حیرت زدہ و حواس باختہ نوجوان حسین کو زمرد شاہ زادی کی تجویز کے مطابق قصر دری میں چھوڑ کے واپس گئی تو وہ گھبرا کے ایک ایک چیز کو دیکھتا اور اپنے دل سے پوچھتا تھا کہ کیا حقیقت میں یہ وہی مقام ہے جہاں میں امام قائم قیامت کی مدد سے آیا تھا؟ مگر وہ تو ملاء اعلی پر تھا اور یہ زمین ہی پر ہے! لیکن کیوں کر شک کیا جائے!خود زمرد بھی تو موجود ہے۔ اگر یہ کوئی دنیاوی باغ ہے تو وہ کیوں کر چلی آئی؟ خود اسی نے لکھا تھا کہ جنت میں ہوں اور فردوس بریں کی سیر کر رہی ہوں۔آخر اسے جھوٹ بولنے سے فائدہ؟ اس کے بعد وہ محل کے برآمدے پر آ کے کھڑا ہوا ور ایک ایک عمارت، ایک ایک چمن کو غور سے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے لگا۔ ہر چیز وہی اور ویسی ہی تھی جیسی کہ پہلے نظر سے گزری تھی۔ قصروں کے روکار پر اسی طرح جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ ان کی وضع بھی ویسی ہی تھی جیسی کہ پہلے نظر سے گزری تھی۔چمنوں کا بھی وہی رنگ اور نقشہ تھا۔سڑکیں اور روشیں بھی اسی طرح رنگ برنگ اور نظر فریب تھیں۔سونے چاندی کے تخت آج بھی اسی پہلی شان سے بچھے تھے۔ نہریں بھی اسی طرح مستانہ روی سے بہ رہی تھیں۔ ہاں صرف ایک چیز کی کمی تھی کہ وجد میں لانے والا گانا نہ تھا۔ مگر جب طیور کی زبان سے وہی قرآنی ترانہ خیرمقدم سن لیا تو ادھر سے بھی شک جاتا رہا۔ وہ اسی پس و پیش میں تھا ایک طائر نے ایک تازہ و شاداب سیب اپنی چونچ میں لا کے اس کے سامنے ڈال دیا ور وہ چونک کے بول اُٹھا: " یہ بھی خاص فردوس بریں کی علامت ہے۔"

حسین کے خیالات میں ایک عجیب قسم کا تردد و اضطراب تھا اور یہ معما کسی طرح حل ہونے کو نہ آتا تھا کہ سامنے سے زمرد آتی نظر آئی جو شاہزادی سے رخصت ہوکے اس کے پاس آ رہی تھی۔اس کی دل ربا اور ناز آفرین صورت دیکھتے ہی وفور جوش سے حسین کا دل دھڑکنے لگا اور عشق کے جذبات نے یک بہ یک ایسی بے اختیاری کی حالت طاری کی کہ برآمدے سے اتر کے استقبال کو دوڑا اور دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

حسین: پیاری زمرد! للہ بتا کہ میں کس عالم میں ہوں؟ اور یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟
زمرد؛ (مسکرا کے)وہی دیکھ رہے ہو جو ایک دفعہ دیکھ چکے ہو۔
حسین: وہی! یعنی ملاء اعلیٰ پر ہوں۔
زمرد؛ واقعی جو ساز و سامان نظر آ رہا ہے وہ اس کے لحاظ سے اس جگہ کو ملاء اعلیٰ ہی کہنا چاہیے۔
حسین: کہنا چاہیے؟ تو کیا اصل میں نہیں ہے؟
زمرد: تم ہی اپنے دل سے پوچھو۔تم نے اس مقام کو زمین پر پایا یا آسمان پر؟
حسین: آیا تو زمین کے راستے سے ہی ہوں ۔
زمرد: تو زمین پر ہی سمجھو۔
حسین: مگر کیوں کر سمجھوں؟ تمھاری قبر، تمھارے وہ خطوط، یہاں تک آنے کے وہ گزشتہ ذریعے، ان تمام باتوں میں سے جس چیز کا خیال کرتا ہوں اسی امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ کوئی اور عالم ہے اور یہاں کی مسرتیں دنیاوی مسرتوں سے بالا ہیں۔
یہ باتیں کرتے ہوئی دونوں قصر میں داخل ہوئے اور زمرد نے کہا: " یہاں کی مسرتیں تو بے شک دنیا کی عام مسرتوں سے بالا ہیں مگر یہ نہ سمجھو کہ تم دنیا سے نکل کے کسی اور جگہ آ گئے ہو۔"
حسین: پھر وہ سب واقعات جو گزر چکے ہیں ان کی نسبت کیا خیال کروں؟
زمرد: وہ سب میری مجبوری، میری بے دست و پائی اور تمھاری سادہ لوحی کا نتیجہ تھے۔
حسین: میں اس کا مطلب نہیں سمجھا؟
زمرد: گھبراؤ نہیں، سب سمجھ جاؤ گے۔ مگر افسوس جس قدر زیادہ سمجھو گے اسی قدر زیادہ پریشان ہو گے اور اپنے کیے پر پچھتاؤ گے۔
حسین: زمرد! اب مجھے تیری صورت پر بھی شبہ ہوتا ہے۔ تو وہی زمرد ہے جو میرے ساتھ آمل سے آئی تھی؟
حسین کی زبان سے یہ سادگی کا یہ سوال سن کے زمرد کو ہنسی آ گئی مگر ضبط کیا، اور ایک عجیب دل فریب ادا کے ساتھ پُر معنی اور شوخ چتونوں سے دیکھ کے بولی: "نہیں، دوسری ہوں۔"

اس جواب کو حسین نے سنا ہی نہیں۔اس نے زمرد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور غور سے دیکھ کے بولا: " یہ وہی نورانی جسم ہے یا میرے جسم کا سا مادی پتلا؟"
زمرد: " ہوش کی باتیں کرو۔ تم بالکل از خود رفتہ ہوئے جاتے ہو۔اور تمھاری آنکھوں کے سامنے سے ایک بڑا طلسم ٹوٹا ہے۔ جس کے اثر سے تمھارے حواس نہں ٹھکانے رہے۔ذرا ہوش میں آؤ اور حواس کی باتیں کرو کہ سارا راز اور تمام سرگزشت بیان کروں۔
حسین: پیاری زمرد! جلدی بیان کر۔ اس لاعلمی اور ناواقفی نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔
زمرد: سنو! اس وادی میں ہم دونوں نے جن پریوں کو دیکھا تھا وہ پریاں نہ تھیں بلکہ اسی مصنوعی جنت کی حوریں۔۔۔۔
حسین: (حیرت سے بات کاٹ کے) مصنوعی جنت؟ تو یہ وہ جنت نہیں ہے جس کا مومنین سے وعدہ کیا گیا ہے؟
زمرد: ذرا صبر کرو۔ خیر تم تو وہاں بے ہوش ہو گئے اور مجھے وہ یہاں پکڑ لائیں۔ نہ میں ماری گئی اور نہ شہید ہوئی، مگر صرف اس لیے کہ تم کو میرے مرنے کا یقین آ جائے، انھوں نے واپسی سے پہلے بھائی کی قبر میں ذرا تغیر پیدا کیا اور اسی وقت رات کو مجھ سے پوچھ کے بھائی کے نام کے برابر میں میرا نام بھی کندہ کر دیا۔ اس غرض سے کہ تم مجھ سے مایوس اور میرے خیال سے دست بردار ہوکے چلے جاؤ؛ اس وادی کی خطرناک حالت ہر ملنے والے سے بیان کرو اور یہاں کی پریوں کی ہیبت ہر شخص کے دل میں بٹھا دو۔
حسین: تو تم زندہ ہو؟ اور یہ کہہ کے زمرد کو سر سے پاؤں تک گھور گھور کے دیکھنے لگا۔
زمرد: (جھنجھلا کے) نہیں چڑیل ہو گئی ہوں۔ حسین نے اس کا کچھ جواب نہیں دیا ور زمرد نے ایک لمحہ توقف کے بعد پھر سلسلہ کلام شروع کیا: " تو تم کو یہ دھوکا دیا گیا اور میں یہاں لائے جانے کے بعد انھِیں عورتوں میں شامل کر دی گئی جو یہاں حوریں کہلاتی ہیں۔چند روز بعد دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ تم اسی طرح میری قبر کے مجاور بنے بیٹے ہو اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ آخر یہاں غور کیا گیا کہ وہ وادی تم سے کیوں کر خالی کروائی جائے۔اکثروں کی رائے تھی کہ قتل کر ڈالنا چاہیے مگر اتفاق سے میری ایک تدبیر کارگر ہو گئی اور تجویز قرار پائی کہ کسی ایسے طریقے سے تمھیں وطن واپس جانے کی ہدایت کی جائے کہ کسی کا لگاؤ ثابت نہ ہو، اور تم بغیر اس کے کہ کسی قسم کی بدگمانی کرو وہ وادی چھوڑ دو۔ اسی تجویز کا نتیجہ میرا پہلا خط تھا جس میں تم سے میری وصیت پوری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔وہ خط میرے ہی ہاتھ سے لکھوایا گیا اور مجھ (ہی)سے حالات دریافت کر کے اس کے مضمون کا مسودہ تیار کیا گیا۔مگر حسین! وہ خط صاف کرتے وقت میں چپکے چپکے بہت روئی تھی، اس لیے کہ جانتی تھی خود اپنے ہاتھوں دائمی مفارقت کا سامان کر رہی ہوں۔ خیر وہ خط تمھارے پاس گیا اور یقین تھا کہ تم چلے جاؤ گے مگر تین چار روز بعد جب دریافت کیا گیا معلوم ہوا کہ تم اب بھی وہیں اسی طرح بیٹھے ہو۔اور گویا تمہارے ارادے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔"

