حاتم طائی کے وقت میں ایک بادشاہ عرب کا نوفل نام تھا۔ اس کو حاتم کے ساتھ بہ سبب نام آوری کے دشمنی مکال ہوئی۔ بہت سا لشکر فوج جمع کر کر لڑائی کی خاطر چڑھ آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا، یہ سمجھا کہ اگر میں بھی جنگ کی تیاری کروں تو خدا کے بندے مارے جائیں گے۔ اور بڑے خوں ریزی ہو گی۔ اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ بات سوچ کر تن تنہا اپنی جان لے کر پہاڑ کی کھوہ میں جا چھپا۔

جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو معلوم ہوئی، سب اسباب گھر بار حاتم کا قرق کیا اور منادی کرا دی جو کوئی حاتم کو ڈھونڈ کر پکڑ لاوے پانچ سو اشرفی بادشاہ کے سرکار سے انعام پاوے۔ یہ سن کر سب کو لالچ آیا اور جستجو حاتم کی کرنے لگے۔ اور روز ایک بوڑھا اس کی بڑھیا دو تین بچے چھوٹے چھوٹے ساتھ لیے ہوئے لکڑیاں توڑنے کے واسطے اس غار کے پاس جہاں حاتم پوشیدہ تھا، پہنچے اور لکڑیاں اس جنگل سے چننے لگے، بڑھیا بولی کہ اگر ہمارے کچھ دن بھلے آتے تو حاتم کو کہیں ہم دیکھ پاتے اور اس کو پکڑ کر نوفل کے پاس لے جاتے تو وہ پانچ سو اشرفی دیتا ہم آرام سے کھاتے اس دکھ دھندے سے چھوٹ جاتے۔ بوڑھے نے کہا۔ کیا ٹر ٹر کرتی ہے؟ ہماری طالع میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھر کر بازار میں بیچیں، تب لون روٹی میسر آوے یا ایک روز جنگل سے باگھ لے جاوے۔ لے اپنا کام کر۔ ہمارے ہاتھ حاتم کاہے کو آوے گا اور بادشاہ روپے دلاوے گا؟ عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہو رہی۔

یہ دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں، مرومی اور مروت سے بعید جانا کہ اپنے تئیں چھپائے اور جان کو بچائے اور ان دونوں بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچائے۔ سچ ہے اگر آدمی میں رحم نہیں تو وہ انسان نہیں، اور جس کی جی میں درد نہیں وہ قصائی ہے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

غرض حاتم کی جواں مردی نے نہ قبول کیا کہ اپنے کانوں سے سن کر چپکا ہو رہے۔ وونہیں باہر نکل آیا اور اس بوڑھے سے کہ اے عزیز! حاتم میں ہی ہوں۔ میرے تئیں نوفل کے پاس لے چل۔ وہ مجھے دیکھے گا اور جو کچھ روپے دینے کا اقرار کیا ہے تجھے دیوے گا۔ میر مرد نے کہا، سچ ہے کہ اس صورت میں بھلائی اور بہبودی البتہ ہے، لیکن وہ کیا جانے تجھ سے سلوک کرے، اگر مار ڈالے تو میں کیا کروں؟ یہ مجھ سے ہر گزر نہ ہو سکے گا کہ تجھ سے انسان کو طمع کی خاطر دشمنی کے حوالے کروں۔ وہ مال کتنے دن کھاؤں گا اور کب تک جیئوں گا؟ آخر مر جاؤں گا، تب خدا کو کیا جواب دوں گا۔

حاتم نے بہتیری منت کی کہ مجھے لے چل۔ میں اپنے خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ مرا جان مال کسو کے کام آوے تو بہتر ہے۔ لیکن وہ بوڑھا کسی طرح راضی نہ ہوا کہ حاتم کو لے جاتا تو میں آپ سے آپ بادشاہ پس جا کر کہتا ہوں کہ اس بوڑھے مجھے جنگل میں ایک پہاڑ کی کوہ میں چھپا رکھا تھا۔ وہ بوڑھا ہنسا اور بولا۔ بھلائی کے بدلے برائی ملے، تو یا نصیب اس رد و بدل کے سوال جواب میں آدمی اور بھی آ پہنچے، بھیڑ لگ گئی۔ افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ساتھ ہو لیا۔ جب نوفل کے رو برو لے گئے تو اس نے پوچھا کو اس کو کون پکڑ لایا؟ ایک بد ذات سنگ دل بولا کہ ایسا کام سوائے ہماری اور کون کر سکتا ہے؟ یہ فتح ہماری نام ہے ہم نے عرش پر جھنڈا گاڑا ہے۔ ایک لن ترانی والا ٹینگ مارنے لگا کہ میں کئی دن سے دوڑ دھوپ کر کر جنگل سے پکڑ لیا ہوں۔ میری محنت پر نظر کیجئے اور جو قرار ہے، سو دیجئے۔ اسی طرح اشرفیوں کے لالچ سے ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بوڑھا چپکا ایک کونے میں لگتا ہوا سب کی شیخیاں سن رہا تھا اور حاتم کی خاطر روتا تھا۔ جب اپنی اپنی دلاوری اور مردانگی سب کہہ چکے۔ تب حاتم نے بادشاہ سے کہا اگر سچ بات پوچھو تو یہ ہے کہ وہ بوڑھا جو الگ سب سے کھڑا ہے، مجھ کو لایا ہے، اگر قیافہ پہچان جانتے ہو تو دریافت کرو اور میرے پکڑنے کی خاطر جو قبول کیا ہے پورا کرو کہ ساری ڈیل میں زبان حلال ہے۔ مرد کو چاہیے جو کہے سو کرے۔ نہیں تو جیبھ حیوان کو بھی خدا نے دی ہے۔ پھر حیوان اور انسان میں کیا تفاوت ہے؟ نوفل نے اس لکڑہارے بوڑھے کو پاس بلا کر پوچھا کہ سچ کہہ، اصل کیا ہے؟ حاتم کو کون پکڑ لایا؟ اس بیچارے نے سر سے پاؤں تک جو گذرا تھا راست کہہ سنایا اور کہا حاتم میری خاطر آپ سے چلا آیا ہے۔ نوفل یہ ہمت حاتم کی سن کر متعجب ہوا کہ بل بے تیری سخاوت اپنی جان کا بھی خطر نہ کیا۔ جتنے جھوٹ دعوے حاتم کو پکڑ لانے کے کرتے تھے، حکم ہوا کہ ان کی ٹنڈیاں کس کر پانچ سو اشرفی کے بدلے پانچ پانچ سو جوتیاں اس کے سر پر لگاؤ کہ ان کی جان نکل پڑے۔ وونہیں تڑ تڑ بیزا سریں پڑنے لگیں کہ ایک دم میں سر ان کے گنجے ہو گئے۔ سچ ہے، جھوٹ بولنا ایسی ہی گناہ ہے کہ کوئی گناہ اس نہیں پہنچتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت آدمی جھوٹ موٹ بکے جاتے ہیں لیکن آزمائش کے وقت سزا پاتے ہیں۔ غرض ان سب کو موافق ان کے انعام دے کر، نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم سے شخص سے کہ ایک عالم کو اس سے فیض پہنچتا ہے اور محتاجوں کی خاطر جان اپنی دریغ نہیں کرتا اور خدا کی راہ میں سرتاپا حاضر ہے دشمنی رکھنی اور اس کا مدعی ہونا مرد آدمیت اور جواں مردی سے بعید ہے۔ وونہیں حاتم کا ہاتھ بڑی دوستی اور گرم جوشی سے پکڑ لیا اور کہا کیوں نہ ہو جب ایسی ہو تب ایسی ہو تواضع تعظیم کر کر پاس بٹھلایا اور حاتم کو ملک و املاک اور مال و اسباب جو ضبط کیا وونہیں چھوڑ دیا، نئے سر سے سرداری قبیلہ طے کی اسے دی اور اس بوڑھے کو پانچ سو اشرفیاں خزانے سے دلوا دیں وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا۔

جب یہ ماجرا حاتم کا میں نے تمام سنا جی میں غیرت آئی اور یہ خیال گزرا کہ حاتم اپنی قوم کا رئیس تھا، جن نے سخاوت کے باعث یہ نام پیدا کیا کہ آج تلک مشہور ہے۔ میں خدا کے حکم سے بادشاہ تمام ایران کا ہوں، اگر اس نعمت سے محروم رہوں تو بڑا افسوس ہے۔ فی الواقع دنیا میں کوئی بڑا داد و دہش سے نہیں۔ اس واسطے کہ آدمی جو کچھ دنیا میں دیتا ہے اس کو عوض عاقبت میں لیتا ہے۔ اگر کوئی ایک دانہ بوتا ہے تو اس جتنا کچھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات دل میں ٹھہرا کر میر عمارت کو بلوا کر حکم کیا کہ ایک مکان عالی شان جس کے چالیس دروازے بلند اور بہت کشادہ ہوں، باہر شہر کے جلد بنواؤ۔ تھوڑے عرصے میں ویسی ہی عمارت جیسا دل چاہتا تھا بن کر تیار ہوئی اور اس مکان میں ہر روز ہر وقت فجر سے شام تک محتاجوں اور بے کسوں کے تئیں روپے اشرفیاں دیتا، اور جو کوئی جس چیز کا سوال کرتا، میں اسے مالا مال کرتا۔

غرض چالیس دروازوں سے حاجت مند آتے اور جا چاہتے سو لے جاتے۔ ایک روز کا یہ ذکر ہے کہ ایک فقیر سامنے کے دروازے سے آیا اور سوال کیا۔ میں نے اسے ایک اشرفی دی۔ پھر وہی دوسرے دروازے سے ہو کر آیا، دو اشرفیاں مانگیں۔

میں نے پہچان کر درگزر کی اور دیں۔ اسی طرح اس نے ہر ایک دروازے سے اور ایک ایک اشرفی بڑھانا شروع کیا اور میں بھی جان بوجھ کر ان جان ہوا، اور اس کے سوا موافق دیا گیا۔ آخر چالیس دروازے کی راہ سے آ کر چالیس اشرفیاں مانگیں۔ وہ بھی میں نے دلوا دیں اتنا کچھ لے کر وہ درویش پھر پہلے دروازے سے گھس آیا اور سوال کیا۔ مجھے بہت برا معلوم ہوا۔ میں نے کہا سن اے لالچی تو کیسا فقیر ہے کہ ہر گز فقیر کے تینوں حرفوں سے واقف نہیں؟ فقیر کا عمل ان پر چاہیے۔ فقیر بولا۔ بھلا داتا تم ہی بتاؤ میں نے کہا " ف " سے فاقہ، " ق " سے قناعت " ر " سے ریاضت نکلتی ہے، جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ فقیر نہیں۔ اتنا جو تجھے ملا ہے، اس کو کھا پی کر پھر آئیو اور جو مانگے گا لے جائیو۔ یہ خیرات احتیاج رفع کرنے کے واسطے ہے نہ جمع کرنے کے لیے۔ اے حریص! چالیس دروازوں سے تو نے ایک اشرفی سے چالیس اشرفیوں تک لیں، اس کا حساب تو کر کہ ریوڑی کے پھیری طرح کتنی اشرفیاں ہوئیں اور اس پر بھی تجھے حرص پھر پہلے دروازے سے لے آئی۔ اتنا مال جمع کر کے کیا کرے گا؟ فقیر کو چاہیے کہ ایک روز کی فکر کر لے اور دوسرے دن پھر نئی روزی رازق دینے والا موجود ہے۔ اب حیا و شرم پکڑ اور صبر و قناعت کا کام فرما۔ یہ کیسی فقیری ہے جو تجھے مرشد نے بتائی ہے؟

