سرگذشت آزاد بخت پادشاہ کی

جب دوسرا درویش بھی اپنی سیر کا قصہ کہہ چکا، رات آخر ہو گئی اور وقت صبح کا شروع ہونے پر آیا۔ بادشاہ آزاد بخت چپکا اپنے دولت خانے کی طرف روانہ ہوا۔ محل میں پہنچ کر نماز ادا کی۔ پھر غسل خانے میں جا کر خلعت فاخرہ پہن کر دیوان عام میں تخت پر نکل بیٹھا۔ اور حکم کیا کہ یساول جاوے۔ چار فقیر فلانے مکان پر وارد ہیں۔ ان کو با عزت اپنے ساتھ حضور میں لے آوے۔

بموجب حکم کے چوب دار وہاں گیا۔ دیکھا تو چاروں بے نوا، جھاڑا جھٹکا، پھر ہاتھ منہ دھو کر چاہتے ہیں کہ وسا کریں اور اپنی اپنی راہ لیں۔ چیلے نے کہا، شاہ جی نے چاروں صورتوں کو طلب فرمایا۔ میرے ساتھ چلیے۔ چاروں درویش آس میں ایک ایک کو تکنے لگے اور چوب دار سے کہا بابا!ً ہم اپنے دل کے بادشاہ ہیں۔ ہمیں دنیا کے بادشاہ سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا میاں اللہ! مضائقہ نہیں اگر چلو تو اچھا ہے۔ اتنے میں چاروں کو یاد آیا کہ مولا مرتضیٰ نے جو فرمایا تھا، سو اب پیش آیا۔ خوش ہوئے اور یساول کے ہمراہ چلے۔ جب قلعے میں پہنچے اور روبرو بادشاہ کے گئے، چاروں قلندروں نے دعا دی کہ بابا! تیرا بھلا ہو۔ بادشاہ دیوان خاص میں جا بیٹھے، اور دو چار خاص امیروں کو بلایا، اور فرمایا کہ چاروں گدڑی پوشوں کو بلاؤ۔ جب وہاں گئے حکم بیٹھنے کا کیا۔ احوال پرسی فرمائی کہ تمہارا کہاں سے آنا ہوا، اور کہاں کا ارادہ ہے؟ مکان مرشدوں کے کہاں ہیں؟

انہوں نے کہا کہ بادشاہ کی عمر و دولت زیادہ رہے۔ ہم فقیر ہیں۔ ایک مدت سے خانہ بدوش اسی طرح سیر و سفر کرتے پھرتے ہیں۔ وہ مثل ہے فقیر کو جہاں شام ہوئی وہیں گھر ہے۔ اور جو کچھ اس دنیائے ناپائدار میں دیکھا ہے کہاں تک بیان کریں؟ آزاد بخت نے بہت تسلی اور تشفی کی اور کھانے کو منگوا کر اپنے روبرو ناشتہ کروایا، جب فارغ ہوئے، پھر فرمایا کہ اپنا ماجرا تمام بے کم و کاست مجھ سے کہو۔ جو مجھ سے تمہاری خدمت ہو سکے گی قصور نہ کروں گا۔

فقیروں نے جواب دیا کہ ہم پر جو کچھ بیتا ہے، نہ ہمیں بیان کرنے کی طاقت ہے اور نہ بادشاہ کے سننے سے فرحت ہو گی، اس کو معاف کیجیے۔ تب بادشاہ نے تبسم کیا، اور کہا۔ شب کو جہاں تم بستروں پر بیٹھے اپنا احوال کہہ رہے تھے، وہاں میں بھی موجود تھا، چنانچہ دو درویش کا احوال سن چکا ہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ دونوں جو باقی ہیں، وے بھی کہیں اور چند روز بخاطر جمع میرے پاس رہیں کہ قدم درویشان ردِّ بلا ہے۔ بادشاہ سے یہ بات سنتے ہی مارے خوف کے کانپنے لگے اور نیچے کر کے چپ ہو رہے۔ طاقت گویائی کی نہ رہی۔

آزاد بخت نے جب دیکھا کہ اب ان میں مارے رعب کے حواس نہیں رہے، جو کچھ بولیں۔ فرمایا کہ اس جہاں میں کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس پر ایک نہ ایک واردات عجیب و غریب نہ ہوئی ہو گی۔ باوجودے کہ بادشاہ ہوں لیکن میں نے ایسا تماشا دیکھا ہے کہ پہلے میں ہی اس کا بیان کرتا ہوں۔ تم بہ خاطر جمع سنو! درویشوں نے کہا۔ بادشاہ سلامت آپ کا الطاف فقیروں پر ایسا ہی ہے۔ ارشاد فرمائیے۔

آزاد بخت نے اپنا احوال کہنا شروع کیا اور کہا۔
اے شاہو! بادشاہ کا اب ماجرا سنو
جو کچھ کہ میں نے دیکھا ہے اور ہے سنا، سنو
کہتا ہوں میں فقیر کی خدمت میں سر بسر
احوال میرا خوب طرح دل لگا سنو

میرے قبلہ گاہ نے جب وفات پائی اور میں اس تخت پر بیٹھا۔ عین عالم شباب کا تھا۔ اور سارا یہ ملک روم کا میرے حکم میں تھا۔ اتفاقاً ایک سال کوئی سوداگر بدخشاں کے ملک سے آیا، اور اسباب تجارت کا بہت سا لایا۔ خبرداروں نے میرے حضور میں خبر کی کہ ایسا بڑا تاجر آج تک شہر میں نہیں آیا۔ میں نے اس کو طلب فرمایا۔

وہ تحفے ہر ایک ملک کے لائق میری نذر کے لے کر آیا۔ فی الواقع ہر ایک جنس بے بہا نظر آئی۔ چنانچہ ایک ڈبیا میں ایک لعل تھا نہایت خوش رنگ اور آبدار، قد و قامت درست وزن میں پانچ مثقال کا۔ میں نے باوجود سلطنت کے ایسا جواہر کبھو نہ دیکھا تھا اور نہ کسو سے سنا تھا۔ پسند کیا۔ سوداگر کو بہت سا انعام و اکرام دیا اور سند راہ داری کی لکھ دی کہ اس سے ہماری تمام قلمرو میں کوئی مزاحم محصول کا نہ ہو اور جہاں جاوے اس کو آرام سے رکھیں۔ چوکی پہرے میں رہیں اس کا نقصان اپنا نقصان سمجھیں۔ وہ تاجر حضور میں دربار کے وقت حاضر رہتا اور آدابِ سلطنت سے خوب واقف تھا۔ اور تقریر و خوش گوئی اس کے لائق سننے کے تھی اور میں اس لعل کو ہر روز جواہر خانے سے منگوا کر سرِ دربار دیکھا کرتا۔

ایک روز دیوان عام کیے بیٹھا، اور امراء و ارکان دولت اپنے اپنے پائے پر کھڑے تھے۔ اور ہر ملک کے بادشاہوں کے ایلچی مبارک باد کی خاطر جو آئے تھے، وہ بھی سب حاضر تھے۔ اس وقت میں نے موافق معمول کے اس لعل کو منگوایا، جواہر خانے کا داروغہ لے کر آیا۔ میں ہاتھ میں لے کر تعریف کرنے لگا اور فرنگ ایلچی کو دیا ان کو دیکھ کر تبسم کیا اور زمانہ سازی سے صفت کی۔ اس طرح ہاتھوں ہاتھ ہر ایک نے لیا اور دیکھا اور ایک زبان ہو کر بولے قبلہ عالم کے اقبال کے باعث یہ میسر ہوا ہے۔ واللہ کسو بادشاہ کے ہاتھ آج تک ایسا رقم بے بہا نہیں لگا۔ اس وقت میرے قبلہ گاہ کا وزیر کہ مرد دانا تھا کہ اسی خدمت پر سرفراز تھا، وزارت کی چوکی پر کھڑا تھا، آداب بجا لایا، اور التماس کیا کہ کچھ عرض کیا چاہتا ہوں اگر جان بخشی ہو۔

میں نے حکم کیا کہہ۔ وہ بولا قبلہ عالم آپ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں سے بہت بعید ہے کہ ایک پتھر کی تعریف کریں۔ اگرچہ رنگ ڈھنگ سنگ میں لاثانی ہے، لیکن سنگ ہے اور اس دم سب ملکوں کے ایلچی دربار میں حاضر ہیں۔ جب اپنے اپنے شہر میں جاویں گے البتہ یہ نقل کریں گے کہ عجب بادشاہ ہے کہ ایک لعل کہیں سے پایا ہے، اسے ایسا تحفہ بنایا ہے کہ ہر روز روبرو منگاتا ہے اور آپ اس کی تعریف کر کر سب کو دکھاتا ہے۔ پس جو بادشاہ یا راجہ احوال سنے گا، اپنی مجلس میں ہنسے گا۔ خداوند! ایک ادنیٰ سوداگر نیشاپور میں ہے۔ اس نے بارہ دانے لعل کے ہر ایک سات سات مثقال کا ہے، پٹے میں نصب کر کر کتے کے گلے میں ڈال دیے۔ مجھے سنتے ہی غصہ چڑھ آیا۔ اور کھسیانے ہو کر فرمایا کہ اس وزیر کی گردن مار دو۔ جلادوں نے وونہیں اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور چاہا کہ باہر لے جاویں۔ فرنگ کے بادشاہ کا ایلچی دست بستہ روبرو آ کھڑا ہوا۔ میں نے پوچھا کہ تیرا کیا مطلب ہے؟ اس نے عرض کی امیدوار ہوں کہ تقصیر سے وزیر کی واقف ہوں۔ میں نے فرمایا کہ جھوٹ بولنے سے اور بڑا گناہ کونسا ہے۔ خصوصاً بادشاہوں کے روبرو؟ اس نے کہا اس کا دروغ ثابت نہیں ہوا۔ شاید خچہ عرض کی ہے، سچ ہو۔ ابھی بے گناہ کا قتل کرنا درست نہیں۔ اس کا میں نے یہ جواب دیا کہ ہر گز پھرتا ہے اور کوڑی کوڑی جمع کرتا ہے بارہ دانے لعل کے جو وزن میں سات سات مثقال کے ہوں، کتے کے پٹے میں لگاوے۔ اس نے کہا۔ خدا کی قدرت سے تعجب نہیں۔ شاید کہ باشد ایسے تحفے اکثر سوداگروں اور فقیروں کے ہاتھ آتے ہیں۔ اس واسطے کی یہ دونوں ہر ایک ملک میں جاتے ہیں اور جہاں سے جو کچھ پاتے ہیں، لے آتے ہیں۔ صلاح دولت یہ ہے کہ اگر وزیر ایسا ہی تقصیر وار ہے تو حکم قید کا ہو۔ اس لیے کہ بادشاہوں کی عقل ہوتے ہیں، اور یہ حرکت سلاطیوں سے بدنما ہے کہ ایسی بات پر کہ جھوٹ سچ اس کا ابھی ثابت نہیں ہوا، حکم قتل کر فرمائیں اور اس کی تمام عمر کی خدمت اور نمک حلالی بھول جائیں۔

بادشاہ سلامت! اگلے شہر یاروں نے بندی خانہ اسی سبب ایجاد کیا کہ بادشاہ یا سردار اگر کسو پر غضب ہوں تو اسے قید کریں۔ کئی دن میں غصہ جاتا رہے گا، اور بے تقصیری اس کی ظاہر ہو گی۔ بادشاہ خون ناحق سے محفوظ رہیں گے۔ کل کو روز قیامت میں ماخوذ نہ ہوئیں گے۔

میں نے جتنا اس کے قائل کرنے کو چاہا اس نے ایسی معقول گفتگو کی کہ مجھے لاجواب کیا۔ تب میں نے کہا کہ خیر تیرا کہنا پذیرا ہوا۔ میں خون سے اس کے درگذرا لیکن زندان میں مقید رہے گا۔ اگر ایک سال کے عرصے میں اس کا سخن راست ہوا کہ ایسے لعل کتے کے گلے میں ہیں تو اس کی نجات ہو گی۔ اور نہیں تو بڑے عذاب سے مارا جاوے گا۔ فرمایا کہ وزیر کو پنڈت خانے میں لے جاؤ۔ یہ سن کر ایلچی نے زمین خدمت کی چومی اور تسلیمات کی۔

جب یہ خبر وزیر کے گھر میں گئی، آہ واویلا مچا اور ماتم سرا ہو گیا۔ اس وزیر کی ایک بیٹی تھی برس چودہ پندرہ کی۔ نہایت خوب صورت اور قابل، نوشت و خواند میں درست۔ وزیر اس کو نپٹ پیار کرتا تھا اور عزیز رکھتا تھا، چنانچہ اپنے دیوان خانے کے پچھواڑے ایک رنگ محل اس کی خاطر بنوا دیا تھا۔ اور لڑکیاں عمدوں کی اس کی مصاحبت میں اور خواصیں تکمیل خدمت میں رہتیں۔ ان سے ہنسی خوشی کھیلا کودا کرتی۔

اتفاقاً جس دن وزیر کو محبوس خانے میں بھیجا، وہ لڑکی اپنی ہم جولیوں میں بیٹھی تھی اور خوشی سے گڑیا کا بیاہ رچایا تھا۔ اور ڈھولک پکھاوج لیے ہوئے رت جگے کی تیاری کر رہی تھی۔ اور کڑاہی چڑھا کر گلگلے اور تلتی اور بنا رہی تھی کہ ایک بارگی اس کی ماں روتی پیٹتی، سر کھلے، پاؤں ننگے، بیٹی کے گھر میں گئی اور دو ہتڑ اس لڑکی کے سر پر ماری اور کہنے لگی کاش کہ تیرے بدلے خدا اندھا بیٹا تو میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا۔ اور باپ کا رفیق ہوتا۔ وزیر زادی نے پوچھا۔ اندھا بیٹا تمہارے کس کام آتا؟ جو کچھ بیٹا کرتا میں بھی کر سکتی ہوں۔ امّاں نے جواب دیا خاک تیرے سر پر یہ بپتا بیتی ہے کہ بادشاہ کو روبرو کچھ ایسی بات کہی کہ بندی خانے میں قید ہوا۔ اس نے پوچھا وہ کیا بات تھی؟ ذرا میں بھی تو سنوں تب وزیر کے قبیلے نے کہا کہ تیرے باپ نے شاید یہ کہا کہ نیشاپور میں کوئی سوداگر ہے۔ اس نے بارہ عدد لعل بے بہا کتے کے پٹے میں ٹانکے ہیں۔ بادشاہ کو باور نہ ہوا۔ اس نے جھوٹا سمجھا اور اسیر کیا۔ اگر آج کے دن بیٹا ہوتا تو ہر طرح سے کوشش کر کر اس بات کی تحقیق کرتا، اور اپنے باپ کا اپرالا کرتا۔ اور بادشاہ سے عرض معرض کر کے میرے خاوند کو پنڈت خانے سے مخلصی دلواتا۔

وزیر زادی بولی۔ امّاں جان! تقدیر سے لڑا نہیں جاتا۔ چاہیے انسان بلائے ناگہانی میں صبر کرے اور امیدوار فضل الٰہی کا رہے۔ وہ کریم ہے مشکل کسو کی اٹکی نہیں رکھتا اور رونا دھونا خوب نہیں۔ مبادا دشمن اور طرح سے بادشاہ کے پاس لگا دیں اور لترے چغلی کھاویں کہ باعث زیادہ خفگی کا ہو۔ بلکہ جہاں پناہ کے حق میں دعا کرو۔ ہم اس کے خانہ زاد ہیں۔ وہ ہمارا خداوند ہے۔ وہی غضب ہوا ہے، وہی مہربان ہو گا۔ اس لڑکی نے عقل مندی سے ایسی ایسی طرح ماں کو سمجھایا کہ کچھ اس کو صبر و قرار آیا۔ تب اپنے محل میں گئی اور چپکی ہو رہی۔ جب رات ہوئی وزیر زادی نے دادا کو بلایا۔ اس کے ہاتھ پاؤں پڑی، بہت سی منت کی اور رونے لگی اور کہا۔ میں یہ ارادہ رکھتی ہوں کہ امّاں جان کا طعنہ مجھ پر نہ رہے اور میرا باپ مخلصی پاوے۔ جو تیرا رفیق ہو تو میں نیشاپور کو چلوں اور اس تاجر کو، جس کے کتے کے گلے میں ایسے لعل ہیں، دیکھ کر جو بن آوے لے کر آؤں اور اپنے باپ کو چھڑاؤں۔

پہلے تو اس مرد نے انکار کیا آخر بہت کہنے سننے سے راضی ہوا۔ تب وزیر زادی نے فرمایا۔ چپکے چپکے اسباب سفر کا درست کر اور جنس تجارت کے لائق نذر بادشاہوں کے خرید کر، اور غلام و نوکر چاکر جتنے ضرور ہوں ساتھ لے۔ لیکن یہ بات کسو پر نہ کھلے۔ دادا نے قبول کیا اور اس کی تیاری میں لگا۔ جب سب اسباب مہیا کی اونٹوں اور خچروں پر بار کر کر روانہ ہوا۔ اور وزیر زادی بھی لباس مردانہ پہن کر ساتھ جا ملی ہر گز کسو کو خبر نہ ہوئی۔ جب صبح ہوئی۔ وزیر کے محل میں چرچا ہوا کہ وزیر زادی غائب ہے۔ معلوم نہیں کیا ہوئی۔

آخر بدنامی کے ڈر سے ماں نے بیٹی کا گم ہونا چھپایا، اور وہاں وزیر زادی نے اپنا نام سوداگر بچہ رکھا۔ منزل بہ منزل چلتے چلتے نیشاپور میں پہنچی۔ خوشی بہ خوشی کارواں سرا میں جا اتری، اور سب اپنا اسباب اتارا۔ رات کو رہی۔ فجر کی حمام میں ہو گئی۔ اور پوشاک پاکیزہ جیسے روم کے باشندے پہنتے ہیں پہنی، شہر کی سیر کے واسطے نکلی۔ آتے آتے جب چوک میں پہنچی چوراہے پر کھڑی ہوئی۔ ایک طرف دکان جوہری کی نظر پڑی کہ بہت سے جواہر کا ڈھیر لگ رہا ہے، اور غلام فاخرہ لباس پہنے ہوئے دست بستہ کھڑے ہیں۔ اور ایک شخص جو سردار ہے برس پچاس ایک کی اس کی عمر ہے، طالع مندوں کی سی خلعت اور نمیہ آستیں پہنے ہوئے اور کئی صاحب با وضع نزدیک اس کے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ اور آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔

وزیر زادی، جس نے اپنے تئیں سوداگر بچہ مشہور کیا تھا اسے دیکھ کر متعجب ہوئی اور دل میں سمجھ کر خوش ہوئی کہ خدا جھوٹ نہ کرے، جس سوداگر کا میرے باپ نے بادشاہ سے مذکور کیا ہے، اغلب ہے کہ یہی ہو۔ بار خدایا اس کا احوال مجھ پر ظاہر کر۔

اتفاقاً ایک طرف جو دیکھا تو ایک دکان ہے اس میں دو پنجرے آہنی لٹکے ہیں اور ان دونوں میں دو آدمی قید ہیں۔ ان کی مجنون کی سی صورت ہو رہی ہے، کہ چرم و استخوان باقی ہے، اور سر کے بال اور ناخن بڑھ گئے ہیں، سر اوندھائے بیٹھے ہیں۔ اور وہ حبشی بد ہیئت مسلح دونوں طرف کھڑے ہیں۔ سوداگر بچے کو اچنبھا آیا۔ لاحول پڑھ کر دوسری طرف جو دیکھا تو ایک دکان میں غالیچے بچھے ہیں۔ ان پر ایک چوکی ہاتھی دانت کی، اس پر گدیلا مخمل کا پڑا ہوا، ایک کتا جواہر کا پٹا گلے میں اور سونے کی زنجیر سے بندھا ہوا بیٹھا ہے، اور دو غلام امرد خوب صورت اس کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک تو مور چھل جڑاؤ دستے کا لیے جھلتا ہے اور دوسرا مال تار کشی کا ہاتھ میں لے کر منہ اور پاؤں اس کا پونچھ رہا ہے۔ سوداگر بچے نے خوب غور کر کر جو دیکھا تو پٹے میں کتے کے بارہوں لعل کے جیسے سنے تھے موجود ہیں۔ شکر خدا کیا اور فکر میں گیا کہ کس صورت سے ان لعلوں کو بادشاہ کے پاس لے جاؤں اور دکھا کر اپنے باپ کو چھڑاؤں؟ یہ تو اس حیرانی میں تھا اور تمام خلقت چوک اور رستے کی اس کا حسن و جمال دیکھ کر حیران تھی اور ہکا بکا ہو رہی تھی۔ سب آدمی آپس میں یہ چرچا کرتے تھے کہ آج تک اس صورت و شبیہ کا انسان نظر نہیں آیا۔ اس خواجہ نے بھی دیکھا۔ ایک غلام کو بھیجا کہ تو جا کر بہ منت اس سوداگر بچے کو میرے پاس بلا لا۔

