک بیٹے کا بیٹا ہوں جو قلعہ التمونت میں چھپا ہوا تھا۔اس طرح اپنا سلسلہ نسب بنی فاطمہ سے ملا کے اس نے خود سیاد ہونے اور امامت موروثی پانے کا دعویٰ کیا تھا۔) جمع ہو گئیں اور یکایک انوار لم یزلی ہیجان میں آ گئے۔بس اسی وقت سے تمام تکلیفات شرعیہ بندوں پر سے اُٹھا دیے گئے۔رمضان کی 27 کو اس قربت نور پرتو کا یہ جلوہ نظر آیا تھا، یعنی مومنین شرعی قیدوں سے آزاد ہوئے تھے۔ اسی سبب سے وہ دن ہمارے لیے عید ہے، اور اس کی یاد میں یہ وظیفہ ہر وقت اور ہمیشہ ہماری زبان پر رہتا ہے:

برداشت غل شرع بہ تائید ایزدی
مخدوم روزگار علی ذکرۃ اسلام

حسین: (متحیر ہو کے) مگر میں تو دیکھتا ہوں کہ آپ شب و روز ریاضت ہی میں مشغول رہتے ہیں اور آپ ہی کی طرح اس فرقۂ ناجیہ کے جتنے پیرو مجھے ملے سب پابند شرع، بڑے محتاط اور بڑے متقی و پرہیز گار نظر آئے۔
شیخ: جو لوگ عرفان و حقیقت کے مدارج طے کرنا چاہتے ہیں ان کو بے شک عبادت و ریاضت کرنی پڑتی ہے، مگر مومنین پر فرض اب کوئی عبادت نہیں۔خاصۃً ان برگزیدگان بارگاہ لم یزلی کے لیے جو امام قائم قیامت سے تقرب رکھتے ہیں۔
حسین: مگر یا وادیِ ایمن! میرا دل پھر آپ کی توجہ کا محتاج ہے۔ تکلیفات شرعیہ کا اٹھا دینا ایک ایس چیز ہے جس سے میرے دل میں شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ شیخ: ( برہمی کے ساتھ) اتنے مدارج حقیقت طے کرنے پر بھی شک؟سروشستان اور عالم نور کی سیر کر چکنے کے بعد بھی شک؟ اب یہ شک نہیں گستاخی ہے۔جانتا ہے کہ ساری عبادتیں خداوند جل و علا کی قربت حاصل کرنے کے لیے ہیں اور جب وہ قربت حاصل ہو جائے تو پھر کسی عبادت کی ضرورت نہیں رہتی، تم نے سنا ہے اور دیکھ بھی لیا ہو گا کہ فردوس بریں میں کوئی شخص عبادت کا مکلف نہیں۔ اس لیے کہ جس تقرب انوار لم یزلی کے لیے وہ عبادت کرتے ہیں وہ وہاں پر ہر ایک کو یونہی حاصل ہے۔
حسین: بے شک! وہ مرکز نور منزل مقصود ہے۔اور عبادت اس کا راستہ ہے۔جنت میں پہنچ جانے کے بعد کسی عبادت کی ضرورت نہیں رہتی لیکن مومنین ابھی اس کے باہر ہیں ان کی نسبت نہیں کہ وہ منزل مقصود کو پہنچ گئے۔ وہ چل رہے ہں، راستے میں ہیں، لہٰذا ان کو عبادت کرنے کاحکم بھی ہے۔
شیخ: (انتہا سے زیادہ از خود رفتہ ہوکے اور منہ میں کف لا کے)اس پیکر خاکی کو شہبات ہی نے خراب کیا یہ برابر شک کرتا ہے اور اپنے شکوک میں غرق ہو جاتا ہے۔سن اے حسین!امام قائم قیامت نے یہ بتایا ہے کہ وہ اس عالم نور میں ہیں عالم عنصری سے باہر، اس سے یہی معنی تھے کہ ظاہراً ان کا جسد اس عالم مادی میں نظر آتا ہے دراصل وہ ان مادیات سے دور اور اس سروشستان اعلیٰ میں ہیں۔ ان سے ملنے اور ان کے جوار میں جانے کے یہی معنی ہیں کہ گویا انسان اس تیرہ ظلمت سے نکل کے لاہوت اکبر کے قریب جا پہنچے پھر وہاں پہنچ جانے کے بعد عبادت کیسی؟
حسین: بجا ہے میرا شبہ دور ہو گیا۔آپ کی تقریر سے ہمیشہ میرے دل کے شکوک دور ہو جاتے ہیں۔اور اسی اطمینان حاصل کرنے کے لیے میں اپنے شبہوں کو بلا تامل آپ کی خدمت میں عرض کر دیتا ہوں۔
شیخ: تم اس امتحان میں بھی پورے اترے۔ اب میں تم کو امام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجتا ہوں۔جاؤ اور ان کے احکام کی بلا عذر اطاعت کرو۔آج صفر کی 20 ہے رمضان کی 27 کو عید قائم قیامت ہو گی؛ اس تاریخ کو میں بھی وہاں آؤں گا اور شیخ طور معنی بھی وہاں موجود ہونگے۔ اگر اتنے دنوں میں تم نے امام قائم قیامت پر اپنی اطاعت کیشی و عقیدت کا پورا اثر ڈال دیا تو میں بھی تمھاری سفارش کروں گا اور طور معنی بھی کریں گے اور اسی وقت تم کو زمرد سے ملنے میں کامیابی بھی حاصل ہو گی مگر خیال رکھو کہ اس اعلیٰ دربار امامت میں انسان کے سر سے بہت سے تکلیفات شروعیہ اٹھ جاتے ہیں۔وہاں کی عبادت صرف اطاعت و انقیاد ہے۔ اور اس میں کوتاہی ہوئی تو پھر ا س کا علاج نہ میرے پاس ہے اور نہ کسی اور شخص کے پاس۔اس در کا راندہ مردود ازلی اور رحمت الٰہی سے ہیشہ کے لیے محروم ہے۔
حسین: میں کسی حکم سے سرتابی نہ کروں گا۔
شیخ: وہ ایسا مقام بھی نہیں جہاں تم اپنے دل کے شکوک اسی بے تکلفی سے ظاہر کر دیا کرو جس طرح میرے سامنے کرتے رہے ہو۔
حسین: کبھی کسی امر میں شک نہ کروں گا۔
شیخ: اگر اتنے مضبوط ہو تو کل صبح کو تم یہاں سے روانہ ہوکے التمونت کی راہ لو۔ میں ایک خط دوں گا اسے لے امام کی خدمت میں حاضر ہونا اور جب تک وہاں سے یا مجھ سے کوئی اور حکم نہ ملے اس دربار کو نہ چھوڑنا۔
حسین: ہرگز نہیں۔اور یہ کہہ کے اس نے پھر شیخ کے قدم چوم لیے۔