حسین: بے شک نہیں ہوئی تھی۔ زمرد! میں مرجاتا ور وہاں سے نہ ہٹتا۔
زمرد: " جب یہ معلوم ہوا تو لوگوں کو پھر فکر پیدا ہوئی، اب کیا کیا جائے؟ اب کوئی تدبیر میرے ذہن میں نہ آتی تھی اور دل می ڈر رہی تھی کہ کہیں یہ غضب نہ ہو کہ لوگ تمھارے مار ڈالنے پر آمادہ ہو جائی۔اتفاقاً انھیں دنوں میں خبر آئی کہ امام نجم الدین نیشا پوری باطنین کے خلاف زورو شور سے وعظ کر رہے ہیں، اور تدبیریں کی جا رہی تھی کہ کسی فدائی کے ہاتھوں وہ قتل کرا دیے جائیں۔کمبختی یا شامت اعمال میری زبان سے نکل گیا کہ وہ تمھارے چچا اور تمھارے استاد و مرشد ہیں۔ یہ خبر جیسے ہی یہاں کے باد شاہ خور شاہ کے کان میں پہنچی اس نے خیال کیا کہ وہ امام عالی مقام تمھارے ہاتھ سے قتل ہوں تو زیادہ مناسب ہو گا۔اس طرح زمانے بھر کو معلوم ہو جائے گا کہ مذہب باطنیہ دلوں پر کس قدر گہرا اثر ڈالتا ہے کہ انسان اپنے عزیزو اقارب، استادو مرشد تک کی پروا نہیں کرتا۔تمھارے خنجر سے ان کا قتل ہو ان ایک ساتھ اتنی باتوں کا ثبوت دے سکتا تھا کہ بھتیجے نے چچا کو، شاگرد نے استاد کو، مرید نے مرشد کو بلا تامل ثواب سمجھ کے قتل کر ڈالا۔

زمرد نے یہیں تک کہا تھا کہ حسین نے بے اختیار ایک ٹھنڈی سانس لی اور آب دیدہ ہوکے بولا: " افسوس! میں نے کتنا بڑا ظلم اور گناہ کیا۔ آہ! ایسے معصوم امام، شفیق بزرگ اور خدا شناس مرشد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے، زمرد! یہ تیرے ہی شوق میں اور تیری ہی ہدایت کی وجہ سے تھا، ورنہ میں اتنے بڑے ظلم کی جرات ہرگز نہ کرتا۔"
زمرد: حسین! میں نے پہلے بھی کہا تھا ور اب بھی کہتی ہوں کہ اس گناہ میں مجھے نہ شریک کرو۔۔ مجھے جب اس کا خیال آ جاتا ہے کانپ اٹھتی ہوں مگر خیر اب یہ ذکر جانے ہی دو۔ایک ہونے والی بات تھی جس کو کوئی نہ روک سکتا تھا۔ میں نے اگر تمھیں اس کام کے لیے تیار کیا تو اپنے بس میں نہ تھی، اور تم اگر آمادہ ہو گئے تو اپنے ہوش میں نہ تھے۔
حسین: ( زور سے سینہ پیٹ کر) مگر افسوس، زمرد! یہ عذر خدا کے سامنے نہ سنے جائیں گے۔ میں نہ مجنون تھا، نہ بے ہوش؛ صاف نظر آ رہا تھا کہ ایک گناہ عظیم کر رہا ہوں میگر تیرا شوق بار بار دل کو ابھار کے آمادہ۔۔۔۔۔
زمرد: ( بے تابی سے بات کاٹ کے) ہائے پھر میرا نام۔۔۔۔۔!خدا کے لیے حسین! مجھے اپنے ساتھ نہ گنو ( روکے اور آنسو بہا کے) میں نے جو کچھ کیا ہے مجبوری اور بے بسی سے۔افسوس! خود اپنے دل سے تو لعنت کی آواز سن رہی تھی، اب تمھاری زبان سے بھی وہی سنتی ہوں۔"

یہ کہہ کے زمرد زار و قطار رونے لگی۔حسین نے بے اختیاری کی جلدی سے اس کے آنسو پونچھے اور کہا: "زمرد! بے شک تو بے خطا ہے۔ اگر میں نے تیرا دل دکھایا تو معاف کر اور آگے بتا کہ پھر کیا ہو؟"
زمرد: ( رومال سے آنسو پونچھ کر) پھر تم کو دوسرا خط ملا جس میں تمھیں کوہ جودی کے غار اور شہر خلیل کے تہ خانے میں چلہ کشی کرنے اور پھر حلب میں جا کے شیخ علی وجودی سے ملنے کی ہدایت کی گئی تھی۔وہ خط بھی اسی طرح بھیجا گیا کہ اس کا مسودہ لکھ کے مجھے دیا گیا اور جب میں نے اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا تو میری قبر پر رکھوا دیا گیا۔
حسین: لیکن اگر اتنا ہی کام تھا کہ امام نجم الدین نیشا پوری قتل کر ڈالے جائیں تو مجھے اتنے چکر کیوں دیے گئے اور میرے راستے میں یہ بے کار کی دشواریاں کیوں پیدا کی گئیں؟
زمرد: اس لیے کہ تمھارے شوق میں ہیجان اور بے صبری پیدا ہو۔ اگر بغیر اتنے چلے کھنچوائے اور بغیر علی وجودی کے پاس ایک سال تک انتظار کرائے کہہ دیا جاتا تو تم اتنے بڑے گناہ کے ارتکاب پر ہرگز آمادہ نہ ہوتے۔
حسین: زمرد! تیرا شوق میرے دل میں اس قدر تھا کہ جس کام کو کہا جاتا اسی وقت پورا کرنے کو تیار ہو جاتا۔
زمرد: (ہنس کے) خیر تو ان کو نہیں معلوم تھا کہ تم اتنے بیوقوف ہو اور تمھارے اخلاق اس قدر کمزور ہیں۔
حسین: مگر کیوں کر کہوں؟ زمرد! مجھے تیری باتوں کا یقین نہیں آتا۔ان آنکھوں سے ایسی ایسی کرامتیں اور عقل انسانی سے اس قدر بالا باتیں دیکھ چکا ہوں کہ ان لوگوں کی خدا شناسی سے ان کار کرنے کی کسی طرح جرات نہیں ہوتی۔ جن گدھوں پر ہم دونوں سوار ہوکے آئے تھے وہ تو مر چکے تھے، مگر مجھے ایک نیا تازہ دم گدھا اسی درخت میں بندھا ملا۔ اور ایسا خوب صورت، توانا تندرست اور تیز رو کہ اس وقت تک میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری سواری کے لیے خاص خدا کے پاس سے آیا تھا۔
زمرد: وہ گدھا یہیں س بھیجا گیا تھا۔ جس وقت تمھارے نام کا خط قبر پر رکھوایا گیا ہے، اسی وقت وہ گدھا ایک دوسرے راستے سے بھیج کے اس درخت میں بندھوا دیا گیا تھا۔

