منشا اس تالیف کا یہ ہے کہ سن ایک ہزار دو سو پندرہ برس ہجری اور اٹھارہ سے ایک سال عیسوی مطابق ایک ہزار دو سو سات سن فصلی کے عہد میں اشرف الاشراف مارکوئس ولزلی، گورنر جنرل، لارڈ مارننگٹن صاحب کے (جن کی تعریف میں عقل حیران اور فہم سرگردان ہے۔ جتنے وصف سرداروں کو چاہیے انکی ذات میں خدا نے جمع کئے ہیں۔ غرض، قسمت کی خوبی، اس ملک کی تھی جو ایسا حاکم تشریف لایا، جس کے قدم کے فیض سے ایک عالم نے آرام پایا۔ مجال نہیں کوئی کسو پر زبردستی کرسکے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں، سارے غریب و غربا دعا دیتے ہیں اور جیتے ہیں) چرچا علم کا پھیلا۔ صاحبانِ ذی شان کو شوق ہوا کہ اردو زبان سے واقف ہو کر ہندوستانیوں سے گفت و شنید کریں اور ملکی کام کو بہ آگاہی تمام انجام دیں۔ اس واسطے کتنی کتابیں اسی سال بموجب فرمائش کے تالیف ہوئیں۔

جو صاحب دانا اور ہندوستان کی زبان بولنے والے ہیں، انکی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ یہ قصہ چار درویش کا، ابتدا میں امیر خسرو دہلوی نے اس تقریب سے کہا کہ حضرت نظام الدین اولیاء، زری زر بخش، (جو انکے پیر تھے اور درگاہ انکی دلی میں، قلعے سے تین کوس، لال دروازے کے باہر، مٹیا دروازے سے آگے، لال بنگلے کے پاس ہے) انکی طبیعت ماندی ہوئی۔ تب مرشد کا دل بہلانے کے واسطے امیر خسرو یہ قصہ ہمیشہ کہتے اور تیمار داری میں حاضر رہتے۔ اللہ نے چند روز میں شفا دی۔ تب انہوں نے غسلِ صحت کے دن یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا، خدا کے فضل سے تندرست رہے گا۔ جب یہ قصہ فارسی میں مروج ہوا۔

اب خداوندِ نعمت، صاحبِ مروت، نجیبوں کے قدردان، جان گلکرسٹ صاحب نے (کہ ہمیشہ ان کا اقبال زیادہ رہے، جب تلک گنگا جمنا بہے) لطف فرمایا کہ اس قصے کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ، ہندو مسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے، خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں، ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے، میں نے ابھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔

پہلے اپنا احوال یہ عاصی گنہگار، میر امن دلی والا بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک بادشاہ کی رکاب میں، پشت بہ پشت، جاں فشانی بجا لاتے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے، قدر دانی جتنی چاہیے، فرماتے رہے۔ جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے سرفراز کر کر، مالا مال اور نہال کر دیا اور خانہ زاد موروثی، اور منصب دار قدیمی، زبانِ مبارک سے فرمایا، چنانچہ یہ لقب بادشاہی دفتر میں داخل ہوا۔ جب ایسے گھر کی (کہ سارے گھر اس گھر کے سبب آباد تھے) یہ نوبت پہنچی، ظاہر ہے۔ (عیاں را چہ بیاں) تب سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا اور احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کیا۔ ایسی ایسی تباہی کھا کر ویسے شہر سے (کہ وطن اور جنم بھوم میرا ہے، اور آنول نال وہیں گڑا ہے) جلا وطن ہوا، اور ایسا جہاز کہ جس کا ناخدا بادشاہ تھا، غارت ہوا۔ میں بے کسی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ہے۔ کتنے برس بلدۂ عظیم آباد میں دم لیا۔ کچھ بنی کچھ بگڑی، آخر وہاں بھی پاؤں اکھڑے، روزگار نے موافقت نہ کی۔ عیال و اطفال کو چھوڑ کر تن تنہا کشتی پر سوار ہوا، اشرف البلاد کلکتے میں آب و دانے کے زور سے آ پہنچا۔ چندے بیکاری گزری۔ اتفاقاً نواب دلاور جنگ نے بلوا کر، اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کی اتالیقی کے واسطے مقرر کیا۔ قریب دو سال کے وہاں رہنا ہوا، مگر نباہ اپنا نہ دیکھا۔ تب منشی میر بہادر علی جی کے وسیلے سے، حضور تک، جان گلکرسٹ صاحب بہادر (دام اقبالہ) کے، رسائی ہوئی۔ بارے، طالع کی مدد سے ایسے جواں مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے، چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں۔ نہیں تو یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر، پاؤں پھیلا کر سو رہتا ہوں اور گھر میں دس آدمی، چھوٹے بڑے، پرورش پا کر دعا اس قدردان کو کرتے ہیں۔ خدا قبول کرے۔