دوسرے دن علی الصباح وہ شیخ علی وجودی سے خط سفارشی لے کے رخصت ہوا اور مشرق کی راہ لی۔چند روز میں اصفہان ہوتا ہوا علاقہ رودبار میں پہنچا۔ اس سفر میں وہ اپنے ہم مذہبوں کو حوروں کے بوسے کے نشان سے کہے سنے اور بنائے بغیر پہچان لیا کرتا تھا جو ہر شہر اور گاؤں میں اسے ملتے اور اس کے ساتھ نہایت ہی خلوص اور عقیدت سے پیش آتے۔

دیلم کے ایک گاؤں میں ایک باطنی شخص جو اپنی پیشانی کے نشان سے بتا رہا تھا کہ وہ بھی جنت الفردوس کی ہوا کھا آیا ہے، حسین کو نہایت ہی خلوص و پاک دلی سے اپنے گھر لے آیا اور کئی دن تک مہمان رکھا۔

اس شخص کے گھر پر ایک صحبت میں کئی ایسے باطنی ہوئے جن کو اسی دو سال کے اندر جنت کی ہوا کھلائی گئی تھی۔لوگوں نے صحبت کو اغیار سے خالی اور اپنے ہم خیال لوگوں ہی پر محدود دیکھ کے باہم جنت کا بیان شروع کیا۔اثنائے کلام میں ایک شخص بولا: " مگر مجھے جنت میں بھی ایک تمنا رہ گئی۔"
دوسرا: (حیرت سے) وہ کیا؟
پہلا: وہاں ایک ایسی دلفریب نازنین نظر آئی کہ دل بے اختیار ہاتھ سے نکل گیا، لیکن خدا جانے کیا بات تھی کہ ہزار کوشش کی مگر اس آفت زمانہ حور نے بات کا جواب تک نہ دیا۔
دوسرا: واقعی تعجب کا مقام ہے۔جنت میں تو ایسا نہ ہونا چاہیے۔کسی حور کی طرف تمھارے دل کو میلان ہو اور وہ التفات نہ کرے تو یقیناً سارا لطف خاک میں مل جائے گا۔یہ سن کے ایک تیسرا شخص بول اُٹھا: "حقیقت میں اس قسم کے بعض تقصانات وہاں انسان کو نظر آ جاتے ہیں۔اس مسئلے کو میں نے شیخ کے سامنے بھی پیش کیا تھا جنھوں نے بہت آسانی سے میرا اطمینان کر دیا۔اُنھوں نے بڑے جوش و خروش سے کہا تھا اور گویا اس وقت بھی میرے کانوں میں کھڑے کہہ رہے ہیں: " تم اپنے مادی پیکر کے ساتھ ہزارہا کثافتیں اور دنائتیں لے کر تو اس عالم نور میں جاتے ہو اور پھر امید کرتے ہو کہ سروشستان کو اسی پاک و مجرد حیثیت سے دیکھو جس طرح غیر مادی آنکھیں دیکھتی ہیں۔یہ خود تمھارے نقصان اور تمھارے مادی عجز ہیں جو اس حیز نور کو معیوب دکھاتے ہیں۔"
پہلا: اور ہاں میں نے یہ بھی سنا تھا کہ اس حور کو وہ تجرد بھی حاصل نہیں ہوا جو اوروں کو ہے، اس لیے کہ اس کے مادی تعلقات منقطع نہیں ہونے پائے تھے۔
دوسرا: بے شک یہی سبب ہو گا، اول تو اس حور میں ذاتاً یہ نقصان موجود تھا، پھر تمھیں اپنی مادی آنکھوں سے اور زیادہ بدنما نظر آیا۔
حسین: (کسی قدر تعلق خاطر سے) اور کچھ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس حور کا نام کیا تھا؟
پہلا: ہاں مجھے بتایا گیا کہ اس کا نام زمرد ہے اور میری حور نے جس کے آغوش کا مزہ مجھے زندگی بھر نہ بھولے گا، یہ بھی بتایا کہ اسے کسی خاکی پیکر سے اس قدر تعلق ہے کہ جنت کی سیر کرنے والوں میں کسی کی طرف التفات نہیں کرتی۔

دوسرے دن حسین یہاں سے رخصت ہوکے آگے روانہ ہوا اور دو ہی چار روز میں قلعہ التمونت کے پھاٹک پر کھڑا تھا۔