اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور منصفی کرو۔ سیر میں چہار درویش کے یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ آگے روم کے ملک میں ایک شہنشاہ تھا۔ کہ نوشیرواں کی سی عدالت اور حاتم کی سی سخاوت اس کی ذات میں تھی۔ نام اسکا آزاد بخت اور شہر قسطنطنیہ(جس کو استنبول کہتے ہیں) اس کا پایۂ تخت تھا۔ اس کے وقت میں رعیت آباد، خزانہ معمور، لشکر مرفّہ، غریب غربا آسودہ، ایسے چین سے گزران کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ہر ایک کے گھر میں دن عید، اور رات شبِ برات تھی۔ اور جتنے چور چکار، جیب کترے، صبح خیزے اٹھائی گیرے دغا باز تھے، سب کو نیست و نابود کر کر نام و نشان ان کا اپنے ملک بھر میں نہ رکھا تھا۔ ساری رات دروازے گھروں کے بندے نہ ہوتے اور دکانیں بازار کی کھلی رہتیں۔ راہی مسافر جنگل میدان میں سونا اچھالتے چلے جاتے کوئی نہ پوچھتا کہ تمھارے منہ میں دانت ہیں، اور کہاں جاتے ہو؟

اس بادشاہ کے عمل میں ہزاروں شہر تھے، اور کئی سلطان نعل بندی دیتے، ایسی بڑی سلطنت پر ایک ساعت اپنے دل کو خدا کی یاد اور بندگی سے غافل نہ کرتا۔ آرام دنیا کا جو چاہے سب موجود تھا، لیکن فرزند کی طرف سے محروم تھا۔ کہ جو زندگانی کا پھل ہے اس کی قسمت کے باغ میں نہ تھا۔ اس خاطر اکثر فکر مند رہتا۔ پانچوں وقت کی نماز کے بعد اپنے کرم سے کہتا کہ اے اللہ مجھ عاجز کو تو نے اپنی عنایت سے سب کچھ دیا لیکن ایک اس اندھیرے گھر کو دیا نہ دیا۔ یہی ارمان جی میں باقی ہے ایک بیٹا جیتا جاگتا مجھے دے تو تو میرا نام اور اس سلطنت کا نشان باقی رہے۔ اسی امید میں بادشاہ کی عمر چالیس برس کی ہو گئی۔ ایک دن شیش محل میں نماز ادا کر وظیفہ پڑھ رہے تھے کہ ایک بارگی آئینہ کی طرف جو خیال کرتے ہیں تو ایک سفید بال موچھوں میں نظر آیا کہ مانند تار مقیش کے چمک رہا ہے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر آبدیدہ ہوئے اور ٹھنڈی سانس بھری پھر دل میں سوچا کیا کہ افسوس تو نے اتنی عمر ناحق برباد کی اور اس دنیا کی حرص میں ایک عالم کو زیر و زبر کیا اور ملک جو لیا اب تیرے کس کام آئے گا۔ آخر یہ سارا مال و سباب کوئی دوسرا اور آئے گا تجھے تو پیغام موت کا آ چکا۔ اگر کوئی دن جئے بھی تو بدن کی طاقت کم ہو گی۔

اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میری تقدیر میں نہیں لکھا کہ وارث چیز اور تخت کا پیدا ہو مجھے ایک روز مرنا ہے اور سب کچھ چھوڑ جانا ہے اس سے یہ بہتر ہے کہ میں ہی اسے چھوڑ دوں اور باقی زندگانی اپنے خالق کی یاد میں کاٹوں۔ یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا کر پائیں باغ میں جا کر سب مجرائیوں کو جواب دے کر فرمایا کہ کوئی آج سے میرے پاس نہ آوے۔ سب دیوان عام میں آیا جایا کریں اور اپنے کام میں مستعد رہیں یہ کہہ کر آپ ایک مکان میں جا بیٹھے۔ اور مصلاّ بچھا کر عبادت میں مشغول ہوئے سوائے رونے اور آہ بھرنے کے کچھ کار نہ تھا۔ اسی طرح بادشاہ آزاد بخت کو کئی دن گزرے شام کو روزہ کھولنے کے وقت ایک چھوہارا اور تین گھونٹ پانی پیتے اور تمام دن رات جانماز پر پڑے رہتے۔ اس بات کا باہر چرچا پھیلا رفتہ رفتہ تمام ملک میں خبر ہو گئی کہ بادشاہ نے بادشاہت سے ہاتھ کھینچ کر گوشہ نشینی اختیار کی۔ چاروں طرف سے غنیموں اور مفسدوں نے سر اٹھایا اور قدم اپنی حد سے بڑھایا جس نے چاہا ملک دبا لیا اور سر انجام سر کشی کا کیا ہوا جہاں کہیں حاکم تھے ان کے حکم میں خلل عظیم واقع ہوا۔ ہر ایک صوبے سے غرضی بد عملی کی حضور میں پہنچی۔ درباری امراء جتنے تھے جمع ہوئے اور اصلاح مصلحت کرنے لگے۔ آخر یہ تجویز ٹیرائی کہ نواب وزیر عاقل اور دانا اور بادشاہ کا مقرب اور معتمد ہے اور درجے میں بھی سب سے بڑا ہے اس کی خدمت میں چلیں اور دیکھیں کہ وہ کیا مناسب جان کر کرتا ہے۔ سب ہی امیر وزیر کے پاس آئے اور کہا بادشاہ کی یہ صورت اور ملک کی وہ حقیقت اگر چندے تغافل ہو تو اس محنت کا ملک لیا ہو مفت میں جاتا رہے گا، پھر ہاتھ آنا مشکل ہے۔ وزیر پرانا قدیم نمک حلال اور عقل مند نام بھی خرد مند اسم با مسمّیٰ تھا کہا اگر چہ بادشاہ نے حضور میں آنے کو منع کیا ہے۔ لیکن تم چلو میں چلتا ہوں۔ بادشاہ کے خیال میں آوے جو روبرو بلائے۔ یہ کہہ کر سب کو اپنے ساتھ دیوان عام تک لا ان کو وہاں چھوڑ کر آپ دیوان خاص میں آیا اور بادشاہ کی خدمت میں محلی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ یہ پیر غلام حاضر ہے۔ کئی دنوں سے جمال جہاں آرا نہیں دیکھا امید وار ہوں کہ ایک نظر دیکھ کر قدم بوسی حاصل کروں تو خاطر جمع ہو۔ یہ عرض وزیر کی بادشاہ نے سنی۔ از بسکہ قدامت اور خیر خواہی اور تدبیر اور جان نثاری اس کی جانتے تھے اور اکثر اسکی بات مانتے تھے۔ بعد تائل کے فرمایا خرد مند کو بلا لو بارے جب پروانگی ہوئی وزیر حضور میں آیا آداب بجا لایا۔ اور دست بستہ کھڑا رہا۔

دیکھا تو بادشاہ کی عجیب صورت بن رہی ہے کہ زار زار رو رہے ہیں اور دبلاپے سے آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ہیں اور چہرہ زرد ہو گیا ہے۔