حسین نے اس جواب کو حیرت سے سنا اور بولا: "عجب! مگر پھر بھی میرے شبہات دور نہیں ہوتے۔ آخر شیخ علی وجودی کو میرے سب حالات کیوں کر معلوم ہو گئے، وہ یہاں سے ہزارہا کوس کے فاصلے پر ہیں؟"
زمرد: تمھارے روانہ ہونے کے ساتھ ہی ان کو تمام واقعات کی خبر کر دی گئی تھی۔ ان کو لکھ بھیجا گیا تھا کہ تم امام نجم الدین کے بھتیجے، شاگرد اور مرید ہو۔ انھیں کے قتل کا تم سے کام لینا ہے، اوروہاں پہنچنے سے پہلے تم کوہ جودی کے غار اور خلیل کے تہ خانے میں چلہ کھینچو گے۔ یہ سب باتیں ان کو دوسے ذریعوں سے معلوم ہو چکی تھیں، مگر انھوں نے غیب دانی اور کرامت کی شان سے بیان کر کے تمھیں اپنا فریفتہ بنایا۔

حسین اب نہایت ہی متعجب تھا، وہ حیرت کے دریا میں غرق تھا اور کسی طرح تھاہ نہ ملتی تھی۔ زمرد اپنی بات پوری کر کے خاموش ہوئی اور وہ سوچ میں پڑا تھا۔ آخر اس نے سخت حیرت زدگی کی شان سے آنکھیں اٹھا کے کہا: "زمرد سچ بتا، یہ سب باتیں تو سچ کہہ رہی ہے یا مجھے دھوکا دے رہی ہے؟ مجھے تو اپنی تمام گزشتہ زندگی ایک خواب کی سی معلوم ہوتی ہے۔متردد ہوں کہ تیری اس ملاقات اور ان سب باتوں کو خواب سمجھوں یا ان تمام واقعات کو جو تجھ سے جدا ہونے کے بعد پیش آئے، کیا حقیقت میں میں اتنا بڑا بے وقوف ہوں کہ ایسے عظیم الشان فریب اور جعل میں مبتلاہو گیا؟لیکن زمرد! اگر یہ سب سکھائی پڑھائی باتیں تھیں تو علی وجودی کو اسی قدر معلوم ہوتا جس قدر کہ یہاں سے بتایا گیا تھا؛ انھیں یہ کیوں کر معلوم ہو گیا کہ میں شہر خلیل کے مجاوروں کے ہاتھ میں گرفتارہو گیا تھا اور باطنین کے ناگہاں آپڑنے سے چھوٹ کے بھاگا؟"
زمرد: حسین! تم حقیقت میں بڑے سادہ لوح ہو۔اس کا سبب میں بغیر جانے سمجھ گئی اور تم نہیں سمجھ سکتے؟ لیکن حقیقت میں تم مجبور ہو۔تمھارے دل و دماغ پر ہر طرف سے اتنا اثر ڈال گیا کہ اب بمشکل تم ان باتوں کو اپنے دماغ سے نکال سکتے ہو۔کیا تم کو نہیں معلوم کہ باطنین دنیا کے ہر کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی سازشوں کا جال ہر گاؤں اور چھوٹے سے چھوٹے قریے تک پر پڑا ہوا ہے؟علی وجودی کے پاس تم پورے ایک سال رہے، ممکن نہیں کہ اس کا حال تمھیں نہ معلوم ہو گیا ہو۔
حسین: ہاں ! میں نے البتہ یہ دیکھا کہ ان کے معتقد تمام اطراف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہر سال میں ایک دفعہ ان کی زیارت کو بھی آتے ہیں۔ اور مجھے یہ بھی نظر آیا کہ وہ لوگ پوشیدہ طور پر اور صرف رات کو مل کے چلے جاتے ہیں۔
زمرد: اسی سے سمجھ سکتے ہو کہ ان کے ہاتھ میں خبریں پہنچے کے کتنے بڑے ذریعے موجود ہیں۔ تم نے جس وقت اس وادی کو چھوڑا تھا اس وقت سے آخر ورود حلب تک ہر منزل اور ہر مقام پر تمھاری نگرانی ہوتی ہو گی اور تمھاری روز روز کی خبر علی وجودی کو پہنچتی ہو گی۔ کچھ تم ہی پر منحصر نہیں، ان باطنین کے پنجے میں جو شخص پڑتا ہے اسی طرح نظروں میں رکھا جاتا ہے۔پھر کون تعجب کی بات تھی کہ اگر تمھاری خلیل کی گرفتاری کا حال ان کو معلوم ہو گیا؟
حسین: مجھے اس پر حیرت نہیں؛ حیرت تو یہ بات ہے کہ شیخ کہتے تھے کہ انھیں کے اشارے سے باطنین نے حملہ کر کے مجھے قید سے آزاد کرایا۔
زمرد: کوئی تعجب کی بات نہیں۔ بے شک علی وجودی نے تمھارے چھڑانے کے لیے اپنے معتقدوں کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا ہو گا۔
حسین: مگر کیوں کر حکم دے دیا ہو گا؟ میری گرفتاری کی خبر پہنچنے اوروہاں سے حملے کا حکم آنے میں بھی تو آخر کچھ زمانہ لگتا؟وہاں تو یہ واقعہ پیش آیا کہ جس رات کومیں نکلنے والا تھا اور میرے باہر آنے سے پیش تر ہی خلیل کا حاکم باطنین کے ہاتھ سے قتل ہوا، اور پھر میں گرفتار ہوا تو اس کو بھی پورا ایک دل نہیں گزرنے پایا تھا کہ ان کا ایک بڑا گروہ شہر پر آ پڑا۔ان تمام باتوں کی تکمیل اتنی جلدی کیوں کرہو سکتی تھی؟