وہ غلام آیا اور خواجہ کا پیام لایا۔ اگر مہربانی فرمائیے تو ہمارا خداوند صاحب کا مشتاق ہے، چل کر ملاقات کیجیے۔ سوداگر بچہ تو یہ چاہتا ہی تھا، بولا کیا مضائقہ جوں ہی خواجہ کے نزدیک آیا اور اس پر خواجہ کی نظر پڑی، ایک برچھی عشق کی سینے میں گرے، تعظیم کی خاطر سروقد اٹھا، لیکن حواس باختہ۔ سوداگر بچہ نے دریافت کیا کہ اب یہ دام آیا۔ آپس میں بغل گیر ہوئے۔ خواجہ نے سوداگر بچے کی پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنے برابر بٹھایا۔ بہت سا تملق کر کے پوچھا کہ اپنے نام و نسب سے مجھے آگاہ کرو، کہاں سے آنا ہوا، اور کہاں کا ارادہ ہے؟ سوداگر بچہ بولا کہ، اس کمترین کا وطن روم ہے اور قدیم سے استنبول زاد بوم ہے۔ میرے قبلہ گاہ سوداگر ہیں۔ اب بہ سبب پیری کے طاقت سیر و سفر کی نہیں رہی۔ اس واسطے مجھے رخصت کیا ہے کہ کاروبار تجارت کا سیکھوں۔ آج تک میں نے قدم گھر سے باہر نہ نکالا تھا۔ یہ پہلا ہی سفر درپیش ہوا۔ دریا کی راہ ہواؤ نہ پڑا، خشکی کی طرف سے قصد کیا۔ لیکن اس عجم کے ملک میں آپ کے اخلاق اور خوبیوں کا جو شور ہے، محض آپ کی ملاقات کی آرزو یہاں تک آیا ہوں۔ بارے فضل الٰہی سے خدمت شریف میں مشرف ہوا۔ اور اس سے زیادہ پایا۔ تمنا دل کی بر آئی خدا سلامت رکھے۔ اب یہاں سے کوچ کروں گا۔ یہ سنتے ہیں خواجہ کے عقل و ہوش جاتے رہے۔ بولا اے فرزند! ایسی بات مجھے نہ سناؤ۔ کوئی دن غریب خانے میں قدم فرماؤ۔ بھلا یہ تو بتاؤ کہ تمہارا اسباب اور نوکر چاکر کہاں ہیں؟ سوداگر بچے نے کہا کہ مسافر کا گھر سرا ہے، انہیں وہاں چھوڑ کر میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ خواجہ نے کہا بھٹیار خانے میں رہنا مناسب نہیں۔ میرا اس شہر میں اعتبار ہے، اور بڑا نام ہے۔ جلد انہیں بلوا لو۔ میں ایک مکان تمہارے اسباب کے لیے خالی کر دیتا ہوں۔ جو کچھ جنس لائے ہو، میں دیکھوں۔ ایسی تدبیر کروں گا کہ یہیں تمھیں بہت سا منافع ملے۔ تم بھی خوش ہو گے اور سفر کے حرج مرج سے بچو گے اور مجھے بھی چند روز رہنے سے اپنا احسان مند کرو گے۔ سوداگر بچے نے اوپری دل سے عذر کیا۔ لیکن خواجہ نے پذیرا نہ کیا۔ اور اپنے گماشتے کو فرمایا کیا بار بردار جلدی بھیجو اور کارواں سرا سے ان کا اسباب منگوا کر فلانے مکان میں رکھواؤ۔

سوداگر بچے نے ایک زنگی غلام کو ان کے ساتھ کر دیا کہ سب مال و متاع لدوا کر لے آ، اور آپ شام تلک خواجہ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ جب گزری کا وقت ہو چکا اور دکان بڑھائی۔ خواجہ گھر کو چلا تب دونوں غلاموں میں سے ایک نے کتے کو بغل میں لیا۔ دوسرے نے کرسی اور غالیچہ اٹھا لیا اور ان دونوں حبشی غلاموں نے ان پنجروں کو مزدوروں کے سر پر دھر دیا، اور آپ پانچوں ہتھیار باندھے ساتھ آئے۔ خواجہ سوداگر بچے کا ہاتھ، ہاتھ میں لیے باتیں کرتا ہوا حویلی میں آیا۔ سوداگر بچے نے دیکھا کہ مکان عالی شان لائق بادشاہوں یا امیروں کے ہے۔ لب نہر فرش چاندنی کا بچھا ہے، اور مسند کے روبرو اسباب عیش کا چنا ہے۔ کتے کی صندلی بھی اسی جگہ بچھائی اور خواجہ، سوداگر بچے کو لے کر بیٹھا بے تکلف وضع شراب کی کی۔ دونوں پینے لگے۔ جب سر خوش ہوئے، تب خواجہ نے کھانا مانگا۔ دسترخوان بچھا اور دنیا کی نعمت چنی گئی۔ پہلے ایک لنگری میں کھانا لے کر سر پوش طلائی ڈھانپ کر کتے کے واسطے لے گئے اور ایک دسترخوان زر بفت کا بچھا کر اس کے آگے دھر دی۔ کتا صندلی سے نیچے اترا جتنا جی چاہا اتنا کھایا اور سونے کی لگن میں پانی پیا۔ پھر چوکی پر جا بیٹھا۔ غلاموں نے رومال سے ہاتھ منہ اسکا پاک کیا۔ پھر اس طباق اور لگن کو غلام پنجروں کے نزدیک لے گئے اور خواجہ سے کنجی مانگ کر قفل قفسوں کے کھولے۔ ان دونوں انسانوں کو باہر نکال کر کئی سونٹے مار کر کتے کا جھوٹا انہیں کھلایا اور وہی پانی پلایا۔ پھر تالے بند کر کر تالیاں خواجہ کے حوالے کیں۔ جب یہ سب ہو چکا، تب خواجہ نے آپ کھانا شروع کیا۔ سوداگر بچے کو یہ حرکت پسند نہ آئی۔ گھن کھا کر ہاتھ کھانے میں نہ ڈالا۔ ہرچند خواجہ نے منت کی پھر اس نے انکار ہی کیا۔ تب خواجہ نے سبب اسکا پوچھا کہ تم کیوں نہیں کھاتے؟ سوداگر بچے نے کہا یہ حرکت تمہاری اپنے تئیں بدنام معلوم ہوئی۔ اس لیے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور کتا نجس العین ہے۔ پس خدا کے دو بندوں کو کتے کا جھوٹا کھلانا کس مذہب و ملت میں روا ہے؟ فقط یہ غنیمت نہیں جانتے کہ وہ تمہاری قید میں ہیں؟ نہیں تو تم اور وہ برابر ہو۔ اب میرے تئیں شک آئی کہ تم مسلمان نہیں۔ کیا جانوں کون ہو کہ کتے کو پوجتے ہو؟ مجھے تمہارا کھانا کھانا مکروہ ہے۔ جب تلک یہ شبہ دل سے درد نہ ہو۔

خواجہ نے کہا۔ اے بابا، جو کچھ۔ تو کہتا ہے، میں یہ سب سمجھتا ہوں اور اسی خاطر بدنام ہوں کہ اس شہر کی خلقت نے میرا نام خواجہ سگ پرست رکھا ہے اسی طرح پکارتے ہیں اور مشہور کیا ہے۔ لیکن خدا کی لعنت کافروں اور مشرکوں پر ہو جیو۔ کلمہ پڑھا اور سوداگر بچے کی خاطر جمع کی۔ تب سوداگر بچے نے پوچھا کہ اگر مسلمان بہ دل ہو تو اس کا کیا باعث ہے کہ ایسی حرکت کر کے اپنے تئیں بدنام کیا ہے۔ خواجہ نے کہا اے فرزند، نام میرا بدنام ہے اور دگنا محصول اس شہر میں بھرتا ہوں، اسی واسطے یہ بھید کسو پر ظاہر نہ ہو۔ عجب یہ ماجرا ہے کہ جو کوئی سوائے غم اور غصے کے اسے کچھ حاصل نہ ہو۔ تو بھی مجھے معاف رکھ کر نہ مجھ میں قدرت کہنے کی اور نہ تجھ میں طاقت سننے کی رہے گی۔ سوداگر بچے نے اپنے دل میں غور کی کہ مجھے اپنے کام سے کام ہے۔ کیا ضرورت ہے، جو ناحق زیادہ مجوز ہوں۔ بولا۔ اگر لائق کہنے کے نہیں تو نہ کہہ۔ کھانے میں ہاتھ ڈالا، اور نوالہ اٹھا کر کھانے لگا۔ دو مہینے تک اس ہوشیاری اور عقل مندی سے سوداگر بچے نے خواجہ کے ساتھ گزران کی کہ کسو پر ہرگز نہ کھلا کہ یہ عورت ہے۔ سب یہی جانتے تھے کہ مرد ہے۔ اور خواجہ سے روز بروز ایسی محبت زیادہ ہوئی کہ دم اپنی آنکھوں سے جدا نہ کرتا۔

ایک دن عیش مے نوشی کی صحبت میں سوداگر بچے نے رونا شروع کیا۔ خواجہ نے دیکھتے ہی خاطر داری کی اور رومال سے آنسو پوچھنے لگا اور سبب گریہ کا پوچھا۔ سوداگر بچے نے کہا۔ اے قبلہ! کیا کہوں؟ کاش کے تمہاری خدمت میں بندگی پیدا نہ کی ہوتی اور یہ شفقت جو صاحب میرے حق میں کرتے ہیں نہ کرتے۔ اب دو مشکلیں میرے پیش آئی ہیں۔ نہ تمہاری خدمت سے جدا ہونے کو جی چاہتا ہے اور نہ رہنے کا اتفاق یہاں ہو سکتا ہے۔ اب جانا ضرور ہوا۔ لیکن آپ کی جدائی سے امید زندگی کی نظر نہیں آتی۔

یہ بات سن کر خواجہ بے اختیار ایسا رونے لگا کہ ہچکی بندھ گئی، اور بولا کہ اے نور چشم! ایسی جلدی اس اپنے بوڑھے خادم سے سیر ہوئے کہ اسے دل گیر کیے جاتے ہو؟ قصد روانہ ہونے کا دل سے دور کرو۔ جب تلک میری زندگی ہے، رہو تمہاری جدائی سے ایک دم جیتا نہ رہوں گا۔ بغیر اجل کے مر جاؤں گا اور اس ملک فارس کی آب و ہوا بہت خوب اور موافق ہے۔ بہتر یوں ہے کہ ایک آدمی معتبر بھیج کر اپنے والدین کو مع اسباب یہیں بلوا لو۔ جو کچھ سواری اور برداری درکار ہو، میں موجود کروں۔ جب ماں باپ تمہارے گھر بار سب آیا، اپنی خوشی سے کاروبار تجارت کا کیا کریو۔ میں نے بھی اس عمر میں زمانے کی بہت سختیاں کھینچی ہیں، اور ملک ملک پھرا ہوں، اب بوڑھا ہوا۔ فرزند نہیں رکھا تجھے بہتر اپنے بیٹے سے جانتا ہوں، اور اپنا ولی عہد و مختار کرتا ہوں۔ میرے کارخانے سے بھی ہوشیار اور خبردار ہو۔ جب تلک جیتا ہوں، ایک ٹکڑا کھانے کو اپنے ہاتھ سے دو۔ جب مر جاؤں داب گاڑ دیجو، اور سب مال و متاع میر لیجو۔ تب سوداگر بچے نے جواب دیا کہ واقعی صاحب نے زیادہ باپ سے میری غم خواری اور خاطر داری کی کہ مجھے ماں باپ بھول گئے۔ لیکن اس عاصی کے والد نے ایک سال کی رخصت دی تھی۔ اگر دیر لگاؤں گا تو وہ اس پیری میں روتے روتے مر جائیں گے پس رضامندی پدر کی خوشنودی خدا کی ہے، اگر وہ مجھے سے ناراضی ہوں گے تو میں ڈرتا ہوں کہ شاید دعائے بد نہ کریں کہ دونوں جہاں میں خدا کی رحمت سے محروم رہوں۔ اب آپ کی یہی شفقت ہے کہ بندے کہ حکم کیجئے کہ فرمانا قبلہ گاہ کا بجا لاوے اور حق پدری سے ادا ہووے۔ اور صاحب کی توجہ کا ادائے شکر جب تلک تم میں دم ہے، میری گردن پر ہے۔ اگر اپنے میں بھی جاؤں گا تو ہر دم میں دل و جان سے یاد کروں گا، خدا مسبب الاسباب ہے۔ شاید پھر کوئی ایسا سبب ہو کر قدم بوسی حاصل کروں۔

غرض سوداگر بچے نے ایسی ایسی باتیں لون مرچ لگا کر خواجہ کو سنائی کہ وہ بچارا لاچار ہو کر ہونٹ چاٹنے لگا۔ ازبسکہ اس پر شیفتہ اور فریفتہ ہو رہا تھا، کہنے لگا اچھا اگر تم نہیں رہتے ہو تو میں ہی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ میں تجھ کو اپنی جان کے برابر جانتا ہوں۔ پس جب جان چلی جاوے تو خالی بدن کس کام آوے؟ اگر تو ایس میں رضامند ہے تو چل اور مجھے بھی لے چل۔ سوداگر بچے یہ کہہ کر اپنی بھی تیاری سفر کی کرنے لگا اور گماشتوں کو حکم کیا، بار برداری کی فکر جلدی کرو۔

جب خوجہ کے چلنے کی خبر مشہور ہوئی۔ وہاں کے سوداگروں نے سن کر سب نے تہیہ سفر کیا۔ خواجہ سگ پرست نے گنج اور جواہر بے شمار، نوکر اور غلام ان گنت، تحفے اور اسباب شاہانہ بہت ساتھ لے کر شہر کے باہر تنبو اور قنات اور بے چوبے اور سرا پردے اور کندے کھڑے کروا کر ان میں داخل ہوا۔ جتنے تجار تھے، اپنی اپنی بساط موافق سوداگری کا لے کر ہم راہ ہوئے برئے خود ایک لشکر ہو گیا۔

ایک دن چوگنی کو پیٹھ دے کر وہاں سے کوچ کیا۔ ہزاروں اونٹوں پر شلیتے اسباب کے اور خچروں پر صندوق نقد و جواہر کے لاد کر پانچ سو غلام دشت قبچاق اور زنگ و روم کے مسلح، صاحب شمشیر، تازی اور ترکی و عراق و عربی گھوڑے پر چڑھ کر چلے۔ سب کے پیچھے خواجہ اور سوداگر بچہ خلعت فاخرہ پہنے سکھپال پر سوار اور ایک تخت بغدادی اونٹ پر کسا، اس پر کتا مسند پر سویا ہوا، اور ان دونوں قیدیوں کے قفس ایک شتر پر لٹکائی ہوئے روانہ ہوئے۔ جس منزل پہنچے سب سوداگر خواجہ کی بارگاہ میں آ کر حاضر ہوتے۔ اور دستر خوان پر کھانا کھاتے اور شراب پیتے۔ خواجہ سوداگر بچے کے ساتھ ہونے کی خوشی میں شکر خدا کا کرتا اور کوچ در کوچ چلا جاتا تھا۔

بارے بخیر و عافیت نزدیک قسطنطنیہ کے آ پہنچے۔ باہر شہر کے مقام کیا۔ سوداگر بچے نے کہا۔ اے قبلہ اگر رخصت دیجئے تو میں جا کر ماں باپ کو دیکھوں اور مکاں صاحب کے واسطے خالی کروں۔ جب مزاج سامی میں آوے شہر میں داخل ہو جئے، خواجہ نے کہا تمہاری خاطر تو میں یہاں آیا۔ اچھا جلد مل جل کر میرے پاس آؤ۔ اور اپنے نزدیک میرے اترنے کو مکان دو۔ سوداگر بچہ رخصت ہو کر اپنے گھر میں آیا۔ سب وزیر کے محل کے آدمی حیران ہوئے کہ یہ مرد کون گھس آیا۔ سوداگر بچہ، یعنی بیٹی وزیر کی، اپنی ماں کے پاؤں پر جا گری اور روئی اور بولی کہ میں تمہاری جائی ہوں۔ سنتے ہی وزیر کی بیگم گالیاں دینے لگی کہ اے تتری تو بڑی شتا ہو نکلی۔ اپنا منہ تو نے کالا کیا اور خاندان کو رسوا کیا۔ ہم تو تیری جان کو رو پیٹ کر صبر کر کے تجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، جا دفع ہو۔ تب وزیر زادی کے سر پر پگڑی اتار کر پھینک دی اور بولی اے اماں جان میں بری جگہ نہیں گئی۔ کچھ بدی نہیں کی۔ مگر تمہارے بموجب فرمانے کے بابا کو قید سے چھڑانے کی خاطر یہ فکر کی۔ الحمد اللہ تمہاری دعا کی برکت سے اور اللہ کے فضل سے پورا کام کر کے آئی ہوں، کہ نیشا پور سے اس سوداگر مع کتے، جس کے گلے میں وہ لعل پڑے ہیں، اپنے ساتھ لائی ہوں، اور تمہاری امانت میں بھی خیانت نہیں کی۔ سفر کے لیے مردانہ بھیس کیا ہے۔ اب ایک روز کا کام باقی ہے۔ وہ کر کر قبلہ گاہ پنڈت خانے سے چھڑاتی ہوں، اور اپنے گھر میں آتی ہوں۔ اگر حکم ہو تو پھر جاؤں اور ایک روز باہر رہ کر خدمت میں آؤں۔

ماں نے جب خوب معلوم کیا کہ میری بیٹی نے مردوں کا کام کیا ہے اور اپنے تئیں سب طرح سلامت و محفوظ رکھا ہے۔ خدا کی درگاہ میں نک گھسنی کی اور خوش ہو کر بیٹی کو چھاتی سے لگا لیا۔ اور منہ چوما بلائیں لیں، دعائیں دیں اور رخصت کیا کہ تو جو مناسب جان سو کر۔ میری، خاطر جمع ہوئی۔

وزیر زادی پھر سوداگر بچہ بن کر خواجہ سگ پرست کے پاس چلی۔ وہاں خواجہ کو جدائی اس کی از بسکہ مشاق ہوئی، بے اختیار ہو کر کوچ کیا۔ اتفاقاً نزدیک شہر کے ادھر سے سوداگر بچہ جاتا تھا اور ادھر سے خواجہ آتا تھا۔ عین راہ میں ملاقات ہوئی۔ خواجہ نے دیکھے ہی کہا بابا مجھ بوڑھے کو اکیلا چھوڑ کر کہا گیا تھا؟ سوداگر بچہ بولا آپ سے اجازت لے کر اپنے گھر گیا تھا۔ آخر ملازمت کے اشتیاق نے وہاں رہنے نہ دیا۔ آ کر حاضر ہوا۔ شہر کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک باغ سایہ دار دیکھ کر خیمہ استاد کیا اور وہیں اترے۔ خواجہ اور سوداگر بچہ باہم بیٹھ کر شراب و کباب پینے لگے۔ جب عصر کا وقت ہوا، سیر تماشے کی خاطر خیمے سے نکل کر صندلیوں پر بیٹھے۔

اتفاقاً ایک قراول بادشاہی ادھر آ نکلا۔ ان کا لشکر اور نشست برخاست دیکھ کر اچنبھے ہو رہا اور دل میں کہا۔ شاید ایلچی کسو بادشاہ کا آیا ہے، کھڑا تماشا دیکھتا تھا کہ خواجہ شاطر نے اس کو آگے بلایا اور پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا میں بادشاہ کا میر شکار ہوں۔ شاطر نے خواجہ سے اس کا احوال کہا۔ خواجہ نے ایک غلام کافری کو کہا کہ جا کر باز دار سے کہہ کہ ہم مسافر ہیں۔ (اگر جہ چاہے تو آؤ بیٹھو، قہوہ قلیان حاضر ہے جب میر شکار نے سوداگر کا سنا تو زیادہ متعجب ہوا، اور یتیم کے ساتھ خواجہ کی مجلس میں آیا۔ لوازم اور شان و شوکت اور سپاہ و غلام دیکھے۔ خواجہ اور سوداگر بچے کو سلام کیا اور مرتبہ سگ کا نگاہ کیا۔ ہوش اس کے جاتے رہے۔ ہکا بکا سا ہو گیا۔ خواجہ نے اسے بٹھلا کر قہوہ کی ضیافت کی۔ قراول نے نام و نشان خواجہ کا پوچھا۔ جب رخصت مانگی خواجہ نے کئی تھان اور کچھ تحفے اس کو دے کر اجازت دی۔

صبح کو جب بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور درباریوں سے خواجہ سوداگر کا ذکر کرنے لگا، رفتہ رفتہ مجھ کو خبر ہوئی۔ میر شکار کو میں نے روبرو طلب کیا اور سوداگر کا احوال پوچھا۔ اس نے جو کچھ دیکھا تھا عرض کیا۔ سننے سے کتے کے تجمل کے اور وہ آدمیوں کے پنجرے میں قید ہونے کے مجھے کو خفگی ہوئی۔ میں نے فرمایا وہ مردود تاجر واجب القتل ہے۔ قشقچیوں کو حکم کیا کہ جلد جاؤ اس بے دین کا سر کاٹ لاؤ۔ قضا کار وہی ایلچی فرنگ کا دربار میں حاضر تھا، مسکرایا، مجھے اور بھی غضب زیادہ ہوا، فرمایا کہ اے بے ادب بادشاہوں کے حضور میں بے سبب دانت کھولنے ادب سے باہر ہیں۔ بے محل ہنسنے سے رونا بہتر ہے۔ اس سے التماس کیا۔ جہاں پناہ کئی باتیں خیال میں گزریں، لٰہذا فدوی متبسم ہوا۔ پہلے یہ کہ وزیر سچا ہے۔ اب قید خانے سے رہائی پاوے گا۔ دوسرے یہ کہ بادشاہ ناحق سے اس وزیر کے بچے۔ تیسرے یہ قبلہ عالم نے بے سبب اور بے تقصیر اس سوداگر کو حکم قتل کا کیا۔ ان حرکتوں سے تعجب آیا کہ بے تحقیق ایک بے وقوف کے کہنے سے آپ ہر کسو کو حکم قتل کر کر بیٹھے ہیں۔ خدا جانے فی الحقیقت اس خواجہ کا احوال کیا ہے، اسے حضور میں طلب کیجئے اور اس کی واردات پوچھئے اگر تقصیر وار ٹھہرے، تب مختار ہو، جو مرضی میں آوے اس سے سلوک کیجئے۔ جب ایلچی نے اس طرح سے سمجھایا، مجھے بھی وزیر کا کہنا یاد آیا۔ فرمایا جلد سوداگر کو اس کے بیٹے کے ساتھ اور وہ سگ اور قفس حاضر کرو۔ قورچی اس کے بلانے کو دوڑائے۔ وہ ایک دم میں سب کو حضور لے آئے۔ روبرو طلب کیا پہلے خواجہ اور اس کا پسر آیا۔ دونوں لباس فاخرہ پہنے ہوئے۔ سوداگر بچے کا جمال دیکھنے سے سب ادنیٰ اعلیٰ حیران اور بھیچک ہوئے۔ ایک خوان طلائی جواہر سے بھرا ہوا، کہ ہر ایک کو چھوٹ نے سارے مکان کو روشن کر دیا، سوداگر بچہ ہاتھ میں لئے آیا اور میرے تخت کے آگے نچھاور کیا، آداب کورنشات بجا لا کر کھڑا ہوا۔

