جب دوسرے درویش کے کہنے کی نوبت پہنچی، وہ چار زانو ہو بیٹھا اور بولا۔

اے یارو! اس فقیر کا ٹک ماجرا سنو!
میں ابتدا سے کہتا ہوں تا انتہا سنو!

جس کا علاج کر نہیں سکتا کوئی حکیم
ہے گا ہمارا درد نپت لا دوا سنو!

اے دلق پوش! یہ عاجز بادشاہ فارس کے ملک کا ہے۔ ہر فن کے آدمی وہاں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اصفہان نصف جہاں مشہور ہے۔ ہفت اقلیم میں اس اقلیم کے برابر کوئی ولایت نہیں کہ وہاں کا ستارہ آفتاب اور وہ ساتوں کواکب میں نیر اعظم ہے۔ آب و ہوا وہاں کی خوشی اور لوگ روشن طبع اور صاحب سلیقہ ہوتے ہیں۔ میرے قبلہ گاہ نے، جو بادشاہ اس ملک کے تھے لڑکپن سے قاعدے اور قانون سلطنت کی تربیت کرنے کے واسطے بڑے بڑے دانا ہر ایک علم اور کسب کے چن کر میری اتالیقی کے لیے مقرر کیے تھے تو تعلیم کامل ہر نوع کی پا کر قابل ہوں۔ خدا کے فضل سے چودہ برس کے سن و سال میں سب علم سے ماہر ہوا۔ گفتگو معقول نشست و برخاست پسندیدہ اور جو کچھ بادشاہوں کو لائق اور درکار ہے سب حاصل کیا اور یہی شوق شب و روز تھا کہ قابلوں کی صحبت میں قصے ہر ایک ملک کے اور احوال اوالعزم بادشاہوں اور نام آوروں کا سنا کروں۔

ایک روز ایک مصاحب دانا نے کہ خوب تواریخ داں اور جہاں دیدہ تھا، مذکور کیا کہ اگرچہ آدمی کی زندگی کا کچھ بھروسا نہیں، لیکن اکثر وصف ایسے ہیں کہ ان کے سبب سے انسان کا نام قیامت تک زبانوں پر بخوبی چلا جائے گا۔ میں نے کہا اگر تھوڑا سا احوال اس کا مفصل بیان کرو تو میں بھی سنوں اور اس پر عمل کروں۔ تب وہ شخص حاتم طائی کا ماجرا اس طرح سے کہنے لگا۔