زمرد: (ذرا تامل کر کے) یہ کون مشکل ہے؟ باطنین کو معلوم ہو گا کہ تم کس روز تہ خانے میں اترے تھے اور کس روز نکلو گے، اور یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ جس روز نکلو گے یہ مشکلات ضرور پیش آئیں گی۔ بس اس زمانے میں انھوں نے شیخ علی وجودی کو خبر کر کے مدد کا اشارہ پایا ہو گا۔اسی کے مطابق دن گنتے رہے اور ٹھیک چالیسویں دن، جس دن تم نکلنے والے تھے، انھوں نے رئیس شہر کو قتل کر ڈالا کہ لوگ دوسری فکر میں رہیں اورتم چپکے سے نکل کے بھاگ جاؤ۔ مگر جب انھیں خبر پہنچی کہ اس رئیس کے قتل سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا اور تم مجاوروں کا ہاتھ سے گرفتار ہو گئے تو انھوں نے یکایک حملہ کر کے شہر میں کھلبلی ڈال دی اور تمھیں چھوٹ کے بھاگ جانے کا موقع مل گیا۔
حسین: ( زور سے آہ سرد بھر کے) تو زمرد افسوس! یہ سب جھوٹ تھا؟ شیخ علی وجودی کا سا شخص اور اتنا بڑا مکار کیوں کر کہوں؟ زمرد! ان کرامتوں اور اس غیب دانی کے علاوہ ان کا علم و فصل اس پائے کا ہے اور ان کے ہر ہر لفظ سے ایسی خدا شناسی اور آشنائے رموز وحدت ہونے کی بو آتی ہے کہ چاہتا ہوں، مگر ان پر بدگمانی کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔اتنا بڑا عالم و فاضل، ایسا نکتہ سنج اور دقیقہ رس اور اتنا بڑا فریبی! میں امام نجم الدین کی صحبت میں رہ چکا تھا، مگر پیاری زمرد! سچ کہتا ہوں کہ جو بات مجھے شیخ علی وجودی میں نظر آئی اور جس آسانی سے وہ دل کے شکوک رفع کر دیتے ہیں امام نجم الدین میں اس کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔
زمرد: بے شک ایسا ہی ہو گا! مگر بات یہ تھی کہ امام نجم الدین کے دل میں جو آتا ہو گا سادگی اور بے تکلفی سے کہہ گزرتے ہونگے۔انھوں نے اپنا بنانے اور اپنا اثر ڈالنے کے لیے کبھی کوئی کوشش نہ کی ہو گی۔اور شیخ علی وجودی کا ہر لفظ بنا ہوا اور دل پر اثر ڈالنے کے لیے ہوتا ہے۔اس کے ہر فقرے میں پوری ریاکاری ہوتی ہے۔ جھوٹ اور سچ میں یہی فرق ہے۔ اور اسی سبب سے ہمیشہ قاعدہ ہے کہ کیا دو فریبی کی باتیں ایک راست باز اور سادہ مزاج شخص کی باتوں سے زیادہ دل چسپ اور زیادہ دل نشین ہوا کرتی ہیں۔یقین ہے کہ شیخ علی وجودی سے مل کے تم کو خدا شناسی کا بہت عمدہ سبق مل گیا ہو گا۔
حسین: ( زور سے سینے پر ہاتھ مار کے) ہاں! خوب سبق ملا، مگر خبر اس وقت ہوئی ہے جب کہ پورا جادو اثر کر چکا، اور میں ساری دنیا سے زیادہ ظالم، سیہ کار، بے دین اور بے وقوف بن چکا، افسوس! تمام عمر پھچتاؤں گا اور نہ پچھتا چکوں گا، مگر زمرد! کیا کہوں، اب بھی یہ سب باتیں خواب معلوم ہوتی ہیں۔طور معنی اور اس کے نورانی قصر کی صورت اس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے۔
زمرد: ہاں وہ بھی اس مذہب کا ایک بڑا رکن ہے۔اس وقت تک صرف دوہی شخص شاہ التمونت کو ملے ہیں جن سے اچھا نقیب و داعی اس مذہب باطنیہ کو نہیں نصیب ہو سکا۔طور معنی اور علی وجودی، جو یہاں وادیِ ایمن کے نام سے یاد کیے جاتے ہے۔ان دونوں نے اپنی گہری سازشوں سے صدہا امرا، وزرا اور علما و فضلا قتل کرا ڈالے۔ اور چوں کہ اس جنت اور ملاء اعلیٰ کی اصلیت کو اچھی طرح جانتے ہیں لہٰذا ان پر سارا فریب کھلا ہوا ہے ا ور وہ لوگوں کو جان بوجھ کر گمراہ کرتے ہیں۔طور معنی بھی لوگوں سے کم ملتا ہے مگر وادیِ ایمن نے لوگوں کو بہت خراب کیا۔دین کو جتنا بڑا ضرر اس شخص کے ہاتھوں پہنچا شاید کبھی کسی کے ہاتھ سے نہ پہنچا ہو گا۔

حسین: تو کیا وہ طور معنی کا وہ زمین دوز قصر بھی کوئی قدرتی کرشمہ نہیں؛ اسی جنت کی طرح وہ بھی لوگوں کے فریب دینے کے لیے بنا دیا گیا ہے؟
زمرد: ( مسکرا کے) کیا تمھیں اب بھی شک ہے؟
حسین: شک نہیں؛ پیاری زمرد! تیری باتوں کا یقین ہے مگر کیا بتاؤں ان آنکھوں کے سامنے کیسی کیسی کیفیتیں گزر چکی ہیں اور ان کانوں نے کیسے کیسے روشن اور دل فریب الفاظ سنے ہیں! خیر یہ بھی نہ سہی۔مگر طور معنی کا قصر تو اصفہان میں ہے، وہاں کے غار سے میں یہاں کیوں کر پہنچ گیا؟
زمرد: التمونت کا نام چوں کہ کسی قدر مشہور ہو گیا ہے اور بعض لوگ بھڑک گئے ہیں لہٰذا جن لوگوں کی نسبت ایسا خیال ہوتا ہے، وہ اصفہان اور طور معنی ہی کے ذریعے سے یہاں لائے جاتے ہیں۔اور سارا راز مخفی رکھنے کے لیے یہ تدبیر عمل میں آتی ہے کہ طور معنی انھیں بے ہوش کر کے اونٹوں کی محملوں پر سوار کراتا ہے جو راز دار اور معتبر ساربانوں کے ذریعے سے التمونت پہنچا دیے جاتے ہیں ۔ہر منزل پر رات کو کسی جگہ ان لوگوں کو ہوش میں لا کے کچھ کھلا پلا دیتے ہیں اور پھر بے ہوش کر کے آگے روانہ ہوتے ہیں۔
حسین: (چونک کر) تو میں جو اپنے آپ کو کبھی جنگل میں پاتا تھا اور کبھی پہاڑوں میں وہ یہی تھا کہ اصفہان سے روانہ ہوکے التمونت کے منازل قطع کر رہا تھا؟
زمرد: اور کیا؟
حسین: ( حیرت سے) اور یہ لوگ انسان کو بے ہوش کیونکر کرتے ہیں؟
زمرد: ایک پتی ہے حشیش (بھنگ) اسے کے ذریعے۔کبھی ا س کا شربت پلا کے اور کبھی اسے غذاؤں اور مٹھائیوں میں ملا کے۔
حسین: (بے صبری سے)تو طور معنی نے جو جام شراب پلایا وہ اسی حشیش کا جام تھا؟
زمرد: بے شک!
حسین: افسوس! مجھے مسکرات بھی پلائے گئے؟ آہ! کوئی گناہ نہیں جو اٹھ رہا ہو۔ زمرد! تو ناراض نہ ہو، کیوں کہ صرف تیرے وصال کی آرزو نے اندھا کر دیا تھا، ورنہ میں اتنا مجنون و فاترالعقل نہ تھا۔ تیری محبت کی کہ حالت ہے کہ دیکھ تیرے بوسے کا یہ نشان جو میری پیشانی پر موجود ہے، مجھے جان و دل سے زیادہ عزیز ہے۔چاہتا تھا، کہ اس نشان کے بوسے لے لے کے اپنے دل کی تسلی کروں مگر یہ مشتاق ہونٹ کسی طرح وہاں تک نہ پہنچ سکے۔

حسین کی ان باتوں پر زمرد کچھ ایسی شرما گئی تھی کہ ا س کے خاموش ہو جانے کے بعد بھی دیر تک آنکھیں نیچی کیے رہی اور کئی منٹ کے بعد جذبات شرم کو دبا کے بولی: " حسین! نہ بوسہ لینے سے کسی شخص کے جسم پر داغ بن جاتا ہے اور نہ میں اتنی بے حیا ہوں۔"
حسیں: (بات کاٹ کے) اچھا، تمھارے سوا اور کسی نے میرا بوسہ لیا ہو گا؟ میں نے کسی کو منہ تک تو لگایا نہیں!
زمرد: (اسی طرح نظریں جھکائے جھکائے) اب مجھ سے بے شرمی کی باتیں نہ کہلواؤ۔یہ تم کو فریب دیا گیا ہے۔ نہ یہ بوسے کا نشان ہے اور نہ عشق بازی کی پہچان، بلکہ یہ ایک علامت ہے جو پر شخص کی پیشانی پر لوہے سے داغ کے بنا دی جاتی ہے جو اس جنت میں لایا جاتا ہے۔
حسین: داغ ہوتا تو مجھے یاد نہ ہوتا؟
زمرد: یہ داغ بے ہوش کر کے بنایا جاتا ہے۔ اور تم جب التمونت سے اصفہان کو جا رہے ہو گے اسی وقت بنایا گیا ہو گا۔
حسین: ( زور سے سینہ کوٹ کے) افسوس! گل لینے گئے تھے داغ لائے!