خواجہ نے بھی زمین چومی اور دعا کرنے لگا اس گویائی سے بولتا تھا کہ گویا بلبل ہزار داستان ہے۔ میں نے اس لیاقت کو بہت پسند کیا، لیکن عتاب کی رو سے کہا۔ اے شیطان! آدمی کی صورت تو نے یہ کیا حال پھیلایا ہے اور اپنی راہ میں کنواں کھودا ہے؟ تیرا کیا دین ہے؟ اور یہ کون آئین ہے؟ کس پیغمبر کی امت ہے؟ اگر کافر ہے تو بھی یہ کیسی مت ہے؟ اور تیرا کیا نام ہے کہ تیرا یہ کام ہے؟ اس نے کہا قبلہ کی عمر و دولت بڑھتی رہے، غلام کا دین یہ ہے کہ خدا واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے بعد بارہ امام کو اپنا پیشوا جانتا ہوں۔ اور آئیں میرا یہ ہے کہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں، حج بھی کر آیا ہوں، اور اپنے مال سے خس زکوٰۃ دیتا ہوں، اور مسلمان کہلاتا ہوں، لیکن ظاہر میں یہ سارے عیب جو مجھ میں بھرے ہیں، جن کے سبب سے آپ ناخوش ہوئے اور تمام خلق اللہ میں بدنام ہو رہا ہوں اس کا ایک باعث ہے کہ ظاہر نہیں کر سکتا۔ ہر چند سگ پرست مشہور ہوں، اور مضاعف محصول دیتا ہوں۔ یہ سب قبول کیا ہے، پھر دل کا بھید کسو سے نہیں کہا۔"

اس بہانے سے میرا غصہ زیادہ ہوا اور کہا۔ " مجھے تو باتوں میں پھسلاتا ہے۔ میں نہیں ماننے کا، جب تلک اس اپنی گمراہی کی دلیل معقول عرض نہ کرئے کہ میرے دل نشین ہو۔ تب تو جان سے بچے گا۔ نہیں تو اس کے قصاص میں تیرا پیٹ چاک کرواؤں گا۔ تو سب کی عبرت ہو کہ بار دیگر کوئی دین محمدی میں رخنہ نہ کرے۔" خواجہ نے کہا۔ " اے بادشاہ! مجھ کم بخت کے خون سے درگزر کر۔ اور جتنا مال میرا ہے کہ گنتی اور شمار سے باہر ہے، سب کو ضبط کر لے اور مجھے اور میرے بیٹے کو اپنے تخت کے تصدق کر کر چھوڑ دے۔ اور جان بخشی کر۔"

میں نے تبسم کر کے کہا۔ " اے بیوقوف! اپنے مال کی طمع مجھے دکھاتا ہے، سوائے سچ بولنے کے اب تیری مخلصی نہیں۔" یہ سنتے ہی خواجہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے اور اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر ایک آہ بھری اور بولا۔ " میں تو پادشاہ کے روبرو گنہگار ٹھہرا، مارا جاؤں گا۔ اب کیا کروں؟ تجھے کس کو سونپوں؟" میں نے ڈانٹا کہ

" اے مکار! بس اب عذر بہت کئے، جو کہنا ہے جلد کہہ۔"

تب تو اس مرد نے قدم بڑھا کر تخت کے پاس آ کر پائے کو بوسہ دیا اور صفت و ثنا کرنے لگا اور بولا۔ " اے شہنشاہ! اگر حکم قتل کا میرے حق میں نہ ہوتا تو سب سیاستیں سہتا اور اپنا ماجرا نہ کہتا۔ لیکن جان سب سے عزیز ہے۔ کوئی آپ سے کنویں میں نہیں گرتا۔ پش جان کی محافظت واجب ہے، اور ترک واجب کا خلاف حکم خدا کے ہے۔ خیر جو مرضی مبارک یہی ہے، تو سرگزشت اس پیر ضعیف کی سنئے۔ پہلے حکم ہو کہ وہ دونوں قفس جن میں دو آدمی قید ہیں، حضور میں لا کر رکھیں۔ میں اپنا احوال کہتا ہوں۔ اگر کہیں جھوٹ کہوں تو ان سے پوچھ کر مجھے قائل کیجئے اور انصاف فرمائیے۔ مجھے یہ بات اس کی پسند آئی۔ پنجروں کو منگوا کر اس دونوں کو نکلوا کر خواجہ کے پاس کھڑا کیا۔

خواجہ نے کہا، اے بادشاہ یہ مرد جو داہنی طرف ہے، غلام کا بڑا بھائی ہے، اور جو بائیں کو کھڑا ہے منجھلا برادر ہے۔ میں ان دونوں سے چھوٹا ہوں۔ میرا باپ ملک فارس میں سوداگر تھا۔ جب میں چودہ برس کا ہوا، قبلہ گاہ نے رحلت کی۔ جب تجہیز و تکفین سے فراغت ہوئی اور پھول اٹھ چکے، ایک روز ان دونوں بھائیوں نے مجھے کہا کہ اب باپ کا ملا جو کچھ ہے تقسیم کر لیں۔ جس کا دل جو چاہے سو کام کرے۔ میں نے سن کر کہا اے بھائیو یہ کیا بات ہے؟ میں تمہارا غلام ہوں۔ بھائی چارے کا دعوی نہیں رکھتا۔ ایک باپ مر گیا۔ تم دونوں میرے پدر کی جگہ میرے سر پر قائم ہو۔ ایک نان خشک چاہتا ہوں جس میں زندگی بسر کروں اور تمہاری خدمت میں حاضر رہوں۔ مجھے حصے بخرے سے کیا کام ہے؟ تمہارے آگے کو جوٹھے سے اپنا پیٹ بھر لوں گا اور تمہارے پاس رہوں گا۔ میں لڑکا ہوں، کچھ پڑھا لکھا بھی نہیں۔ مجھ سے کیا ہو سکے گا؟ ابھی تم مجھے تربیت کرو۔ یہ سن کر جواب دیا کہ تو چاہتا ہے اپنے ساتھ ہمیں بھی خراب اور محتاج کرے۔ میں چپکا ایک گوشے میں جا کر رونے لگا۔ پھر دل کو سمجھایا کہ بھائی آخر بزرگ ہیں۔ میری تعلیم کی خاطر چشم نمائی کرتی ہیں کہ کچھ سیکھے اس فکر میں سو گیا۔ صبح کو ایک ایک پیادہ قاضی کا آیا اور مجھے دارالشرع میں لے گیا۔ وہاں دیکھا تو یہی دونوں بھائی حاضر ہیں۔ قاضی نے کہا کیوں اپنے باپ کا ورثہ بانٹ چونٹ نہیں لیتا؟ میں نے گھر میں جو کہا تھا، وہاں بھی جواب دیا۔

بھائیوں نے کہا۔ اگر یہ بات اپنے دل سے کہتا تو ہمیں لا دعویٰ لکھ دے کہ باپ کے مال و اسباب سے مجھے کچھ علاقہ نہیں۔ تب بھی میں نے یہی سمجھا کہ یہ دونوں میرے بزرگ ہیں۔ میری نصیحت کے واسطے کہتے ہیں کہ باپ کا ملا لیکر بے جا تصرف نہ کروں۔ بہ موجب ان کی مرضی کے فارغ خطبی بہ مہر قاضی میں نے لکھ دی۔ یہ راضی ہوئے۔ گھر میں آیا۔ دوسرے دن مجھ سے کہنے لگے اے بھائی یہ مکان جس میں تو رہتا ہے ہمیں درکار ہے۔ تو اپنی بود و باش کی خاطر اور جگہ لے کر جا رہ۔ تب میں نے دریافت کیا کہ باپ کی حویلی میں بھی رہنے سے خوش نہیں۔ لاچار ارادہ اٹھ جانے کا کیا۔ جہاں پناہ جب میرا باپ جیتا تھا تو جس وقت سفر سے آتا ہر ایک ملک کا تحفہ بہ طریق سوغات کے لاتا اور مجھے دیتا۔ اس واسطے کہ چھوٹے بیٹے کو ہر کوئی زیادہ پیار کرتا ہے۔ میں نے اس کو بیچ بیچ کر تھوڑی سی اپنی نج کی پونجی بہم پہنچائی تھی۔ اسی سے کچھ خرید و فروخت کرتا۔ ایک بار لونڈی میری خاطر ترکستان سے میرا باپ لایا۔ ایک دفعہ گھوڑے لے کر آیا۔ ان میں سے ایک بچھڑا تا کند کہ ہونہار تھا، وہ بھی مجھے دیا۔ میں اپنے پاس سے دانہ گھاس کا اس کا کرتا تھا۔

آخر ان کی بے مروتی دیکھ ایک حویلی خریدی کی۔ وہاں جا رہا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ چلا آیا۔ واسطے ضروریات کے اسباب خانہ داری کا جمع کیا اور وہ غلام خدمت خاطر مول لئے اور باقی پونجی سے ایک دکان بزازی کی کر کے خدا کے توکل پر بیٹھا۔ اپنی قسمت پر راضی تھا۔ اگرچہ بھائیوں نے بد خلقی کی، پر خدا جو مہربان ہوا، تین برس کے عرصے میں ایسی دکان جمی کہ میں صاحب اعتبار ہوا۔ سب سرکاروں میں جو تحفہ چاہتا میری ہی دکان سے جاتا۔ اس میں بہت سے روپے کمائے اور نہایت فراغت سے گزرنے لگی۔ ہر دم جناب باری شکرانہ کرتا اور آرام سے رہتا۔ یہ کبت اکثر اپنے احوال پر پڑھتا:

روٹھے کیوں نہ راجا، واتیں کچھ ناہیں کاجا
ایک تو سے مہاراجا، اور کون کو سراہیے
روٹھے کیوں نہ بھائی واتیں کچھ نہ بسائیں
ایک تو ہی بے سہائی، اور کون پاس جائیے
روٹھے کیوں نہ متر، ستر آٹھوں جام
ایک راوے چرن کے نہیہ کو نبھائیے
سنسار ہے روٹھا، ایک تو ہے انوٹھا
سب چومیں گے انگوٹھا، ایک تو نہ روٹھا چاہیے

اتفاقاً جمعے کے روز میں اپنے گھر بیٹھا تھا کہ ایک غلام میرا سودا سلف کو بازار گیا تھا۔ بعد میں ایک دم کے روتا ہوا آیا۔ میں نے سبب پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ خفا ہو کر بولا کہ تمہیں کیا کام ہے؟ تم خوشی مناؤ، لیکن قیامت میں کیا جواب دو گے؟ میں نے کہا اے حبشی! ایسی کیا بلا تجھ پر نازل ہوئی؟ اس نے کہا یہ غضب ہے کہ تمہارے بڑے بھائیوں کی چوک کے چوراہے میں ایک یہودی نے مشکیں باندھی ہیں، اور قمچیاں مارتا ہے۔ اور ہنستا ہے کہ اگر میرے روپے نہ دو گے تو مارتے مارتے مار ہی ڈالوں گا۔ بھلا مجھے ثواب تو ہو گا۔ پس تمہارے بھائیوں کی یہ نوبت اور تم بے فکر ہو؟ یہ بات اچھی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے؟ یہ بات غلام سے سنتے ہی لہو نے جوش کیا۔ ننگے پاؤں بازار کی طرف دوڑا اور غلاموں کو کہا جلد روپے لے کر آؤ۔ جونہی وہاں گیا، دیکھا جو جو غلام نے کہا تھا سچ ہے ان پر مار پڑ رہی ہے۔ حاکم کے پیادوں کو کہا۔ واسطے خدا کے ذرا ٹھہر جاؤ۔ میں یہودی سے پوچھوں کہ ایسی کیا تقصیر کی ہے، جس کے بدلے یہ تعزیر کی ہے؟

یہ کہہ کر میں یہودی کے نزدیک گیا اور کہا آج روز آدینہ ہے۔ ان کو کیوں ضرب شاق کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا اگر حمائت کرتے ہو تو پوری کرو۔ ان کے عوض روپے حوالے کرو۔ نہیں تو اپنے گھر کی راہ لو۔ میں نے کہا، کیسے روپے؟ دستاویز نکال، میں روپے گن دیتا ہوں۔ اس نے کہا تمسک حاکم کے پاس دے آیا ہوں۔ اس میں تیرے دونوں غلاموں دویدرہ روپے لے کر آئے۔ ہزار میں یہودی کو دیئے اور بھائیوں کو چھڑایا۔ ان کی یہ صورت ہو رہی تھی کہ بدن سے ننگے اور بھوکے پیاسے اپنے ہمراہ گھر میں لایا۔ وونہیں حمام میں نہلوایا پوشاک پہنائی۔ کھانا کھلایا۔ برگزاں سے یہ نہ کہا کہ اتنا مال باپ کا تم نے کیا کیا؟ شاید شرمندہ ہوں۔

اے بادشاہ یہ دونوں موجود ہیں، پوچھے کہ سچ کہتا ہوں یا کوئی بات جھوٹ بھی ہے؟ خیر جب کئی دن میں مار کی گرفت سے بحال ہوئے، ایک روز میں نے کہا کہ اے بھائیوں اب اس شہر میں تم بے اعتبار ہو گئے ہو، بہتر یہ ہے کہ چند روز سفر کرو۔ یہ سن کر چپ ہو رہے۔ میں نے معلوم کیا کہ راضی ہیں، سفر کی تیاری کرنے لگا۔ پال پر تل، باربرداری، اور سواری کی فکر کر کے بیس ہزار کی جنس تجارت خرید کر دی۔ ایک قافلہ سوداگروں کا بخارے کو جاتا تھا ان کے ساتھ کر دیا۔

بعد ایک سال کے وہ کارواں پھر آیا۔ ان کی خیر خبر کچھ نہ پائی۔ آخر ایک آشنا سے قسمیں دے کر پوچھا۔ اس نے کہا جب بخارے میں گئے ایک نے جوئے میں اپنا تمام مال ہار دیا۔ اب وہاں کی جاروب کشی کرتا ہے اور پھڑ کو لیپتا پوتتا ہے۔ جواری جو جمع ہوتے ہیں، ان کی خدمت کرتا ہے، وہ بطریق خیرات کے کچھ دے دیتے ہیں وہاں گرگا بنا پڑا رہتا ہے۔ اور دوسرا بوزہ فروش کی لڑکی پر عاشق ہوا، اپنا مال سارا صرف کیا۔ اب وہ بوزہ خانے کی ٹہل کرتا ہے۔ قافلے کے آدمی اس لیے نہیں کہتے کہ تو شرمندہ ہو گا۔

یہ احوال اس شخص سے سن کر میری عجب حالت ہوئی۔ مارے فکر کے نیند بھوک جاتی رہی، زاد راہ لے کر قصد بخارے کا کیا۔ جب وہاں پہنچا دونوں کو ڈھونڈا اور اپنے مکان میں لایا۔ غسل کروا کر نئی پوشاک پہنائی اور ان کی خجالت کے ڈر سے ایک بات منہ پر نہ رکھی۔ پھر مال سوداگری کا ان کے واسطے خریدا اور ارادہ گھر کا کیا، جب نزدیک نیشاپور کے آیا، ایک گاؤں میں بہ مع مال اسباب ان کو چھوڑ کر گھر میں آیا۔ اس لیے کہ میرے آنے کی کسی کو خبر نہ تھی۔

بعد دو دن کے مشہور کیا کہ میرے بھائی سفر سے آئے ہیں کل ان کے استقبال کی خاطر جاؤں گا۔ صبح کو چاہا کہ جاؤں۔ ایک گرہست اسی موضع کا میرے پاس آیا اور فریاد کرنے لگا۔ میں اس کی آواز سن کر باہر نکلا۔ اسے روتا دیکھ کر پوچھا کیوں زاری کرتا ہے؟ بولا تمہارے بھائیوں کے سبب سے ہمارے گھر لوٹے گئے۔ کاش کہ ان کو تم وہاں نہ چھوڑ آتے!

میں نے پوچھا کیا مصیبت گزری؟ بولا کہ رات کو ڈاکا آیا، ان کا مال و اسباب لوٹا اور ہمارا گھر بھی لوٹ گئے۔ میں نے افسوس کیا اور پوچھا کہ اب وہ دونوں کہاں ہیں؟ کہا شہر کے باہر ننگے، خراب خستہ بیٹھے ہیں۔ اور یہ مارے شرمندگی کے باہر نہ نکلتے تھے۔

تین مہینے اسی طرح گزرے۔ تب میں نے اپنے دل میں غور کیا کہ کب تلک یہ کونے میں دبکے بیٹھے رہیں گے۔ بنے تو ان کو اپنے ساتھ سفر میں لے جاؤں۔ بھائیوں سے کہا۔ اگر فرمائیے تو فدوی آپ کے ساتھ چلے؟ یہ خاموش ہو رہے۔ پھر لوازمہ سفر کا اور جنس سوداگری کر کے چلا اور ان کو ساتھ لیا۔

جنس مال کی زکوٰۃ دے کر اسباب کشتی پر چڑھایا اور لنگر اٹھایا، ناؤ چلی یہ کتا کنارے پر سو رہا تھا۔ جب چونکا اور جہاز کو مانجھ دھار میں دیکھا، حیران ہو کر بھونکا اور دریا میں کود پڑا اور تیرنے لگا۔ میں نے ایک پسوئی دوڑا دی۔ بارے سگ کو لے کر کشتی میں پہنچایا۔

ایک مہینہ خیرو عافیت سے دریا میں گزرا۔ کہیں منجھلا بھائی لونڈی پر عاشق ہوا۔ ایک دن بڑے بھائی سے کہنے لگا کہ چھوٹے بھائی کی منت اٹھانے سے بڑی شرمندگی حاصل ہوئی۔ اس کا تدارک کیا کریں؟ بڑے نے جواب دیا کہ ایک صلاح دل میں ٹھہرائی ہے۔ اگر بن آوے تو بڑی بات ہے۔ آخر دونوں نے مصلحت کر کے تجویز کی کہ اسے مار ڈالیں اور سارے اسباب کے قابض متصرف ہوں۔

ایک دن میں جہاز کی کوٹھڑی میں سوتا تھا اور لونڈی پاؤں داب رہی تھی کہ منجھلا بھائی آیا اور جلدی سے مجھے جگایا۔ میں ہڑبڑا کر چونکا اور باہر نکلا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ ہو لیا۔ دیکھوں تو بڑا بھائی جہاز کی باڑ پر ہاتھ ٹیکے نہیوڑا ہوا تماشا دریا کا دیکھ رہا ہے اور مجھے پکارتا ہے۔ میں نے پاس جا کر کہا خیر تو ہے؟ بولا عجب طرح کا تماشا ہو رہا ہے کہ دریائی آدمی موتی کی سیپیاں اور مونگے کے درخت ہاتھ میں لیے ہوئے ناچتے ہیں۔ اگر اور کوئی ایسی بات خلاف قیاس کہتا تو میں نہ مانتا۔ بڑے بھائی کے کہنے کو راست جانا دیکھنے کو سر جھکایا۔ ہر چند نگاہ کی، کچھ نظر نہ آیا اور وہ یہی کہتا رہا، اب دیکھا؟ لیکن کچھ ہو تو دیکھوں۔ اس میں مجھے غافل پا کر منجھلے نے اچانک پیچھے آ کر ایسا دھکیلا کہ بے اختیار پانی میں گر پڑا۔ اور وہ رونے دھونے لگے کہ دوڑیو! ہمارا بھائی دریا میں ڈوبا۔ اتنے میں ناؤ بڑھ گئی اور دریا کی لہر مجھے کہیں سے کہیں لے گئی۔ غوطے پر غوطے کھاتا تھا اور موجوں میں چلا جاتا تھا۔ آخر تھک گیا۔ خدا کو یاد کرتا تھا، کچھ بس نہ چلتا تھا۔ یکبارگی کسو چیز پر ہاتھ پڑا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو یہی کتا ہے۔ شاید جس دم مجھے دریا میں ڈالا، میرے ساتھ یہ بھی کودا اور تیرتا ہوا میرے ساتھ لپٹا چلا جاتا تھا۔ میں نے اس کی دم پکڑ لی۔ اللہ نے اس کو میری زندگی کا سبب کیا، سات دن اور رات یہی صورت گزری۔ آٹھویں دن کنارے جا لگے۔ طاقت مطلق نہ تھی، لیٹے لیٹے کروٹیں کھا کر جوں توں اپنے تئیں خشکی میں ڈالا۔

ایک دن بے ہوش پڑا رہا۔ دوسرے دن کتے کی آواز کان میں گئی۔ ہوش میں آیا، خدا کا شکر بجا لایا، ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ دور سے شہر کا سواد نظر آیا لیکن قوت کہاں کہ ارادہ کروں! لاچار قدم چلتا پھر بیٹھتا۔ اسی حالت سے شام تک کوس بھر راہ کاٹی۔ بیچ میں ایک پہاڑ ملا۔ رات کو وہاں گر رہا۔ صبح کو شہر میں داخل ہوا۔ جب بازار میں گیا۔ نان بائی اور حلوائیوں کی دکانیں نظر آئیں، دل ترسنے لگا۔ نہ پاس پیسا جو خرید کروں۔ نہ جی چاہے کہ مفت مانگوں۔ اسی طرح اپنے دل کو تسلی دیتا ہوا کہ دکان سے لوں گا، چلا جاتا تھا۔ آخر طاقت نہ رہی اور پیٹ میں آگ لگی۔ نزدیک تھا کہ روح بدن سے نکلے، ناگاہ دو جوان کو دیکھا کہ لباس عجم کا پہنے، اور ہاتھ پکڑے چلے آتے تھے۔ ان کو دیکھ کر خوش ہوا کہ یہ اپنے ملک کے انسان ہیں شاید آشنا صورت ہو، ان سے اپنا احوال کہوں گا۔ جب نزدیک آئے تو میرے دونوں برادر حقیقی تھے۔ دیکھ کر نپٹ شاد ہوا۔ شکر خدا کا آیا کہ خدا نے آبرو رکھ لی۔ غیر کے آگے ہاتھ نہ پسارا۔ نزدیک جا کر سلام کیا اور بڑے بھائی کا ہاتھ چوما۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی غل و شور کیا۔ منجھلے نے طمانچہ مارا کہ میں لڑکھڑا گر پڑا۔ بڑے بھائی کا دامن پکڑا کہ شاید یہ حمایت کرے گا۔ اس نے لات ماری۔

غرض دونوں نے مجھے خوار و خام کیا، اور حضرت یوسف کے بھائیوں کا سا کام کیا۔ ہرچند میں نے خدا کے واسطے دیے اور گھگھیا ہر گز رحم نہ کھایا۔ ایک خلقت اکٹھی ہوئی۔ سب نے پوچھا اس کا کیا گناہ ہے؟ تب بھائیوں نے کہا۔ یہ حرام زادہ مدتوں سے تلاش میں تھے، آج اس صورت سے نظر آیا۔ اور مجھ سے پوچھتے تھے کہ اے ظالم! یہ کیا تیرے دل میں آیا کہ ہمارے بھائی کو مار کھپایا! کیا اس نے تیری تقصیر کی تھی۔ ان نے تجھ سے کیا برا سلوک کیا تھا کہ اپنا مختار بنایا تھا؟ پھر ان دونوں نے اپنے گریبان چاک کر ڈالے، اور بے اختیار جھوٹھ موٹھ بھائی کی خاطر روتے تھے، اور لات مکے مجھ پر کرتے تھے۔