فقیر یہ میری بات سن کر خفا اور بد دماغ ہوا اور جتنا مجھ سے لے کر جمع کیا تھا سب زمیں میں ڈال دیا اور بولا۔ بس بابا اتنے گرم مت ہو۔ اپنی کائنات لے کر رکھ چھوڑو، پھر سخاوت کا نام لیجئو۔ سخی ہونا بہت مشکل ہے۔ تم سخاوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ اس منزل کو کب پہنچو؟ ابھی دلی دور ہے۔ سخی کے بھی تین حروف ہیں۔ پہلے ان پر عمل کرو تب سخی کہلاؤ گے۔ جب میں ڈرا اور کہا بھلا داتا! اس کے معنی مجھے سمجھاؤ۔ کہنے لگا۔ س سے سمائی اور خ سے خوف الٰہی اور ی سے یاد رکھنا اپنی پیدائش اور مرنے کو، جب تلک اتنا نہ ہو لے، تو سخاوت کا نام لے، اور سخی کا درجہ ہے کہ اگر بدکار ہو، تو بھی دوست خدا کا ہے، اس فقیر نے بہت ملکوں کے سیر کی ہے، لیکن سوائے بصرے کی بادشاہ زادی کے کوئی سخی دیکھنے میں نہ آیا۔ سخاوت کا خاصہ خدا نے اس عورت پر قطع کیا ہے اور سب نام چاہتے ہیں، پر ویسا کام نہیں کرتے۔ یہ بھی سن کر میں نے بہت منت کی اور قسمیں دیں کہ میری تقصیر معاف کرو اور جو چاہیے سو اور میر دیا ہرگز نہ لیا اور یہ بات کہتا ہوا چلا۔ اب اپنی ساری بادشاہت مجھے دے تو اس پر بھی نہ تھوکوں اور نہ دھر ماروں، وہ تو چلا گیا پر بصرے کی بادشاہ زادی کی یہ تعریف سننے سے دل بے کل ہوا۔ کسی طرح کل نہ تھی۔ اب یہ آرزو ہوئی کہ کسو صورت سے بصرے چل کر اس کو دیکھا چاہیے۔

اس عرصے میں بادشاہ نے وفات پائی اور تخت پر میں بیٹھا۔ سلطنت ملی پر وہ خیال نہ گیا۔ وزیر اور امیروں سے، جو پائے تختِ سلطنت کے اور کان مملکت کے تھے، مشورت کی کہ سفر بصرے کا کیا چاہتا ہوں۔ تم اپنے کام میں مستعد رہو۔ اگر زندگی ہے تو سفر کی عمر کوتاہ ہوتی ہے، جلد پھر میں آتا ہوں۔ کوئی میرے جانے پر راضی نہ ہوا۔ لاچار دل تو اداس ہو رہا تھا۔ ایک دن بغیر سبب کے کہے سنے، چپکے سے وزیرِ با تدبیر کو بلا کر مختار اور وکیل مطلق اپنا کیا اور سلطنت کا مدار المہام بنایا۔ پھر میں نے گیروا بسر پہن فقیر بھیس کر، اکیلے راہ بصرے کی لی۔ تھوڑے دنوں میں اس کی سرحد میں جا پہنچا۔ تب سے یہ تماشا دیکھنے لگا کہ جہاں رات کو جا کر مقام کرتا، نوکر چاکر اسی ملکہ کے استقبال کر کر ایک مکان معقول میں اتارتے، اور جینا لوازمہ ضیافت کا ہوتا ہے، بخوبی موجود ہو کر اور خدمت میں دست بستہ تمام رات حاضر رہتے، دوسرے دن دوسری منزل میں یہی صورت پیش آتی۔ اسی آرام سے مہینوں کی راہ طے کی۔ آخر بصرے میں داخل ہوا۔ وونہیں ایک جواں شکیل، خوش لباس، نیک خُو، صاحبِ مروت کہ دانائی اس کے قیافے سے ظاہر تھی، میرے پاس آیا اور نپٹ شیریں زبانی سے کہنے لگا کہ میں فقیروں کا خادم ہوں، ہمیشہ اسی تلاش میں رہتا ہوں کہ جو کوئی مسافر، فقیر یا دنیا دار اس شہر میں آوے، میرے گھر میں قدم رنجہ فرماوے، سوائے ایک مکان کے یہاں بدیسی کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ آپ تشریف لے چلئے اور مقام کو زینت بخسئے اور مجھے سرفراز کیجئے۔

فقیر نے پوچھا، صاحب کا اسمِ شریف کیا ہے۔ بولا اس گمنام کا نام بیدار بخت ہے۔ اس کی خوبی اور تملق دیکھ کر یہ عاجز اس کے ساتھ چلا اور اس کے مکان میں گیا۔ دیکھا تو ایک عمارت عالی لوازم شاہانہ سے تیار ہے۔ ایک دالان میں اس نے لے جا کر بٹھایا اور گرم پانی منگوا کر ہاتھ پاؤں دھلوائے اور دستر خوان بچھوا کر مجھ تن تنہا کے روبرو بکاول نے ایک تاورے کا تورا چن دیا۔ چار بشقاب، ایک میں یخنی پلاؤ، دوسری میں قورما پلاؤ، تیسری میں متنجن پلاؤ اور چوتھی میں کوکو پلاؤ اور ایک قاب زردے کی اور کئی طرح کے قلئے، دو پیازہ، نرگسی، بادام، روغن جوش اور روٹیاں کئی قسم کی باقر خانی، تنکی شیرمال، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، نعمت نان، پراٹھے، اور کباب کوفتے کے، مرچ کے تکے، خاگینہ، ملغوبہ شب دیگ، دم پُخت، حلیم، ہریسا، سموسے، ورتی، قبولی، فرنی، شیر برنج، ملائی، حلوہ، فالودہ، پن بھتا، نمش، آب شورہ، ساق عروس، لوزیات، مربہ اچار دان، دہی کی قلفیاں، یہ نعمتیں دیکھ کر روح بھر گئی۔ جب ایک ایک نوالہ ہر ایک سے لیا، پیٹ بھی بھر گیا، تب کھانے سے ہاتھ کھینچا۔ وہ شخص مجوز ہوا کہ صاحب نے کیا کھایا؟ کھانا تو سب امانت دھرا ہے بے تکلف اور نوشِ جان فرمائیے۔ میں نے کہا شرم کیا ہے خدا تمہارا خانہ آباد رکھے۔ جو کچھ میرے پیٹ میں سمایا سو میں نے کھایا اور ذائقے کی اس کے کیا تعریف کروں کہ اب تک جزبان چاٹتا ہوں اور جو ڈکار آتی ہے سو معطر۔ لو اب مزید کرو۔ جب دسترخوان اٹھا تو زیر انداز کا شانی مخمل کا مقیش بچھا کر چلمچی، آفتابہ طلائی لا کر بیس دان میں سے خوشبو دار بیس دے کر گرم پانی سے میرے ہاتھ دھلائے۔ پھر پان دان جڑاؤ میں گلوریاں سونے کی بھر کر پکھروٹوں میں بندھی ہوئیں اور چو گھروں میں گلوریاں، چکنی سپاریاں اور لونگ الائچیاں، روپہلے ورقوں میں منڈھی ہوئی لا کر رکھیں۔ جب میں پانی پینے کو مانگتا تب صراحی برف میں لگی ہوئی آب دار لے آتا۔

جب شام ہوئی فانوسوں میں کافوری شمعیں روشن ہوئیں۔ وہ عزیز بیٹھا ہوا باتیں کرتا رہا۔ جب پہر رات بیت گئی، بولا اب اس چھپر کھٹ میں کہ جس کے آگے دلدار پیش گیر کھڑا ہے، آرام کیجئے۔ فقیر نے کہا اے صاحب! ہم فقیروں کو ایک بوریا یا مرگ چھار بستر کے لئے بہت ہے۔ یہ خدا نے تم دنیا داروں کے واسطے بنایا ہے۔ کہنے لگا۔ یہ سب اسباب درویشوں کی خاطر ہے۔ کچھ میرا مال نہیں۔ اس کے بجد ہونے سے ان بچھونے پر۔ کہ پھولوں کی سیج جیسی بھی نرم تھے، جا کر لیٹا۔ دونوں پٹیوں کی طرف گلدان اور چنگیریں پھولوں کی چنی ہوئیں اور عود سوز اور لخلخے روشن تھے، جیدھر کی کروٹ لیتا دماغ معطر ہو جاتا۔ اس عالم میں سو رہا۔

جب صبح ہوئی ناشتے کو بھی بادام، پستے، انگور، انجیر، ناشپاتی، انار، کشمش، چھوہارے اور میوے کا شربت لا کر حاضر کیا۔ اسی طور سے تین دن رہا۔ چوتھے روز میں نے رخصت مانگی۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا شاید اس گنہگار سے صاحب کی خدمت گاری میں کچھ قصور ہوا کہ جس کے باعث مزاج تمہارا مکدر ہوا، میں نے حیران ہو کر کہا برائے خدا یہ کیا مذکور ہے؟ لیکن مہمانی کی شرط تین دن تلک ہے سو میں رہا۔ زیادہ رہنا خوب نہیں اور علاوہ یہ فقیر واسطے سیر کے نکلا ہے۔ اگر ایک ہی جگہ زیادہ رہ جاوے تو مناسب نہیں۔ اس لئے اجازت چاہتا ہے نہیں تو تمہاری خوبیاں ایسی نہیں کہ جدا ہونے کو جی چاہے۔ تب وہ بولا جیسی مرضی لیکن ایک سماعت توقف کیجئے کہ بادشاہ زادی کے حضور میں جا کر عرض کروں۔ اور تم جو جایا چاہتے ہو تو جو کچھ اسباب اوڑھے بچھانے کا اور کھانے کے باسن روپے سونے کے اور جڑاؤ کے اس مہمان خانے میں ہیں، یہ سب تمہارا مال ہے، اس کے ساتھ لے جانے کی خاطر جو فرماؤ تدبیر کی جائے۔ میں نے کہا لا حول پڑھو، ہم فقیر نہ ہوئے نئے بھاٹ ہوئے۔ اگر یہی حرص دل میں ہوتی تو فقیر کاہے کو ہوتے، دنیا داری کیا بری تھی۔

اس عزیز نے کہا اگر یہ احوال ملکہ سے سنے تو خدا جانے مجھے اس خدمت سے تغیر کر کر کیا سلوک کرے۔ اگر تمہیں ایسی ہی بے پروائی ہے تو ان سب کو ایک کوٹھڑی میں امانت بند کر کر دروازے کو سر بہ مہر کر دو پھر جو چاہو سو کیجو۔

میں قبول نہ کرتا تھا اور وہ مانتا بھی نہ تھا۔ لاچار یہی صلاح ٹھہری کہ سب اسباب کو گند کر کر قفل کر دیا اور منتظر رخصت کا ہوا۔ اتنے میں ایک خواجہ سرا معتبر سر پر سر پیچ اور گوش پیچ اور کمر بندی، باندھے ایک عصا سونے کا جڑاؤ ہاتھ میں اور ہاتھ اس کے کئی خدمت گار، معقول عہدے لیے ہوئے اس شان و شوکت سے میرے نزدیک آیا۔ ایسی ایسی مہربانی اور ملائمت سے گفتگو کرنے لگا کہ جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ پھر بولا، اے میاں، اگر توجہ اور کرم کر اس مشتاق کے غریب خانے کو اپنے قدم کی برکت سے رونق بخشو تو بندہ نوازی اور غریب پروری سے بعید نہیں۔ شاید شہزادی سنے کہ کوئی مسافر یہاں آیا تھا۔ اس کی تواضع مدارت کسے نے نہ کی، وہ یوں ہی چلا گیا۔ اس واسطے واللہ اعلم مجھ پر کیا آفت لاوے اور کیسی قیامت اٹھاوے، بلکہ حرف زندگی پر ہے۔ میں نے ان باتوں پر نہ مانا۔ تب خواہ مخواہ منتیں کر کرے میرے تئیں اور ایک حویلی میں، کہ پہلے مکان سے بہتر تھی، لے گیا۔ اسی پہر شربت اور تفنن کی خاطر میوے کھلائے اور باسن نقرئی و طلائی فرش فروش اور اسباب جو کچھ وہاں تھا مجھے سے کہنے لگا کہ ان سب کے تم مالک مختار ہو۔ جو چاہو سو کرو۔ میں یہ باتیں سن کر حیران ہوا اور چاہا کہ کسی نہ کسی طرح یہاں سے رخصت ہو کر بھاگوں۔ میرے بشرے کو دیکھ کر وہ محلی بولا اے خدا کے بندے، جو تیرا مطلب یا آرزو ہو، سو مجھ سے کہہ، تو حضور میں ملکہ کے جا کر عرض کروں۔ میں نے کہا۔ میں فقیری کے لباس میں دینا کا مال کیا مانگوں کہ تم بغیر مانے دیتے ہو اور میں انکار کرتا ہوں۔ تب وہ کہنے لگا کہ حرص دنیا کی کسی کے جی سے نہیں گئی۔ چنانچہ کسو کب نے کبت کہا ہے:

نکھ بن کٹا دیکھے، سمیں بھاری جٹا دیکھے
جوگی کن پتھا دیکھے، چھار لائے تن میں
موتی انمول دیکھے، سیوڑا سر چھول دیکھے
کرت کلول دیکھے، بن کھنڈی بن میں
بیر دیکھے، سور دیکھے، سب گئی اور کوڑ دیکھے
مایا کہ پور دیکھے، پھول رہے، دھن میں
اوی انت سکھی دیکھے، جنم ہی کے دکھی دیکھے
پردے نہ دیکھے، جن کے لوبھ ناہیں من من

میں نے یہ سن کر جواب دیا کہ یہ سچ ہے، پر میں کچھ نہیں چاہتا۔ اگر فرماؤ تو ایک رقعہ سر بہ مہر اپنے مطلب کا لکھ کر دوں جو حضور ملکہ کے پہنچا دو، تو بڑی مہربانی ہے، گویا تمام دنیا کا مال مجھ کو دیا۔ بولا بسر و چشم کیا مضائقہ میں نے ایک رقعہ لکھا پہلے شکر خدا کیا پھر احوال کہ یہ بندہ خدا کا کئی روز سے اس شہر میں وارد ہے اور سرکار سے سب طرح کی خبر گیری ہوتی ہے۔ جیسی خوبیاں اور نیک نامیاں ملکہ کی سن کر اشتیاق دیکھنے کا ہوا تھا، اس سے چار چند پایا۔ اب حضور کے ارکان دولت یوں کہتے ہیں کہ جو مطلب اور تمنا تیری ہو، سو ظاہر کر۔ اس واسطے بے حجابانہ جو جو دل کی آرزو ہے، سو عرض کرتا ہو کہ دنیا کے مال کا محتاج نہیں۔ اپنے ملک کا میں بھی بادشاہ ہوں۔ فقط یہاں آنا اور محنت اٹھانا آپ کے اشتیاق کے سبب سے ہوا جو تن تنہا اس صورت سے آ پہنچا۔ اب امید ہے کہ حضور کی توجہ سے خاک نشین مطلب دلی کو پہنچے لائق ہے۔ آگے جو مرضی مبارک۔ لیکن اگر یہ التماس خاکسار کا قبول نہ ہو گا، تو اسی طرح خاک چھنتا پھرے گا اور اس جان بے قرار کو آپ کے عشق میں نثار کرتے گا۔ مجنوں اور فرہاد کی مانند جنگل میں یا پہاڑ پر مر رہے گا۔

یہی مدعا لکھ کر اس خوجے کو دیا۔ اس نے بادشاہ زادی تلک پہنچایا۔ بعد ایک دم کے پھر آیا اور میرے تئیں اور اپنے ساتھ محل کی ڈیوڑھی پر لے گیا۔ وہاں جا کر دیکھا تو ایک بوڑھی سی عورت صاحب لیاقت سنہری کرسی پر گہنا پاتا پہنے ہوئے بیٹھی ہے۔ اور کئی خوجے خدمت گار تکلف کے لباس پہنے ہوئے ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہیں۔ میں اسے مختار کا جان کر اور دیرینہ سمجھ کر دست بسر ہوا۔ اس ماما نے بہت مہربانی سے سلام کیا اور حکم کیا آؤ بیٹھو خوب ہوا تم آئے۔ تمہیں نے ملکہ کے اشتیاق کا رقعہ لکھا تھا؟ میں شرم کھا کر چپ ہو رہا اور سر نیچا۔

ایک ساعت کے بعد بولی کہ اے جوان! پادشاہ زادی نے سلام کہا اور فرمایا کہ مجھ کو خاوند کرنے سے عیب نہیں۔ تم نے میری درخواست کی، لیکن اپنی پادشاہت کا بیان کرنا اور اس فقیری میں اپنے تئیں پادشاہ سمجھنا اور اس کا غرور کرنا نپٹ بے جا ہے۔ اس واسطے کہ سب آدمی آپس میں فی الحقیقت ایک ہیں، لیکن فضیلت دین اسلام کی البتہ ہے اور میں بھی ایک مدت سے شادی کرنے کی آرزومند ہوں، اور جیسے تم دولت دنیا سے بے پروا ہو، میرے تئیں بھی حق تعالیٰ اتنا مال دیا ہے کہ جس کا کوئی حساب نہیں۔ پر ایک شرط ہے کہ پہلے مہر ادا کر لو، اور مہر شاہ زادی کا ایک بات ہے جو تم سے ہو سکے۔

میں نے کہا۔ میں سب طرح حاضر ہوں۔ جان و مال سے دریغ نہیں کرنے کا۔ وہ بات کیا ہے؟ کہو تو میں سنوں۔ تب اس نے کہا آج کے دن رہ جاؤ کل تمہیں کہہ دوں گی۔ میں نے خوشی سے قبول کیا اور رخصت ہو کر باہر آ یا۔

دن تو گزرا، جب شام ہوئی تو اکابر عالم اور فاضل صاحب شرع حاضر ہیں، میں بھی اس جلسے میں جا کر بیٹھا۔ اتنے میں دسترخوان بچھایا گیا۔ اور کھانے اقسام اقسام کے شیریں اور نمکین چُنے گئے۔ وہ سب کھانے لگے تو مجھے بھی تواضع کر کر شریک کیا۔ جب کھانے سے فراغت ہوئی ایک دائی اندر آئی اور بولی کہ بہروز کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔ یسادلوں نے وونہیں حاضر کیا۔ اس کی صورت میں بہت مرد آدمی کی سی اور بہت سی کنجیاں روپے سونے کی کمر میں لٹکی ہوئیں۔ سلام علیک کر کے میرے پاس آ کر بیٹھا۔ وہی دائی کہنے لگی کہ اے بہروز! تُو نے جو کچھ دیکھا ہے مفصل اس کا بیان کر۔

بہروز نے یہ داستان کہنی شروع کی اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا اے عزیز ہماری پادشاہ زادی کی سرکار میں ہزاروں غلام ہیں کہ سوداگری کے کام نہیں متعین ہیں۔ ان میں سے ایک میں بھی ادنا خانہ زاد ہوں۔ ہر ایک ملک کی طرف لاکھوں روپے کا اسباب اور جنس دے کر رخصت فرماتی ہیں جب وہ وہاں سے پھر آتا ہے تب اس سے اس دیس کا احوال اپنے حضور میں پوچھتی ہیں اور سنتی ہیں۔ ایک بار یہ اتفاق ہوا کہ کم ترین تجارت کی خاطر چلا اور شہر نیم روز پہنچا۔ وہاں کے باشندوں کے دیکھا تو سب کا لباس سیاہ ہے اور ہر دم نالہ و آہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کچھ بڑی مصیبت پڑی ہے۔ اس سبب جس سے میں پوچھتا کوئی جواب میرا نہ دیتا۔

ایس حیرت میں کئی روز گزرے۔ ایک دن جونہیں صبح ہوئی۔ تمام آدمی چھوٹے بڑے، لڑکے بوڑھے غریب، غنی، شہر کے باہر چلے۔ ایک میدان میں جا کر جمع ہوئے، اور اس ملک کا بادشاہ بھی سب امیروں کے ساتھ سوار ہوا اور وہاں گیا۔ تب سب برابر قطار باندھ کر کھڑے ہوئے۔

میں بھی ان کے درمیان کھڑا تماشا دیکھتا تھا۔ پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کسو کا انتظار کھینچ رہے ہیں۔ ایک گھڑی کے عرصے میں دور سے ایک جوان پری زاد صاحب جمال پندرہ سولہ برس کا سن و سال، غل اور شور کرتا ہوا اور کف منہ سے جاری زرد بیل کی سواری، ایک ہاتھ میں کچھ لئے مقابل خلق اللہ کے آیا اور اپنے بیل پر سے اترا۔ ایک ہاتھ میں ناتھ اور ایک ہاتھ میں ننگی تلوار لے کر دو زانو بیٹھا۔ ایک گل اندام، پری چہرہ اس کے ہمراہ تھا۔اس کو اس جوان نے وہ چیز جو ہاتھ میں تھی دی وہ یتیم لے کر ایک سرے سے ہر ایک کو دیکھاتا جاتا تھا‘ لیکن یہ حالت تھی کہ جو کوئی دیکھتا تھا بے اختیار دھاڑ مار کر روتا تھا۔ اسی طرح سب کو دکھاتا اور رلاتا ہوا سب کے سامنے سے ہو کر اپنے خاوند کے پاس پھر گیا۔

اس کے جاتے ہی وہ جوان اٹھا اور غلام کا سر شمشیر سے کاٹ کر اور سوار ہو کر جیدھر سے آیا تھا، اودھر کو چلا۔ سب کھڑے دیکھا کئے۔ جب نظروں سے غائب ہوا لوگ شہر کی طرف پھرے۔میں ہر ایک سے اس ماجرے کی حقیقت پوچھتا تھا بلکہ روپیوں کا لالچ دیتا اور خوشامد منت کرتا کہ مجھے ذرا بتا دو کہ یہ جوان کون تھا؟ اور اس نے یہ کیا حرکت کی۔ اور کہاں سے آیا اور کہاں گیا؟ ہرگز کسی نے نہ بتلایا اور نہ کچھ میرے خیال میں آیا۔ یہ تعجب دیکھ کر جب میں یہاں آیا اور ملکہ کے روبرو اظہار کیا۔ تب سے پادشاہ زادی بھی حیران ہو رہی ہے اور اس کے تحقیق کرنے کی خاطر دو دلی ہو رہی ہے۔ لہٰذا مہر اپنا یہی مقرر کیا ہے کہ جو شخص اس عجوبے کی کماحقہ‘ خبر لاوے، اس کو پسند فرماوے اور وہی مالک سارے ملک کا اور ملکہ کا ہووے۔

یہ ماجرا تم نے سب سنا۔ اپنے دل میں غور کرو، اگر تم اس جوان کی خبر لا سکو تو قصد ملک نیم روز کا کرو اور جلد روانہ ہو۔ نہیں تو انکار کر کر اپنے گھر کی راہ لو، میں نے جواب دیا کہ اگر خدا چاہے تو جلد اس کا احوال سر سے پاؤں تک دریافت کر کر پادشاہ زادی تک آ پہنچتا ہوں اور کامیاب ہوتا ہوں۔ اور جو میری قسمت بدتر ہے تو اس کا کچھ علاج نہیں، لیکن ملکہ اس کا قول اقرار کریں کہ اپنے کہنے سے نہ پھریں۔ اور بالفعل ایک اندیشہ مشکل میرے دل میں خلش کر رہا ہے۔ اگر ملکہ غریب نوازی اور مسافر پروری سے حضور میں بلاویں اور پردے کے باہر بٹھلا دیں اور میرا التماس اپنے کانوں سنیں اور اس کا جواب اپنی زبان سے فرما دیں تو میری جان جمع ہو، اور مجھ سے سب کچھ ہو سکے۔ یہ میرے مطلب کی بات اس ماما نے روبرو اس پیکر کے عرض کی بارے قدردانی کی راہ سے حکم کیا کہ انہیں بلا لو۔

دائی پھر باہر آئی اور مجھے اپنے ساتھ جس محل میں پادشاہ زادی تھی، لے گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دو رویہ صف باندھے دست بستہ سہیلیاں اور خواصیں اور اروابیگیاں قلماقنیاں، ترکیناں، حبشیاں، ازبکنیاں، کشمیرنیاں جواہر میں جڑی عہد لئے کھڑی ہیں۔ اندر کا اکھاڑا کہوں یا پریوں کا اتارا؟ بے اختیار ایک آہ بےخودی سے زباں تک آئی اور کلیجہ تہلکے لگا۔ پر بہ زور اپنے تئیں تھانبا۔ ان کو دیکھتا بھالتا اور سیر کرتا آگے چلا، لیکن پاؤں سو سو من کے ہو گئے۔ جس کو دیکھو پھر یہ نہ جی چاہے کہ آگے جاؤں۔ ایک طرف چلون پڑی تھی اور مونڈھا جڑاؤ بچھوا رکھا تھا، اور ایک چوکی بھی صندل کی بچھی ہوئی تھی۔ دائی نے مجھے بیٹھنے کی اشارت کی۔ میں مونڈھے پر بیٹھ گیا اور وہ چوکی پر، کہنے لگی لو اب جو کہنا ہے سو جی بھر کر کہو۔