اس کے بعد حسین دیر تک دل ہی دل میں اپنی حالت پر افسوس کرتا رہا اور پھر ایک دفعہ چونک کے بولا "زمرد!" افسوس بڑا دھوکا ہوا؛ تو نے مجھے اسی وقت کیوں نہ بتا دیا جب میں تیرے پاس لایا گیا تھا۔ اس وقت تو تو بھی مجھے یقین دلا رہی تھی کہ یہ سب ملاء اعلیٰ کی چیزیں ہیں۔"

یہ سن کے زمرد آب دیدہ ہو گئی اور ایک درد کی آواز میں بولی: "میری قسمت ہی میں یہ لکھا تھا کہ تمھیں دھوکا دوں گی۔" زمرد کو آب دیدہ اور ملول دیکھ کے حسین کے دل پر ایک چوٹ سی لگی اور بے اختیاری کے ساتھ با وفا معشوقہ کے آنسو پونچھ کے کہنے لگا: " زمرد مجھے یہ خیال نہ تھا کہ اس سوال سے سے تیرے دل کو صدمہ پہنچے گا۔اچھا جانے دے، وعدہ کرتا ہوں کہ پھر ایسی باتیں نہ پوچھوں گا۔"
زمرد: تم زخم پر اور نمک چھڑکتے ہو۔ اس وقت تک تم نے سب کچھ پوچھا مگر یہ نہ پوچھا کہ تم سے چھوٹ کے مجھ کم بخت کے سر پر کیا گزری۔ تم تو آزاد تھے، دنیا میں پھر رہے تھے مگر آہ میں قید تھی، اور کیا کہوں کہ کس عذاب میں مبتلا تھی۔یہ بات میرے اختیار میں نہ تھی کہ کسی راز کا ایک ذرا سے اشارہ بھی دے سکوں۔" اتنا کہہ کے زمرد زار و قطار رونے لگی۔
حسین: (گلے لگا کر اور آنسو پونچھ کے) بے شک مجھ سے غلطی ہوئی کہ ان باتوں کا پوچھنا بھول گیا مگر سچ کہتا ہوں کہ میں نے اس وقت تک کوئی بات سوچ سمجھ کے نہیں پوچھی۔ یہ جو کچھ پوچھا ہے، میں نے نہیں پوچھا بلکہ حیرت و بے خودی پچھوا رہی تھی۔ایسی از خود رفتگی کی حالت میں کوئی فرو گزاشت ہوئی ہو تو معاف کر۔
زمرد: خیر اب تم نے یہ داستان چھیڑی ہے تو لو سنو۔یہ باغ فدائیوں اور باطنیوں کے اعتقاد میں تو جنت الفردوس اور ملاء اعلیٰ یا سرمدی عشرت کدہ ہے مگر سچ پوچھو تو شاہان التمونت کی عشرت سرا یا حرم سرا کی حیثیت رکھتا ہے۔ڈیڑھ سو برس کی متواتر کوششیں روز بروز اس کی رونق بڑھاتی رہیں، اور چوں کہ اس سے مذہبی کام لیا جاتا تھا لہٰذا ہر چیز کے بنانے میں بھی کوشش کی گئی کہ اس کی خوش نمائی اور دل فریبی انسان کے حوصلے سے زیادہ اور اس کے محو حیرت کر دینے کے لیے کافی ہو۔یہ محل جو دیکھتے ہو کہ سونے چاندی اور مونگے موتی کے نظر آتے ہیں، صرف نقرئی طلائی اور ان کے جواہرات کے رنگ میں رنگ دیے گئے ہیں، ورنہ وہی اینٹ اور چونا ہے جس سے ہر جگہ مکان بنائے جاتے ہیں۔نہروں کو جاری کرنے میں البتہ بڑی محنت سے کام لیا گیا۔ مگر یہاں قدرتی طور پر پہاڑوں سے آبشار اور نہریں جاری کرنے کا سامان موجود تھا۔یہ بڑی نہر جواس باغ کے درمیان میں بھی ہے اور جس پر ایک سنہرا پل قائم ہے، وہی نہر ویرنجان ہے جس کے کنارے تم نے مدتوں آہ و زاری کی ہے۔

حسین: (حیرت سے) یہ وہی نہر ہے؟
زمرد: " وہی! یہ نہر خاص شاہی قصر سے بہتی ہوئی یہاں آئی ہے اور یہاں سے چند ایسی گھاٹیوں میں ہوکے جن میں گزرنا غیر ممکن ہے، اس فرحت بخش وادی میں پہنچ گئی ہے۔"
حسین: اور زمرد وہ روشنی کیسی تھی جسے تو نے نور یزدانی بتایا تھا؟
زمرد: وہ روشنی صرف یہ تھی کہ گرد کی پہاٹیوں پر رات کو بہت تیز روشنی اور پوری قوت کی مہتابیں چھوڑی جاتی تھیں جن کا عکس یہاں کے آئینوں اور شیشوں پر لے کے قوی اور تیز کیا جاتا تھا۔ اس روشنی کا سامان صرف اس زمانے میں کیا جاتا ہے جب یہاں کوئی شخص معتقد بنانے کے لیے لیا گیا ہو۔ اس وقت سب کو حکم رہتا ہے کہ جب وہ روشنی تیزی سے چمکے تو چلا کے کہیں "ھٰذا الذی ما وعدنی ربی"۔اور وہ دودھ اور شراب کے حوض بھی اسی ضرورت کے موقع پر لبریز کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کا تختوں پر بیٹھنا، غلمانوں کا شراب پلانا اور ان کی بے فکری و خالص مسرت کے تماشے بھی اسی موقع پر دکھائے جاتے ہیں۔
حسین: اور یہ طیور کا نغمہ اور ان کا پھل توڑ توڑ کے لانا؟
زمرد: یہ کون بڑی بات ہے۔ چند سدھائے ہوئی طیور چھوڑ دیے گئے ہیں جن کو پھلوں کے توڑ لانے اور بغیر بھڑکے ہوئے لوگوں کے سامنے رکھ کے اڑ جانے کی مشق کرا دی گئی ہے۔ اسی طرح یہاں کے طیور کو قرآن پاک یہ یہ آیت بھی "سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین" یاد کرا دی گئی ہے جس کو ہر وقت رٹا کرتے ہیں۔
حسین: بڑا گہرا فریب ہے! بھلا کوئی کیوں کر سمجھ سکتا ہے۔ اور ہاں! زمرد جنت کے راز بتانے میں تو اپنی سرگزشت کہنا تو بھول ہی گئی؟
زمرد: میری مصیبت کیا پوچھتے ہو! میں ہی تھی جو ان سب آفتوں کو جھیل گئی۔کوئی اور ہوتا تو اب تک خاک میں مل چکا ہوتا۔
حسین: نہیں پیاری زمرد! ایسی باتیں زبان سے نہ نکال، میرے دل کو صدمہ ہوتا ہے۔ خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ وہ سب مصیبتیں کٹ گئیں اور ہم اب پھر سے ایک دوسے کے آغوش میں ہیں۔