خرد مند کو تاب نہ رہی، بے اختیار دوڑ قدموں پر جا گرا۔ بادشاہ نے ہاتھ سے سر اس کا اٹھایا اور فرمایا لو، مجھے دیکھا، خاطر جمع ہوئی؟ اب جاؤ، زیادہ مجھے نہ ستاؤ، تم سلطنت کرو۔ خرد مند سن کر، ڈاڑھ مار کر رویا اور عرض کی غلام کو آپ کے تصدق اور سلامتی سے ہمیشہ بادشاہت میسر ہے۔ لیکن جہاں پناہ کی یک بیک اس طرح کی گوشہ گیری سے تمام ملک میں تہلکہ پڑ گیا ہے اور انجام اس کا اچھا نہیں۔ یہ کیا خیال مزاج مبارک میں آیا؟ اگر اس خانہ زاد موروثی کو بھی محرم اس راز کا کیجیے تو بہتر ہے۔ جو کچھ عقلِ ناقص میں آوے، التماس کرے۔ غلاموں کو جو یہ سرفرزایاں بخشی ہیں، اسی دن کے واسطے کہ بادشاہ عیش و آرام کریں، اور نمک پرور دے تدبیر میں ملک کی رہیں۔ خدانخواستہ جب فکر مزاج عالی کے لاحق ہوئی تو بند ہائے بادشاہی کس دن کام آویں گے؟ بادشاہ نے کہا سچ کہتا ہے، پر جو فکر میرے جی کے اندر ہے، سو تدبیر سے باہر ہے۔ سن اے خرد مند میری ساری عمر اسی ملک گیری کے دردِ سر میں کٹی، اب یہ سِن و سال ہوا، آگے موت باقی ہے، سو اس کا بھی پیغام آیا کہ سیاہ بال سفید ہو چلے۔ وہ مثل ہے، ساری رات سوئے، اب صبح کو بھی نہ جاگیں؟ اب لک ایک بیٹا پیدا نہ ہوا جو میری خاطر جمع ہوتی، اس لیے دل سخت اداس ہوا اور میں سب کچھ چھوڑ بیٹھا، جس کا جی چاہے، ملک لے یا مال لے، مجھے کچھ کام نہیں، بلکہ کوئی دم میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ سب چھوڑ کر، جنگل اور پہاڑوں میں نکل جاؤں اور منھ اپنا کسو کو نہ دکھاؤں، اسی طرح یہ چند روز کی زندگی بسر کروں۔ اگر کوئی مکان خوش آیا تو وہاں بیٹھ کر بندگی اپنے معبود کی بجا لاؤں گا۔ شاید عاقبت بخیر ہو اور دنیا کو تو خوب دیکھا، کچھ مزہ نہ پایا۔ اتنی بات بول کر، اور ایک آہ بھر کر، بادشاہ چپ ہوئے۔

خرد مند ان کے باپ کا وزیر تھا، جب یہ شہزادے تھے، تب سے محبت رکھتا تھا، علاوہ دانا اور نیک اندیش تھا، کہنے لگا خدا کی جناب سے ناامید ہونا ہر گز مناسب نہیں۔ جس نے ہیژدہ ہزار عالم کو ایک حکم میں پیدا کیا، تمھیں اولاد دینی اس کے نزدیک کیا بڑی بات ہے؟قبلہ عالم اس تصورِ باطل کو دل سے دور کرو، نہیں تو تمام عالم درہم برہم ہو جائے گا۔ اور یہ سلطنت کس کس محنت اور مشقت سے تمھارے بزرگوں نے اور تم نے پیدا کی ہے؟ ایک ذرا میں ہاتھ سے نکل جائے گی اور بے خبری سے ملک ویران ہو جائے گا۔ خدانخواستہ بدنامی حاصل ہو گی۔ اس پر بھی بازپرس روزِ قیامت کی ہوا چاہے کہ تجھے بادشاہ بنا کر، اپنے بندوں کو تیرے حوالے کیا تھا، تو ہماری رحمت سے مایوس ہوا اور رعیت کو حیران پریشان کیا۔ اس سوال کا کیا جواب دو گے؟ پس عبادت بھی اس روز کام نہ آئے گی۔ اس واسطے کہ آدمی کا دل خدا کا گھر ہے۔ اور بادشاہ فقط عدل کے واسطے پوچھے جائیں گے۔ غلام کی بے ادبی معاف ہو، گھر سے نکل جانا اور جنگل جنگل پھرنا، کام جوگیوں اور فقیروں کا ہے۔نہ کہ بادشاہوں کا۔ تم اپنی جوگا کام کرو، خدا کی یاد اور بندگی جنگل پہاڑ پر موقوف نہیں۔ آپ نے یہ بیت سنی ہو گی۔