میں نے ملکہ کی خوبیوں کی اور عدل و انصاف۔ داردو دہش کی پہلے تعریف کی پھر کہنے لگا۔ جب سے میں اس ملک کی سرحد میں آیا، ہر ایک منزل میں یہی دیکھتا کہ جا بجا مسافرخانے اور عمارتیں عالی بنیں ہوئیں ہیں اور آدمی ہر ایک عہدے کے تعینات ہیں کہ خبرگیری مسافروں کی کرتے ہیں۔ مجھے بھی تین دن ہر ایک مقام میں گزرے چوتھے روز جب رخصت ہونے لگا تب کسو نے خوشی سے نہ کہا کہ جاؤ۔ اور جتنا اسباب اس مکان میں تھا، شطرنجی،چاندی،قالین،ستیل پانی،منگل کوٹی، دیوار گیری،چھت پردے،چلونیں،سائبان، نم گیرے، چھپر کھٹ مع غلاف،اوقچہ،توشک،بالا پوش،سإیج بند، چادر تکیے،تکینی،گل تکیے،مسند،گاؤ تکیے،دیگ دیگچے،پتیلے،طباق،رکابی،با دئیے،تشتری،چمچے،بکاؤلی،کف گیر،طعام بخش، سرپوش، سینی، خوان، پوش، تورہ پوش، آبخورے، بجھرے، صراحی، لگن، پان دان،چوگھرے، چنگیر، گلاب پوش، عود، سوز، آفتابہ، چلمچی سب میرے حوالے کیے کہ یہ تمہارا مال ہے چاہو اب لے جاؤ، نہیں تو ایک کوٹھڑے میں بند کر کر اپنی مہر کرو۔ جب تمہاری خوشی ہو گی پھرتے ہوئے لے جائیو۔ میں نے یوں ہی کیا۔ پر یہ حیرت ہے کہ جب مجھ سے فقیر تنہا سے یہ سلوک ہوا۔ تو ایسے غریب ہزاروں تمہارے ملکوں میں آتے جاتے ہوں گے۔ پس ہر ایک سے یہی مہمان داری کا طور رہتا ہو گا تو مبلغ بےحساب خرچ ہوتی ہوں گے۔پس اتنی دولت کہ جس کا یہ صرف ہے، کہاں سے آئی اور کیسی ہے؟ اگر گنجِ قارون ہو تو بھی وفا نہ کرے۔ اور ظاہری میں اگر ملکہ کی سلطنت پر نگاہ کیجئے تو اس کی آمد فقط باورچی خانے کے خرچ کو بھی کفایت نہ کرتی ہو گی۔ اور خرچوں کا تو کیا ذکر ہے۔ اگر اس کا بیان ملکہ کی زبان سے سنوں تو خاطر جمع ہو، قصد ملک نیم روز کا کروں اور جوں توں وہاں جا پہنچوں پھر سب احوال دریافت کر کے ملکہ کی خدمت میں بہ شرط زندگی بار دگر حاضر ہوں، اپنے دل کی مراد پاؤں۔

یہ سن کر ملکہ نے اپنی زبان سے کہا کہ اے جوان! اگر تجھے آرزو کمال ہے کہ یہ ماہیت دریافت کرے تو آج کے دن بھی مقام کر۔ شام کو تجھے حضور میں طلب کر کر جو کچھ احوال اس دولتِ بے زوال کا ہے، بے کم و کاست کہا جائے گا۔ میں یہ تسلی پا کر اپنی استقامت کے مکان پر آ کر منتظر تھا کہ کب شام ہو جو میرا مطلب تمام ہو۔ اتنے میں خواجہ سرا کئی چوگاشے تورہ پوش پڑے بھوئیوں کے سر پر دھرے آ کر موجود ہوا اور بولا کہ حضور سے الش خاص عنایت ہوا ہے اس کو تناول کرو۔جس وقت میرے سامنے کھولے بوباس سے دماغ معطر ہوا اور روح بھر گئی۔ جتنا کھا سکا کھا لیا۔ باقی ان سبھوں کو اٹھا دیا اور شکر نعمت کہہ بھیجایا۔ بارے آفتاب تمام دن کا مسافر تھکا ہوا، گرتا پڑتا اپنے محل میں داخل ہوا اور ماہتاب دیوان خانے میں اپنے مصاحبوں کو ساتھ لے کر نکل بیٹھا، اس وقت دائی آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ چلو پادشاہ زادی نے یاد فرمایا ہے۔ میں اس کے ہمراہ ہو لیا خلوت خاص میں لے گئی۔ روشنی کا یہ عالم تھا کہ شب قدر کو وہاں قدر نہ تھی اور بادشاہی فرش پر مسند مغرق بچھی ہوئی مرصع کا تکیہ لگا ہوا اور اس پر ایک شمیانہ موتیوں کا جھالر کا جڑاؤ استادوں پر کھڑا ہوا۔ اور سامنے مسند کے جواہر کے درخت پھولوں پات لگے ہوئے، گویا عین قدرتی ہیں۔ سونے کی کیاریوں میں جمے ہوئے اور دونوں طرف دست چپ شاگرد پیتے اور مجرائی دست بستہ، با ادب آنکھیں نیچی کئے ہوئے حاضر تھے اور طوائفیں اور گائنیں سازوں کے سُر بنائے منتظر۔ یہ سماں اور یہ تیاری کروفر دیکھ کر عقل ٹھکانے نہ رہی۔ دائی سے پوچھا کہ دن کو وہ زیبائش اور رات کو یہ آرائش کہ دن عید اور رات شب برات کہا چاہیے۔بلکہ دنیا میں بادشاہت ہفت اقلیم کو یہ عیش میسر نہ ہو گا۔ کیا ہمیشہ یہی صورت رہتی ہے؟ دائی کہنے لگی کہ ہماری ملکہ کا جتنا کارخانہ تم نے دیکھا یہ سب اسی دستور سے جاری ہے۔ اس میں ہرگز خلل نہیں۔ بلکہ افزوں ہے۔ تم یہاں بیٹھوں دوسرے مکان میں تشریف رکھتی ہیں، جا کر خبر کروں۔

دائی یہ کہہ کر گئی اور انہی پاؤں پھر آئی کہ چلو حضور میں۔ یہ مجرد اس مکان میں جاتے ہی بھیچک رہ گیا۔ نہ معلوم ہوا کہ دروازہ کہاں اور دیوار کدھر ہے اور اس واسطے کہ آئینے قدم آدم چاروں طرف لگے اور ان کی پروازوں میں ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے۔ ایک کا عکس ایک میں نظر آتا تو یہ معلوم ہوتا کہ جواہر کا سارا مکان ہے۔ ایک طرف پردہ پڑا تھا۔ اس کے پیچھے ملکہ بیٹھی تھیں۔ وہ دائی پردے سے لگ کر بیٹھی اور مجھے بھی بیٹھنے کو کہا۔ تب دائی ملکہ کے فرمانے سے اس طور پر بیان کرنے لگی کہ سن اے جوان! دانا! سلطان اس اقلیم کا بڑا بادشاہ تھا۔ اس کے گھر سات بیٹیاں پیدا ہوئیں ایک روز بادشاہ نے جشن منایا۔ یہ ساتوں لڑکیاں سولہ یہ ساتوں لڑکیاں سولہ سنگار، بارہ ابھرن بال بال گنج موتی پرو کر بادشاہ کے حضور کھڑی تھیں۔ سلطان کے کچھ جی آیا تو بیٹیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ اگر تمہارا باپ بادشاہ نہ ہوتا اور کسی غریب کے گھر تم پیدا ہوتیں، تو تمھیں بادشاہ زادی اور ملکہ کون کہتا؟ خدا کا شکر کرو کہ شہزادیاں کہلاتی ہو، تمہاری یہ ساری خوبی میرے دم سے ہے، چھے لڑکیاں ایک زبان ہو کر بولیں کہ جہاں پناہ جو فرماتے ہیں بجا ہے، اور آپ ہی کی سلامتی سے ہماری بھلائی ہے۔ لیکن یہ ملکہ پناہ سب بہنوں سے چھوٹی تھیں، پر عقل و شعور میں اس عمر میں بھی گویا سب سے بڑی تھیں۔ چپکی کھڑی رہیں۔ اس گفتگو میں بہنوں کی شریک نہ ہوئیں۔ اس واسطے کہ یہ کلمہ کفر کا ہے۔

بادشاہ نے نظرِ غضب سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کیوں بی بی تم کچھ نہ بولیں اس کا کیا باعث ہے؟ تب ملکہ نے اپنے دونوں ہاتھ رومال سے باندھ کر عرض کی کہ اگر جان کی امان پاؤں اور تقصیر معاف ہو تو یہ لونڈی اپنے دل کی بات گزارش کرے۔ حکم ہوا کہ کیا کہتی ہے؟ تب ملکہ نے کہا کہ قبلہ عالم آپ نے سنا ہے کہ سچ بات کڑوی لگتی ہے سو اس وقت میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو کر عرض کرتی ہوں، اور جو کچھ میری قسمت میں لکھنے والے نے لکھا ہے اس کا مٹانے والا کوئی نہیں۔ کسو طرح نہیں ٹلنے کا۔

خواہ تم پاؤں گھسو یا کہ رکھو سر بسجود
بات پیشانی کی جو کچھ ہے سو پیش آتی ہے

جس بادشاہ علی الاطلاق نے آپ کو بادشاہ بنایا۔ انہیں نے مجھے بھی بادشاہ زادی کہلوایا۔ اس کی قدرت کے کارخانے میں کسو کا اختیار نہیں چلتا۔ آپ کی ذات ہماری ولی نعمت اور قبلہ و کعبہ ہے۔ حضرت کے قدم مبارک کی خاک کو سرمہ کروں تو بجا ہے۔ مگر نصیب ہر ایک کے ہر ایک کے ساتھ ہیں۔ بادشاہ سُن کر طیش میں آئے اور جواب دل پر سخت گراں معلوم ہوا۔ بیزار ہو کر فرمایا۔ چھوٹا منہ بڑی بات، اب اس کی یہی سزا ہے کہ گہنا پاتا جو کچھ اس کے ہاتھ گلے میں ہے، اُتار لو۔ اور ایک میانے میں چڑھا کر ایسے جنگل میں کہ جہاں نام و نشان آدمی آدم زاد کا نہ ہو، پھینک آؤ۔ دیکھیں اس کے نصیبوں میں کیا لکھا ہے۔

بموجب حکم بادشاہ کے اس آدھی رات میں کہ عین اندھیری تھی، ملکہ کو جو نرے بھونرے میں پلی تھیں اور سوائے اپنے محل کے دوسرے جگہ نہ دیکھی تھی، بھولی لے جا کر ایک میدان میں کہ وہاں پرندہ پر نہ مار سکتا، انسان کو تو کیا ذکر ہے، چھوڑ کر چلے آئے۔ ملکہ کے دل پر عجب حالت گزرتی تھی کہ ایک دم میں کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ پھر اپنے خدا کی جناب میں شکر کرتیں اور کہتیں تو ایسا ہی بے نیاز ہے، جو چاہا سو ہو گیا۔ اور جو چاہتا ہے سو کرتا ہے اور جو چاہے گا سو کرے گا۔ جب تلک نتھنوں میں دم ہے، تجھ سے نا امید نہیں ہوتی۔ اسی اندیشے میں آنکھ لگ گئی۔ جس وقت صبح ہونے لگی ملکہ کی آنکھ کھُل گئی۔ پُکاریں کہ وضو کا پانی لانا۔ پھر ایک بارگی رات کی بات چیت یاد آئی کہ تو کہاں اور یہ بات کہاں؟ یہ کہہ کر اٹھ کر تیمّم کیا اور دوگانہ شکر کا پڑھا۔ اے عزیز، ملکہ کی اس حالت کے سننے سے چھاتی پھٹتی ہے۔ اس بھولے بھالے جی سے پوچھا چاہیے کہ کیا کہتا ہو گا۔ غرض اس میانے میں بیٹھی خدا سے لو لگائے رہتی تھیں۔ اور یہ کبت اس دم پڑھتی تھیں:

جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے کاہے ان نہ دے ہے
جو جل میں تھل میں پنچھی پس کی سدھ لیت، سو تیری بھی لے ہے
کاہے کو سوچ کرے من مورکھ، سوچ کرے کچھ ہاتھ نہ آئے ہے
جان کو دیت، ابا جان کو دیت، جہاں کو دیت سو تو کو بھی دے ہے

سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے۔ نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔ اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ اسی طرح تین دن رات صاف گزر گئے کہ ملکہ کے مُنہ میں ایک کھیل بھی اُڑ کر نہ گئ۔ وہ پھول سا بدن سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور وہ رنگ جو کندن سا دمکتا تھا، ہلدی سا بن گیا۔ مُنہ میں پھپھڑی بندھ گئی، آنکھیں پتھرا گئیں، مگر ایک دم اٹک رہا تھا کہ وہ آتا جاتا تھا۔ جب تلک سانس تب تلک آس۔ چوتھے روز صبح کو ایک درویش، خضر کی سی صورت، نورانی چہرہ، روشن دل آ کر پیدا ہوا۔ ملکہ کو اس حالت میں دیکھ کر بولا اے بیٹی! اگرچہ تیرا باپ بادشاہ ہے لیکن تیری قسمت میں یہ بھی بدا تھا۔ اب اس فقیر بوڑھے کو اپنا خادم سمجھ اور اپنے پیدا کرنے والے کا رات دن دھیان رکھ۔ خدا خوب کرے گا۔ اور فقیر کے کشکول میں جو ٹکڑے بھیک کے موجود تھے، ملکہ کے روبرو رکھے اور پانی کی تلاش میں پھرنے لگا دیکھتے تو ایک کنواں تو ہے پر ڈول رسّی کہاں جس سے پانی بھرے؟ تھوڑے پتّے درخت سے توڑ کر دونا بنایا اور اپنی سیلی کھول کر اس میں باندھ کر نکالا اور ملکہ کو کچھ کھلایا پلایا۔ بارے ٹک ہوش آیا۔ اس مردِ خدا نے بےکس اور بےبس جان کو بہت سی تسلّی دی، خاطر جمع کی اور آپ بھی رونے لگا۔ ملکہ نے جب غم خواری اور دل داری اس کی بےحد دیکھی، تب ان کی رجا کو استقلال ہوا۔

اس روز اس پیر مرد نے یہ مقرّر کیا کہ صبح کو بھیک مانگنے نکل جاتا۔ جو ٹکرا پارچہ پاتا، ملکہ کے پاس لے آتا اور کھلاتا۔

اس طور سے تھوڑے روز گزرے۔ ایک روز ملکہ نے تیل سر میں ڈالنے اور کنگھی چوٹی کرنے کا قصد کیا۔ جوں ہی مباف کھولا، چٹلے میں سے ایک موتی کا دانہ گول آب دار نکل پڑا۔ ملکہ نے اس درویش کو دیا اور کہا کہ شہر میں اسے بیچ لاؤ۔ وہ فقیر اس گوہر کو بیچ کر اس کی قیمت بادشاہ زادی کے پاس لے آیا۔ تب ملکہ نے حکم کیا کہ ایک مکان موافق گزران کے اسی جگہ بنواؤ۔ فقیر نے کہا اے بیٹی! نیو دیوار کی کھود کر تھوڑی سی مٹی جمع کرو۔ ایک دم میں پانی لا کر گارا کر کر گھر کی بنیاد درست کر دوں گا۔ ملکہ نے اس کے کہنے سے مٹی کھودنی شروع کی۔ جب ایک گز عمیق گڑھا کھود گیا۔ زمین کے نیچے سے ایک دروازہ نمودار ہوا، ملکہ نے اس در کو صاف کیا۔ ایک بڑا گھر جواہر اور اشرفیوں سے معمور نظر آیا۔ ملکہ نے پانچ چار لب اشرفیوں کی لے کر پھر بند کر دیا، اور مٹی دے کر اوپر سے ہموار کر دیا۔

اتنے میں فقیر آیا، ملکہ نے فرمایا کہ راج اور معمار کاریگر اور اپنے کام کے استاد اور مزدور جلد بلاؤ جو اس مکان پر ایک عمارت بادشاہانہ کہ طاقِ کسریٰ کا جفت ہو، اور قصرِ نعمان سے سبقت لے جائے اور شہر پناہ اور قلعہ اور باغ اور باؤلی اور ایک مسافر خانہ کہ لاثانی ہو، جلد تیّار کریں، لیکن پہلے نقشہ ان کا ایک کاغذ پر دست کر کے حضور میں لاویں جو پسند کیا جائے۔ فقیر نے ایسے ہی کارکن، کارکردہ، ذی ہوش لا کر حاضر کیے، موافق فرمانے کے تعمیر عمارت کی ہونے لگی۔ اور نوکر چاکر ہر ایک کارخانہ جات کی خاطر چُن چُن کر فہمیدہ اور بادیانت ملازم ہونے لگے۔ اس عمارت عالیشان کی تیار کی خبر رفتہ رفتہ بادشاہ ظل سبحانی کو جو قبلہ ملکہ کے تھے، پہنچی۔ سن کر بہت متعجّب ہوئے اور ہر ایک سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے جس نے یہ محلات بنانے شروع کیے ہیں؟ اس کیفیت سے کوئی واقف نہ تھا جو عرض کرے۔ سبھوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ کوئی غلام نہیں جانتا کہ اس کا بانی کون ہے؟ تب بادشاہ نے ایک امیر کو بھیجا اور پیغام دیا کہ میں ان مکانوں کو دیکھنے آیا چاہتا ہوں۔ اور یہ بھی معلوم نہیں تم کہاں بادشاہ زادی ہو اور کس خاندان سے ہو؟ یہ سب کیفیّت دریافت کرنی اپنے تئیں منظور ہے۔ جوں ہی ملکہ نے یہ خوش خبری سنی، دل میں بہت شاد ہو کر عرضی لکھی کہ جہاں پناہ سلامت! حضور کے تشریف لانے کی خبر طرف غریب خانے کی سُن کر نہایت خوشی حاصل ہوئی۔ اور سبب حرمت اور عزّت اس کمترین کا ہوا۔ زہے طالع اس مکان کے! کہ جہاں قدم مبارک کا نشان پڑے، اور وہاں کے رہنے والوں پر دامن دولت سایہ کرے اور نظرِ توجّہ سے وہ دونوں سرفراز ہوویں۔ یہ لونڈی امیدوار ہے کہ کل روز پنج شنبہ مبارک ہے اور میرے نزدیک بہتر نو روز سے ہے۔ آپ کی ذات مشابہ آفتاب کے ہے، تشریف فرما کر اپنے نور سے اس ذرّہ بے مقدار کو قدر و منزلت بخشے۔ اور جو کچھ اس عاجزہ سے میسّر ہو سکے نوش جان فرمائیے۔ یہ عین ریب نوازی اور مسافر پروری ہے، زیادہ حد ادب، اور اس عمدہ کو بھی کچھ تواضع کر رخصت کیا۔

بادشاہ نے عرضی پڑھی اور کہلا بھیجا کہ ہم نے تمہاری دعوت قبول کی، البتّہ آویں گے۔ ملکہ نے نوکروں اور سب کاروباریوں کو حکم کیا کہ لوازمہ ضیافت کا ایسے سلیقے سے تیار ہو کہ بادشاہ دیکھ کر اور کھا کر بہتر محظوظ ہوں اور ادنیٰ اعلیٰ جو بادشاہ کے آویں سب کھا پی کر خوش ہو کر جاویں۔ ملکہ کے فرمانے اور تاکید کرنے سے سب قسم کے کھانے سلونے اور میٹھے ذائقے کے تیّار ہوئے کہ اگر برہمن کی بیٹی کھاتی تو کلمہ پڑھتی۔ جب شام ہوئی بادشاہ منڈے تخت پر سوار ہو کر ملکہ کے مکان کی طرف تشریف لائے۔ ملکہ اپنی جان خواص سہیلیوں کو لے کر استقبال کے واسطے چلیں۔ جوں بادشاہ کے تخت پر نظر پڑے اس آداب سے مجرا شاہانہ کیا کہ یہ قاعدہ دیکھ کر بادشاہ کو اور بھی حیرت نے لیا، اور اسی انداز سے جلوہ کر کر بادشاہ کو تخت مرصع پر لا بٹھایا۔ ملکہ نے سوا لاکھ روپے کا چبوترہ تیّار کروا رکھا تھا اور ایک سو ایک کشتی جواہر اور اشرفی اور پشمینہ اور نوبانی اور ریشمی طلابانی اور زردوزی کی لگا رکھی تھی، اور وہ زنجیر فیل اور دس راس اسپ عراق اور یمنی مرصع کے ساز سے تیّار کر رکھے تھے، نذر گزرانے اور آپ دونوں ہاتھ باندھے روبرو کھڑی رہیں۔ بادشاہ نے بہت مہربانی سے فرمایا کہ تم کس ملک کی شہزادی ہو اور یہاں کس صورت آنا ہوا؟

ملکہ نے آداب بجا کر التماس کیا کہ یہ لونڈی وہی گنہ گار ہے جو غضبِ سلطانی کے باعث جنگل میں پہنچی اور یہ سب تماشے خدا کے ہیں جو آپ دیکھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بادشاہ کے لہو نے جوش مارا۔ اُٹھ کر محبت سے گلے لگا لیا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے تخت کے پاس کرسی بچھوا کر حکم بیٹھنے کا کیا، لیکن بادشاہ حیران اور متعجّب بیٹھے تھے، فرمایا کہ بادشاہ بیگم کو کہو کہ بادشاہ زادیوں کو اپنے ساتھ لے کر جلد آویں۔ جب وہ آئیں، ماں بہنوں نے پہچانا اور گلے مل کر روئیں اور شکر کیا۔ ملکہ نے اپنی والدہ اور چھیوں ہمشیروں کو روبرو اتنا کچھ نقد اور جواہر رکھا کہ خزانہ تمام عالم کا اس کے پاسنگ میں نہ چڑھے، پھر بادشاہ نے سب کو ساتھ بٹھا کر خاصہ نوش جان فرمایا۔ جب تلک جہاں پناہ جیتے رہے اسی طرح گزری۔ کبھو کبھو آپ آتے اور ملکہ کو بھی اپنے ساتھ محلوں میں لے جاتے۔

جب بادشاہ نے رحلت فرمائی اس اقلیم کی ملکہ کو پہنچی کہ ان کے سوا دوسرا کوئی لائق اس کے نہ تھا۔ اے عزیز سرگزشت یہ ہے جو تو نے سنی۔ دولت خداداد کو ہر گز زوال نہیں ہوتا، مگر آدمی کی نیّت درست چاہیے۔ بلکہ جتنی خرچ کرو، اس میں اتنی برکت ہوتی ہے۔ خدا کی قدرت میں تعجب کرنا کسی مذہب میں روا نہیں۔

دائی نے یہ بات کہہ کر آپ اگر قصد وہاں کے جانے کا اور اس خبر لانے کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد روانہ ہو۔ میں نے کہا اسی وقت میں جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر آتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

برس دن کے عرصے میں ہرج مرج کھینچتا ہوا شہر نیمروز جا پہنچا۔ جتنے وہاں کے آدمی ہزاری اور بزاری نظر پڑے، سیاہ پوش تھے۔ جیسا احوال سنا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

کئی دن کی بعد چاند رات ہوئی۔ پہلی تاریخ، سارے لوگ اسی شہر کے چھوٹے بڑے لڑکے بالے، امرا، بادشاہ عورت مرد ایک میدان میں جمع ہوئے، میں بھی اپنی حالت میں حیران سرگردان اس کثرت کے ساتھ اپنے مال ملک سے جدا، فقیر کی صورت بنا ہوا کھڑا دیکھتا تھا کہ دیکھیئے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ اتنے میں ایک جوان گاؤ سوار منھ میں کف بھرے، جوش خروش کرتا ہوا جنگل میں سے باہر نکلا۔ یہ عاجز جو اتنی محنت کر کے اس کے احوال دریافت کرنے کی خاطر گیا تھا، دیکھتے ہی اسے حواس باختہ ہو کر حیران کھڑا رہ گیا۔ وہ جوان مرد قدیم قاعدے پر جو جو کام کرتا تھا، کر کر پھر گیا اور خلقت شہر کی طرف متوجہ ہوئی۔ جب مجھے ہوش آیا تب میں پچھتایا کہ یہ کیا تجھ سے حرکت ہوئی۔ اب مہینے بھر پھر راہ دیکھنی پڑی۔ لاچار سب کے ساتھ چلا آیا اور اس مہینے کو ماہ رمضان کی مانند ایک ایک دن گن کر کاٹا۔ بارے دوسری چاند رات آئی مجھے گویا عید ہوئی۔ غرے کو پھر بادشاہ خلقت سمیت وہیں آ کر اکٹھے ہوئے۔ تب میں نے دل میں مصمم ارادہ کیا کہ اب کے بار جو ہو سو ہو اپنے تئیں سنبھال کر اس ماجرائے عجیب کو معلوم کیا چاہیے۔