اس میں حاکم کے پیادے آئے۔ ان کو ڈانٹا کہ کیوں مارتے ہو؟ اور میرا ہاتھ پکڑا کوتوال کے پاس لے گئے۔ یہ دونوں بھی ساتھ چلے اور حاکم سے بھی یہی کہا، اور بطور رشوت کے کچھ دے کر اپنا انصاف چاہا اور خون ناحق کا دعویٰ کیا۔ حاکم نے مجھ سے پوچھا۔ میری یہ حالت تھی کہ مارے بھوک اور پیٹ کے طاقت گویائی کی نہ تھی۔ سر نیچے کھڑا تھا کہ کچھ منہ سے جواب نہ نکلا۔ حاکم کو بھی یقین ہوا کہ یہ مقرر خونی۔ فرمایا کہ اسے میدان میں لے جا کر سولی دو۔ جہاں پناہ! میں نے روپے دے کر ان کو یہودی کی قید سے چھڑایا تھا۔ اس کے عوض انہوں نے بھی روپے خرچ کر کے میری جان کا قصد کیا، یہ دونوں حاضر ہیں۔ ان سے پوچھیے اس میں سرِ مو تفاوت کہتا ہوں؟ خیر مجھے لے گئے۔ جب دار کو دیکھا، ہاتھ زندگی سے دھوئے سوائے اس کتے کے کوئی میرا رونے والا نہ تھا۔ اس کی یہ حالت تھی کہ آدمی کے پاؤں میں لوٹتا اور چلاتا تھا۔ کوئی لکڑی کوئی پتھر سے مارتا لیکن یہ اس جگہ سے نہ سرکتا۔ اور میں رو بہ قبلہ کھڑا ہو خدا سے کہتا تھا کہ اس وقت میں تیری ذات کے سوا میرا کوئی نہیں، جو آڑے آوے اور بے گناہ کو بچاوے، اب تو ہی بچائے تو بچتا ہوں۔ یہ کہہ کر کلمہ شہادت کا پڑھ کر تیورا کر گر پڑا۔

خدا کی حکمت سے اس شہر کے بادشاہ کو قولنج کی بیماری ہوئی۔ امراء اور حکیم جمع ہوئے، جو علاج کرتے تھے، فائدہ نہ ہوتا تھا۔ ایک بزرگ نے کہا کہ سب سے بہتر یہ دوا ہے، کہ محتاجوں کو کچھ خیرات کرو اور بندی خانوں کو آزاد کرو۔ دوا سے دعا میں بڑا اثر ہے۔ وونہیں بادشاہی چیلے پنڈت خانوں کی طرف دوڑے۔ اتفاقاً ایک اس میدان میں آ نکلا اژدحام دیکھ کر معلوم کیا کہ کسو کو یہاں چڑھاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی گھوڑے کو دار کے نزدیک لا کر تلوار سے طنابیں کاٹ دیں۔ حاکم کے پیادوں کو ڈانٹا اور تنبیہ کی کہ ایسے وقت میں کہ بادشاہ کی یہ حالت ہے، تم خدا کے بندے کو قتل کرتے ہو، اور مجھے چھڑوا دیا۔ تب یہ دونوں بھائی پھر حاکم کے پاس گئے۔ اور میرے قتل کے واسطے کہا۔ شحنہ نے تو رشوت کھائی تھی، جو یہ کہتے تھے سو کرتا تھا۔ کوتوال نے ان سے کہا خاطر جمع رکھو۔ اب میں ایسا قید کرتا ہوں کہ آپ سے آپ مارے بھوکوں کے لیے بے آب و دانہ مر جاوے۔ کسو کو خبر نہ ہووے۔ مجھے پکڑ لائے اور ایک گوشے میں رکھا۔ اس شہر سے باہر کوس ایک پر ایک پہاڑ تھا کہ حضرت سلیمان کے وقت میں دیوؤں نے ایک کنواں تنگ و تاریک اس میں کھودا تھا۔ اس کا نام زندان سلیمان کہتے تھے، جس پر بڑا غضب بادشاہی ہوتا، اسے وہاں محبوس کرتے۔ وہ خودبخود مر جاتا۔ رات کو چپکے یہ دونوں بھائی اور کوتوال کے ڈنڈے مجھے اس پہاڑ پر لے گئے اور غار میں ڈال کر اپنی خاطر جمع کر کے پھر اے بادشاہ! یہ کتا میرے ساتھ چلا۔ جب مجھے کنویں میں گرایا، تب یہ اس کے مینڈ پر لیٹ رہا۔ میں اندر بے ہوش پڑا تھا۔ ذرا سرت آئی تو میں اپنے تئیں مردہ خیال کیا اور اس مکان کو گور سمجھا۔ اس میں دو شخصوں کی آواز کان میں پڑی کہ کچھ آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ یہی معلوم کیا کہ منکر نکیر ہیں مجھ سے سوال کرنے آئے ہیں۔ سرسراہٹ رسی کی سنی، جیسے کسو نے وہاں لٹکائی۔ میں حیرت میں تھا زمین کو ٹٹولتا تو ہڈیاں ہاتھ میں آتیں۔

بعد ایک ساعت کے آواز چپڑ چپڑ منہ چلانے کی میرے کان میں آئی۔ جیسے کوئی کچھ کھاتا ہے میں نے پوچھا کہ اے خدا کے بندو! تم کون ہو؟ خدا کے واسطے بتاؤ۔ وہ ہنسے اور بولے۔ یہ زندان مہتر سلیمان کا ہے۔ اور ہم قیدی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا۔ کیا میں جیتا ہوں؟ پھر کھلکھلا کر ہنسے اور کہا۔ اب تلک تو تو زندہ ہے، پر اب مرے گا۔ میں نے کہا تم کیا کھاتے ہو جو ہو مجھے بھی تھوڑا سا دو۔ تب جھنجھلا کر خالی جواب دیا اور کچھ نہ دیا۔ وہ کھا پی کر سو رہے۔ اور میں مارے ضعف و ناتوانی کے غش میں پڑا روتا تھا اور خدا کو یاد کرتا تھا۔ قبلہ عالم! سات دن دریا میں اور اتنے بھائیوں کے بہتان کے سبب دانہ میسر نہ آیا، علاوہ کھانے کے مار پیٹ کھائی، اور ایسے زندان میں پھنسا کہ صورت رہائی کی مطلق خیال میں نہ آتی تھی۔ آخر جان کندنی کی نوبت پہنچی۔ کبھو دم آتا کبھو نکل جاتا تھا، لیکن کبھو کبھو آدھی رات کو ایک شخص آتا اور رومال میں روٹیاں اور پانی کی صراحی ڈوری میں باندھ کر لٹکا دیتا اور پکارتا۔ وہ دونوں آدمی جو میرے پاس محبوس تھے، لے لیتے اور کھاتے پیتے۔ اوپر سے کتے نے یہ ہمیشہ احوال دیکھتے دیکھتے عقل دوڑائی کہ جس طرح یہ شخص آب و نان کنویں میں لٹکا دیتا ہے تو بھی ایسی فکر کر کہ اس بے کس جو میرا خاوند ہے آزوقہ پہنچے تو اس کا دم بچے۔ یہ خیال کر کے شہر میں گیا۔ نان بائی کی دکان پر میز پر گردے چنے ہوئے دھرے تھے۔ جست مار کر ایک کلچہ منہ میں لیا اور بھاگی۔ لوگ پیچھے دوڑے، ڈھیلے مارتے۔ لیکن اس نے نان کو نہ چھوڑا۔ آدمی تھک کر پھرے۔ شہر کے کتے پیچھے لگے ان سے لڑتا بھڑتا روٹی کو بچائے اس چاہ پر آیا، اور نان کو اندر ڈال دیا۔ روز روشن تھا۔ میں نے روٹی کو اپنے پاس پڑا دیکھا اور کتے کی آواز سنی۔ کلچے کو اٹھا لیا۔ اور یہ کتا روٹی پھینک کر پانی کی تلاش میں گیا۔

کسی گاؤں کے کنارے ایک بڑھیا کی جھونپڑی تھی۔ ٹھلیا اور بندھا پانی سے بھرا ہوا دھرا تھا پیر زن چرخا کاتتی تھی۔ کتا کوزے کے نزدیک گیا چاہا کہ لوٹے کو اٹھاوے۔ عورت نے ڈانٹا۔ لوٹا اس کے منہ سی چھٹا، گھڑے پر گرا، گھڑا پھوٹا، باقی باسن لڑکھ گئے، پانی بہہ چلا۔ بڑھیا لکڑی لے کر مارنے کو اٹھی۔ یہ سگ اس کے دامن میں لپٹ گیا۔ پھر اس کے پاؤں پر منہ ملنے اور دم ہلانے لگا۔ اور پہاڑ کی طرف دوڑ گیا۔ پھر اس پاس آ کر کبھی رسی اٹھاتا۔ کبھو ڈول منہ میں پکڑ کر دکھاتا، اور منہ اس کے قدموں پر رگڑتا، اور آنچل چادر کا پکڑ کر کھینچتا۔ خدا نے اس عورت کے دل میں رحم دیا کہ ڈول رسی کو لے کر اس کے ہمراہ چلی۔ یہ اس کا آنچل پکڑے گھر سے باہر ہو کر آگے آگے ہو لیا۔

آخر اس کو پہاڑی پر لے آیا۔ عورت کے جی میں کتے کی اس حرکت سے الہام ہوا کہ اس کا میاں مقرر اس غار میں گرفتار ہے۔ شاید اس کی خاطر پانی چاہتا ہے۔ غرض پیر زن کو لیے ہوئے غار کے منہ پر آیا۔ عورت نے لوٹا پانی کا بھر کر رسی سے لٹکایا۔ میں نے وہ باسن لے لیا۔ اور نان کا ٹکڑا کھایا۔ دو تین گھونٹ پانی پیا، اس پیٹ کے کتے کو راضی کیا۔ خدا کا شکر کر کر ایک کنارے بیٹھا اور خدا کی رحمت کا منتظر تھا کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے؟ یہ حیوان بے زبان اسی طور سے نان لے آتا اور بڑھیا کے ہاتھ پانی پلواتا۔

جب بھٹیاروں نے دیکھا کہ کتا ہمیشہ روٹی لے جاتا۔ ترس کھا کر مقرر کہ جب اسے دیکھتے، ایک گروا اس کے آگے پھینک دیتے۔ اگر وہ عورت پانی نہ لاتی، تو یہ اس کے باسن پھوڑ ڈالتا۔ لاچار وہ بھی ہر روز ایک صراحی پانی کی دے جاتی، اس رفیق نے آب و نان سے میری خاطر جمع کی اور آپ زندانی کے منہ پر پڑا رہتا۔ اس طرح چھ مہینے گزرے، لیکن جو آدمی ایسی زندان میں رہے کہ دنیا کی ہوا اس کے نہ لگے اس کا کیا حال ہوا۔ نرا پوست داستخوان مجھ میں باقی رہا۔ زندگی وبال ہوئی۔ جی میں آوے کہ یا الٰہی! یہ دن نکل جاوے تو بہتر ہے۔

ایک روز رات کے وہ دونوں قیدی سوتے تھے۔ مرا دل امنڈ آیا۔ بے اختیار رونے لگا اور خدا کی درگاہ میں نک گھسنی کرنے لگا۔ پچھلے پہر کیا دیکھتا ہوں کہ خدا کی قدرت سے ایک رسی غار میں لٹکی۔ اور آواز سج میں آئی اے کم بخت بد نصیب ڈوری کا سرا اپنے ہاتھ میں مضبوط باندھ اور یہاں سے نکل۔

میں نے سن کر دل میں خیال کیا کہ آخر بھائی مجھ پر مہربان ہو کر لہو کے جوش سے آپ ہی نکالنے آئے۔ نہایت خوشی سے اس طناب کو کمر میں خوب کسا۔ کسو نے مجھے اوپر کھینچا۔ رات ایسی اندھیری تھی کہ جن نے مجھے نکالا۔ اس کو نہ پہچانا۔ کہ کون ہے۔ جب میں باہر آیا، تب اس نے کہا، جلد آ، یہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں۔مجھ میں طاقت تو نہ تھی، پر مارے ڈر کے لڑھکتا پڑتا پہاڑ سے نیچے آیا۔ دیکھوں تو دو گھوڑے زین بندھے ہوئے کھڑے ہیں۔ اس شخص نے ایک پر مجھے سوار کیا، اور ایک پر آپ چڑھ لیا۔ اور آگے ہوا۔ جاتے جاتے دریا کنارے پر پہنچا۔

صبح ہو گئی۔ اس شہر سے دس بارہ کوس نکل آئے۔ اس جوان کو دیکھا کہ اوپچی بنا ہوا زرہ بکتر پہنے چار آئنہ باندھے گھوڑے پر پاکھر ڈالے، میری طرف غضب کی نظروں سے گھر کر اور ہاتھ اپنا دانتوں سے کاٹ کر تلوار میان سے کھینچی اور گھوڑے کو جست کر مجھ پر چلائی۔ میں نے اپنے تئیں گھوڑے پر سے نیچے گرا دیا اور گھگھیانے لگا میں بے تقصیر ہوں، مجھے کیوں قتل کرتا ہے؟ اے صاحب مروت! ایسے زندان سے میرے تئیں تو نے نکالا۔ اب یہ بے مروتی کیا ہے؟ اس نے کہا۔ سچ کہہ تو کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ مسافر ہوں ناحق کی بلا میں گرفتار ہو گیا تھا۔ تمہارے تصدق سے باہر جیتا نکلا ہوں۔ اور باتیں خوشامد کی کیں۔

خدا نے اس کے دل میں رحم کیا۔ شمشیر کو غلاف کیا اور بولا خیر خدا جو چاہے سو کرے۔ جا تیری جان بخشی کی۔ جلد سوار ہو۔ یہاں توقف کا مکان نہیں۔ گھوڑوں کو جلد کیا اور چلے۔ راہ میں افسوس کھاتا اور پچھتاتا جاتا تھا۔ ظہر کی وقت تک ایک جزیرے میں جا پہنچے۔ وہاں گھوڑے سے اترا۔ مجھے بھی اتارا زین خوگیر مرکیوں کی پیٹھ سے کھولا اور چرنے کو چھوڑ دیا۔ اپنی بھی کمر سے ہتھیار کھول ڈالے اور بیٹھا۔ مجھ سے بولا۔ اے بد نصیب! اب اپنا احوال کہہ تو معلوم ہو کہ تو کون ہے۔ میں نے اپنا نام بتایا، اور جو کچھ بپتا بتی تھی، اس سے آخر تک کہی۔

اس جوان نے جب میری سرگزشت سب سنی رونے لگا۔ اور مخاطب ہوا کہ اے جوان! اب میرا ماجرا سن۔ میں کنیا زیرباد کے دیس کے راجہ کی بیٹی ہوں۔ اور وہ گبرو جو زندان سلیمان میں قید ہے، اس کا نام بہرہ مند ہے۔ میرے پتا کے منتری کا بیٹا ہے۔ ایک روز مہاراج نے آگیا دی کہ جتنے راجہ اور کنور ہیں، میدان میں زیر جھروکے نکل کر تیر اندازی اور چوگان بازی کریں تو گھڑ چڑھی اور کسب ہر ایک کا ظاہر ہو۔ میں رانی کے نیڑے میں جو میری ماتا تھیں، ٹھاری پر اوجھل بیٹھی تھی۔ اور دائیاں اور سہیلیاں حاضر تھیں تماشا دیکھتی تھی۔ یہ دیوان کا پوت سب میں سندر تھا، اور گھوڑے کو کاوے دے کر کسب کر رہا تھا۔ مجھ کو بھایا اور دل سے اس پر ریجھی مدت تلک یہ بات گپت رکھی۔

آخر جب بہت بیاکل ہوئی، تو دائی سے کہا اور ڈھیر سا انعام دیا۔ وہ اس جوان کو کسو نہ کر ڈھپ سے پوشیدہ میری دھراھر میں لے آئی، تب یہ بھی مجھے چاہنے لگا۔ بہت دن اس عشق مشک میں کٹے۔

ایک روز چوکی داروں نے آدھی رات کو ہتھیار باندھے اور محل میں آتے دیکھ کر اسے پکڑا اور راجہ سے کہا۔ اسے حکم قتل کا کیا۔ سب اراکان دولت نے کہہ سن کر جان بخشی کروائی۔ تب فرمایا کہ اس کو زندان سلیمان میں ڈال دو اور دوسرا جوان جو اس کے ہمراہ اسیر ہے اس کا بھگنا ہے۔ اس دن کو وہ بھی اس کے ساتھ تھا۔ دونوں کو اس کنویں میں چھوڑ دیا۔ آج تین برس ہوئے کہ وہ پھنسے ہیں۔ مگر کسو نے نہیں دریافت کیا کہ یہ جوان راجہ کے گھر میں کیوں آیا تھا۔ بھگوان نے میری پت رکھی۔ اس شکرانے کے بدلے میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ ان اور جل اس کو پہنچایا کروں۔ جب سے اٹھواڑے میں ایک دن آتی ہوں اور آٹھ دن کا آزوقہ اکٹھا دے جاتی ہوں۔ کل کی رات سپنے میں دیکھا کہ کوئی مانس کہتا ہے کہ شتابی اٹھ اور گھوڑا جوڑا اور کمند اور کچھ نقد خرچ کے واسطے لے کر اس غار پر جا اور اس بچارے کو وہاں سے نکال۔ یہ سن کر میں چونک پڑے اور مگن ہو کر مردانہ بھیس کیا، اور ایک صندوقچہ جواہر و اشرفی سے بھر لیا۔ اور یہ گھوڑا اور کپڑا جوڑا لے کر وہاں گئی کہ کمند سے اسے کھینچوں۔ کرم میں تیری تھا کہ ویسی قید سے اس طرح چھٹکارا پاوے۔ اور میرے اس کرتب سے محرم کوئی نہیں، شاید وہ کوئی دیوتا تھا کہ تیری مخلصی کی خاطر مجھے بھجوایا۔ خیر جو میرے بھاگ میں تھا سو ہوا۔ یہ کتھا کہہ کر پوری کچوری، اس کا سالن انگوچھے سے کھولا۔ پہلے قند نکال ایک کٹورے میں گھولا اور عرق بید مشک کا اس میں ڈال کر مجھے دیا۔ میں نے اس کے ہاتھ لے کر پیا۔ پھر تھوڑا سا ناشتہ کیا۔ بعد ایک ساعت کے میرے تئیں لنگی بندھوا کر دریا میں لے گئی۔ قینچی سے میری سر کے بال کترے، ناخن لیے، نہلا دھلا کر کپڑے پہنائے۔ نئے سر سے آدمی بنایا۔ میں دوگانہ شکرانے کا رو بہ قبلہ ہو کر پڑھنے لگا۔ وہ نازنین اس میری حرکت کو دیکھتی رہی۔

جب نماز سے فارغ ہوا، پوچھنے لگی کہ یہ تو نے کیا کام کیا؟ میں نے کہا جس خالق نے ساری خلقت کو پیدا کیا اور تجھ سی محبوبہ سے میری خدمت کروائی اور تیرے کو مجھ پر مہربان کیا اور ویسے زندان سے خلاص کروایا اس کی ذات لاشریک ہے اس کی میں نے عبادت کی اور بندگی بجا لایا۔ اور ادائے شکر کیا۔ یہ بات سن کر کہنے لگی تم مسلمان ہو؟ میں کہا شکر الحمد للہ، بولی۔ میرا دل تمہاری باتوں سے خوش ہوا۔ میرے تئیں جبھی سکھاؤ اور کلمہ پڑھاؤ۔ میں نے دل میں کہا الحمد للہ کہ یہ ہمارے دین کی شریک ہوئی۔

غرض میں نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا، اور اس سے پڑھوایا۔ پھر وہاں سے گھوڑوں پر سوار ہو کر ہم دونوں چلے۔ رات کو اترتے تو وہ ذکر دین ایمان کا کرتی اور سنتی اور خوش ہوتی۔ اسی طرح دو مہینے تلک پیہم شبانہ روز چلتے گئے۔ آ کر ایک ولایت میں پہنچے کہ درمیان سرحد ملک زیر باد اور سراندیپ کے تھی۔ ایک شہر نظر آیا کہ آبادی میں استنبول سے بڑا اور آب و ہوا بہت خوش اور موافق۔ بادشاہ اس شہر کا کسری سے زیادہ عادل اور رعیت پرور دیکھ کر دل نپٹ شاد ہوا۔ ایک حویلی خرید کر بود و باش مقرر کی۔ جب کئی دن میں رنج سفر سے آسودہ ہوئے کچھ اسباب ضروری درست کر کے اس بی بی سے موافق شرع محمدی کے نکاح کیا اور رہنے لگا۔ تین سال میں وہاں کے اکابر و اصاغر سے مل جل کر اعتبار بہم پہنچایا۔ اور تجارے کا ٹھاٹھ پھیلایا۔ آخر وہاں کے سب سوداگروں سے سبقت لے گیا۔

ایک روز وزیر اعظم کی خدمت میں سلام کے لئے چلا۔ ایک میدان میں کثرت خلق اللہ کی دیکھی، کسو سے پوچھا کیوں اتنا ازدحام ہے؟ معلوم ہوا کہ دو شخصوں کو زنا اور چوری کرتے پکڑا ہے، اور شاید خون بھی کیا ہے، ان کو سنگسار کرنے کو لائے ہیں۔ مجھے سنتے ہی اپنا احوال یاد آیا کہ ایک دن مجھے بھی اس طرح سولی چڑھانے لے گئے تھے۔ خدا نے بچایا۔ آیا یہ کون ہوں گے کہ ایسی بلا میں گرفتار ہوئے ہیں؟ معلوم نہیں کہ راست ہے یا میری طرح تہمت میں گرفتار ہوئے ہیں۔ بھیڑ کو چیر کر اندر گھسا۔ دیکھا تو یہی میرے دونوں بھائی ہیں کہ ٹنڈیاں کسے، سروپا برہنہ ان کو لیے جاتے ہیں۔ ان کی صورت دیکھتے ہی خون نے جوش کیا اور کلیجہ جلا۔ محصول کو ایک مٹھی اشرفیاں دیں، اور کہا ایک ساعت توقف کرو۔ اور وہاں سے گھوڑے کو سرپٹ پھینک کر حاکم کے گھر گیا۔ ایک دانہ یاقوت بے بہا کا نذر گزرانا اور ان کی شفاعت کی۔ حاکم نے کہا۔ ایک شخص ان کا مدعی ہے، اور ان کے گناہ ثابت ہوئے ہیں، اور بادشاہ کے ہو چکا ہے۔ میں لاچار ہوں۔