خدا اس پاس، یہ ڈھونڈے جنگل میں
ڈھنڈھورا شہر میں، لڑکا بغل میں

اگر منصفی فرمائیے، اور اس فدوی کی عرض قبول کیجئے تو بہتر یوں ہے کہ جہاں پناہ ہر دم اور ہر ساعت دھیان اپنا خدا کی طرف لگا کر، دعا مانگا کریں۔ اس کی درگاہ سے کوئی محروم نہیں رہا۔ دن کو بندوبست ملک کا اور انصاف، عدالت غریب غربا کی فرمائیں، تو بندے خدا کے دامنِ دولت کے سایے میں امن و امان خوش رہیں، اور رات کو عبادت کیجئے اور درود پیغمبر کی روحِ پاک کو نیاز کر کر درویش گوشہ نشین متوکلوں سے مدد لیجئے، اور روز راتب یتیم اسیر عیال داروں محتاجوں اور رانڈ بیواؤں کو کر دیجئے۔ ایسے اچھے کاموں اور نیک نیتوں کی برکت ہے، خدا چاہے تو امید قوی ہے۔ کہ تمھارے دل کے مقصد اور مطلب سب پورے ہوں۔ اور جس واسطے مزاجِ عالی مکدر ہو رہا ہے۔ وہ آرزو بر آوے، اور خوشی خاطر شریف کو ہو جاوے۔ پروردگار کی عنایت پر نظر رکھیے۔ کہ وہ ایک دم میں جو چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ بارے خرد مند وزیر کے ایسی ایسی عرض معروض کرنے سے آزاد بخت کے دل کو ڈھارس بندھی۔ فرمایا، اچھا تو جو کہتا ہے بھلا یہ بھی کر دیکھیں، آگے جو اللہ کی مرضی ہو گی، سو ہو گا۔

جب بادشاہ کے دل کو تسلّی ہوئی، تب وزیر سے پوچھا کہ اور سب امیر و کبیر کیا کرتے ہیں اور کس طرح ہیں؟ اس نے عرض کہ کہ سب ارکانِ دولت قبلہ عالم کے جان و مال کو دعا کرتے ہیں۔ آپ کی فکر سے سب حیران و پریشان ہو رہے ہیں۔ جمال مبارک اپنا دکھائیے تو سب کی خاطر جمع ہووے، چناں چہ اس وقت دیوانِ عام میں حاضر ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے حکم کیا، انشاءاللہ تعالیٰ کل دربار کروں گا، سب کو کہ دو حاضر رہیں۔ خرد مند یہ وعدہ سن کر خوش ہوا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا دی کہ جب تلک یہ زمین و آسمان برپا ہیں تمھارا تاج و تخت قائم رہے۔ اور حضور سے رخصت ہو کر خوشی خوشی باہر نکلا، اور یہ خوش خبری امراؤں سے کہی۔ سب امیر ہنسی خوشی گھر کو گئے۔ سارے شہر میں آنند ہو گئی۔ رعیّت پر جا مگن ہوئی کہ کل بادشاہ دربارِ عام کرے گا۔ صبح کو سب خانہ زاد اعلیٰ ادنیٰ، اور ارکانِ دولت چھوٹے بڑے، اپنے اپنے پائے اور مرتبے پر آ کر کھڑے ہوئے، اور منتظر جلوہ بادشاہی کے تھے۔

جب پہر دن چڑھا ایک بارگی پردہ اٹھا اور بادشاہ نے برآمد ہو کر تختِ مبارک پر جلوس فرمایا۔ نوبت خانے میں شادیانے بجنے لگے۔ سبھوں نے نذریں مبارک بادی کی گزرانیں۔ اور مجرے گاہ میں تسلیمات و کورنشات بجا لائے۔ موافق قدر و منزلت کے ہر ایک کو سرفرازی ہوئی۔ سب کے دل کو خوشی اور چین ہوا۔ جب دوپہر ہوئی، برخاست ہو کر اندرونِ محل داخل ہوئے، خاصہ نوشِ جان فرما کر خواب گاہ میں آرام کیا۔ اس دن سے بادشاہ نے یہی مقرر کیا کہ ہمیشہ صبح کو دربار کرنا، اور تیسرے پہر کتاب کا شغل یا درود وظیفہ پڑھنا، اور خدا کی درگاہ میں توبہ استغفار کر کر، اپنے مطلب کی دعا مانگنی۔

