بسم اللہ الرحمن الرحیم

سبحان اللہ کیا صانع ہے! کہ جس نے ایک مٹھی خاک سے کیا کیا صورتیں اور مٹّی کی مورتیں پیدا کیں! باوجود دو رنگ کے ایک گورا ایک کالا اور یہی ناک کان ہاتھ پاؤ سب دیے ہیں۔ اس پر رنگ بہ رنگ کی شکلیں جدی جدی بنائیں کہ ایک کی سج دھج سے دوسے کا ڈیل ڈول ملتا نہیں، کروڑوں خلقت میں جس کو چاہیے پہچان لیجئے۔ آسمان اس کے دریاۓ وحدت کا ایک بلبلا ہے، اور زمین پانی کا بتاشا، لیکن یہ تماشا ہی کہ سمندر ہزاروں لہریں مارتا ہے، پر اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ جس کی یہ قدرت اور سکت ہو اس کی حمد و ثنا میں زبان انسان کی گویا گونگی ہے۔ کہے! بہتر یوں ہی کہ جس بات میں دم نہ مار سکے، چپکا ہو رہے،

عرش سے لے کر فرش تک جس کا کہ یہ سامان ہے
حمد اس کی گر لکھنا چاہوں، تو کیا امکان ہے!

جب پیمبر نے کہا ہو، "میں نے پہچانا نہیں"
پھر کوئی دعوا کرے اس کا، بڑا نادان ہے

رات دن یہ مہرو مہ پھرتے ہیں صنعت دیکھتے
پر ہر ایک واحد کی صورت دیسہ حیران ہے

جس کا ثانی اور مقابل ہے نہ ہووے گا کبھو
ایسا یکتا کو خدائی سب طرح شایان ہے