بارے بہت منت و زاری سے حاکم نے مدعی کو بلوا کر پانچ ہزار روپے پر راضی کیا کہ وہ دعوی خون کا معاف کرے۔ میں نے روپے گن دیئے اور لا دعوی لکھوا لیا۔ اور ایسی بلا سے مخلصی دلوائی۔ جہاں پناہ! ان سے پوچھئے کہ سچ کہتا ہوں یا جھوٹ بکتا ہوں۔ وہ دونوں بھائی سر نیچے کیے شرمندہ سے کھڑے تھے، خیر ان کو چھڑوا کر گھر میں لایا حمام کروا کر لباس پہنوایا۔ دیوان خانے میں مکان رہنے کو دیا۔ اس مرتبہ اپنے قبیلے کو ان کے روبرو نہ کیا۔ ان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ اور ان کے ساتھ کھانا کھاتا۔ سونے کے وقت گھر میں جاتا۔ تین برس تک ان کی خاطر داری میں گزری اور ان سے بھی کوئی حرکت بد واقع نہ ہوئی کہ باعث رنجیدگی کا ہووے جو میں سوار ہو کر کہیں جاتا تو یہ گھر میں رہتے۔

اتفاقا وہ بی بی نیک بخت ایک دن حمام کو گئی تھی۔ جب دیوان خانے میں آئی کوئی مرد نظر نہ پڑا۔ اس نے برقع اتارا۔ شاید یہ منجھلا بھائی لیٹا ہوا جاگتا تھا۔ دیکھتے ہی عاشق ہوا۔ بڑے بھائی سے کہا دونوں نے میرے مار ڈالنے کی باہم صلاح کی۔ میں اس حرکت سے مطلق خبر نہ رکھتا بلکہ دل میں کہتا تھا کہ الحمد للہ اس مرتبے اب تک انہوں نے کچھ ایسی بات نہیں کی۔ اب ان کی وضع درست ہوئی۔ شاید غیرت کو کام فرمایا۔

ایک روز بعد کھانے کے بڑے بھائی صاحب آب دیدہ ہوئے اور اپنے وطن کی تعریف اور ایران کی خوبیاں بیان کرنے لگے۔ یہ سن کر دوسرے بھی بسورنے لگے۔ میں نے کہا اگر ارادہ وطن کا ہے تو بہتر میں تابع مرضی کے ہوں۔ میری بھی یہی آرزو ہے۔ اب انشا اللہ تعالیٰ میں بھی آپ کی رکاب میں چلتا ہوں۔ اس بی بی سے دونوں بھائیوں کی اداسی کا مذکور کیا اور اپنا ارادہ بھی کہا۔ وہ عاقلہ بولی۔ تم جانو لیکن پھر کچھ دغا کیا چاہتے ہیں۔ یہ تمہاری جان کے دشمن ہیں۔ تم نے سانپ آستین میں پالے ہیں۔ اور ان کی دوستی کا بھروسا رکھتے ہو! جو جی چاہے سو کرو۔ لیکن موذیوں سے خبردار رہو۔ بہر تقدیر تھوڑے عرصہ میں تیاری سفر کی کر کے خیمہ میدان میں استاد کیا۔ بڑا قافلہ جمع ہوا اور میری سرداری اور قافلہ باشی پر راضی ہوئے۔ اچھی ساعت دیکھ کر روانہ ہوا، لیکن اس کی طرف سے اپنی جانب میں ہوشیار رہتا اور سب صورتوں سے فرماں برداری اور دلجوئی ان کی کرتا۔ ایک روز ایک منزل میں منجھلے بھائی نے مذکور کیا کہ ایک فرسخ اس مکان سے ایک چشمہ جاری ہے، مانند سلسبیل کے، اور میدان میں خود رو کوسوں تک لالہ و نافرمان اور نرگس و گلاب پھولا ہے۔ واقعی عجب مکان سیر کا ہے۔ اگر اپنا اختیار ہوتا تو کل وہاں جا کر تفریح طبیعت کی کرتے اور ماندگی بھی رفع ہوتی۔ میں بولا کہ صاحب مختار ہیں۔ فرماؤ تو کل کے دن مقام کریں اور وہاں چل کر سیر کرتے پھریں۔ یہ بولے ازیں چہ بہتر؟

میں نے حکم کیا کہ سارے قافلے میں پکار دو کہ کل مقام ہے، اور بکاول کو کہا کہ حاضری قسم بہ قسم کی تیار کر، کل سیر کو چلیں گے، جب صبح ہوئی ان دونوں برادروں نے کپڑے پہن کر کمر باندھ کر مجھے یاد دلایا کہ جلد ٹھنڈے ٹھنڈے چلیے اور سیر کیجئے۔

میں نے سواری مانگی۔ بولے کہ پاپیادہ جو لطف سیر کا ہوتا ہے، سو سواری میں معدوم نفروں کو کہہ دو گھوڑے ڈریا کر لے آویں۔ دونوں غلاموں نے قلیان اور قہوہ دان لے لیا اور ساتھ ہوئے۔ راہ میں تیر اندازی کرتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ جب قافلہ سے دور نکل گئے ایک غلام کو انہوں نے کسی کام سے دور بھیجا۔ تھوڑی دور آگے بڑھ کر دوسرے کو بھی اس کے بلانے کو رخصت کیا۔ کم بختی جو آئی میرے منہ میں جیسے کسو نے مہر دے دی۔ جو وہ چاہتے تھے سو کرتے تھے اور مجھے باتوں میں پر جائے لیے جاتے تھے۔ مگر یہ کتا ساتھ رہ گیا۔

بہت دور نکل گئے نہ چشمہ نظر آیا نہ گلزار۔ مگر ایک میدان پر خار تھا۔ وہاں مجھے پیشاب لگا۔ میں بول کرنے کو بیٹھا۔ اپنے پیچھے چمک تلوار کی سی دیکھی، مڑ کر دیکھوں تو منجھلے بھائی صاحب نے مجھ پر تلوار ماری کہ سر دو پارہ ہو گیا جب تلک بولوں کہ اے ظالم مجھے کیوں مارتا ہے بڑے بھائی نے شانے پر لگائی۔ دونوں کاری زخم لگے۔ تیورا کر گرا۔ تب ان دونوں بے رحموں نے بہ خاطر جمع میرے تئیں چور زخمی کیا اور لہو لہان کر دیا۔ یہ کتا میرا احوال دیکھ کر ان پر بھپکا۔ اس کو بھی گھائل کیا۔ بعد اس کے اپنے ہاتھوں سے اپنے بدنوں میں زخموں کے نشان کیے اور سروپا برہنہ قافلے میں گئے اور ظاہر کیا کہ حرامیوں نے اس میدان میں ہمارے بھائی کو شہید کیا اور ہم بھی لڑ بھڑ کر زخمی ہوئے۔ جلدی کوچ کرو نہیں تو کارواں پر گر کر سب کو ننگیا لیں گی۔ قافلے کے لوگوں نے بدوؤں کا نام جو سنا وونہیں بدحواس ہوئے اور گھبرا کر کوچ کیا اور چل نکلے۔ میرے قبیلے نے سلوک اور خوبیاں اور ان کی سن رکھی تھیں، جو جو مجھ سے دعائیں کی تھی۔ یہ واردات ان کا زبوں سے سن کر جلد خنجر سے تئیں ہلاک کیا اور جاں بحق تسلیم ہوئی۔

اے درویشو! اس خواجہ سگ پرست نے جب اپنی کیفیت اور مصیبت اس طرح سے یہاں تلک کہی، سنتے ہی مجھے بے اختیار رونا آیا۔ وہ سوداگر دیکھ کر کہنے لگا۔ قبلہ عالم! اگر بے ادبی نہ ہوتی تو برہنہ ہو کر میں اپنا سارا بدن کھول کر دکھاتا۔ تس پر بھی اپنی راستی پر گریبان مونڈھے تلک چیر کر دکھایا۔ واقعی چار انگل تن اس کا بغیر زخم کے ثابت نہ تھا۔ میرے حضور سر سے عمامہ اتارا۔ کھوپڑی میں ایسا بڑا گڑھا پڑا تھا کہ ایک انار سموچا اس میں سماوے۔ اراکان دولت جتنے حاضر تھے سب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں طاقت دیکھنے کی نہ رہی۔

پھر خواجہ بولا کہ بادشاہ سلامت! جب یہ بھائی اپنی دانست میں میرا کام تمام کر کے چلے گئے ایک طرف میں اور ایک طرف یہ سگ میرے نزدیک زخمی پڑا تھا۔ لہو اتنا بدن سے گیا کہ مطلق طاقت اور ہوش کچھ باقی نہ تھا۔ کیا جانوں دم کہا اٹک رہا تھا کہ جیتا تھا۔ جس جگہ پڑا تھا ولایت سراندیپ کی سرحد تھی اور ایک شہر بہت آباد اس کے قریب تھا۔ اس شہر میں بڑا بت خانہ تھا۔ اور وہاں کے بادشاہ کی ایک بیٹی تھی، نہایت قبول صورت اور صاحب جمال۔

اکثر بادشاہ اور شہزادے اس کے عشق میں خراب تھے۔ وہاں رسم حجاب کی نہ تھی۔ اس سے، وہ لڑکی تمام ہمجولیوں کے ساتھ شیر شکار کرتی پھرتی۔ ہم سے نزدیک ایک بادشاہی باغ تھا۔ اس روز بادشاہ سے اجازت لے کر اسی باغ میں آئی تھی۔ سیرکی خاطر اس میدان میں پھرتی پھرتی آ نکلی۔ کئی خواتین بھی ساتھ سوار تھیں، جہاں میں پڑا تھا آئیں۔ میرا کراہنا سن کر پاس کھڑی ہوئی۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر وہ بھاگیں اور شہزادی سے کہا کہ ایک مردوا اور ایک کتا لہو میں شور بور پڑا ہے۔ ان سے یہ سن کر آپ ملکہ میرے سر پر آئی، افسوس کھا کر کہا۔ دیکھو تو کچھ جان باقی ہے؟ دوچار دائیوں نے اتر کر دیکھا اور عرض کی۔ اب تلک تو جیتا ہے ترت فرمایا کہ آمانت قالیچے پر لٹا کر باغ لے چلو۔

وہاں لے جا کر جراح سرکار کا بلا کر میرے اور میرے کتے کے علاج کی خاطر بہت تاکید اور امیدوار انعام و بخشش کا کیا۔ اس حجام نے سارا بدن میرا پونچھ پانچھ کر خاک و خون سے پاک کیا، اور شراب سے دھو دھا کر زخموں کو ٹانکے دے کر مرہم لگایا، اور بید مشک کا عرق پانی کے بدلے میرے حلق میں چوایا۔ ملکہ آپ میرے سرہانے بیٹھی رہتی اور میری خدمت کرواتی اور تمام دن رات میں دوچار بار کچھ شوربا یا شربت اپنے ہاتھ سے پلاتی۔

بارے مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ ملکہ نہایت افسوس سے کہتی ہے، کس ظالم خوں خوار نے تجھ پر یہ ستم کیا۔ بڑے بت سے بھی نہ ڈرا۔ بعد دس روز کے عرق اور شربت اور معجونوں کے قوت سے میں نے آنکھ کھولی۔ دیکھا تو اندر کا اکھاڑا میرے آس پاس جمع ہے اور ملکہ سرہانے کھڑی ہے۔ ایک آہ بھری اور چاہا کہ کچھ حرکت کروں۔ طاقت نہ پائی۔ بادشاہ زادی مہربانی سے بولی کہ اے عجمی خاطر جمع رکھ۔ کڑھ مت اگرچہ کسو ظالم نے تیرا یہ احوال کیا، لیکن بڑے بت نے مجھ کو مہربان کیا ہے۔ اب چنگا ہو جاوے گا۔ قسم اس خدا کی جو واحد لا شریک ہے، میں اسے دیکھ کر پھر بے ہوش ہو گیا۔ ملکہ نے بھی دریافت کیا اور گلاب پاش سے گلاب اپنے ہاتھ سے چھڑکا۔ بیس دن کے عرصے میں زخم بھر آئے اور انگور کر لائے۔ بلکہ ہمیشہ رات کو جب سب سو جاتے میرے پاس آتی اور کھلا پلا جاتی۔

غرض ایک چلے میں غسل کیا۔ بادشاہ زادی نہایت خوش ہوئی۔ حجام کو انعام بہت سا دیا۔ اور مجھ کو پوشاک پہنائی۔ خدا کے فضل سے اور خبر گیری اور سعی سے ملکہ کی خوب چاق و چوبند ہوا۔ اور بدن نہایت تیار ہوا۔ اور کتا بھی فربہ ہو گیا۔ ہر روز مجھے شراب پلاتی اور باتیں سنتی اور خوش ہوتی۔ میں بھی ایک آدھی نقل یا کہانی انوٹھی کہہ کر اس کے دل کو بہلاتا۔

ایک دن پوچھنے لگی کہ اپنا احوال تو بیان کرو کہ تم کون ہو اور یہ واردات تم پر کیونکر آئی؟ میں نے سارا ماجرا اپنا اول سے آخر تک کہہ سنایا۔ سن کر رونے لگی اور بولی کہ اب میں تجھ سے ایسا سلوک کروں گی کہ اپنی ساری مصیبت بھول جاوے گا۔ میں نے کہا خدا تمہیں سلامت رکھے۔ تم نے نئے سر سے میری بخشی کی ہے۔ اب میں تمہارا ہو رہا ہوں۔ واسطے خدا کے اسی طرح ہمیشہ مجھ پر اپنی مہربانی کی نظر رکھیو۔ غرض تمام رات اکیلی میرے پاس بیٹھی رہتی اور صحبت رکھتی۔ بعضے دن دائی اس کی بھی ساتھ رہتی۔ ایک طور کا مذکور سنتی اور کہتی۔ جب ملکہ اٹھ جاتی اور میں تنہا ہوتا، طہارت کر کونے میں چھپ کر نماز پڑھ لیتا۔

ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ ملکہ اپنے باپ کے پاس گئی تھی۔ میں خاطر جمع سے وضو کر کے نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک شہزادی دائی سے بولتی ہوئی کہ دیکھیں عجمی اس وقت کیا کرتا ہے۔ سوتا ہے یا جاگتا ہے، مجھے مکان پر جو نہ دیکھا تعجب میں ہوئی کہ آئیں یہ کہاں گیا ہے؟ کسو سے کوئی لگا تو نہیں لگایا۔ کونا کٹھرا دیکھنے لگی اور تلاش کرنے لگی۔ آخر جہاں میں نماز کر رہا تھا وہاں آ نکلی۔ اس لڑکی نے کبھو نماز کاہے کو دیکھی تھی۔ چپکی کھڑی دیکھا کی۔ جب میں نماز تمام کر کے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سجدے میں گیا، بے اختیار کھلکھلا کر ہنسی اور بولی کیا یہ آدمی سودائی ہو گیا۔ یہ کیسی کیسی حرکتیں کر رہا ہے۔ میں ہنسنے کی آواز سن کر دل میں ڈرا۔ بلکہ آگے آ کر پوچھنے لگی کہ اے عجمی! یہ تو کیا کرتا تھا میں کچھ جواب نہ دے سکا۔ اس میں دائی بولی بلا لوں تو تیرے صدقے گئی مجھے یوں معلوم ہوتا ہے، کہ یہ شخص مسلمان ہے، اور لات منات کا دشمن ہے ان دیکھے خدا کو پوجتا ہے۔

ملکہ نے یہ سنتے ہی ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ بہت غصے ہوئی کہ میں کیا جانتی تھی کہ یہ ترک ہے اور ہمارے خداؤں کا منکر ہے۔ تب ہی ہمارے بت کے غضب میں پڑا تھا۔ میں نے ناحق اس کی پرورش کی اور اپنے گھر میں رکھا۔ یہ کہتی ہوئی چلی گئی۔ میں سنتے ہی بدحواس ہوا کہ دیکھئے اب کیا سلوک کرے۔ مارے خوف کے نیند اچاٹ ہو گئی۔ صبح تک بے اختیار رویا کیا اور آنسوؤں سے منہ دھوایا کیا۔

تین دن رات اسی خوف و رجا میں روتے گزرے، ہرگز آنکھ نہ جھپکی۔ تیسری شب ملکہ شراب کے نشے میں مخمور اور دائی ساتھ لیے میرے مکان پر آئی۔ غصے میں بھری ہوئی اور تیر کمان ہاتھ میں لیے باہر چمن کے کنارے بیٹھی دائی سے پیالا شراب کا مانگا، پی کر کہا۔ دیا وہ عجمی ہماری بڑے بت کے قہر میں گرفتار ہے، موا یا اب تک جیتا ہے؟ دائی نے کہا بلیا لوں کچھ دم باقی ہے۔ بولی کہ اب وہ ہماری نظروں سے گرا۔ لیکن کہہ کر باہر آوے۔ دائی نے مجھے پکارا میں دوڑا۔ دیکھوں تو ملکہ کا چہرہ مارے غصے کے تمتما رہا ہے۔ اور سرخ ہو گیا ہے۔ روح قلب میں نہ رہی۔ سلام کیا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا۔ غضب کی نگاہ سے مجھے دیکھ کر دائی سے بولی۔ اگر میں اس دین کے دشمن کو تیر سے مار دوں تو میری خطا بڑا بت معاف کرے گا یا نہیں؟ یہ مجھ سے بڑا گناہ ہوا ہے کہ میں نے اسے اپنے گھر میں رکھ کر خاطر داری کی۔

دائی نے کہا بادشاہ زادی کی کیا تقصیر ہے کہ کچھ دشمن جان کر نہیں رکھا۔ تم نے اس پر ترس کھایا۔ تم کو نیکی کے عوض نیکی ملے گی اور یہ اپنی بدی کا ثمرہ بڑے بت سے پا رہے گا۔ یہ سن کر کہا دائی اسے بیٹھنے کو کہہ۔ دائی نے مجھے اشارت کی کہ بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا۔ ملکہ نے اور جام شراب کا پیا اور دائی سے کہا کہ اس کم بخت کو بھی ایک پیالہ دے تو آسانی سے مارا جاوے۔ دائی نے جام دیا۔ میں نے بے عذر پیا اور سلام کیا۔ ہرگز میری طرف نگاہ نہ کی، مگر کن انکھیوں سے چوری چوری دیکھتی تھی۔ جب مجھے سرور ہوا کچھ شعر پڑھے لگا۔ ازاں جملہ ایک بیت یہ بھی پڑھی:

قابو میں ہوں میں تیرے، گو اب جیا تو پھر کیا
خنجر تلے کسو نے ٹک دم لیا تو پھر کیا

سن کر مسکرائی اور دائی کی طرف دیکھ کر بولی۔ کیا تجھے نیند آئی ہے۔ دائی نے مرضی پر کہا ہاں مجھ پر خواب نے غلبہ کیا ہے۔ وہ تو رخصت ہو کر جہنم واصل ہوئی۔ بعد ایک دم کے ملکہ نے پیالہ مجھ سے مانگا۔ میں جلد بھر کر رو برو لے گیا۔ ایک ادا سے میرے ہاتھ سے لے کر پی لیا۔ تب میں قدموں میں گرا۔ ملکہ نے ہاتھ مجھ پر جھاڑا اور کہنے لگی۔ اے جاہل ہماری بڑے بت میں کیا برائی دیکھی جو غائب خدا کی پرستش کرنے لگا؟ میں نے کہا انصاف شرط ہے۔ ٹک غور فرمائیے کہ بندگی کے لائق وہ خدا ہے کہ جس نے ایک قطرے پانی سے تم سارا کا محبوب پیدا کیا اور یہ حسن و جمال دیا کہ ایک آن میں ہزاروں انسانوں کے دل کو دیوانہ کر ڈالا۔ بت کیا چیز ہے کہ کوئی اس کی پوجا کرے؟ ایک پتھر کو سنگ تراشوں نے گڑھ کی صورت بنائی اور دام احمقوں کے واسطے بچھایا۔ جن کو شیطان نے ورغلانا ہے۔ وہ مصنوع کو صانع جانتے ہیں۔ جسے اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں۔ اس کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ اور ہم مسلمان ہیں۔ جس نے ہمیں بنایا، ہم اسے مانتے ہیں۔ ان کے واسطے دوزخ، ہمارے لیے بہشت بنایا ہے اگر بادشاہ زادی ایمان خدا پر لاوے تب اس کا مزہ پاوے، اور حق و باطل میں فرق کرے اور اپنے اعتقاد کو غلط سمجھے۔

بارے ایسی ایسی نصیحتیں سن کر اس سنگ دل کا دل ملائم ہوا۔ خدا کے فضل و کرم سے رونے لگی۔ اور بولی اچھا مجھے بھی اپنا دین سکھاؤ۔ میں نے کلمہ تلقین کیا۔ ان نے بصدق دل پڑھا اور توجہ استغفار کر کر مسلمان ہوئی۔ تب میں اس کے پاؤں پڑا۔ صبح تک کلمہ پڑھتی اور استغفار کرتی رہی، پھر کہنے لگی۔ بھلا میں نے تمہارا دین قبول کیا، لیکن ماں باپ کافر ہیں۔ ان کا علاج کیا ہے۔ میں نے کہا تمہاری بلا سے جو جیسا کرے ویسا پاوے گا۔ بولی کہ مجھے چچا کے بیٹے سے منسوب کیا ہے اور وہ بت پرست ہے۔ کل کو خدانخواستہ بیاہ ہو اور وہ کافر مجھ سے ملے اور اس کا نطفہ میرے پیٹ میں ٹھہر جاوے تو بڑی قباحت ہے۔ اس کی فکر ابھی سے کیا چاہیے۔ کہ اس بلا سے نجات پاؤں۔ میں نے کہا تم بات تو معقول کہتی ہو۔ جو مزاج میں آوے سو کرو۔ بولی کہ میں اب یہاں نہ رہوں گی۔ کہیں نکل جاؤں گی۔

میں نے پوچھا کس صورت سے بھاگنے پاؤں گی اور کہاں جاؤں گی؟ جواب دیا کہ پہلے تم میرے پاس سے جاؤ۔ مسلمانوں کے ساتھ سرا میں جا رہو تو سب آدمی سنیں اور تم پر گمان نہ لے جاویں۔ تم وہاں کشتیوں کی تلاش میں رہو جو جہاز عجم کی طرف چلے، مجھے خبر کیجیو۔ میں اس واسطے دائی کو تمہارے پاس اکثر بھیجا کروں گی۔ جب تم کہلا بھیجو گے، میں نل کر آؤں گی اور کشتی پر سوار ہو کر چلی جاؤں گی۔ ان کم بخت دے دینوں کے ہاتھ سے مخلصی پاؤں گی۔