حقیقت اردو کی زبان کی، بزرگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک چوجگی ہے، انہیں کے راجا پرجا قدیم سے رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود غزنوی آیا، پھر غوری اور لودھی بادشاہ ہوئے۔ اس آمدورفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا، چلا جاتا ہے) ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار اردو کہلایا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر ولایت گئے۔ آخر وہاں سے آن کر پسماندوں پٹھانوں کی گوشمالی کی۔ کوئی مفسد باقی نہ رہا کہ فتنہ و فساد برپا کرے۔

جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے قوم، قدردانی اور فیض رسانی اس خاندانِ لاثانی کی سن کر، حضور میں آ کر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جُدی جُدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف، سوال و جواب کرنے کی زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہان، صاحب قران نے قلعۂ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کروایا اور تخت طاؤس میں جواہر جڑوایا اور دل بادل سا خیمہ، چوبوں پر استاد کر، طنابوں سے کھنچوایا اور نواب علی مردان خان نہر کو لے کر آیا، تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا دارالخلافت بنایا، تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا (اگرچہ دلی جُدی ہے، وہ پرانا شہر اور یہ نیا شہر کہلاتا ہے) اور وہاں کے بازار کو اردوئے معلیٰ خطاب دیا۔

امیر تیمور کے عہد سے محمد شاہ کی بادشاہت، بلکہ احمد شاہ اور عالم گیر ثانی کے وقت تک، پیڑھی بہ پیڑھی، سلطنت یکساں چلی آئی، ندان، زبان اردو کی منجھتے منجھتے ایسی منجھی کہ کسو شہر کی بولی اس سے ٹکر نہیں کھاتی، لیکن قدردان منصف چاہیے، جو تجویز کرے۔ سو اب خدا نے، بعد موت کے، جان گلکرسٹ صاحب سا دانا، نکتہ رس پیدا کیا کہ جنہوں نے اپنے گیان اور اُگت سے، اور تلاش و محنت سے، قاعدوں کی کتابیں تصنیف کیں۔ اس سبب سے ہندوستان کی زبان کا ملکوں میں رواج ہوا اور نئے سر سے رونق زیادہ ہوئی۔ نہیں تو اپنی دستار و گفتار و رفتار کو کوئی برا نہیں جانتا۔ اگر ایک گنوار سے پوچھیے تو شہر والے کو نام رکھتا ہے، اور اپنے تئیں سب سے بہتر سمجھتا ہے۔ خیر عاقلاں خود میدانند۔

جب احمد شاہ ابدالی کابل سے آیا اور شہر کو لٹوایا، شاہ عالم پورب کی طرف تھے۔ کوئی وارث اور مالک، ملک کا نہ رہا، شہر بے سر ہو گیا۔ ہیچ ہے، بادشاہت کے اقبال سے شہر کی رونق تھی۔ ایک بارگی تباہی پڑی۔ رئیس وہاں کے، میں کہیں تم کہیں، ہو کر جہاں جس کے سینگ سمائے وہاں نکل گئے۔ جس ملک میں پہنچے، وہاں کے آدمیوں کے ساتھ سنگت سے بات چیت میں فرق آیا۔ اور بہت ایسے ہیں کہ دس پانچ برس کسو سبب سے دلی میں گئے اور رہے، وے بھی کہاں تک بول سکیں گے، کہیں نہ کہیں چوک ہی جائیں گے۔ اور جو شخص سب آفتیں سہہ کر دلی کا روڑا ہو کر رہا، اور دس پانچ پشتیں اسی شہر میں گزاریں، اور اس نے دربار امراؤں کے، اور میلے ٹھیلے، عرس چھڑیاں سیر تماشا اور کوچہ گردی اس شہر کی مدت تلک کی ہوگی، اور وہاں سے نکلنے کے بعد اپنی اپنی زبان کو لحاظ میں رکھا ہوگا، اس کا بولنا البتہ ٹھیک ہے۔ یہ عاجز بھی ہر ایک شہر کی سیر کرتا اور تماشا دیکھتا یہاں تلک پہنچا ہے۔