ناگاہ جوان بدستور زرد بیل پر زین باندھے سوار آ پہنچا، اور اتر کر دو زانو بیٹھا، ایک ہاتھ میں ننگی سیف اور ایک ہاتھ میں بیل ناتھ پکڑی اور مرتبان غلام کو دیا۔ غلام ہر ایک کو دکھا کر لے گیا۔ ایک آدمی دیکھ کر رونے لگا۔ اس جوان نے مرتبان پھوڑا، اور غلام کو ایک تلوار ایسی ماری کہ سر جدا ہو گیا اور آپ سوار ہو کر مڑا۔ میں اس کے پیچھے جلد قدم اٹھا کر چلنے لگا۔ شہر کے آدمیوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا یہ کیا کرتا ہے۔ کیوں جان بوجھ کر مرتا ہے؟ اگر ایسا ہی تیرا دم ناک میں آیا ہے تو بہتیری طرحیں مرنے کی ہیں۔ مر رہیو۔ ہر چند میں نے منت کی اور زور بھی کیا کہ کسو صورت سے ان کے ہاتھ سے چھوٹوں، چھٹکارا نہ ہوا۔ دو چار آدمی لپٹ گئے اور پکڑے ہوئے بستی کی طرف لے آئے۔ عجب طرح کا قلق پھر مہینے بھر گزرا۔ جب وہ بھی مہینہ تمام ہوا اور سلخ کا دن آیا۔ صبح کو اسی صورت سے عالم کا وہاں ازدحام ہوا۔ میں الگ سے نماز کے وقت اٹھ کر آگے ہی جنگل میں، جو عین اس طرح کی راہ پر تھا، گھس چھپ رہا کہ یہاں کوئی میرا مزاحم نہ ہو گا۔ وہ شخص اسی قاعدے سے آیا اور وہی حرکتیں کر کرا سوار ہوا اور چلا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور دوڑتا دھوپتا ساتھ ہو لیا۔ اس عزیز نے آہٹ سے معلوم کیا کہ کوئی چلا آتا ہے۔ ایک بارگی باگ موڑ کر ایک نعرہ مارا اور گھڑکا۔ تلوار کھینچ کر میرے سر پر آ پہنچا۔ چاہتا تھا کہ حملہ کرے۔ میں نے نہایت ادب سے مہر کر سلام کیا اور دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا رہ گیا۔ وہ قاعدہ داں متکلم ہوا کہ اے فقیر تو ناحق مارا گیا ہوتا، پر بچ گیا۔ تیری حیات کچھ باقی ہے۔ جا کہاں آتا ہے؟ اور جڑاؤ خنجر موتیوں کا اور آویزہ لگا ہوا کمر سے نکال میرے آگے پھینکا اور کہا۔ اس وقت میرے پاس کچھ نقد موجود نہیں جو تھے دوں۔ اس کو بادشاہ کے پاس لے جا، جو تو مانگے گا ملے گا۔

ایسی ہیبت اور ایسا رعب اس کا مجھ پر غالب ہوا کہ نہ بولنے کی قدرت نہ چلنے کی طاقت۔ منہ میں گھگھی بندھ گئی پاؤں بھاری ہو گئے۔

اتنا کہہ کر وہ غازی جمرد نعرہ بھرتا ہوا چلا۔ میں نے دل میں کہا ہر چہ بادا باد۔ اب رہ جانا تیرے حق میں برا ہے۔ پھر ایسا وقت نہ ملے گا۔ اپنی جان سے ہاتھ دھو کر میں بھی روانہ ہوا۔ پھر وہ پھرا اور بڑے غصے سے ڈانٹا، اور مقرر ارادہ میرے قتل کا کیا، میں نے سر جھکا دیا اور سوگند دی کہ اے رستم وقت کے، ایسی ہی ایک سیف مار کے صاف دو ٹکڑے ہو جاؤں، ایک تسمہ باقی نہ رہے اور اس حیرانی اور تباہی سے چھوٹ جاؤں۔ میں نے اپنا خون معاف کیا؟ وہ بولا کہ اے شیطان کی صورت، کیوں اپنا خون ناحق میری گردن پر چڑھاتا ہے وہ مجھے گنہ گار بناتا ہے؟ جا اپنی راہ لے، کیا جان بھاری پڑی ہے؟ میں نے اس کا کہا نہ مانا اور قدم آگے دھرا پھر اس نے دیدہ و دانستہ آنا کانی دی اور میں پیچھے لگ لیا۔ جاتے جاتے دو کوس وہ جھاڑ جنگل طے کیا۔

ایک چار دیواری نظر آئی۔ وہ جوان دروازے پر گیا اور ایک نعرہ مہیب مارا۔ وہ در آپ سے آپ کھل گیا۔ وہ اندر بیٹھا۔ میں باہر کا باہر کھڑا رہ گیا۔ الٰہی اب کیا کروں، حیران تھا۔ بارے ایک دم کے بعد غلام آیا اور پیغام لایا کہ چل تجھے روبرو بلایا ہے۔ شاید تیرے سر پر اجل کا فرشتہ آیا ہے۔ کیا تجھے کم بختی لگی تھی۔ میں نے کہا زہے نصیب اور بے دھڑک اس کے ساتھ اندر باغ کے گیا۔

آخر مکان میں لے گیا جہاں وہ بیٹھا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر فراشی سلام کیا۔ اس نے اشارت بیٹھنے کی کی۔ میں ادب سے دو زانو بیٹھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مرد اکیلا ایک مسند پر بیٹھا اور ہتھیار زر گری کے آگے دھرے ہیں۔ اور ایک جھاڑو مرد کا تیار کر چکا ہے۔ جب اس کے اٹھنے کا وقت آیا جتنے غلام اس شہ نشین کے گرد و پیش حاضر تھے، حجروں میں چھپ گئے۔ میں بھی مارے وسواس کے ایک کوٹھڑی میں جا گھسا، وہ جوان اٹھ کر سب مکان کی کنڈیاں چڑھا کر باغ کے کونے کی طرف چلا اور اپنی سواری کے بیل کو مارنے لگا۔ اس کے چلانے کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ کلیجا کانپنے لگا لیکن ماجرے کی دریافت کرنے کی خاطر یہ سب آفتیں یہیں تھیں۔ ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر ایک درخت کے تنے کی آڑ میں جا کر کھڑا ہوا اور دیکھنے لگا۔ جوان نے وہ سونٹا جس سے مارتا تھا۔ ہاتھ سے ڈال دیا اور ایک مکان کا قفل کنجی سے کھولا اور اندر گیا۔ پھر وونہیں باہر نکل کر نرگاؤ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور منہ چوما اور دانہ گھاس کھلا کر ایدھر کو چلا۔ میں دیکھتے ہی جلد دوڑ کر پھر کوٹھڑی میں جا چھپا۔

اس جوان نے زنجیریں سب دروازوں کی کھول دیں۔ سارے غلام باہر نکلے۔ زیر انداز اور سپلچی، آفتابہ لے کر حاضر ہوئے۔ وہ وضو کر کر نماز کی خاطر کھڑا ہوا۔ جب نماز ادا کر چکا پکارا کہ وہ درویش کہاں ہے؟ اپنا نام سنتے ہی میں دوڑ کر روبرو جا کھڑا ہوا۔ فرمایا بیٹھ۔ میں تسلیم کر کر بیٹھا۔ خاصہ آیا اس نے تناول فرمایا مجھے بھی عنایت کیا۔ میں نے بھی کھایا۔ جب دسترخوان بڑھایا اور ہاتھ دھوائے، غلاموں کو رخصت دی کہ جا کر جو رہو۔ جب کوئی اس مکان میں نہ رہا، تب مجھ سے ہم کلام ہوا اور پوچھا کہ اے عزیز تجھ پر کیا ایسی آفت آئی ہے جو تو اپنی موت کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے؟ میں نے اپنا احوال آغاز سے انجام تک جو کچھ گزرتا تھا، تفصیل وار بیان کیا اور کہا۔ آپ کی توجہ سے امید ہے کہ اپنی مراد کو پہنچوں۔

اس نے یہ سنتے ہی ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بے ہوش ہوا اور کہنے لگا بار خدایا عشق کے درد سے تیرے سوا کون واقف ہے۔ جس کی نہ پھٹی ہو، بوائی کیا جانے پیر پرائی۔ اس درد کی قدر درد مند ہو سو جانے۔

آفتوں کو عشق کی عاشق سے پوچھا چاہیے
کیا خبر فاسق کو ہے؟ صادق سے پوچھا چاہیے

بعد ایک لمحے کے ہوش میں آ کر ایک آہ جگر سوز بھری، سارا مکان گونج گیا۔ تب مجھے یقین ہوا کہ یہ بھی اسی عشق کی بلا میں گرفتار اور اسی مرض کا بیمار ہے۔ تب تو میں نے دل چلا کر کہا میں نے اپنا احوال سب عرض کیا۔ آپ توجہ فرما کر اپنی سرگزشت سے بندے کو مطلع فرمائیے۔ توبہ مقدور اپنے پہلے تمہارے واسطے سعی کروں اور دل کا مطلب کوشش کر ہاتھ میں لاؤں۔

القصہ وہ عاشق صادق مجھ کو اپنا ہمراز اور ہمدرد جان کر اپنا ماجرا اور اس صورت سے بیان کرنے لگا کہ سن اے عزیز میں بادشاہ زاد جگر سوز اس اقلیم نیم روز کا ہوں۔ بادشاہ یعنی قبلہ گاہ نے میرے پیدا ہونے کے بعد بخوبی اور رمال اور پنڈت جمع کیئے اور فرمایا کہ احوال شہزادے کے طالعوں کا دیکھو اور جانچو، اور جنم پتری درست کرو اور جو جو کچھ ہونا ہے حقیقت پل پل گھڑی گھڑی اور پہر پہر، دن دن مہینے مہینے اور برس برس مفصل حضور میں عرض کرو۔ بموجب بادشاہ کے سب نے متفق ہو اپنے اپنے علم کی رو سے ٹھہرا اور سادھ کر التماس کیا۔ خدا کے فضل سے ایسی نیک ساعت اور شبھ لگن میں شہزادے کا تولد اور جنم ہوا ہے کہ چاہیے سکندر کی بادشاہت کرے اور نوشیرواں سا عادل ہو اور جتنے علم اور ہنر ہیں، ان میں کامل ہو اور جس کام کی طرف دل اس کا مائل ہو، وہ بخوبی حاصل ہو۔ سخاوت شجاعت میں ایسا نام پیدا کرے کہ حاتم اور رستم کو لوگ بھول جاویں، لیکن چودہ برس تلک سورج اور چاند کے دیکھنے سے ایک بڑا خطرہ نظر آتا ہے بلکہ یہ وسواس ہے کہ جنونی اور سودائی ہو کر بہت آدمیوں کا خون کرے اور بستی سے گھبراوے، جنگل میں جاوے اور چرند پرند کے ساتھ دل بہلاوے، اس کا قید رہے کہ رات دن آفتاب ماہتاب کو نہ دیکھے، بلکہ آسمان کی طرف بھی نگاہ نہ کرنے پاوے، جو اتنی مدت خیر و عافیت سے کٹے تو پھر سارے عمر سکھ اور چین سے سلطنت کرے۔