میں نے کہا۔ تمہاری جان و ایمان کے قربان ہوا۔ دائی کو کیا کرو گی؟ بولی اس کی فکر سہل ہے۔ ایک پیالے میں زہر ہلاہل پلا دوں گی۔ یہی صلاح مقرر ہوئی۔ جب دن ہوا، میں کارواں سرا میں ہو گیا۔ ایک حجرہ کرائے پر لیا اور جا رہا۔ اس جدائی میں فقط وصل کی توقع پر جیتا تھا۔ جب دو مہینے میں سوداگر روم و شام و اصفہان کے جمع ہوئے، ارادہ کوچ کا تری کی راہ سے کیا اور اپنا اسباب جہاز پر چڑھانے لگے۔ ایک جگہ رہنے سے اکثر آشنا صورت ہو گئے تھے۔ آشنانان صورت مجھ سے کہنے لگے کیوں صاحب! تم بھی چلو نا۔ یہاں کفرستان میں کب تلک رہو گے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس کیا ہے جو اپنے وطن کو جاؤں؟ یہی ایک لونڈی، ایک کتا، ایک صندوق بساط میں رکھتا ہوں اگر تھوڑی سی جگہ بیٹھ رہنے کو دو اور اس کو نول مقرر کرو تو میری خاطر جمع ہو۔ میں بھی سوار ہوں۔

سوداگروں نے ایک کوٹھڑی میرے تحت میں کر دی۔ میں نے اس کے نول کا روپیہ بھر دیا۔ دل جمی کر کر کسو بہانے سے دائی کے گھر گیا اور کہا اے اماں تجھ سے رخصت ہونے آیا ہوں اب وطن کو جاتا ہوں۔ اگر تیری توجہ سے ایک نظر ملکہ کو دیکھ لوں تو بڑی بات ہے۔ بارے دائی نے قبول کیا۔ میں نے کہا میں رات کو آؤں گا۔ فلانے مکان پر کھڑا رہوں گا۔ بولی اچھا۔ میں کہہ کر سرا میں آیا۔ صندوق اور بچھونے اٹھا کر جہاز میں لایا۔ اور ناخدا کو سونپ کر کہا۔ کل فکر کو اپنی کنیز کو لے کر آؤں گا۔ ناخدا بولا۔ جلد آئیو۔ صبح ہی لنگر اٹھاویں گے۔ میں نے کہا بہت خوب۔ جب رات ہوئی اسی مکان پر جہاں دائی سے وعدہ کیا تھا، جا کر کھڑا رہا۔ پہر رات گئے محل کا دروازہ کھلا اور ملکہ میلے کچیلے کپڑے پہنے ایک پیٹی جواہر کی لئے باہر نکلی۔ وہ پٹاری میرے حوالے کی اور ساتھ چلی۔ صبح ہوتے کنارے دریا کے ہم پہنچے۔ ایک لبوت پر سوار ہو کر جہاز میں اترے۔ یہ وفادار کتا بھی ساتھ تھا۔ جب صبح خوب روشن ہوئی لنگر اٹھایا اور روانہ ہوئے۔ بہ خاطر جمع چلے جاتے تھے ایک بندر سے آواز توپوں کی شلک کی آئی۔ سب حیران اور فکر مند ہوئے۔ جہاز کو لنگر کیا اور آپس میں چرچا ہونے لگا کہ کیا شاہ بندر کچھ دغا کرے گا۔ توپ چھوڑنے کا سبب کیا ہے؟ اتفاقاً سب سوداگروں کے پاس خوب صورت لونڈیاں تھیں۔ شاہ بندر کے خوف سے مبادا چھین لے، سب نے کنیزوں کو صندوقوں میں بند کیا۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا کہ اپنی شہزادی کو صندوق میں بٹھا کر قفل کر دیا۔ اس عرصے میں شاہ بندر ایک غراب پر بمع نوکر چاکر بیٹھا ہوا نظر آیا۔ آتے آتے جہاز پر آ چڑھا۔ شاید اس کے آنے کا یہ سبب تھا کہ بادشاہ کو دائی کے مرنے اور ملکہ کے غائب ہونے کی خبر معلوم ہوئی مارے غیرت کے اس کا تو نام نہ لیا مگر شاہ بندر کو حکم کیا کہ میں نے سنا ہے عجمی سوداگروں کے پاس لونڈیاں خوب خوب ہیں۔ سو میں شہزادی کے واسطے لیا چاہتا ہوں، تم ان کو روک کر جتنی لونڈیاں جہاز میں ہوں، حضور میں حاضر کرو گے۔ انہیں دیکھ کر جو پسند آویں گی ان کی قیمت دی جائے گی۔ نہیں تو واپس ہوں گی۔ بموجب حکم بادشاہ کے یہ شاہ بندر اس لیے آپ جہاز پر آیا۔ اور میرے نزدیک ایک اور شخص تھا اس کے پاس بھی ایک باندی قبول صورت صندوق میں بند تھی۔ شاہ بندر اسی صندوق پر آ کر بیٹھا۔ اور لونڈیوں کو نکلوانے لگا۔ میں نے خدا کا شکر کیا کہ بھلا بادشاہ زادی کا مذکور نہیں۔

غرض جتنی لونڈیاں پائیں شاہ بندر کے آدمیوں نے ناؤ پر چڑھائیں اور خود شاہ بندر جس صندوق پر بیٹھا تھا، اس کے مالک سے بھی ہنستے ہنستے پوچھا کہ تیرے پاس بھی تو لونڈی تھی؟ اس احمق نے کہا۔ آپ کے قدموں کے سوگند میں نے ہی یہ کام نہیں کیا۔ سبھوں نے تمہارے ڈر سے لونڈیاں صندوق میں چھپائی ہیں۔ شاہ بندر نے یہ بات سن کر سب صندوقوں کا جھاڑا لینا شروع کیا۔ میرا بھی صندوق کھولا اور ملکہ کو نکال کر سب کے ساتھ لے گیا عجب طرح کی مایوسی ہوئی کہ یہ ایسی حرکت پیش آئی کہ تیری جان تو مفت گئی اور ملکہ سے دیکھئے کیا سلوک کرے۔ اس کی فکر میں اپنی بھی جان کا ڈر بھول گیا۔ سارے دن رات خدا سے دعا مانگتا رہا۔ جب بڑی فجر ہوئی، سب لونڈیوں کو کشتی پر سوار کر کے پھرا لائے۔ سوداگر خوش ہویئے۔ اپنی اپنی کنیزیں لیں۔ سب آئیں مگر ایک ملکہ ان میں نہ تھی۔ میں نے پوچھا کہ میری لونڈی نہیں آئی۔ اس کا کیا سبب ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم واقف نہیں، شاید بادشاہ نے پسند کی ہو گی۔ سب سوداگر مجھے تسلی اور دلاسا دینے لگے کہ خیر جو ہوا سو ہوا تو کڑھ مت اس کی قیمت ہم سے بہری کر کر تجھے دیں گے میرے حواس باختہ ہو گئے۔ میں نے کہا کہ اب عجم میں نہیں جانے کا۔ کشتی رانوں سے کہا، یارو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو، کنارے پر اتار دیجئو۔ وہ راضی ہوئے میں جہاز سے اتر کر غراب میں بیٹھا۔ یہ کتا بھی میرے ساتھ چلا آیا۔

جب بندر میں پہنچا، ایک صندوقچہ جواہر کا جو ملکہ اپنے ساتھ لائی اسے تو رکھ لیا، اور سب اسباب شاہ بندر کے نوکروں کو دیا، اور میں جاسوسی میں ہر کہیں پھرنے لگا کہ شاید خبر ملکہ کی پاؤں۔ لیکن ہر گز سراغ نہ ملا اور نہ اس بات کا پتا پایا۔ ایک رات کو کسو مکر سے بادشاہ کے بھی محل میں گیا اور ڈھونڈتا کچھ خبر نہ ملی۔ قریب ایک مہینے کے شہر کے کوچے اور محلے چھان مارے اور اس غم سے اپنے تئیں قریب ہلاکت کے پہنچایا، اور سودائی سا پھرنے لگا۔ آخر اپنے دل میں خیال کیا، کہ غالب ہے شاہ بندر کے گھر میری بادشاہ زادی ہووے تو ہووے نہیں تو اور کہیں نہیں۔ شاہ بندر کی حویلی کے گرد و پیش دیکھتا تھا، کہ کہیں سے بھی جانے کی راہ پاؤں تو اندر جاؤں۔

ایک بدرو نظر پڑی کہ موافق آدمی کی آمد و رفت کے ہے مگر جالی آہنی اس کے دہانے پر جڑی ہے۔ یہ قصد کیا کہ اس بدرو کی راہ سے چلوں۔ کپڑے بدن سے اتارے اور اس نجس کیچڑ میں اترا۔ ہزار محنت سے اس جالی کو توڑا اور سنڈاس کی راہ سے چور محل میں گیا۔ عورتوں کا لباس بنا کر ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ ایک مکان سے آواز میرے کان میں پڑی، جیسے کوئی مناجات کر رہا ہے۔ آگے جا کر دیکھوں تو ملکہ ہے کہ عجب حالت سے روتی اور نک گھسنی کر رہی ہے، اور خدا سے دعا مانگتی ہے کہ صدقے اپنے رسولؐ اور اس کی آل پاک کے، مجھے اس کفرستان سے نجات دے۔ اور جس شخص نے مجھے اسلام کی راہ بتائی ہے، اس سے ایک بار خیریت سے ملا۔ میں دیکھتے ہی دوڑ کر پاؤں پر گڑ پڑا۔ ملکہ نے مجھے گلے لیا۔ ہم دونوں پر ایک دم بے ہوشی کا عالم ہو گیا۔ جب حواس بجا ہوئے میں نے کیفیت ملکہ سے پوچھی۔ بولی جب شاہ بندر سب لونڈیوں کو کنارے پر لے گیا۔ میں خدا سے یہی دعا مانگتی تھی کہ کہیں میرا راز فاش نہ ہو، اور میں پہچانی نہ جاؤں اور تیری جان پر آفت نہ آوے۔ وہ ایسا ستار ہے کہ ہرگز کسو نے نہ دریافت کیا کہ یہ ملکہ ہے۔ شاہ بندر ہر ایک کو بہ نظر خریداری دیکھتا تھا۔ جب میری باری ہوئی۔ مجھے پسند کر کر اپنے گھر میں چپکے سے بھیج دیا اوروں کو بادشاہ کے حضور میں گزارنا۔

میرے باپ نے جب ان میں مجھے نہ دیکھا، سب کو رخصت کیا۔ یہ سب پرپنچ میرے واسطے کیا تھا۔ اب یوں مشہور کیا ہے کہ بادشاہ زادی بیمار ہے۔ اگر میں ظاہر نہ ہوئی کہ کوئی دن میرے مرنے کی خبر سارے ملک میں اڑے گی۔ تو بدنامی بادشاہ کی نہ ہووے۔ لیکن اب اس عذاب میں ہوں کہ شاہ بندر مجھ سے اور ارادہ دل میں رکھتا ہے۔ اور ہمیشہ ساتھ سونے کو بلاتا ہے۔ میں راضی نہیں ہوتی ازبس کہ چاہتا ہے، اب تک میری رضا مندی منظور ہے لہٰذا چپ ہو رہتا ہے۔ پر حیران ہوں اس طرح کہاں تک نبھے گی سو میں نے جی بھر ٹھہرا لیا کہ جب مجھ سے کچھ اور قصد کرے گا تو میں اپنی جان دوں گی اور مر رہوں گی لیکن تیری ملنے سے ایک اور تدبیر دل میں سوجھی ہے۔ خدا چاہے تو سوائے اس فکر کے دوسری کوئی طرح مخلصی کی نظر نہیں آتی۔ میں نے کہا فرماؤ تو، کون سے تدبیر ہے؟ کہنے لگی اگر تو سعی اور محنت کرے تو ہو سکے۔ میں نے کہا فرمانبردار ہوں۔ اگر حکم کرو تو جلتی آگ میں کود پڑوں۔ اور سیڑھی پاؤں تو تمہاری خاطر آسمان پر چلا جاؤں جو کچھ فرماؤ سو بجا لاؤں۔

ملکہ نے کہا تو بڑے بت کے بت خانے میں جا اور جس جگہ جوتیاں اتارتے ہیں وہاں ایک سیاہ ٹاٹ پڑا رہتا ہے۔ اس ملک کی رسم ہے کہ جو کوئی مفلس اور محتاج ہو جاتا ہے۔ اس جگہ وہ ٹاٹ اوڑھ کر بیٹھتا ہے۔ وہاں کے لوگ جو زیارت کو جاتے ہیں موافق اپنے اپنے مقدور کے اسے دیتے ہیں۔ جب دوچار دن مال جمع ہو جاتا ہے، پنڈے ایک خلعت بڑے بت کی سرکار سے دیکر اسے رخصت کرتے ہیں۔ وہ تونگر ہو کر چلا جاتا ہے۔ کوئی نہیں معلوم کرتا کہ یہ کون تھا۔ تو بھی جا کر اس پلاس کے نیچے بیٹھ اور ہاتھ منہ اپنا خوب طرح چھپا لے اور کسو سے نہ بول۔

بعد تین دن کے باہم اور بت پرست ہر چند تجھے خلعت دے کر رخصت کریں تو وہاں سے ہرگز نہ اٹھ۔ جب نہایت منت کریں۔ تب تو بولیو کہ مجھے روپیہ پیسہ کچھ درکار نہیں۔ میں مال کا بھوکا نہیں۔ میں مظلوم ہوں۔ فریاد کر آیا ہوں۔ اگر برہمنوں کی ماتا میری داد دے تو بہتر ہے۔ نہیں تو بڑا بت میرا انصاف کرے گا۔ اور اس ظالم سی یہی بڑا بت میری فریاد کو پہنچے گا۔ جب تک وہ ماتا برہمنوں کی آپ تیرے پاس نہ آوے بہتیرا کوئی منائے تو راضی نہ ہو جیو۔ آخر لاچار ہو کر وہ خود تیرے نزدیک آوے گی۔ وہ بہت بوڑھی ہے۔ دو سو چالیس برس کی عمر ہے، اور چھتیس بیٹے اس کے جنے ہوئے بت خانے کے سردار ہیں۔ اور اس کا بڑے بت کے پاس بڑا درجہ ہے۔ اس سبب اس کا اتنا بڑا حکم ہے کہ جتنے چھوٹے بڑے اس ملک کے ہیں اس کے کہنے کو اپنی سعادت جانتے ہیں۔ جو وہ فرماتی ہے بسر و چشم مانتے ہیں۔ اس کا دامن پکڑ کر کہو۔ اے مائی اگر مجھ مظلوم مسافر کا انصاف ظالم سے نہ کرے گی تو میں بڑے بت کی خدمت میں ٹکریں ماروں گا۔ آخر وہ رحم کھا کر تجھ سے میری سفارش کرے گا۔

اس کے بعد جب وہ برہمنوں کی ماتا تیرا سب احوال پوچھے تو کہیو کہ میں عجم کا رہنے والا ہوں۔ بڑے بت کی زیارت کی خاطر اور تمہاری علالت سن کر کالے کوسوں سے یہاں آیا ہوں۔ کئی دنوں آرام سے رہا۔ میری بی بی بھی میرے ساتھ آئی تھی۔ وہ جوان ہے اور صورت شکل بھی اچھی ہے اور آنکھ ناک سے درست ہے۔ معلوم نہیں کہ شاہ بندر نے اسے کیونکر دیکھا۔ بہ زور مجھ سے چھین کر اپنے گھر میں ڈال دیا۔ اور ہم مسلمانوں کا یہ قاعدہ ہے کہ جو محرم عورت ان کی دیکھے یا چھین لے تو واجب ہے کہ اس کو جس طرح ہو یا مار ڈالیں اور اپنی جورو کو لے لیں۔ اور نہیں تو کھانا پینا چھوڑ دیں، کیونکہ جب تلک وہ جیتا رہے وہ عورت خاوند پر حرام ہے۔ اب یہاں لاچار ہو کر آیا ہوں۔ دیکھئے تم کیا انصاف کرتی ہو؟ جب ملکہ نے مجھے یہ سب سکھا پڑھا دیا، میں رخصت ہو اسی ناب دان سے باہر نکلا، اور وہ جالی آہنی پر لگا دی۔

صبح ہوتے ہی بت خانے میں گیا اور وہ سیاہ پلاس اوڑھ کر بیٹھا۔ تین روز میں اتنا روپیہ اور اشرفی اور کپڑا میرے نزدیک جمع ہوا کہ انبار لگ گیا۔ چوتھے دن پنڈے بھجن کرتے اور گاتے بجاتے میرے پاس آئے اور رخصت کرنے لگے۔ میں راضی نہ ہوا اور دہائی بڑے بت کی دی کہ میں گدائی نہیں کرنے آیا۔ بلکہ انصاف کے لیے بڑے بت اور برہمنوں کی ماتا کے پاس آیا ہوں۔ جب تلک اپنی داد نہ پاؤں گا۔ یہاں سے نہ جاؤں گا۔ وہ سن کر اس پیرزال کے روبرو ہو گئے۔ اور میرا احوال بیان کیا۔ بعد اس کے ایک چوبے آیا اور میرے تئیں کہنے لگا چل ماتا بلاتی ہے، میں وونہیں ٹاٹ کالا سر سے پاؤں تک اوڑھے ہوئے دھرے میں گیا۔ دیکھتا ہوں کہ ایک جڑاؤ سنگھاسن پر جس میں لعل، الماس اور موتی مونگا لگا ہوا ہے، بڑا بت بیٹھا ہے اور ایک کرسی زریں پر فرش معقول بچھا ہے۔ اس پر ایک بڑھیا سیاہ پوش مسند تکیے لگائی اور دو لڑکے دس بارہ برس کے ایک داہنے ایک بائیں شان و شوکت اور تجمل سے بیٹھی ہے۔ مجھے آگے بلایا۔ میں ادب سے گیا اور تخت کے پائے کو بوسہ دیا۔ پھر اس کا دامن پکڑ لیا۔ اس نے میرا احوال پوچھا۔ میں نے اسی طرح جس طرح ملکہ نے تعلیم کر دیا تھا، ظاہر کیا۔ سن کر بولی کیا مسلمان اپنی استریوں کو اوجھل میں رکھتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں تمہارے بچوں کی خیر ہو۔ یہ ہماری رسم قدیم ہے بولی کہ تیرا اچھا مذہب ہے میں ابھی حکم کرتی ہوں کہ شاہ بندر مع تیری جورو آن کر حاضر ہوتا ہے۔ اور اس گیدی کو ایسی سیاست کروں کہ بار دیگر ایسی حرکت نہ کرے اور سب کے کان کھڑے ہوں اور ڈریں۔ اپنے لوگوں سے پوچھنے لگی کہ شاہ بندر کون ہے؟ اس کی یہ مجال ہے کہ بگانی تریا کو بزور چھین لیتا ہے؟ لوگوں نے کہا فلانا شخص ہے۔ یہ سن کر ان دونوں لڑکوں کو، جو پاس میں بیٹھے تھے، فرمایا کہ جلدی اس مانس کو لے کر بادشاہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ ماتا فرماتی ہے کہ حکم بڑے بت کا یہ ہے کہ شاہ بندر کے آدمیوں پر زور زیادتی کرتا ہے، چنانچہ اس غریب کی عورت چھین لیا ہے۔ اس کی تقصیر بڑے ثابت ہوئی۔ جلد اس گمراہ کے مال کا تالیقہ کر کر اس ترک کے، کہ ہمارا منظور نظر ہے، حوالے کر، نہیں تو آج کو تو ستیاناس ہو گا۔ اور ہماری غضب میں پڑے گا، وہ دونوں طفل اٹھ کر منڈل سے باہر آئے اور سوار ہویئے۔ سب پنڈے سنکھ بجاتے اور آرتی گاتے جلو میں ہو لئے۔ غرض وہاں کے بڑے چھوٹے جہاں ان لڑکوں کا پاؤں پڑتا تھا وہاں کی مٹی تبرک جان کر اٹھا لیتے اور آنکھوں سے لگاتے۔ اسی طرح بادشاہ کے قلعے تک گئے۔ بادشاہ کو خبر ہوئی۔ ننگے پاؤں استقبال کی خاطر نکل آیا اور ان کو بڑے مان مہت سے لے جا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا، اور پوچھا، آج کیونکر تشریف فرمانا ہوا، ان دونوں برہمن بچوں نے ماں کی طرف سے جو کچھ سن آئے تھے، اور کہا اور بڑے بت کی خفگی سے ڈرایا۔ بادشاہ نے سنتے ہی فرمایا، بہت خوب اور اپنے نوکروں کو حکم کیا کہ محصل جاویں اور شاہ بندر کی مع اس عورت کے جلد حضور میں حاضر کریں، تو میں تقصیر اس کی تجویز کر کے سزا دوں۔

یہ سن کر میں اپنے دل میں گھبرایا کہ یہ بات تو اچھی نہ ہوئی۔ اگر شاہ بندر کے ساتھ ملکہ کو بھی لاویں تو پردہ فاش ہو گا اور میرا کیا احوال ہو گا؟ دل میں نہایت خوف زدہ ہو کر خدا کی طرف رجوع کی، لیکن میرے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور بدن کانپنے لگا۔ لڑکوں نے یہ میرا رنگ دیکھ کر شاید دریافت کیا کہ یہ حکم اس کی مرضی کے موافق نہ ہوا۔ وہ نہیں خفا و برہم ہو کر اٹھے اور بادشاہ کو جھڑک کر بولے اے مردک تو دیوانہ ہوا ہے جو فرمانبرداری سے بڑے بت کی نکلا، اور ہمارے بچن کو جھوٹ سمجھا جو دونوں کو بلا کر تحقیق کیا چاہتا ہے؟ اب خبردار تو غضب میں بڑے بت کے پڑا۔ ہم نے تجھے حکم پہنچا دیا۔ اب تو جان اور بڑا بت جانے۔