ایک روز کتاب میں بھی لکھا دیکھا، کہ اگر کسی شخص کو غم یا فکر ایسی لاحق ہو کہ اس کا علاج تدبیر سے نہ ہو سکے تو چاہیے کہ تقدیر کے حوالے کرے اور آپ گورستان کی طرف رجوع کرے، درود طفیل پیغمبر کی روح کے ان کو بخشے، اور اپنے تئیں نیست و نابود سمجھ کر، دل کو اس غفلت دنیوی سے ہوشیار رکھے، اور عبرت سے رو دے، اور خدا کی قدرت کو دیکھے کہ مجھ سے آگے کیسے کیسے صاحب ملک و خزانہ اس زمین پر پیدا ہوئے؟ لیکن آسمان نے سب کو اپنی گردش میں لا کر خاک میں ملا دیا۔ یہ کہاوت ہے۔

چلتی چکی دیکھ کر، دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ آ، ثابت گیا نہ کو

اب جو دیکھیے سوائے ایک مٹی کے ڈھیر کے ان کا کچھ نشان باقی نہیں رہا اور سب دولتِ دنیا گھر بار، آل اولاد، آشنا دوست، نوکر چاکر، ہاتھی گھوڑے چھوڑ کر اکیلے پڑے ہیں۔ یہ سب ان کا کچھ کام نہ آیا، بلکہ ان کوئی نام بھی نہیں جانتا کہ یہ کون تھے اور قبر کے اندر کا احوال معلوم نہیں کہ (کیڑے مکوڑے چیونٹے سانپ ان کو کھا گئے یا) ان پر کیا بیتی اور خدا سے کیسی بنی۔ بے باتیں اپنے دل میں سوچ کر ساری دنیا کو پیکھنے کا کھیل جانے، تب اس کے دل کا غنچہ ہمیشہ شگفتہ رہے گا، کسو حالت میں پژمردہ نہ ہو گا۔ یہ نصیحت جب کتاب میں مطالعہ کی، بادشاہ کو خرد مند وزیر کا کہنا یاد آیا اور دونوں کو مطابق پایا۔ یہ شوق ہوا کہ اس پر عمل کروں لیکن سوار ہو کر اور بھیٹ بھاڑ لے کر، پادشاہوں کی طرح سے جانا اور پھرنا، مناسب نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ لباس بدل کر رات کو اکیلے مقبروں میں یا کسی مردِ خدا گوشہ نشین کی خدمت میں جایا کروں، اور شب بیدار ہوں، شاید ان مردوں کے وسیلے سے دنیا کی مراد اور عاقبت کی نجات میسر ہو۔

یہ بات دل میں مقرر کر کے ایک روز رات کو موٹے جھوٹے کپڑے پہن کر روپے اشرفی لے کر، چپکے قلعے سے باہر نکلے اور میدان کی راہ کی، جاتے جاتے ایک گورستان میں پہنچے، نہایت صدق دل سے درود پڑھ رہے تھے، اور اس وقت بادِ تند چل رہی تھی، بلکہ آندھی کہا چاہیے۔ ایک بارگی بادشاہ کو دور سے ایک شعلہ سا نظر آیا کہ مانند صبح کے تارے کے روشن ہے۔ دل میں اپنے خیال کیا کہ اس آندھی اور اندھیرے میں یہ روشنی خالی حکمت سے نہیں۔ یا یہ طلسم ہے کہ اگر پھٹکری اور گندھک کو چراغ میں بتی کے آس پاس چھڑک دیجئے، تو کیسی ہی ہوا چلے، چراغ گل نہ ہو گا۔ یا کسو دلی کا چراغ ہے کہ جلتا ہے، جو کچھ ہو سو ہو، چل کر دیکھا چاہیے شاید اس شمع کے نور سے میرے بھی گھر چراغ روشن ہو اور دل کی مراد ملے۔ یہ نیت کر کے اس طرف کو چلے۔ جب نزدیک پہنچے، دیکھا تو چار فقیر بےنوا کفنیاں گلے میں ڈالے اور سر زانو پر دھرے، عالم بے ہوشی میں خاموش بیٹھے ہیں اور ان کا یہ عالم ہے جیسے کوئی مسافر اپنے ملک اور قوم سے بچھڑ کر، بے کسی اور مفلسی کے رنج و غم میں گرفتار ہو کر حیران رہ جاتا ہے۔ اسی طرح سے بے چاروں نقشِ دیوار ہو رہے ہیں۔ اور ایک چراغ پتھر پر دھرا ٹمٹما رہا ہے۔ ہر گز ہوا اس کو نہیں لگتی گویا فانوس اس کا آسمان بنا ہے کہ بے خطرے جلتا ہے۔