زمرد: اصل میں میں یہاں صرف ایک حور بنائے جانے کے لیے لائی گئی تھی۔ خور شاہ، اس کے ہم راز اہل دربار اور یہاں کی تمام حوروں کو ہمیشہ کسی خوب صورت عورت کی جستجو رہتی ہے تاکہ اس کے حسن و جمال سے جنت میں زیادہ سے زیادہ دل چسپی پیدا کریں۔ جب میں خور شاہ کے سامنے پیش کی گئی تو بد نصیبی سے اس کی نظر میں معمول سے زیادہ اور جنت کی تمام حوروں سے بڑھ کے خوبصورت ثابت ہوئی۔ اس نے ارادہ کیا کہ مجھے خالص اپنے لیے مخصوص کر لے۔ میں یہ خبر سن کے انتہا سے زیادہ پریشان ہوئی اور آخر دل میں فیصلہ کر لیا کہ چاہے مار ڈالی جاؤں مگر اس بے عزتی کو نہ گوارا کروں گی۔ابتدا میں مجھے طرح طرح کے لالچ دیے گئے۔ بتایا گیا کہ اس کی بی بی ہونے کے بعد تاج میرے سر پر رکھا جائے گا اور ایک عالی مرتبہ ملکہ بنوں گی، مگر میں نے کسی طرح نہ منظور کیا، اور جب اسے میری رضامندی سے مایوسی ہو گئی تو وہ ظلم پر آمادہ ہوا اور طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں۔ دو ڈھائی مہینے اسی حال میں گزر گئے کہ میں ہر وقت موت کا انتظار کرتی تھی۔

معشوقۂ باوفا کی یہ مصیبت و وفا کیشی سن کے آنکھوں میں انسو بھر آئے اور ٹھنڈا سانس لے کے کہنے لگا" " زمرد! میرے لیے تو نے بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔"

زمرد: یہ مصیبت نہ تھی بلکہ اسے میں راحت سمجھتی تھی، اس لیے کہ ابے عزتی اور آبروریزی سے بچی ہوئی تھی۔اب خور شاہ ناکامی کے غصے سے میرے قتل پر آمادہ ہو گیا تھا، لیکن اتفاقاً کسی دوست نے رائے دی کہ ایسے کام جو کہ کسی کے دل میں محبت پیدا کرنے سے تعلق ہو، ظلم و جور و زبردستوں سے نہیں نکلتے ؛ بہتر یہ ہو گا کہ چند روز کے لیے زمرد کو جنت کے ایک محل میں چھوڑ دیجیے ؛ وہاں جب ایک عرصے تک راحت و عیش میں رہے گی تو اپنے رنج و غم کو بھول جائے گیا اور آخر جوانی کے جذبات غالب آ کے اسے خود ہی آپ کی معشوقہ بننے پر آمادہ کر دیں گے۔ یہ رائے اسے پسند آ گئی اور میں اس کے محل سے لا کے اس جنت اور اسی قصر دری میں رکھ دی گئی۔ یہ ایسا محفوظ مقام ہے کہ خور شاہ کے خیال میں بھی نہ تھا کہ یہاں کبھی پرندہ پر مار سکے گا۔ باہر کا کوئی شخص یہاں آنہ سکتا تھا اور جو معتقد بنانے کے لیے لائے بھی جاتے تھے تو ان کی ہر وقت نگرانی ہوتی تھی اور کوشش کی جاتی تھی کہ سوا ایک آدھ بات کر لینے کے میں ان سے زیادہ مل بھی نہ سکوں۔ اوروں پر کیا منحصر ہے، جب میں تم سے ملی ہوں، اس وقت بھی ان امور کی پوری نگرانی کی جاتی تھی اور مجال نہ تھی کہ سوا تمھارے بہلانے اور بہکانے کے میں تم سے ذرا بھی بے تکلف ہو سکوں۔یہاں مجھے ہر بات کا آرام تھا۔رات دن عیش و عشرت میں گزرتی تھی، اور خور شاہ کے اشارے پر یہاں کی تمام حوریں میری لونڈیاں بنی رہتیں اور ہر وقت میرا دل بہلانے کی کوشش کرتیں۔ حسین یہ سب سامان مسرت موجود تھا مگر میرے دل کو کسی طرح چین نہ آتا۔ تمھاری صورت ہر گھڑی آنکھوں کے سامنے رہی اور طرح طرح کی تدبیریں سوچا کرتی کہ کسی طرح یہاں سے نکلا بھاگوں ۔ انھیں دنوں تمھارے قتل کے بارے میں بھی مشورے ہوتے اور روز میرا لہو خشک ہوا کرتا۔ایک رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک لق و دق میدان میں کھڑی ہوں؛ ناگہاں سامنے سے تم نظر آئے اور مجھ سے ملنے کو بے تحاشا دوڑے۔یکایک کسی شخص نے ایک درخت کی آڑ سے نکل کے تمھارے سینے میں ایک چھری ماری۔ تم وہ زخم کھاتے ہی سینہ پکڑ کے کھڑے ہو گئے اور میں بے اختیار روتی اور چیخیں مارتی تمھاری طرف دوڑی۔ بس اسی حال میں چیختے چیختے میری آنکھ کھل گئی۔اب کہاں چین پڑ سکتا تھا، باقی رات میں نے روکے بسر کی، اور صبح کو حیران و پریشان بیٹھی تھی کہ مرجان نام کی یہاں کی ایک حور جو مجھ سے کسی قدر مانوس ہو گئی تھی اور جس سے میں کبھی کبھی دو ایک باتیں کر لیا کرتی تھی، میرے پاس آئی اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد بولی: " زمرد! تم نے کچھ اور بھی سنا؟ وہ نوجوان حسین جو تمھارے ساتھ تھا اب تک اسی وادی میں تمھاری قبر سے لپٹا بیٹھ ہے۔"اس موقع پر مجھے ضبط سے کام لینا چاہیے تھا مگر نہ رہا گیا؛ بے اختیار ایک ٹھنڈی سانس لے کے بول اٹھی: " حسین ابھی تک وہیں ہیں؟"

مرجان: ہاں۔ مگر اب یقین ہے کہ دو ہی ایک روز میں وہ مقام ان سے خالی ہو جائے گا۔
میں نے گھبرا کے پوچھا: "کیوں؟"
مرجان: وہ مقام ہم لوگوں کی سیر گاہ ہے اور اسی سبب سے خور شاہ چاہتے ہیں کہ وہاں کوئی ایسا شخص نہ رہے جو ہمارا راز نہ جانتا ہو۔ تمھارے ساتھی نوجوان کی نسبت پہلے تو یہ خیال تھا کہ جب بالکل مایوسی ہو جائے گی تو چلا جائے گا، اور اسی غرض سے تمھاری قبر بنادی گئی ہے، پتھر پر تمھارا نام کندہ کر دیا گیا کہ تمھارے مرنے کا اسے یقین ہو جائے اور واپس جا کے اور لوگوں کو بھی ادھر آنے سے روکے، مگر یہ تدبیر بے کار گئی۔لہٰذا مجبور ہوکے اب یہ تجویز قرار پائی ہے کہ جس طرح بنے اس کا کام تمام کر دیا جائے۔" حسین! میں نہیں کہہ سکتی کہ یہ جملہ سنتے ہی میرے دل کی کیا حالت ہوئی۔گھبرا کے اور بالکل بے اختیاری کے ساتھ کہہ اٹھی: " تو پھر مجھے بھی مار ڈالو"۔ میری بدحواسی دیکھ کے مرجان بولی: " اگر اس کو بچانا چاہتی ہو تو ایک کام کرو؛ خور شاہ کے سامنے چل کے خود اپنی زبان سے سفارش کرو۔" یہ ایسی بات تھی کہ جس کو میں ہرگز نہ مانتی مگر فقط اتنے خیال سے کہ تمھاری جان بچتی ہے طوعاً و کرہاً گئی۔ اور جب اس نے مسکرا کے مجھ سے کچھ بات کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے آہ و زاری سے کہا "خدا کے لیے اس نوجوان کی جان نہ لیجیے جو میری یاد میں پڑا رو رہا ہے۔"میری درخواست سنتے ہی اس نے نہایت متین صوت بنائی مجھے بہت گھور کے اور غصے کی نگاہ سے دیکھا، اس لیے کہ میرے تمھارے تعلقات نے اس کے دل کو بڑا صدمہ پہنچایا اور نہایت ہی برہمی کی آواز سے پوچھنے لگا: " وہ تمھارا کون ہے؟"
میں: وہ میرا عزیز ہے۔اسی کے ساتھ کھیل کود کے اور اسی کے ساتھ پڑھ لکھ کے میں بڑی ہوئی ہوں اور اسی سے میری شادی ہونے والی ہے۔اس سبب سے اکیلا وہی میری جان و مال کا مالک ہے۔
خور شاہ: تمھاری شادی ابھی اس کے ساتھ نہیں ہوئی؟

میں نے نظر نیچی کر کے جواب دیا: "نہیں!"