اس کہنے سے بادشاہ کی عجیب حالت ہوئی کہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ اور سر سے پاؤں تلک رعشہ ہو گیا۔ منت کر کے منانے لگا۔ یہ دونوں ہرگز نہ بیٹھے، لیکن کھڑے رہے۔ اس میں جتنے امیر امرا وہاں حاضر تھے ایک منہ ہو کر بد گوئی شاہ بندر کرنے لگے کہ وہ ایسا ہی حرام زادہ بدکار اور پاپی۔ ایسی ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ حضور بادشاہ کے کیا کیا عرض کریں؟ جو کچھ برہمنوں کی ماتا نے کہلا بھیجا ہے، درست ہے۔ اس واسطے کہ حکم بڑے بت کا ہے۔ یہ دروغ کیونکر ہو گا؟ بادشاہ نے جب سب کی زبانی ایک ہی بات سنی، اپنے کہنے سے بہت خجل اور نادم ہوا۔ جلد ایک خلعت پاکیزہ مجھے دی اور حکم نامہ اپنے ہاتھ سے لکھ اس پر دستی مہر کر میرے حوالے کیا۔ اور ایک رقعہ مادر برہمناں کو لکھا اور جواہر اشرفیوں کے خوان لڑکوں کے روبرو پیش کش رکھ کر رخصت کیا۔ میں خوشی بہ خوشی بت خانے میں آیا اور اس بڑھیا کے پاس گیا۔ بادشاہ کا جو خط آیا تھا اس کا مضمون تھا۔ القاب کے بعد بندگی عجز و نیاز لکھ کر لکھا تھا کہ موافق حکم حضور کے اس مرد مسلمان کو خدمت شاہ بندر کی مقرر ہوئی اور خلعت دی گئی۔ اب یہ اس کے قتل کا مختار ہے، اور سارا مال و اموال اس ترک کا ہوا۔ جو چاہے سو کرے۔ امیدوار ہوں کہ میری تقصیر معاف ہو۔ برہمنوں کی ماں نے خوش ہو کر فرمایا نوبت خانے میں بت خانے کی نوبت بجے۔ اور پانچ سو سپاہی برق انداز جو بال باندھی کوڑی ماریں، مسلح میرے ہمراہ کر دیئے، اور حکم کیا کہ بندر میں جا کر شاہ بندر کو دستگیر کر کے اس مسلمان کے حوالے کریں۔ جس طرح کے عذاب سے اس کا جی چاہے اسے مارے اور خبردار سوائے اس عزیز کے کوئی محل سرا میں داخل نہ ہوئے، اور اس کے مال و خزانے کو امانت اس کے سپرد کریں۔ جب یہ بہ خوشی رخصت کرے، رسید اور رہائی نامہ اس سے لے کر پھر آویں۔ اور ایک سرے پاؤ بت بزرگ کی سرکار سے میرے تئیں دے کر سوار کروا کر وداع کیا۔

جب میں بندر میں پہنچا، ایک آدمی نے بڑھ کر شاہ بندر کو خبر کی۔ وہ حیران سا بیٹھا تھا کہ میں جا پہنچا۔ غصہ تو دل میں بھر ہی رہا تھا۔ دیکھتے ہی شاہ بندر کو تلوار کھینچ کر ایسی گردن لگائی کہ اس کا سر بھٹا سا اڑ گیا۔ اور وہاں سے گماشتے خزانچی، مشرف داروغوں کو پکڑوا کر سب دفتر ضبط کئے اور میں محل میں داخل ہوا۔ ملکہ سے ملاقات کی۔ آپس میں گلے لگ کر روئے اور شکر خدا کا کیا۔ میں اس کے، اس نے میرے آنسو پونچھے۔ پھر باہر مسند پر بیٹھ کر اہل کارواں کو خلعتیں دیں اور اپنی اپنی خدمتوں پر سب کو بحال کیا۔ نوکر اور غلاموں کو سرفرازی دی۔ وہ لوگ جو منڈپ سے میرے ساتھ متعین ہوئے تھے۔ ہر ایک کو انعام و بخشش دے کر ان کے جمدار، رسالہ دار کو جوڑے پہنا کر رخصت کیا اور جواہر بیش قیمت اور تھان نوریانی اور شال بانی اور زر دوزی اور جنس و تحفے ہر ایک ملک کے اور نقد بہت سا بادشاہ کی نذر کی خاطر، اور موافق ہر ایک امراؤں کے درجہ بہ درجہ اور پنڈیاین کے لیے اور سب پنڈوں کے تقسیم کرنے کی خاطر اپنے ساتھ لے کر بعد ایک ہفتے کے میں بت کدے میں آیا اور اس ماتا کے آگے بطریق بھینٹ کے رکھا۔ اس نے ایک اور خلعت سرفرازی کی مجھے بخشی اور خطاب دیا۔ پھر بادشاہ کے دربار میں جا کر پیش گزرانی اور جو جو ظلم و فساد شاہ بندر نے ایجاد کیا تھا اس کے موقوف کرنے کی خاطر عرض کی۔ اس سبب سے بادشاہ اور امیر، سوداگر سب مجھ سے راضی ہوئے۔ بہت نوازش مجھ پر فرمائی اور خلعت اور گھوڑا دے کر منصب جاگیر عنایت کی، اور آبرو حرمت بخشی۔

جب بادشاہ کے حضور سے باہر آیا شاگرد پیشوں کو اور اہلکاروں کو اتنا کچھ دے کر راضی کیا کہ سب میرا کلمہ پڑھنے لگے۔ غرض میں بہت مرفہ الحال ہو گیا اور نہایت چین و آرام سے اس ملک میں ملکہ سے عقد باندھ کر رہنے لگا۔ اور خدا کی بندگی کرنے لگا۔ میرے انصاف کے باعث رعیت پرجا سب خوش تھے۔ مہینے میں ایک بار بت خانے میں اور بادشاہ کے حضور میں آتا جاتا۔ بادشاہ روز بروز زیادہ سرفراز فرماتا۔

آخر مصاحبت میں مجھے داخل کیا۔ میرے بے صلاح کوئی کام نہ کرتا۔ نہایت بے فکری سے زندگی گزرنے لگی۔ مگر خدا ہی جانتا ہے، اکثر اندیشہ ان دونوں بھائیوں کا دل میں آیا کہ وہ کہاں ہوں گے اور کس طرح ہوں گے؟ بعد مدت دو برس کے ایک قافلہ سوداگروں کا ملک زیر باد سے اس بندر میں آیا۔ وہ سب قصد عجم کا قاعدہ یہ تھا کہ جو ہر کارواں آتا، اس کا سردار سوغات و تحفہ ہر ایک ملک کا میرے پاس لاتا اور نذر گزرانتا۔ دوسرے روز میں اس کے مکان پر جاتا۔ وہ یکے بہ طریق محصول اس کے مال سے لیتا اور پروانگی کوچ کی دیتا۔ اسی طرح وہ سوداگر زیرباد کے بھی میری ملاقات کو آئے اور بے بہا پیش کش لائے۔ دوسرے دن میں ان کے خیمے میں گیا۔ دیکھا تو دو آدمی پھٹے پرانے کیڑے پہنے گٹھڑی بقچے سر پر اٹھا میری روبرو لاتے ہیں۔ بعد ملاحظہ کرنے کے پھر اٹھا لے جاتے ہیں اور بڑی محنت سے خدمت کر رہے ہیں۔

میں نے خوب نجھا کر جو دیکھا تو یہی میرے دونوں بھائی ہیں۔ اس وقت غیرت اور حمیت نے نہ چاہا کہ ان کو اس طرح خدمت گاری میں دیکھوں۔ جب اپنے گھر کو چلا آدمیوں کو کہا کہ ان دونوں شخصوں کو لے آؤ۔ جب انکو لائے پھر لباس اور پوشاک بنوا دی اور اپنے پاس رکھا۔ ان بد ذاتوں نے پھر میرے مارنے کا منصوبہ کر کر ایک روز آدھی رات میں سب کو غافل پا کر چوروں کی طرح میرے سرہانے آ پہنچے۔ میں نے اپنی جان کے ڈر سے چوکی داروں کو دروازے پر رکھا تھا اور یہ کتا وفادار میری چارپائی کی پٹی تلے سوتا تھا۔ جوں انہوں نے تلواریں میان سے کھینچیں، پہلے کتے نے بھونک کر ان پر حملہ کیا۔ اس کی آواز سے سب جاگ پڑے۔ میں ہل ہلا کر چونکا۔ آدمیوں نے پکڑا، معلوم ہوا کہ آپ ہی ہیں۔ سب لعنتیں دینے لگے کہ باوجود اس خاطر داری یہ کیا حرکت ان سے ظہور میں آئی۔

بادشاہ سلامت! تب تو میں بھی ڈرا۔ مثل مشہور ہے ایک خطا، دو خطا، تیسری خطا مادر بہ خطا۔ دل میں یہی صلاح کہ ان کو مقید کروں، لیکن اگر بندی خانے میں رکھوں تو ان کا کون خبر گیراں رہے گا؟ بھوک و پیاس سے مر جائیں گے۔ یا کوئی اور سوانگ لائیں گے۔ اس واسطے قفس میں رکھا ہے کہ ہمیشہ میری نظروں کے تلے رہیں تو میری خاطر جمع رہے۔ مبادا آنکھوں سے اوجھل ہو کر کچھ اور مکر کریں۔ اور اس کتے کی عزت اور حرمت، اس کی نمک حلالی اور وفاداری کے سبب ہے۔ سبحان اللہ آدمی بے وفا، بدتر، حیوان وفا سے ہے۔ سے میری یہ سرگذشت تھی جو حضور میں عرض کی اب خواہ قتل فرمائیے یا جان بخشی کیجئے حکم بادشاہ کا ہے۔

میں نے سن کر اس جوان با ایمان پر آفریں کی اور کہا تیری مروت میں کچھ خلل نہیں، اور اس کی بے حیائی اور حرام زدگی میں ہرگز قصور نہیں۔ سچ ہے کتے کی دم کو بارہ برس گاڑو تو بھی ٹیڑھی رہے۔ اس کے بعد میں نے حقیقت ان بارہوں لعل کی، کہ اس کتے کے پٹے میں تھے، پوچھی۔ خواجہ بولا کہ بادشاہ کے صد و بیت سال کی عمر ہو۔ اسی بندر میں جہاں میں حاکم تھا، بعد تین چار سال کے ایک روز بالا خانے پر محل کے، کہ بلند تھا، واسطے سیر اور تماشے دریا و صحرا کے میں بیٹھا تھا اور ہر طرف دیکھتا تھا، ناگاہ ایک طرف جنگل میں کہ وہاں شاہراہ تھی، دو آدمی کی تصویر سی نظر آئی کہ چلے جاتے ہیں، دور بین لے کر دیکھا تو عجیب ہیئت کے انسان دکھائی دیئے۔

چوب داروں کو ان کے بلانے کے واسطے دوڑایا۔ جب وہ آئے تو معلوم ہوا کہ ایک عورت اور ایک مرد ہے۔ رنڈی کو محل سرا میں ملکہ کے پاس بھیج دیا اور مرد کو روبرو بلایا۔ دیکھا تو ایک جوان برس بیس بائیس کا داڑھی موچھ آغاز ہے، لیکن دھوپ کی گرمی سے اس کے چہرے کا رنگ کالے توے کا سا ہو رہا ہے۔ اور سر کے بال اور ہاتھوں کے ناخن بڑھ کر بن مانس کی صورت بن رہا ہے۔ اور ایک لڑکا برس تین چار کا ایک کاندھے پر، اور آستیں کرتے کے بھری ہوئی ہیکل کی طرح گلے میں ڈالی عجیب صورت اور عجیب یہ وضع اس کی دیکھی، میں نے نہایت حیران ہو کر پوچھا۔ اے عزیز کون ہے، اور کس ملک کا باشندہ ہے، اور یہ کیا تیری حالت ہے؟ وہ جوان بے اختیار رونے لگا۔ اور ہمیانی کھول کر میرے آگے زمین پر رکھی اور بولا۔ الجوع الجوع واسطے خدا کے کچھ کھانے کو دو۔ مدت سے گھاس اور بناس پتیاں کھاتا چلا آتا ہوں۔ ایک ذرا قوت مجھ میں باقی نہیں رہی۔ وونہیں نان و کباب اور شراب میں نے منگوا دی۔ وہ کھانے لگا اتنے میں خواجہ سرا محل سے کئی تھیلیاں اس کے قبیلے پاس سے لے آیا۔ میں نے اس سب کو کھلوایا۔ ہر ایک قسم کے جواہر دیکھے کہ ایک ایک دانہ ان کا خراج سلطنت کا کہا چاہیے ایک سے ایک انمول ڈول میں، و رتول میں اور آب داری میں۔ اور ان کی چھوٹ پڑنے سے سارا مکان بو قلموں ہو گیا۔ جب اس نے ٹکڑا کھایا اور ایک جام دارو کا پیا اور دم لیا، حواس بجا ہوئے۔ تب میں نے پوچھا جیہ پتھر تجھے کہاں ہاتھ لگے؟ جواب دیا کہ میرا وطن ولایت آذربائیجان ہے۔ لڑکپن میں گھر بار ماں باپ سے جدا ہو کر بہت سختیاں کھنچیں اور ایک مدت تلک میں زندہ درگور تھا۔ اور کئی بار ملک الموت کے پنجے سے بچا ہوں۔ میں نے کہا اے مرد آدمی مفصل کہہ تو معلوم ہو۔ تب وہ اپنا احوال بیان کرنے لگا کہ میرا باپ سوداگر پیشہ تھا۔ ہمیشہ سفر ہندوستان و روم و چین و خطا و فرنگ کا کرتا۔ جب میں دس برس کا ہوا، باپ ہندوستان کو چلا۔ مجھے اپنے ساتھ لے جانے کو چاہا۔ ہر چند والدہ نے اور خالا، ممانی، پھوپھی نے کہا کہ ابھی یہ لڑکا ہے لائق سفر کے نہیں ہوا۔ والد نے نہ مانا اور کہا کہ میں بوڑھا ہوا اگر یہ میرے رو بہ رو تربیت نہ ہو گا تو یہ حسرت قبر میں لے جاؤں گا۔ مرد بچہ ہے اب نہ سیکھے گا؟

یہ کہہ کر مجھے خواہ مخواہ ساتھ لیا اور روانہ ہوا۔ خیر عافیت سے راہ کٹی۔ جب ہندوستان میں پہنچے کچھ جنس وہاں بیچی اور وہاں کے سوغات کر کرے جہاز پر سوار ہوئے کہ جلدی وطن میں پہنچیں۔ بعد ایک مہینے کے ایک روز آندھی اور طوفان آیا اور مینہ موسلادھار برسنے لگا۔ سارا زمین و آسمان دھواں دھار ہو گیا۔ اور پتوار جہاز کی ٹوٹ گئی۔ معلم ناخدا سر پیٹنے لگا۔ دس دن تلک ہوا اور موج جیدھر چاہتی تھی، لئے جاتی تھی۔ گیارھویں روز ایک پہاڑ سے ٹکر کھا کر جہاز پرزے پرزے ہو گیا۔ نہ معلوم کہ باپ اور نوکر چاکر اور اسباب کہاں گیا۔

میں نے اپنے تئیں ایک تختے پر دیکھا۔ سبہ شبانہ روز وہ پڑا بے اختیار چلا گیا۔ چوتھے دن کنارے پر جا لگا۔ مجھ میں فقط جان باقی تھی۔ اس پر سے اتر کر گھنٹوں چل کر بارے کسو نہ کسو طرح زمین پر پہنچا۔ دور سے کھیت نظر آئے اور بہت سے آدمی وہاں جمع تھے، لیکن سب سیاہ فام اور ننگے مادر زاد مجھ سے کچھ بولے، لیکن میں نے ان کی زبان مطلق نہ سمجھی۔ وہ کھیت چنوں کا تھا۔ وہ آدمی آگ کا الاؤ جل کر بوٹوں کے ہولے کرتے تھے اور کھاتے تھے۔ اور کئی ایک گھر میں وہاں نظر آئے۔ شاید ان کی خوراک یہی تھی اور وہیں بستے تھے۔ مجھے بھی اشارات کرنے لگے کہ تو بھی کھا۔ میں نے بھی ایک مٹھی اکھاڑ کر بھونے اور پھانکنے لگا۔ تھوڑا سا پانی پی کر ایک گوشے میں سو رہا۔ بعد دیر کے جب جاگا ان میں سے ایک شخص میرے نزدیک آیا اور راہ دکھانے لگا۔ میں نے تھوڑے سے چنے اور اکھیڑ لیے اور اس راہ پر چلا۔ ایک کف دست میدان تھا گویا صحرائے قیامت کا نمونہ کہا جائے وہی بونٹ کھاتا ہوا چلا جاتا تھا۔ بعد چار دن کے ایک قلعہ نظر آیا۔ جب پاس گیا تو ایک کوٹ دیکھا، بہت بلند تمام پتھر کا، اور ہر ایک النگ اس کی دو کوس کی اور دروازہ ایک سنگ کا تراشا ہوا، ایک قفل بڑا سا جڑا تھا، لیکن وہاں انسان کا نشان نظر نہ پڑا۔ وہیں سے آگے چلا۔ ایک ٹیلا دیکھا کہ اس کی خاک سرمے کے رنگ سیاہ تھی۔ جب اس تل کے پار ہوا تو ایک شہر نظر پڑا، بہت بڑا گرد شہر پناہ اور جا بجا برج، ایک طرف شہر کے دریا تھا، بڑے پاٹ کا، جاتے جاتے دروازے پر گیا اور بسم اللہ کہ کر قدم اندر رکھا۔ ایک شخص کو دیکھا پوشاک اہل فرنگ کی پہنے ہوئے کرسی پر بیٹھا ہے۔ جوں ان نے مجھے اجنبی مسافر دیکھا اور میرے منہ سے بسم اللہ سنی، پکارا کہ آگے آؤ میں نے جا کر سلام کیا۔ نہایت مہربانی سے سلام کا جواب دیا۔ ترت میز پر پاؤ روٹی اور مسکہ اور مرغ کا کباب اور شراب رکھ کر کہا۔ پیٹ بھر کھاؤ۔ میں نے تھوڑا سا کھا لیا اور پیا اور بے خبر ہو کر سویا۔ جب رات ہو گئی تب آنکھ کھلی۔ ہاتھ منہ دھویا۔ پھر مجھے کھانا کھلایا اور کہا کہ اے بیٹا اپنا احوال کہہ۔ جو کچھ مجھ پر گزرا تھا سب کہہ سنایا۔ تب بولا کہ یہاں تو کیوں آیا؟ میں نے دق ہو کر کہا شاید تو دیوانہ ہے۔ میں نے بعد مدت کے محنت کے اب بستی کی صورت دیکھی ہے۔ خدا نے یہاں تلک پہنچایا اور تو کہتا ہے کیوں آیا ہے۔ کہنے لگا اب تو آرام کر کل جو کہنا ہو گا کہوں گا۔

جب صبح ہوئی بولا کوٹھری میں پھاوڑا اور چھلنی اور توبڑا ہے، باہر لے آ، میں نے دل میں کہا کہ خدا جانے روٹی کھلا کر کیا محنت مجھ سے کروائے گا، لاچار وہ سب نکال کر اس کے روبرو لایا۔ تب اس نے فرمایا کہ اس ٹیلے پر جا اور ایک گز کے موافق گڑھا کھود۔ وہاں سی جو کچھ نکلنے اس چھلنے میں چھان سکے اسے توبڑے میں بھر کر میرے پاس لا۔ میں وہ سب چیزں لے کر وہاں گیا اور اتنا ہی کھود کر چھان چھون کر توبڑے میں ڈالا۔ دیکھا تو سب جواہر رنگ برنگ کے تھے۔ ان کو جوت سے آنکھیں چوندھیا گئیں۔ اس طرح تھیلی کو مونہاں منہ بھر کر اس عزیز کے پاس لے گیا۔ دیکھ کر بولا کہ جو اس میں بھرا ہے تو لے اور یہاں سے جا کر تیرا رہنا اس شہر میں خوب نہیں۔ میں نے جواب دیا کہ صاحب نے اپنی جانب میں بڑی مہربانی کی کہ اتنا کچھ کنکر پتھر دیا لیکن میرے کس کام کا؟ جب بھوکا ہوں گا تو نہ ان کو چبا سکوں گا، نہ پیٹ بھرے گا۔ پس اگر اور بھی دو تو میرے کس کام آئیں گے؟ وہ مرد ہنسا اور کہنے لگا مجھ کو تجھ پر افسوس آتا ہے کہ تو بھی بکاری مانند ملک عجم کا متوطن ہے۔ اس لئے میں منع کرتا ہوں، نہیں تو جان۔ اگر خواہ مخواہ تیرا یہی قصد ہے کہ شہر میں جاؤں تو میری انگوٹھی لیتا جا۔ جب بازار کے چوک میں جاوے تو ایک شخص سفید ریش وہاں بیٹھا ہو گا اور اس کی صورت شکل مجھ سے بہت مشابہ ہے۔ میرا بڑا بھائی ہے۔ اس کو یہ چھاپ دیجئو تو تیری خبر گیری کرے گا۔ اور جو کچھ وہ کہے، اسی کے موافق کا کیجیو، نہیں تو مفت میں مارا جائے گا۔ اور میرا حکم یہیں تلک ہے، شہر میں میرا دخل نہیں۔