یہ سن کر بادشاہ نے اس لیے اس باغ کی بنا ڈالی، اور مکان متعدد ہر ایک نقشے کے بنوائے۔ میری تئیں تہ خانے میں پلنے کا حکم کیا اور اوپر ایک برج نمدے کا تیار کروا دیا تو دھوپ اور چاندی اس میں سے چھنے۔ میں دائی دودھ پلائی اور انگاچھو اور کئی خواص کے ساتھ اس محافظت سے اس مکان عالی میں پرورش پانے لگا، اور ایک استاد دانا، کار آزمودہ واسطے میری تربیت کی متعین کیا تو تعلیم ہر علم اور ہنر کی اور مشق ہفت قلم لکھنے کی کرے اور جہاں پناہ ہمیشہ میری خبر گیراں رہتے۔ دم بہ دم کی کیفیت روز مرہ حضور میں عرض ہوتی۔ میں اس مکان ہی کو عالم دنیا جان کر کھلونوں اور رنگ بہ رنگ پھولوں سے کھیلا کرتا اور تمام جہان کی نعمتیں کھانے کے واسطے موجود رہتیں۔ جو چاہتا سو کھاتا۔ دس برس کی عمر تک جتنی صنعتیں اور قابلیتیں تھیں، تحصیل کیں۔

ایک روز اس گنبد کے نیچے روشن دان سے ایک پھول اچنبھے کا نظر پڑا کی دیکھتے دیکھتے بڑا ہوتا جاتا تھا۔ میں نے چاہا کہ ہاتھ سے پکڑ لوں۔ جوں جوں میں ہاتھ لمبا کرتا تھا وہ اونچا ہوتا جاتا تھا۔ میں حیران ہو کر اسے جاتا تک رہا تھا۔ وونہیں ایک آواز قہقہے کی میرے کان میں آئی۔ میں نے اس کے دیکھنے کو گردن اٹھائی دیکھا کہ نمدا چیر کر ایک مکھڑا چاند کا سا نکل رہا ہے۔ دیکھتے ہی اس کے میرے عقل و ہوش بجا نہ رہے۔ پھر اپنے تئیں سنبھال کر دیکھا تو ایک مرصع کا تخت پری زادوں کا کاندھے پر معلق کھڑا ہے اور ایک تخت نشین تاج و جواہر کا سر پر اور خلعت جھلا بور بدن میں پہنے، ہاتھ میں یاقوت کا پیالہ لئے اور شراب پئے ہوئے بیٹھی ہے، وہ تخت بلندی سے آہستہ آہستہ نیچے اتر کر اس برج میں آیا۔ تب پری نے مجھے بلایا، اور اپنے نزدیک بٹھایا۔ باتیں پیار کی کرنے لگی اور منہ سے منہ لگا کر ایک جام شراب گل گلاب کا میرے تئیں پلایا اور کہا آدمی زاد بیوفا ہوتا ہے، لیکن دل ہمارا تجھے چاہتا ہے۔ ایک دم میں ایسی ایسی انداز و ناز کی باتیں کیں کہ دل محو ہو گیا اور ایسی خوشی حاصل ہوئی کہ زندگی کا مزا پایا، اور یہ سمجھا کہ آج تو دنیا میں آیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ میں تو کیا ہوں، کسو نے یہ عالم نہ دیکھا ہو گا۔ نہ سنا ہو گا اس مزے میں خاطر جمع سے ہم دونوں بیٹھے تھے کہ کریال غلیلا لگا۔ اب اس حادثہ کا ماجرا سن کر وہ نہیں چار پری زاد نے آسمان سے اتر کر کچھ اس معشوقہ کے کان میں کہا۔ سنتے ہی اس کا چہرہ تغیر ہو گیا اور مجھ سے بولی کہ اے پجاری دل تو یہ چاہتا تھا کہ کوئی دم تیرے ساتھ بیٹھ کر دل بہلاؤں اور اسی طرح ہمیشہ آؤں یا تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ پر یہ آسمان دو شخص کو ایک جگہ آرام سے اور خوشی سے رہنے نہیں دیتا۔ لے جاناں تیرا خدا نگہبان ہے۔

یہ سن کر میرے حواس جاتے رہے اور طوطے ہاتھ کے اڑ گئے۔ میں نے کہا کہ جی اب پھر کب ملاقات ہو گی؟ یہ کیا تم نے غضب کی بات سنائی؟ اگر جلد آؤ گی تو مجھے جیتا پاؤ گی، نہیں تو پچھتاؤ گی یا اپنا ٹھکانا اور نام و نشان بتاؤ کہ میں ہی اس پتے پر ڈھونڈھتے اپنے تئیں تمہارے پاس پہنچاؤں۔ یہ سن کر بولی دور پار شیطان کے کان بہرے، تمہاری صد و بیت سال کی عمر ہووے۔ اگر زندگی ہے تو پھر ملاقات ہو رہے گی۔ میں جنوں کے بادشاہ کی بیٹی ہوں اور کوہ قاف میں رہتی ہوں۔ یہ کہہ کر تخت اٹھایا اور جس طرح اترا تھا وونہیں بلند ہونے لگا۔ جب تلک سامنے تھا، میری اور اس کی چار آنکھیں ہو رہی تھیں، جب نظروں سے غائب ہوا یہ حالت ہو گئی جیسے پری کا سایہ ہوتا ہے۔ عجب طرح کی اداسی دل پر چھا گئی، عقل و ہوش رخصت ہوا، دنیا آنکھوں کے تلے اندھیری ہو گئی، حیران، پریشان اور سر پر خاک اڑانا، کپڑے پھاڑنا، نہ کھانا کھانے کی سدھ نہ بھلے برے کی بدھ

اس عشق کی بدولت کیا کیا خرابیاں ہیں
دل میں اداسیاں ہیں اور اضطرابیاں ہیں

اس خرابی سے دائی اور معلم خبردار ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے بادشاہ کے روبرو گئے اور عرض کی کہ بادشاہ زادہ عالمیان کا یہ حال ہے۔ معلوم نہیں خود بخود کیا غضب ٹوٹا جو ان کا آرام اور کھانا پینا سب چھوٹا۔ تب بادشاہ وزیر امرائے صاحب تدبیر اور حکیم حاذق، منجم صادق، ملا، سیانے، خوب درویش سالک اور مجذوب اپنے ساتھ لے کر اس باغ میں رونق افزا ہوئے۔ میری بے قراری اور نالہ و زاری دیکھ کر ان کی بھی حالت اضطراب کی ہو گئی۔

آب دیدہ ہو کر بے اختیار گلے سے لگا لیا۔ اور اس کی تدبیر کی خاطر حکم کیا۔ حکیموں نے قوتِ دل اور خلل دماغ کے واسطے نسخے لکھے اور ملاؤں نے نقش و تعویذ پلانے اور پاس رکھنے کو دیئے۔ دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگے اور نجومی بولے کہ ستاروں کی گردش کے سبب یہ صورت پیش آئی ہے۔ اس کا صدقہ دیجیئے۔

غرض ہر کوئی اپنے اپنے کام کی باتیں کہتا تھا۔ جو گزرتی تھی میرا دل ہی سہتا تھا۔ کسو کی سعی اور تدبیر اور میری تقدیر بد کے کام نہ آئی۔ دن بہ دن دیوانگی کا زور اور میرا بدن بے آب و دانے کم زور ہو چلا۔ رات دن چلانا اور سر ٹپکنا ہی باقی رہا۔ اس حالت میں تین سال گزرے۔ چوتھے برس ایک سوداگر سیر و سفر کرتا ہوا آیا، اور ہر ایک ملک کے تحفے تحائف عجیب و غریب جہاں پناہ کے حضور میں لایا۔ ملازمت حاصل کی۔ بادشاہ نے بہت توجہ فرمائی اور احوال پرسی اس کی کر کے پوچھا کہ تم نے بہت ملک دیکھے، کہیں کوئی حکیم کامل بھی نظر پڑا، یا کسو سے مذکور اس کا سنا؟ اس نے التماس کیا کہ قبلہ عالم غلام نے بہت سیر کی، لیکن ہندوستان میں دریا کے بیچ ایک پہاڑی ہے وہاں ایک گسائیں جٹا دھاری نے بڑا منڈھب مہا دیو کا اور سنگت اور باغ بڑی بہار کا بنایا ہے۔ اس میں رہتا ہے اور اس کا یہ قاعدہ ہے کہ برسویں دن شیو رات کے روز اپنے استھان سے نکل کر دریا میں پیرتا ہے اور خوشی کرتا ہے۔ اشنان کے بعد جب اپنے آسن پر جانے لگتا ہے تب بیمار اور درد مند دیس دیس اور ملک ملک کے جو دور دور سے آتے ہیں دروازے پر جمع ہوتے ہیں، ان کی بڑی بھیڑ ہوتی ہے۔

وہ مہنت جسے اس زمانے کا افلاطون کہا چاہیے، قارورہ اور نبض دیکھتا ہوا اور ہر ایک کو نسخہ لکھ کر دیتا ہوا چلا جاتا ہے۔ خدا نے ایس دست شفا اس کو دیا ہے کہ دور پیتے ہی اثر ہوتا ہے اور وہ مرض بالکل جاتا رہتا ہے۔ یہ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان کو اس کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک ملک کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔

بادشاہ کو بھی اس کی صلاح پسند آئی اور خوش ہو کر فرمایا بہت بہتر، شاید اس کا ہاتھ راس آوے اور میرے فرزند کے دل سے وحشت جاوے، ایک امیر معتبر جہاں دیدہ، کار آزمودہ کو اور اس تاجر کو میر رکاب میں تعینات کیا اور اسباب ضروری ساتھ کر دیا۔ نواڑی، بجرے، مور پنکھی پلوار، لچکے، کھیلنے، الاق، پٹیلیوں پر مع سر انجام سوار کر کر رخصت کیا۔ منزل منزل چلتے چلتے اس ٹھکانے پر جا پہنچے۔ نئی ہوا اور نیا دانہ پانی کھانے پینے سے کچھ مزاج ٹھہرا، لیکن خاموشی کا وہی عالم تھا اور رونے سے کام۔ دم بہ دم اسی پری کی دل سی بھولتی نہ تھی۔ اگر کبھو بولتا تو بیت پڑھتا۔

نہ جانوں کس پری رو کی نظر ہوئی
ابھی تو تھا بھلا چنگا مرا دل

بارے جب وہ تین مہینے گزرے اس پہاڑ پر قریب چار ہزار مریض کے جمع ہوئے، لیکن سب یہی کہتے تھے کہ اب خدا چاہے تو گسائیں اپنے مٹھ سے نکلیں گے اور سب کو ان کے فرمانے سے شفائے کلی ہو گی۔

القصہ جس دن وہ دن آیا، صبح کو جوگی مانند آفتاب سے نکل آیا اور دریا میں نہایا اور پیرا، پار جا کر پھر آیا اور بھبھوت بھسم تمام بدن میں لگایا۔ وہ گورا بدن مانند انگار کے راکھ میں چھپایا اور ماتھے پر ملا گیر کا ٹیکا دیا، لنگوٹ باندھ کر انگوچھا کاندھے پر ڈالا بھالوں کا جوڑا باندھا، موچھوں پر تاؤ دے کر چڑھواں جوتا اڑایا۔ اس کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا اس کے نزدیک کچھ قدر نہیں رکھتی۔ ایک قلم دان جڑاؤ بغل میں لے کر ایک ایک کی طرف دیکھتا اور نسخہ دیتا ہوا میرے نزدیک آ پہنچا۔ جب میری اور اس کی چار نظریں ہوئیں، کھڑا رہ کر غور میں گیا اور مجھ سے کہنے لگا ہمارے ساتھ آؤ۔ میں ہم راہ ہو لیا۔

جب سب کی نوبت ہو چکی، میرے تئیں باغ کے اندر لے گیا اور ایک مقطع خوش نقشی خلوت خانے مجھے فرمایا کہ یہاں تم رہا کرو، اور آپ اپنے استھان میں گیا۔ جب ایک چِلا گزرا تو میرے پاس آیا اور آگے کی نسبت مجھے خوش پایا۔ تب مسکرا کر فرمایا کہ اس باغیچے میں سیر کیا کرو۔ جس میوے پر جی چلے کھایا کرو اور ایک قلفی چینی کی معجون بھری ہوئی دی کہ اس میں سے چھ ماشے ہمیشہ بلا ناغہ نوش جان فرمایا کرو۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، اور میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا۔ ہر روز قوت بدن میں اور فرحت دل کی معلوم ہونے لگی، لیکن حضرت عشق کو کچھ اثر نہ کیا۔ اس پری کی صورت نظروں کے آگے پھرتی تھی۔