یہ جواب سن کے خور شاہ نے مجھے بدگمانی کی متجسس نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا: " مگر شادی سے پہلے ہی تمھارے اس کے ایسے تعلقات ہو گئے کہ گھر بار چھوڑ کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ تمھاری عفت میں داغ لگ گیا؟"

اس کا جواب دیتے وقت مجھے بے انتہا شرم معلوم ہوئی۔ کسی طرح کوئی لفظ میری زبان سے نہ نکلتا تھا مگر صرف اپنی اور تمھاری جان بچانے کی غرض سے میں نے دل کڑا کر کے اور بے حیائی گوارا کر کے جواب دیا: " میں ایک توا اپنے بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کو اور دوسرے حج کے لیے گھر سے نکلی تھی، مگر ہاں یہ البتہ ارادہ تھا کہ قزوین پہنچ کے عقد کرلوں گی۔"
خور شاہ: نکاح کی رسم تو خیر قزوین میں ادا ہوتی مگر غالباً تم میں اس میں میاں بی بی والے تعلقات پہلے ہی قائم ہو چکے تھے؟

اس سوال پر میں اس قدر شرمائی کہ سارا جسم پسینے پسینے ہو گیا اور نظر نیچی کر کے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شرم کے مارے آنکھیں بند کر کے جواب دیا: " نہیں میری عصمت میں کوئی فرق نہیں آیا۔"

اتنا سنتے ہی خور شاہ ایک بے اختیاری کے جوش سے یہ کہتا ہوا میری طرف دوڑا: " شکر ہے میری نازنین کے پاک جسم کو ابھی کسی کا ہاتھ نہیں لگا!" قریب تھا کہ وہ مجھے گلے لگا لے مگر میں نے دونوں ہاتھوں سے الگ ہی روکا اور اس کے ہاتھ سے بچنے کے لیے پاؤں کے پاس زمین پر گر کے کہنے لگی: " اس نوجوان کی جان نہ لیجیے ورنہ میں بے موت مر جاؤں گی۔" خور شاہ دیر تک سوچتا رہا۔پھر مجھے اٹھا کے بولا: " زمرد! یہ بہت ضروری ہے کہ وہ وادی اس ضدی شخص سے خالی کی جائے۔"
میں: آہ! میں نے اسے وصیت کر دی تھی کہ مرجاؤں تو گھر جا کے عزیزوں کو میری عفت و پاک دامنی کا یقین دلاؤ۔مگر افسوس اس نے نہ مانا!"

یہ سنتے ہی خور شاہ چونک پڑ ا اور بولا: " کیا تم نے اسے گھر جانے کی وصیت کی تھی؟"
میں: جی ہاں ۔وصیت کیسی، بہت تاکید اور اصرار سے کہا تھا۔
خور شاہ: تو خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ایک نہایت عمدہ تدبیر ہے۔وہ وادی بھی اس سے خالی ہو جائے گی اور اسے کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچے گا۔ مگر زمرد! یہ صرف تمھاری نظر محبت کی امید پر منحصر ہے۔

اس کے جواب میں کچھ کہنا مجھے بالکل بے موقع معلوم ہوا۔خاموش کھڑی رہی۔اور خور شاہ نے قلم دوات منگوا کے ایک خط کا مسودہ لکھا اور اسے میری طرف بڑھا کے کہا: "اسے تم اپنے ہاتھ سے صاف کر دو۔" میں نے اسے وہیں اس کے سامنے زمین پر بیٹھ کے صاف کر دیا اور واپس نہیں آنے پائی تھی کہ ایک دودھ لانے والے دہقانی کو بلوا کے خور شاہ نے وہ خط اس کے حوالے کیا اور حکم دیا کہ تمھاری غفلت میں قبرپر رکھوا دیا جائے۔یہ میرا پہلا خط تھا۔ میں اسی کا حال پہلے بھی بیان کر چکی ہوں۔ مگر پھر کہتی ہوں کہ کیسے کیسے مظالم ہوئے ہیں اور کیسی کیسی مجبوریاں پیش آئیں ہیں جب میں نے تم کو وہ خط لکھا ہے۔ اس خط کے روانہ ہو چکنے کے بعد جب میں جنت میں واپس آئی تو انتہا سے زیادہ حیران تھی۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب مجھ سے مایوس ہوکے تم گھر چلے جاؤ گے۔روز اسی ادھیڑ بن میں رہتی تھی کہ تمھاری زبان سے میری موت کا قصہ سن کے اماں اور ابا کے دل پر کیا گزری ہو گی۔کئی ہفتے اسی حالت میں گزر گئے۔ وہ حور جس کا نام مرجان تھا، روز میرے پاس آتی اور ہمیشہ ہمدردی ظاہر کرتی، مگر مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خور شاہ کی سکھائی پڑھائی تھی اور اس سے روز جا جا کے کہہ دیا کرتی تھی کہ میں تمھارے لیے کس قدر حیران رہتی ہوں۔ایک دن اس نے باتوں باتوں میں پوچھا: " زمرد! تمھارا مکان آمل میں ہے؟" میں چونک کے بولی: "ہاں !کیوں؟"

مرجان: وہیں ایک زبردست عالم، جو فی الحال نیشا پور میں رہتے ہیں، لوگوں کو ہمارے خلاف بہکا رہے ہیں اور اس جنت کو فریب بتاتے ہیں۔
میں: کون؟امام نجم الدین نیشا پوری تو نہیں؟
مرجان: ہاں ہاں وہی۔ ان کے قتل کی تجویز ہو رہی ہے۔
میں: (چونک کر)ہائے یہ تو بڑا ظلم ہو گا! وہ بڑے با خدا عالم ہیں ۔حسین کے استاد ہیں اور انھیں کے وہ مرید بھی ہیں۔
مرجان: (تعجب کر کے) حسین ان کے شاگرد اور مرید ہیں؟
میں: اتنا ہی نہیں، ان کے بھتیجے بھی ہیں وہ۔

اس کے بعد میں دل میں افسوس کرتی رہی کہ یہ ظالم ناحق ایک با خدا شخص کی جان لیتے ہیں۔اور انھیں خیالات کی وجہ سے رات کو کئی پریشان اور مہیب خواب دیکھے۔دوسرے دن اٹھ کے بیٹھی ہی تھی، اور آفتاب اچھی طرح بلند نہیں ہونے پایا تھا کہ مرجان آئی اور کہنے لگی: "چلو زمرد! تمہیں خور شاہ نے بلایا ہے۔"