میں نے وہ خاتم اس سے لی اور سلام کر کر رخصت ہوا۔ شہر میں گیا۔ بہت خاصہ شہر دیکھا، کوچہ و بازار، صاف اور زن و مرد بے حجاب آپس میں خرید و فروخت کرتے، سب خوش لباس۔ میں سیر کرتا اور تماشا دیکھتا، جب چوک کے چوراہے میں پہنچا، ایس ازدحام تھا کہ تھالی پھینکے تو آدمی کے سر پر چلی جائے، خلقت کا یہ ٹھٹھ بندھ رہا تھا کہ آدمی کو راہ چلنا مشکل تھا۔ جب کچھ بھیڑ چھٹی، میں بھی دھکم دھکا کرتا ہو آگے گیا، بارے اس عزیز کو دیکھا ایک چوکی پر بیٹھا ہے اور ایک جڑاؤ چاق رو برو دھرا ہے۔ میں نے جا کر سلام کیا اور وہ مہر دی۔ نظر غضب سے میری طرف دیکھا اور بولا۔ کیوں تو یہاں آیا اور اپنے تئیں بلا میں ڈالا؟ مگر میرے بے وقوف بھائی نے تجھے منع نہ کیا تھا؟ میں نے کہا انہوں نے تو کہا لیکن میں نہ مانا اور تمام کیفیت اپنی ابتدا سے انتہا تک کہہ سنائی۔ وہ شخص اٹھا اور مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر کی طرف چلا۔ اس کا مکان بادشاہوں کا سا دیکھنے میں آیا، اور بہت سے نوکر چاکر اس کے تھے۔ جب خلوت میں جا کر بیٹھا بہ ملایمت بولا کہ اے فرزند یہ کیا تو نے حماقت کی کہ اپنے پاؤں سے گور میں آیا؟ کوئی بھی اس کم بخت طلسماتی شہر میں آتا ہے؟ میں نے کہا میں اپنا احوال پیشتر کہہ چکا ہوں۔ اب تو قسمت لے آئی، لیکن شفقت فرما کر یہاں کے راہ و رسم سے مطلع کیجئے تو معلوم کروں کہ اس واسطے تم نے اور تمہارے بھائی نے مجھے منع کیا۔ تب وہ جوان مرد بولا کہ بادشاہ اور تمام رئیس اس شہر کے راندے ہوئے ہیں۔ عجب طرح کا ان کا رویہ اور مذہب ہے۔ یہاں بت خانے میں ایک بت ہے کہ شیطان اس کے پیٹ میں سے نام اور ذات اور دین ہر کسو کا بیان کرتا ہے۔ پس جو کوئی غریب مسافر آتا ہے بادشاہ کو خبر ہوتی ہے۔ اسے منڈپ میں لے جاتا ہے اور بت کو سجدہ کرواتا ہے اگر ڈنڈوت کی تو بہتر، نہیں تو پجاری کو دریا میں ڈبوا دیتا ہے۔ اگر وہ چاہے کہ دریا سے نکل کر بھاگے تو آلت اور خصئے اس کے لمبے ہو جاتے ہیں، ایسے کہ زمین میں گھسٹتے ہیں۔ ایسا کچھ طلسم اس شہر میں بنایا۔ مجھ کو تیری جوانی پر رحم آتا ہے۔ مگر تیری خاطر ایک تدبیر کرتا ہوں کہ بھلا کون دن تو تو جیتا رہے اور اس عذاب سے بچے۔

میں نے پوچھا وہ کیا صورت تجویز کی ہے؟ ارشاد ہو۔ کہنے لگا تجھے کتخدا کروں اور وزیر کی لڑکی تیری خاطر بیاہ لاؤں۔ میں نے جواب دیا کہ وزیر اپنی بیٹی مجھے مفلس کو کب دے گا، مگر جب ان کا دین قبول کروں؟ سو مجھ سے نہ ہو سکے گا۔ کہنے لگا اس شہر کی یہ رسم ہے کو جو کوئی اس بت کو سجدہ کرے، اگر فقیر اور بادشاہ کی بیٹی کو مانگے تو اس کی کوشی کی خاطر حوالے کریں اور اسے رنجیدہ نہ کریں۔ اور امیر ابھی بادشاہ کے نزدیک اعتبار ہے اور عزیز رکھتا ہے لہٰذا سب اراکان اور اکابر یہاں کے میری قدر کرتے ہیں۔ اور درمیان ایک ہفتے میں دو دن بت کدے میں زیارت کو جاتے ہیں اور عبادت بجا لاتے ہیں۔ چنانچہ کل سب جمع ہوویں گے میں تجھے لے جاؤں گا۔ یہ کہہ کر کھلا پلا کر سلا رکھا۔ کب صبح ہوئی مجھے ساتھ لے کر بت خانے کی طرف چلا۔ وہاں جا کر دیکھا تو آدمی آتے جاتے ہیں اور پرستش کرتے ہیں۔ بادشاہ اور امیر بت کے سامنے پنڈتوں کے پاس سر ننگے کئے ادب سے دو زانو بیٹھے تھے، اور نا کتخدا لڑکیاں اور لڑکے خوب صورت جیسے حور غلماں چاروں طرف صف باندھے کھڑے تھے۔ تب وہ عزیز مجھ سے مخاطب ہوا کہ اب جو کہوں سو کر۔ میں نے قبول کیا کہ جو فرماؤ سو بجا لاؤں۔ میں نے ویسا ہی کیا بادشاہ نے پوچھا یہ کون ہے اور کیا کہتا ہے؟ اس مرد نے کہا یہ جوان میرے رشتے میں ہے۔ بادشاہ کی قدم بوسی کی آرزو میں دور سے آتا ہے۔ اس توقع پر کہ وزیر اس کو اپنی غلامی میں سربلند کرے۔ اگر حکم بت کلاں کا اور مرضی حضور کی ہووے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ ہمارا مذہب اور دین و آئین قبول کرے گا تو مبارک ہے۔ وونہیں بت خانے کا نقار خانہ بجنے لگا اور بھاری خلعت مجھے پہنائی، اور ایک رسی سیاہ میرے گلے میں ڈال کر کھینچتے ہوئے بت کی سنگھاسن کے آگے لے جا کر سجدہ کروا کر کھڑا کیا۔ بت سے آواز نکلی کہ اے خواجہ زادے خوب ہوا کہ تو ہماری بندگی میں آیا، اب ہماری رحمت اور عنایت کا امیدوار رہ۔ یہ سن کر سب خلقت نے سجدہ کیا اور زمین میں لوٹنے لگے اور پکارے دھن ہے کیوں نہ ہو تم ایسے ہی ٹھاکر ہو۔ جب شام ہوئی بادشاہ اور وزیر سوار ہو کر وزیر کے محل میں داخل ہوئے اور وزیر کی بیٹی کو اپنے طور کی ریت رسم کر کے میرے حوالے کیا۔ اور بہت سا دان دہیز دیا اور بہت منت دار ہوئے کہ بہ موجب حکم بڑے بت کے اسے تمہاری خدمت میں دیا ہے ایک مکان میں ہم دونوں کو رکھا اس نازنین کو جو میں نے دیکھا تو فی الواقع اس کا عالم پری کا تھا۔ نکھ سکھ سے درست جو جو خوبیاں پدمنی کی سنی جاتی ہیں، سو سب اس میں موجود تھیں، بفراغت تمام میں نے صحبت کی اور حظ اٹھایا۔ صبح کو غسل کر کر مے بادشاہ کے حجرے میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے خلعت دامادی کی عنایت کی اور حکم فرمایا کہ ہمیشہ دربار میں حاضر رہا کرے۔ آخر کو بعد چند روز کے بادشاہ کی مصاحبت میں داخل ہوا۔

بادشاہ میرے صحبت سے نہایت محظوظ ہوتے اور اکثر خلعت اور انعام عنایت کرتے۔ اگرچہ دنیا کے مال میں غنی تھا، اس واسطے کہ میرے قبیلے کے پاس اتنا نقد و جنس اور جواہر تھا کہ جس کی حد و نہایت نہ تھی۔ دو سال تک بہت عیش و آرام سے گزری۔ اتفاقا وزیر زادی کو پیٹ رہا۔ جب ستواں سا ہوا اور ان گنا مہینہ گزرا کر پورے دن ہوئے پیریں لگیں۔ دائی جنائی آئی تو میرا لڑکا پیٹ میں سے نکلا اس کا بس جچہ کو چڑھا وہ مر گئی۔ میں مارے غم کے دیوانہ ہو گیا کہ یہ کیا آفت ٹوٹی۔ اس کے سرہانے بیٹھا روتا تھا۔ ایک بارگی رونے کی آواز سارے محل میں بلند ہوئی اور چاروں طرف سے عورتیں آنے لگیں۔ جو آتی تھی ایک دو ہتڑ میرے سر پر مارتی اور منہ کے مقابل کھڑی رہتی اور رونا شروع کرتی، نزدیک تھا کہ جان نکل جاوے۔ اتنے میں کسو نے پیچھے سے گریبان میرا کھینچ کر گھسیٹا۔ دیکھوں تو ہی مرد عجمی ہے جس نے مجھے بیاہا تھا۔ کہنے لگا کہ احمق تو کس لیے روتا ہے؟ میں نے کہا اے ظالم یہ تو نے کیا بات کہی؟ میری بادشاہت لٹ گئی، آرام خانہ داری کا گیا گزرا۔ تو کہتا ہے کیوں غم کرتا ہے! وہ عزیز تبسم کر کے بولا کہ اب اپنی موت کی خاطر رو۔ میں نے پہلے ہی تجھے کہا تھا کہ شاید اس شہر میں تیری اجل لے آئی ہو، سو ہی ہوا۔ اب سوائے مرنے کے تیری رہائی نہیں۔ آخر لوگ مجھے پکڑ کر بت خانے میں لے گئے۔ دیکھا تو بادشاہ اور امرا اور پھتیس فرقہ رعیت پر جا وہاں جمع ہیں اور وزیر زادی کا مال اموال سب دھرا ہے۔ جو چیز جس کا جی چاہتا ہے لیتا ہے اور اس کی قیمت کے روپے دھر دیتا ہے۔ غرض سب اسباب کے نقد روپے ہوئے۔ ان روپیوں کا جواہر خریدا گیا اور صندوقچے میں بند کیا اور ایک دوسرے صندوق میں نان، حلوہ اور گوشت کے کباب اور میوہ خشک و تر کھانے کی چیزیں لے کر بھریں اور لاش اس بی بی ایک صندوق میں رکھ کر صندوق آزوقے کا ایک اونٹ پر لدا دیا، اور مجھ سوار کیا اور صندوقچہ جواہر کا میری بغل میں دیا، اور سارے باہمن آگے بھجن کرتے سنکھ بجاتے چلے، اور پیچھے ایک خلقت مبارک بادی کہتے ہوئے ساتھ ہوئی۔ اس طور سے اسی دروازے سے کہ میں پہلے روز آیا تھا، شہر کے باہر نکلا۔ جونہیں داروغہ کی نگاہ مجھ پر پڑی رونے لگا اور بولا کہ کم بخت اجل گرفتہ میری بات نہ سنی اور اس شہر میں جا کر مفت اپنی جان دی۔ میری تقصیر نہیں۔ میں نے منع کیا تھا۔ ان نے یہ کہی، لیکن میں تو ہکا بکا ہو رہا تھا۔ دربان باری دیتی تھی کہ جواب دوں، نہ اوسان بجا تھے کہ دیکھئے انجام میرا کیا ہوتا ہے۔

آخر اسی قلعہ کے پاس جس کا میں نے پہلے روز دروازہ بند دیکھا تھا، لے گئے اور بہت سے آدمیوں نے مل کر قفل کو کھولا۔ تابوت اور صندوق کو اندر لے چلے۔ ایک پنڈت میرے نزدیک آیا اور سمجھانے لگا کہ مانس ایک دن جنم پاتا ہے ا ور ایک روز ناس ہوتا ہے۔ دنیا کا یہ اوگن ہے اب یہ تیری استری اور پوست اور دھن اور چالیس دن کا اسباب بھوجن کا موجود ہے اس کو لے اور یہاں رہ جب تلک بڑا بت تجھ پر مہربان ہووے میں نے غصے میں چاہا کہ اس بت پر اور وہاں کے رہنے والوں پر اور اس ریت رسم پر لعنت کہوں اور باہمن کو دھول چھکڑ کروں۔ وہی مرد عجمی اپنی زبان میں مانع ہوا کہ خبردار ہرگز دم مت مار۔ اگر کچھ بھی بولا تو اسی وقت تجھے جلاویں گے۔ خیر جو تیری قسمت میں تھا سو ہوا۔ اب خدا کے کرم سے امیدوار رہ۔ شاید اللہ تجھے یہاں سے جیتا نکالے۔

آخر سب مجھے تن تنہا چھوڑ کر اس حصار سے باہر نکلے اور دروازہ پھر مقفل کر دیا۔ اس وقت میں اپنی تنہائی اور بے بسی پر بے اختیار رویا اور اس عورت کو اور لوتھ پر لاتیں مارنے لگا کہ اے مردار اگر تجھے جنتے ہی مر جانا تھا تو بیاہ کاہے کو کیا تھا اور پیٹ سے کیوں ہوئی تھی؟ مار مور کر پھر چپکا بیٹھا۔ اس میں دن میں چڑھا اور دھوپ گرم ہوئی سر کا بھیجا پکنے لگا۔ اور تعفن کے مارے روح نکلنے لگی۔ جیدھر دیکھتا ہوں، مردوں کی ہڈیاں اور صندوق جواہر کے ڈھیر لگے ہیں۔ تب کئی صندوق پرانے لے کر نیچے اوپر رکھے کہ دن کو دھوپ سے اور رات کو اوس سے بچاؤ۔ آپ پانی کی تلاش کرنے لگا۔ ایک طرف جھرنا سا دیکھا کہ قلعے کی دیوار میں پتھر کا تراشا ہوا گھڑے کے منہ کے موافق ہے۔ بارے کئی دن اس پانی اور کھانے سے زندگی ہوئی۔ آ کر آزوقہ تمام ہوا۔ میں گھبرایا اور خدا کی جناب میں فریاد کی۔ وہ ایسا کریم ہے کہ دروازہ کوٹ کا کھلا اور ایک مرد کو لائے۔ اس کے ساتھ ایک پیر مرد آیا۔ جب اسے بھی چھوڑ کر گئے۔ یہ دل میں آیا کہ اس بوڑھے کو مار کر اس کے کھانے کا صندوق سب کا سب لے لے۔ ایک صندوق کا پایا ہاتھ میں لے کر اس پاس گیا۔ وہ بچارا سر زانو پر دھرے حیران بیٹھا تھا۔ میں نے پیچھے سے آ کر اس کے سر میں ایسا مارا کہ سر پھٹ کر مغز کو گودا نکل پڑا اور فی الفور جاں بحق تسلیم ہوا۔ اس کا آزوقہ لے کر میں کھانے لگا، مدت تلک یہی میرا کام تھا کہ جو زندہ مردے کے ساتھ آتا، اسے میں مار ڈالتا اور کھانے کا اسباب لے کر بہ فراغت کھاتا۔

بعد کتنی مدت ایک مرتبہ ایک لڑکی تابوت کے ہمراہ آئی، نہایت قبول صورت، میرے دل نے نہ چاہا کہ اسے بھی ماروں۔ ان نے مجھے دیکھا اور مارے ڈر کے بے ہوش ہو گئی۔ میں اس کا بھی آزوقہ اٹھا کر اپنے پاس لے آیا، لیکن اکیلا نہ کھاتا۔ جب بھوک لگتی کھانا اس کے نزدیک لے جاتا اور ساتھ مل کر کھاتا۔

جب اس عورت نے دیکھا کہ مجھے یہ شخص نہیں ستاتا، دن بہ دن اس کی وحشت کم ہوئی اور رام ہوتی چلی۔ میرے مکان میں آنے جانے لگی۔ ایک روز اس کا احوال پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بادشاہ کے وکیل کی مطلق کی بیٹی ہوں۔ اپنے چچا کے بیٹے سے منسوب ہوئی تھی۔ شب عروسی کے دن اسے قولنج ہوا۔ ایسے درد سے تڑپنے لگا کہ ایک آن کی آن میں مر گیا۔ مجھے اس کے تابوت کے ساتھ لا کر یہاں چھوڑ گئے۔ تب اس نے میرا احوال پوچھا۔ میں نے بھی تمام و کال بیان کیا اور کہا خدا نے تجھے میری خاطر یہاں بھیجا ہے۔ وہ مسکرا کر چپکی ہو رہی۔

اس طرح کئی دن میں آپس میں محبت زیادہ ہو گئی۔ میں نے اسے ارکان مسلمانی کے سکھا کر کلمہ پڑھایا اور متعہ کر کر صحبت کی۔ وہ بھی حاملہ ہوئی ایک بیٹا پیدا ہوا۔ قریب تین برس کے اسی صورت سے گزری۔ جب لڑکے کا دودھ بڑھایا۔ ایک روز بی بی سے کہا کہ یہاں کب تلک رہیں اور کس طرح یہاں سے نکلیں؟ وہ بولی خدا نکالے تو نکلیں۔ نہیں تو ایک روز یونہیں مر جائیں۔ مجھے اس کے کہنے پر اور اپنے رہنے پر کمال رقت آئی۔ روتے روتے سو گیا۔ ایک شخص کو خواب میں دیکھا کہ کہتا ہے پرنالے کی راہ سے نکلنا ہے تو نکل۔ میں مارے خوشی کے چونک پڑا اور جورو کو کہا کہ لوہے کی میخیں اور سیخیں جو پرانے صندوق میں ہیں جمع کر کے لے آؤ تو اس کو کشادہ کروں۔ غرض میں اسی موری کے منہ پر میخ رکھ کر پتھر سے ایسا ٹھونکتا کہ تھک جاتا۔ ایک برس کی محنت میں وہ سوراخ اتنا بڑا ہوا کہ آدمی نکل سکے۔

بعد اس کے مردوں کی آستینوں میں اچھے اچھے جواہر چن کر بھرے اور ساتھ لے کر اسی راہ سے ہم تینوں باہر نکلے۔ خدا کا شکر کیا اور بیٹھے کو کاندھے پر بٹھایا ایک مہینہ ہوا ہے کہ سر راہ چھور کر مارے ڈر کے جنگل پہاڑوں کی راہ سے چلا آتا ہوں، جب گرسنگی ہوتی ہے گھاس پات ہوں قوت بات کہنے کی مجھ میں نہیں۔ یہ میری حقیقت ہے جو تم نے سنی۔

بادشاہ سلامت! میں نے اس کی حالت پر ترس کھایا اور حمام کروا کر اچھا لباس پہنوایا اور اپنا نائب بنایا اور میرے گھر میں ملکہ سے کئی لڑکے پیدا ہوئیے، لیکن خورد سالی میں مر گئے ایک بیٹا پانچ برس کا ہو کر مرا۔ اس کے غم میں ملکہ نے وفات پائی۔ مجھے کمال غم ہوا اور وہ ملک بغیر اسکے کاٹنے لگا۔ دل اداس ہو گیا۔ ارادہ عجم کا کیا۔ بادشاہ سے عرض کر کر خدا شاہ بندر کی اس جوان کو دلوا دی۔ اس عرصے میں بادشاہ بھی مر گیا۔ میں اس وفادار کتے کو اور سب مال خزانہ جواہر لے کر نیشا پور میں آ رہا۔ اس واسطے کہ بھائیوں کے احوال سے کوئی واقف نہ ہووے۔ میں خواجہ سگ پرست مشہور ہوا۔ اس بدنامی میں دگنا محصول آج تک بادشاہ ایران کی سرکار میں بھرتا ہوں۔

اتفاقا یہ سوداگر بچہ وہاں گیا۔ اس کے وسیلے سے جہاں پناہ کا قدم بوس کیا میں نے پوچھا کیا یہ تمہارا فرزند نہیں؟ خواجہ نے جواب دیا قبلہ عالم! یہ میرا بیٹا نہیں آپ ہی کی رعیت ہے، لیکن اب میرا مالک اور وارث جو کچھ کہے سو یہی ہے یہ سن کر سوداگر بچے میں نے پوچھا کہ تو کس تاجر کا لڑکا ہے اور تیرے ماں باپ کہاں رہتے ہیں؟ اس لڑکے نے زمین چومی اور جان کی امان مانگی اور بولا کہ یہ لونڈی سرکار کے وزیر کی بیٹی ہے۔ میرا باپ حضور کے عتاب میں بے سبب اسی خواجہ کے لعلوں کے پڑا۔ اور حکم یوں ہوا کہ اگر ایک سال تک اس کی بات کرسی نشین نہ ہو گی تو جان سے مارا جائے گا۔ میں نے سن کر یہ بھیس بنایا اور اپنے تئیں نیشا پور پہنچایا۔ خدا نے خواجہ کو بہ مع کتے اور لعلوں کو حضور میں حاضر کر دیا۔ آپ نے تمام احوال سن لیا۔ امیدوار ہوں کہ میرے بوڑھے باپ کی مخلصی ہو۔

یہ بیان وزیر زادی سے سن کر خواجہ نے ایک آہ کی اور اختیار گر پڑا۔ جب گلاب اس پر چھڑکا گیا تب ہوش میں آیا اور بولا کہ ہائے کم بختی! اتنی دور سے رنج و محنت کھینچ کر میں اس توقع پر آیا تھا کہ اس سوداگر بچے کو متبنیٰ کر کر اپنا فرزند کروں گا اور اپنے مال متاع کا اس کو ہبہ نامہ لکھ دوں گا تو میرا نام رہے گا اور سارا عالم اسے خواجہ زادہ کہے گا سو میرا خیال خام ہوا اور بالعکس کام ہوا۔ ان نے عورت ہو کر مجھ مرد پیر کو خراب کیا۔ میں رنڈی کے چرتر میں پڑا۔ اب میری وہ کہاوت ہوئی گھر میں رہے، نہ تیرتھ گئے، منڈ منڈا فضیحت۔ القصہ مجھے اس کی بے قراری اور نالہ و زاری پر رحم آیا۔ خواجہ کو نزدیک بلایا اور کان میں مژدہ اس کے وصل کا سنایا کہ غمگین مت ہو اسی سے تیری شادی کر دیں گے۔ خدا چاہے تو اولاد تیری ہو گی اور یہی تیری مالک ہو گئی۔ اس خوشخبری کے سنتے سے فی الجملہ اس کو تسلی ہوئی۔ تب میں نیک ہا کہ وزیر زادی کو محل میں لے جاؤ اور وزیر کو پنڈت خانے سے لے آؤ اور حمام میں نہلاؤ اور خلعت سرفرازی کی پہناؤ اور جلد میرے پاس لاؤ۔ جس وقت وزیر آیا، لب فرش تک اس کا استقبال فرمایا اپنا بزرگ جان کر گلے لگایا، اور نئے سر سے قلمدان اور وزارت کا عنایت فرمایا اور خواجہ کو بھی جاگیر و منصب دیا اور ساعت سعید دیکھ کر وزیر زادی سے نکاح پڑھوا کر منسوب کیا۔

کئی سال میں دو بیٹے اور ایک بیٹی اس کے گھر میں پیدا ہوئی۔ چنانچہ بڑا بیٹا ملک التجار ہے اور چھوٹا ہماری سرکار کا مختار ہے۔ اے درویشو! میں نے اس لیے یہ نقل تمہارے سامنے کی کل کی رات دو فقیروں کی سرگذشت میں نے سنی تھی۔ اب تم دونوں جو باقی رہے ہو یہ سمجھو کہ ہم اسی مکان میں بیٹھے ہیں اور مجھے اپنا خادم اور اس گھر کو اپنا تکیہ جانو، بے وسواس اپنی اپنی سیر کا احوال کہو اور چندے میرے پاس رہو۔ جب فقیروں نے بادشاہ کی طرف سے بہت خاطر داری دیکھی، کہنے لگے خیر جب تم نے گداؤں سے الفت کی اور تو ہم دونوں بھی اپنا ماجرا بیان کرتے ہیں سنئے۔