ایک روز طاق میں جلد کتاب کی نظر آئی۔ اتار کر دیکھا تو سارے علم دن دنیا کے اس میں جمع کئے تھے۔ گویا دریا کو کوزے میں بھر دیا تھا۔ ہر گھڑی اس کا مطالعہ کیا کرتا۔ علم حکمت اور تسخیر میں نہایت قوت بہم پہنچائی۔ اس عرصے میں برس دن گزر گیا۔ پھر وہی خوشی کا دن آیا۔ جوگی اپنے آسن پر سے اٹھ کر باہر نکلا۔ میں نے سلام کیا۔ ان نے قلم دان مجھے دے کر کہا ساتھ چلو۔ میں بھی ساتھ ہو لیا۔ جب دروازے سے باہر نکلا ایک عالم دینے لگا۔ وہ امیر اور سوداگر مجھے ساتھ دیکھ کر گسائیں کے قدموں میں گرے اور ادائے شکر کرنے لگے کہ آپ کی توجہ سے بارے اتنا تو ہوا۔ وہ اپنی عادت پر دریا کے گھاٹ تک گیا اور اشنان پوجا جس طرح ہر سال کرتا تھا، پھرتی بار بیماریوں کو دیکھتا بھالتا چلا آتا تھا۔

اتفاقا مسودائیوں کے غول میں ایک جوان خوب صورت شکیل کے ضعف سے کھڑے ہونے کی طاقت اس میں نہ تھی نظر پڑا۔ مجھ کو کہا کہ اس کو ساتھ لے آؤ۔ سب کی دارو درمن کر کے جب خلوت خانے میں گیا۔ تھوڑی سی کھوپڑی اس جوان کی تراش کر، چاہا کہ کنکھجورا جو مغز پر بیٹھا تھا، زنبور سے اٹھا لیوے۔ میرے خیال میں گذرا اور بول اٹھا کہ اگر دست پناہ آگ میں گرم کر کر اس کی پیٹھ پر رکھئے تو خوب ہے۔ آپ سے آپ نکل آوے گا۔ اور جو یوں کھینچے گا تو مغز کے گودے کو نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سن کر میری طرف دیکھا اور چپکا اٹھا باغ کے کونے میں ایک درخت کو لے میں پکڑ جٹا کی لٹ کی گلے میں پھانسی لگا کر رہ گیا۔ میں نے پاس جا کر دیکھا تو واہ واہ یہ تو مر گیا۔ یہ اچنبھا دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔ لاچار جی میں آیا اس کو گارڈ دوں۔ جوں درخت سے جدا کرنے لگا وہ کنجیاں اس کی لٹوں میں سے گر پڑیں۔ میں نے ان کو اٹھا لیا اور اس گنج خوبی کو زمیں میں دفن کیا۔ وہ دونوں کنجیاں لے کر سب قفلوں میں لگانے لگا۔ اتفاقاً دو حجروں کے تالے ان تالیوں سے کھلے۔ دیکھا تو زمیں سے چھت تلک جواہر بھرا ہوا ہے۔ اور ایک پیٹی مخمل سے مڑھی سونے کے پتر لگی قفل دی ہوئی ایک طرف دھری ہے۔ اس کو جو کھولا تو ایک کتاب دیکھی کہ اس میں اسم اعظم اور حاضرات جن و پری کی اور روحوں کی ملاقات اور تسخیر آفتاب کی ترکیب لکھی ہے۔

ایسی دولت کے ہاتھ لگنے سے نہایت خوشی حاصل ہوئی اور ان پر عمل کرنا شروع کیا۔ دروازہ باغ کا کھول اپنے اس امیر اور ساتھ والوں کو کہا کہ کشتیاں منگوا کر یہ سب جواہر و نقد جنس اور کتابیں بار کر لو اور ایک نواڑے پر آپ سوار ہو کر وہاں سے بحر کو روانہ کیا۔ آتے آتے جب نزدیک اپنے ملک کے پہنچا، جہاں پناہ کو خبر ہوئی۔ سوار ہو کر استقبال کیا اور اشتیاق سے بے قرار ہو کر کلیجے سے لگا لیا۔ میں نے قدم بوسی کر کر کہا کہ اس خاک سار کو قدیم باغ میں رہنے کا حکم ہوا۔ بولے کہ اے برخوردار وہ مکان میرے نزدیک منحوس ٹھہرا۔ لہٰذا اس کی مرمت اور تیاری موقوف کی۔ اب وہ مکان لائق انسان کے رہنے کے نہیں رہا۔ اور جس محل میں جی چاہے، اترو۔ بہتر یوں ہے کہ قلعے میں کوئی جگہ پسند کر کے میری آنکھوں کے روبرو رہو اور پائیں باغ جیسا چاہو تیار کروا کر سیر تماشا کرو۔ میں نے بہت ضد اور ہٹ کر کر اس باغ کو نئے سرے سے تعمیر کروا دیا اور بہشت کی مانند آراستہ کر داخل ہوا۔ پھر فراغت سے جنوں کی تسخیر کی خاطر چلے بیٹھا اور ترک حیوانات کر کر حاضرات کرنے لگا۔

جب چالیس دن پورے ہوئے تب آدھی رات کو ایک ایسی آندھی آئی کہ بڑی بڑی عمارتیں گر پڑیں اور درخت جڑ پیڑ سے اکھڑ کر کہیں سے کہیں جا پڑے، اور پری زادیوں کا لشکر نمودار ہوا۔

ایک تخت ہوا سے اترا۔ اس پر ایک شخص شاندار موتیوں کا تاج اور خلعت پہنے ہوئے بیٹھا تھا۔ میں نے دیکھتے ہی بہت مودب ہو کر سلام کیا۔ اس نے میرا سلام لیا اور کہا اے عزیز! یہ کیا تو نے ناحق دند مچایا؟ ہم سے تجھے کیا مدّعا ہے؟ میں نے التماس کیا کہ یہ عاجز بہت مدت سے تمہاری بیٹی پر عاشق ہے، اور اسی لیے کہاں سے کہاں خراب و خستہ ہوا اور جیتے جی موا۔ اب زندگی سے بھی تنگ آیا ہوں اور اپنی جان پر کھیلا ہوں، جو یہ کام کیا ہے۔ اب آپ کی ذات سے امیدوار ہوں کہ مجھ حیران سرگردان کو اپنی توجہ سے سرفراز کرو، اور اس کے دیدار سے زندگی اور آرام بخشو تو بڑا ثواب ہو گا۔ یہ میری آرزو سن کر بولا کہ آدمی خاکی اور ہم آتشی، ان دونوں میں موافقت آنی مشکل ہے۔ میں نے قسم کھائی کہ ان کے دیکھنے کا میں مشتاق ہوں اور کچھ مطلب نہیں۔ پھر اس تخت نشین نے جواب دیا کہ انسان اپنے قول و قرار پر نہیں رہتا۔ غرض کے وقت پر سب کچھ کہتا ہے لیکن یاد نہیں رکھتا۔ یہ بات میں تیرے بھلے کے لیے کہہ سناتا ہوں کہ اگر تو نے کبھی قصد کچھ اور کیا تو وہ بھی اور تو بھی دونوں خراب اور خستہ ہو گئے، بلکہ خوف جان کا ہے۔ میں نے پھر دوبارہ سوگندہ یاد کی کہ جس میں طرفین کی برائی ہو، ویسا کام ہر گز نہ کروں گا۔ مگر ایک نظر دیکھتا رہوں گا۔ یہ باتیں ہوتیاں تھیں کہ انچت وہ پری کہ جس کا مذکور تھا، نہایت ٹھسے سے بناؤ کیے ہوئے آ پہنچی اور بادشاہ کا تخت وہاں سے چلا گیا۔ تب میں نے بے اختیار اس پری کو جان کی طرح بغل میں لے لیا اور یہ شعر پڑھا: کماں ابرو مرے گھر کیوں نہ آوے کہ جس کے واسطے کھینچے ہیں چلّے

اسی خوشی کے عالم میں باہم اس باغ میں رہنے لگے۔ مارے ڈر کے کچھ اور خیال نہ کرتا۔ بلائی مزے لیتا اور فقط دیکھا کرتا۔ وہ پری میرے قول و قرار کے نباہنے پر دل میں حیران رہتی اور بعضے وقت کہتی کہ پیارے! تم بھی اپنی بات کے بڑے سچے ہو، لیکن ایک نصیحت میں دوستی کی راہ سے کرتی ہوں۔ اپنی کتاب سے خبردار رہیو کہ جن کسی نہ کسی دن تمہیں غافل پا کر چرا کر لے جائیں گے۔ میں نے کہا اسے میں اپنی جان کے برابر رکھتا ہوں۔

اتفاقاً ایک روز رات کو شیطان نے ورغلایا۔ شہوت کی حالت میں یہ دل میں آیا کہ جو کچھ ہو سو ہو، کہاں تلک اپنے تئیں تھانبوں؟ اسے چھاتی سے لگایا اور قصد جماع کا کیا۔ وونہیں ایک آواز آئی۔ یہ کتاب مجھ کو دے کہ اس میں اسم اعظم ہے، بے ادبی نہ کر۔ اس مستی کے عالم میں کچھ ہوش نہ رہا۔ کتاب بغل سے نکال کر بغیر جانے پہچانے حوالے کر دی اور اپنے کام میں لگا۔ وہ نازنین یہ میری نادانی کی حرکت دیکھ کر بولی کہ ظالم! آخر چوکا اور نصیحت بھولا۔

یہ کہہ کر بے ہوش ہو گئی اور میں اس کے سرہانے ایک دیو دیکھا کی کتاب لیے کھڑا ہے۔ چاہا کہ پکڑ کر خوب ماروں اور کتاب چھین لوں۔ اتنے میں اس کے ہاتھ سے کتاب دوسرا لے بھاگا۔ میں نے جو افسوں یاد کیے تھے، پڑھنے شروع کیے۔ وہ جن جو کھڑا تھا بیل بن گیا، لیکن افسوس کہ پری ذرا بھی ہوش میں نہ آئی اور وہی حالت بے خودی کی رہی۔ تب میرا دل گھبرایا۔ سارا عیش تلخ ہو گیا۔

اس روز آدمیوں سے نفرت ہوئی۔ اس باغ کے گوشے میں پڑا رہتا ہوں اور دل بہلانے کی خاطر یہ مرتبان زمرد کا جھاڑ دار بنایا کرتا ہوں، اور ہر مہینے اس میدان میں اس بیل پر سوار ہو کر جایا کرتا ہوں۔ مرتبان کو توڑ کر غلام کو مار ڈالتا ہوں۔ اس امید پر کہ سب میری حالت دیکھیں اور افسوس کھاویں۔ شاید کوئی ایسا خدا کا بندہ مہربان ہو کہ میرے حق میں دعا کرے تو میں بھی اپنے مطلب کو پہنچوں۔

اے رفیق! میرے جنون اور سودا کی یہ حقیقت ہے جو میں نے تجھے کہہ سنائی۔ میں سن کر آبدیدہ ہوا اور بولا کہ اے شہزادے! تو نے واقعی عشق کی بڑی محنت اٹھائی۔ لیکن قسم خدا کی کھاتا ہوں کہ میں اپنے مطلب سے درگزرا۔ اب تیری خاطر جنگل پہاڑ پھروں گا اور جو مجھ سے ہو سکے گا کروں گا۔ یہ وعدہ کر کر میں جوان سے رخصت ہوا، اور پانچ برس تک سودائی سا ویرانے میں خاک چھانتا پھرا، سراغ نہ ملا۔

آخر اکتا کر ایک پہاڑ پر چڑھ گیا اور چاہا کہ اپنے تئیں گرا دوں کہ ہڈی پسلی کچھ ثابت نہ رہے۔ وہی ایک سوار برقع پوش آ پہنچا اور بولا کہ اپنی جان مت کھو، تھوڑے دنوں کے بعد تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا۔ یا سائیں اللہ! تمہارے دیدار تو میسر ہوئے۔ اب خدا کے فضل سے امیدوار ہوں کہ خوشی اور خرمی حاصل ہو۔ اور سب نامراد اپنی مراد کو پہنچیں۔