میں: ( پریشانی کی صورت بنا کے) کیوں؟
مرجان: یہ میں کیا جانوں، مگر اسی وقت چلو۔ مجبوراً میں اس کے ساتھ گئی۔ وہاں جا کے دیکھا تو ایک خوب صورت لڑکی کے ہاتھ سے لے لے کے جام شراب پی رہا تھا۔میری صورت دیکھتے ہی بولا: "زمرد! تم کسی طرح حسین کے خیال کو نہیں چھوڑتیں۔اگر میری آرزو پوری کرے کا اقرار کرو تو تمھیں حسین سے ملانے کا وعدہ بھی کرتا ہوں۔" یہ الفاظ سنتے ہی میرے دل میں ایک خفیف سی مسرت پیدا ہوئی مگر اس کی شرط بالکل ایسے تھی جیسے شربت کے جام میں زہر ملا ہو۔تاہم میں نے اور کسی خیال کو دل ہی دل میں دبا کے کہا: " اگر آپ کے رحم نے مجھے ان سے ملا دیا تو زندگی بھر لونڈی رہوں گی۔" میرے اس جواب سے وہ خوش ہوا اور فوراً ایک دوسے خط کا مسودہ دے کر کہا: "اس کو اپنے قلم سے صاف کر دو۔: میں نے مسودہ ہاتھ میں لے کے قبل اس کے کہ پڑھا ہو خور شاہ کی طرف دیکھ کو پوچھا: " اب تو حسین اس وادی سے چلے گئے ہوں گے؟"
خور شاہ: نہیں، اس نے تمھارے پہلے خط کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی۔اسی طرح قبر کا مجاور بنا بیٹھا ہے۔تم اسے اپنا باوفا اور سچا عاشق سمجھتی تھیں مگر وہ تمھاری پروا بھی نہیں کرتا۔اس دل کش وادی میں اس کا ایسا دل لگا کہ اب تھارے حکم کو بھی نہیں مانتا۔
میں: نہیں۔ وہ ایسے ہی با وفا ہیں جیسا کہ میں سمجھتی ہوں۔ جس طرح میری جدائی نہ گوارا کی تھی، اسی طرح اب انھیں میری قبر کی مفارقت بھی گوارا نہ ہو گی۔
حسین: ( جوش میں آکر) بے شک زمرد! صرف اسی خیال سے میں نے تیرا پہلا حکم نہیں مانا۔
زمرد: خیر، میری زبان سے یہ باتیں سن کے اس نے ایک حیرت کے ساتھ مجھے گھور کے دیکھا اور کسی قدر پست آواز میں بولا: " یہ مسودہ جلدی صاف کر دو کہ وہ تم سے ملنے کا سامان کرے۔" مجھے اس مسودے کے پڑھتے ہی حیرت ہو گئی۔ پڑھتی جاتی تھی اور دل میں کہتی جاتی کہ کہ یہ لوگ کس قدر مکار اور فریبی ہیں۔بہرحال میں نے خط صاف کر کے دیا ور چلی آئی۔ دوسے دن مجھے مرجان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ خط تمھارے پاس بھیج دیا گیا۔ اور اس سے غرض یہ تی کہ تمھیں شیخ علی وجودی کا معتقد بنا کے انھیں کے ذریعے تمھارے ہاتھ سے امام نجم الدین نیشاپوری تمھارے ہاتھ سے قتل کرائے جائیں اس کے صلے میں تم جنت کی سیر کرو اور مجھے تم سے ملنے کا موقع ملے۔حسین! کیا کہوں کہ یہ حال معلوم ہوتے ہی میں نے اپنے اوپر کتنی لعنت و ملامت کی ہے۔ میں دل میں ڈرتی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے ان کے خون میں اپنے ہاتھ رنگ لو دعا کرتی تھی کہ خد کرے پہلے خط کی طرح تم اس خط پر بھی عمل نہ کرو۔ مگر جب معلوم ہوا کہ یہاں کے بھیجے ہوئے گدھے پر سوار ہوکے تم روانہ ہو گئے ہو تو دل میں اور ڈری اور دعا کرنے لگی کہ خداوندا! حسین کو اس گناہ سے بچا! مگر مدت کے بعد جب معلوم ہوا کہ اب دو ہی تین دن میں تم جنت میں آیا چاہتے ہو تو مجھے یقین ہو گیا کہ تم ان ظالموں کے پھندے میں پھنس گئے۔ جب تم اس وادی کو چھوڑ کے چلے گئے تو یہاں کی حوریں پھر اکثر اوقات سیر و تفریح کے لیے وہاں جانے لگیں۔ جن کے ساتھ خور شاہ کی اجازت سے کبھی کبھار میں بھی چلی جاتی تھی، اور اپنی قبر کو دیکھ کے تمھارے خیال سے اکثر دل ہی دل میں روتی۔ جب تم جنت میں آئے ہو اس سے پہلے ہی مجھے بتا دیا گیا تھا کہ تم سے کیوں کر ملوں ، کس قسم کی باتیں کروں اورتمھارے اعتقاد کو کس طرح بڑحاؤں۔تاکید تھی کہ اگر ا س کے ذرا بھی خلاف ہوا اور ذرا سا بھی راز تم پر ظاہر ہو گیا تو پہلے تم مار ڈالے جاؤ گے اور پھر میں۔ہر وقت یہاں میری اور تمھاری نگرانی ہوتی رہتی تھی اور مجھے تم سے ایک لفظ کہنے کا موقع بھی نہ ملتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے تمھاری یہ حالت نظر آئی کہ جیسے تم پر کوئی سخت جادو چلا ہوا تھا اور اپنے ہر نیک و بد سے بے خبر تھے۔ایسی حالت میں اس کی بھی امید نہ تھی کہ تم سے کچھ کہوں گی تو تم اسے ضبط کر کے چھپا سکو گے۔اسی خیال سے میں نے کچھ نہ کہا۔ تاہم موقع پا کر اتنا بتا دیا کہ نا امیدی کی حالت میں مری قبر پر آنا، اور آخر اسی تدبیر سے خدا نے کامیاب کیا۔ مگر حسین! میں نے تمھارے لیے خور شاہ کے ہاتھ سے بڑ بڑے ظلم اٹھائے۔برائے نام جنت تھی۔ تمھارے جانے کے بعد اور زیادہ سختیاں ہوئیں اور اب خور شاہ کو خیال ہو چلا تھا کہ میں کبھی اس کے موافق نہ ہوں گی، مگر لوگوں کے کہنے سننے اور اس کے دلی میلان کا نتیجہ تھا کہ اس وقت زندہ ہوں۔

حسین: (زمرد کو گلے لگا کے) غنیمت ہے کہ اتنی مصیبتوں کے بعد ہم پھر مل گئے۔مگر اب مجھے ضرور ہے کہ ان ظالموں سے ان باتوں کا انتقام بھی لوں۔جب تک انتقام نہ لوں گا کبھی آرام سے بیٹھنا نہ نصیب ہو گا۔ میرے گناہوں کا کفارہ یہی ہے کہ دنیا کو خور شاہ، علی وجودی اور طور معنی کی نجاست سے پاک کروں ۔جس طرح ابھی تک ان لوگوں کا فدائی تھا، اب دین کا سچا فدائی بنوں گا۔ہر ایک مستقر پر جاؤں گا اور اسی طرح فریب و مکر سے ان لوگوں کو جنت کے بہانے دوزخ میں بھیجوں گا۔
زمرد: تمھیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ، فی الحال عید قائم قیامت ہے ؛ یہ سب لوگ یہیں آئے ہوئے ہیں، اسی قلعے میں موجود ہیں، اور ان کی سزا دہی کا بھی پورا انتظام ہو گیا ہے۔آج ہی شام تک تمھیں موقع مل جائے گا کہ شاہ زادی بلغان خاتون کے ساتھ خور شاہ کے محل اور قلعے میں گھس کے ایک ہی وقت میں تینوں شخصوں کا کام تمام کر دو۔
حسین: زمرد! تجھے یہاں کے سب حالات کیوں کر معلوم ہو گئے؟
زمرد: حوروں اور جنت والوں سے کوئی راز چھپا تھوڑی ہی ہے۔ مرجان کی طرح یہاں کی بعض حوریں خور شاہ کے محل میں جاتی ہیں اور ان میں سے ایک ہر وقت اس کی صحبت میں موجود رہتی ہے۔یہ حوریں جب واپس آتی ہیں تو جو دیکھتی سنتی ہیں دوسروں سے کہہ دیتی ہیں۔ اس طرح تھوڑی ہی دیر میں ہر بات سب میں مشہور ہوا جاتی تھی، اور کسی نہ کسی ذریعے سے میں بھی سن لیتی تھی۔اور ہاں حسین! یہ تو بتاؤ کہ شاہزادی کے ساتھ کتنی فوج ہے؟
حسین: فوج! تھوڑے سے جوان ہونگے۔

ناگہاں ایک شور و ہنگامے کی آواز بلند ہوئی۔ دونوں گھبرا کے محل سے باہر نکل آئے اور ہزارہا سپاہیوں کا عظیم الشان لشکر دیکھ کے اس محل کی طرف دوڑے جس میں شہزادی بلغان خاتون آرام کر رہی تھی۔