آزاد بخت کو دیکھتے ہی یقین آیا کہ مقرر تیری آرزو، ان مردانِ خدا کے قدم کی برکت سے بر آوے گی، اور تیری امید کا سوکھا درخت ان کی توجہ سے ہرا ہو کر پھلے گا۔ ان کی خدمت میں چل کر اپنا احوال کہہ اور مجلس کا شریک ہو، شاید تجھ پر رحم کھا کر دعا کریں جو بے نیاز کے یہاں قبول ہو۔ یہ ارادہ کر کے چاہا کہ قدم آگے دھرے۔ وہیں عقل نے سمجھایا کہ اے بے وقوف جلدی نہ کر، ذرا دیکھ لے۔ تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ اور کدھر جاتے ہیں؟ کیا جانیں یہ دیو ہیں یا غولِ بیابانی ہیں کہ آدمی کی صورت بن کر باہم مل بیٹھے ہیں۔ بہ ہر صورت جلدی کرنا اور اس کے درمیان جا کر مخل خوب نہیں۔ ابھی ایک گوشے میں چھپ کر حقیقت ان درویشوں کی جاننا چاہیے۔ آخر بادشاہ نے یہی کیا کہ ایک کونے میں اس مکان کے چپکا جا بیٹھا کہ کسی کو اس کے آنے کی آہٹ کی خبر نہ ہوئی، اپنا دھیان ان کی طرف لگایا کہ دیکھئے آپس میں کیا بات چیت کرتے ہیں۔ اتفاقاً ایک فقیر کو چھینک آئی، شکر خدا کا کیا، وہ تینوں قلندر اس کی آواز سے چونک پڑے، چراغ کو اکسایا، ٹھیپ تو روشن تھا، اپنے اپنے بستروں پر حقّے بھر کر پینے لگے۔ ایک ان آزادوں میں سے بولا: اے یارانِ ہمدرد و رفیقانِ جہاں گرد! ہم چار صورتیں آسمان کی گردش سے اور لیل و نہار کے انقلاب سے در بہ بر خاک بہ سر ایک مدت پھریں۔ الحمد لللہ کہ طالع کی مدد اور قسمت کی یاوری سے آج اس مقام پر باہم ملاقات ہوئی اور کل کا احوال کچھ معلوم نہیں کہ کیا پیش آوے، ایک گت رہیں یا جدا جدا ہو جاویں۔ رات بڑی پہاڑ ہوتی ہے، ابھی سے پڑ پڑ رہنا خوب نہیں۔ اس سے یہ بہتر ہے کہ اپنی اپنی سر گزشت جو اس دنیا میں جس پر بیتی ہو (بشرطیکہ جھوٹ اس میں کوڑی بھر نہ ہو) بیان کرے، تو باتوں میں رات کٹ جائے۔ جب تھوڑی شب باقی رہے تب لوٹ پوٹ رہیں گے۔" سبھوں نے کہا یا ہادی! جو کچھ ارشاد ہوتا ہے۔ ہم نے قبول کیا۔ پہلے آپ ہی اپنا احوال جو دیکھا ہے شروع کیجئے تو ہم مستفید ہوں۔"